ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا سے متعلق 5 شرعی احکام
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ، جلد 1، کتاب الصلاۃ، صفحہ 467

ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کا حکم

قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی وضاحت

سوال

کیا ہر نماز کے بعد امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری ہے؟ بعض لوگ یہ عمل واجب سمجھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز کے بعد امام کے ساتھ دعا نہیں مانگتا تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔ کیا یہ مؤقف درست ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

ہر فرض نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کسی بھی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں۔ اگر دعا کا مطالبہ ہو یا کبھی کبھار انفرادی یا اجتماعی دعا مانگ لی جائے تو عمومی شرعی دلائل کی رو سے یہ جائز ہے۔ تاہم، اس کو ہمیشہ کے لیے لازم اور نماز کے بعد کا مستقل معمول بنانا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو امام کے ساتھ اجتماعی دعا نہیں مانگتا اس کی نماز نہیں ہوتی، باطل اور خلافِ شریعت قول ہے۔

ایسا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کا یہ دعویٰ نہ صرف غلط بلکہ ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور اس غلط بات سے رجوع کریں۔

محدثین اور علمائے کرام کے اقوال:

متعدد جلیل القدر علمائے کرام نے نماز کے بعد کی اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا ہے، جن میں درج ذیل شامل ہیں:

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ:
"الفتاویٰ الکبریٰ”، جلد 1، صفحہ 188–189

علامہ ابن القیمؒ:
"زاد المعاد”, جلد 1، صفحہ 257

"فلم یکن ذلک من ہدیہ ﷺ اصلاً لا روی باسناد صحیح ولا حسن”

(یعنی یہ عمل نبی کریم ﷺ کی سنت سے ہرگز ثابت نہیں، نہ صحیح سند سے اور نہ ہی حسن سند سے)

الامام الشاطبیؒ:
"الاعتصام”, جلد 1، صفحہ 252

دورِ حاضر کے بعض دیوبندی علماء:
حتیٰ کہ موجودہ زمانے میں بعض دیوبندی علماء نے بھی اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔
حوالہ: "رجل رشید”, صفحہ 170، 171، 173 (ماہنامہ شہادت، فروری 2000)

نتیجہ:

◈ فرض نماز کے بعد دعا مانگنا اگرچہ انفرادی طور پر جائز ہے، لیکن اسے اجتماعی طور پر ہمیشہ کے لیے لازم سمجھنا اور نہ مانگنے والے کو گمراہ کہنا درست نہیں۔
◈ اس عمل کو نبی کریم ﷺ کی سنت یا شریعت کا لازمی حصہ قرار دینا شرعاً غلط اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
◈ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قول سے رجوع کریں اور سچے دل سے توبہ کریں۔

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1