کیا مکہ میں نماز باجماعت ثابت ہے؟ دلائل کے ساتھ وضاحت
ماخوذ : احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 136

سوال

کیا مکہ میں نماز جماعت کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز باجماعت ادا فرمائی۔ اس بات پر درج ذیل دلائل روشنی ڈالتے ہیں:

دلائل:

➊ جبریل علیہ السلام کی امامت کا واقعہ

یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ مکرمہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کی امامت فرمائی، جس سے جماعت کی تعلیم دی گئی۔

➋ قرآنی آیت کا نزول:

﴿وَلاَ تَجْہَرْ بِصَلاَتِکَ وَلاَ تُخَافِتْ بِہَا﴾
(بنی اسرائیل: 110)

اس آیت کا شانِ نزول اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نماز جماعت کے دوران آواز کی مقدار پر رہنمائی دی گئی، جو مکہ مکرمہ میں نماز باجماعت کے وجود کا ثبوت ہے۔

➌ جنات کے قرآن سننے کا واقعہ:

﴿وَاِذْ صَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ﴾
(الاحقاف: 29)

ترجمہ:
"اور جس وقت ہم نے آپ کی طرف جنوں کی ایک جماعت کو پھیر دیا جو قرآن سن رہے تھے۔”

اس آیت کا سببِ نزول بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نماز باجماعت میں قرآن با آوازِ بلند پڑھا جا رہا تھا، جسے جنات نے سنا۔ یہ بھی اس بات کا ایک واضح ثبوت ہے کہ مکہ میں نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1