کیا متوفی کو "اے اطمینان پانے والی روح” کہنا درست ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

جب کوئی مسلمان وفات پا جاتا ہے تو بعض لوگ سورۃ الفجر کی یہ آیات تلاوت کرتے ہیں:

﴿يـأَيَّتُهَا النَّفسُ المُطمَئِنَّةُ ﴿٢٧﴾ ارجِعى إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرضِيَّةً ﴿٢٨﴾…سورة الفجر

"اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی۔”

اس عمل کے متعلق کیا شرعی حکم ہے؟ کیا کسی خاص شخص پر ان آیات کا اطلاق کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✿ ان آیات کو کسی مخصوص فرد پر اطلاق کرنا جائز نہیں ہے۔

✿ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے گویا اس بات کی گواہی دی جا رہی ہوتی ہے کہ فوت ہونے والا شخص یقینی طور پر ان خاص لوگوں میں شامل ہے جن کے بارے میں قرآن کریم میں ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔

✿ جب کوئی یہ آیات کسی متوفی شخص کے لیے پڑھتا ہے تو یہ دراصل تزکیہ اور قطعی شہادت کے مترادف ہے کہ وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جن سے بوقتِ وفات یہ کلمات کہے جاتے ہیں۔

✿ جبکہ شریعت میں کسی شخص کے بارے میں قطعیت کے ساتھ جنتی یا اللہ کی رضا یافتہ قرار دینا جائز نہیں، جب تک کہ اس کی بابت واضح نصوص (جیسے کسی صحابی یا نبی کی گواہی) موجود نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1