کیا عورت عورتوں کی نماز میں امامت کر سکتی ہے؟ شرعی رہنمائی
ماخوذ : احکام و مسائل نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 156

سوال

کیا عورت، عورتوں کی امامت کروا سکتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کی امامت کے بارے میں ایک مخصوص حدیث پیش کی جاتی ہے جسے دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے:

«عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِی ، وَکَانَتْ قَدْ جَمَعَتِ الْقُرْآنَ ، وَکَانَ النَّبِیُّﷺ قَدْ أَمَرَہَا أَنْ تَؤُمَّ أَہْلَ دَارِہَا ، وَکَانَ لَہَا مُؤَذِّنٌ ، وَکَانَتْ تَؤُمُّ أَہْلَ دَارِہَا»

یعنی:

’’حضرت اُم ورقہ رضی اللہ عنہا بنت عبداللہ بن حارث انصاری سے روایت ہے، جنہوں نے قرآن مجید حفظ کیا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ ان کے پاس مؤذن تھا اور وہ اپنے اہلِ خانہ کی امامت کراتی تھیں۔‘‘
(واللفظ لأحمد)

محدثین کی رائے اور حدیث کی حیثیت

  • اس روایت کو بعض اہل علم نے صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے۔
  • تاہم، مشہور محدث محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے "الاعتصام” میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

سند پر اعتراض

  • محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ:
    • اس حدیث کی سند میں لیلیٰ اور عبدالرحمن بن خلاد شامل ہیں، اور دونوں مجہول (نامعلوم) راوی ہیں۔
    • اگر ایک مجہول راوی کی متابعت دوسرا مجہول راوی کرے، تو دونوں میں سے کسی کا ثقہ (قابل اعتماد) ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

شرعی حکم

  • لہٰذا، ان دلائل کی روشنی میں عورت کی امامت (نماز میں امامت) کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

حوالے

  1. إرواء الغلیل، حسن، ۲/۲۵۵۔۲۵۶، ح۴۹۳
  2. ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب امامۃ النساء
    • ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
    • حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی عورتوں کی امامت کرواتی تھیں اور صف کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔
    • یہ روایت ابن ابی شیبہ اور ابن حزم نے بھی صحیح قرار دی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1