کیا عرس، میلہ تقدس ہے؟
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

اللہ رب العزت کی وحدانیت کا عقیدہ ایمان کا جزواعظم ، اور دین حنیف کی جان ہے۔ عبادات ومعاملات اور اعمال و اخلاق کی فلک بوس عمارت اسی اساس پر قائم ہے، اگر یہ بنیادی عقیدہ صحیح ہو تو تمام عبادات و اعمال عند اللہ مقبول اور موجب اجر و ثواب ہوں گے لیکن اگر اس بنیادی عقیدہ میں خرابی ہو تو تمام عبادات و اعمال مردود اور رائیگاں ہوں گے۔ یہ عقیدہ جس قدر اہم اور ناگزیر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی نشر و اشاعت اور افہام و تفہیم کا اسی قدر زیادہ اہتمام فرمایا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء ورسل اور سینکڑوں صحائف و کتب اس عقیدہ کی تبلیغ و تیبین کے لیے بھیجے۔ سیدا لانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان پر چونکہ سلسلہ نبوت ختم کرنا تھا، اس لیے آپ کی بعثت اور تنزیل قرآن سے سارے دین اسلام کی عموماً اور اسلام کے اس اساسی عقیدے کی خصوصاً تکمیل فرمادی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک علماء اہل حق اس مسئلہ کی تبلیغ واشاعت میں مصروف چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس علماء سوء اور شیطان کے چیلوں نے اپنی طمع نفسانی اور دنیا طلبی کی غرض سے سادہ لوح عوام کو اپنے مکر وفریب کے جال میں پھانس کر توحید پر خوب پردہ ڈالا ، اور شرک وکفر کو اس طرح چمکانے کی کوشش کی کہ اپنے زعم باطل میں توحید کے آفتاب کو اس کے سامنے مرہم بنا دیا۔ معبود حقیقی کی صفات غیر اللہ میں منوانے کے لیے بڑے حربے استعمال کئے۔ نتیجہ یہ کہ لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان بزرگوں کو کرنی والے (الہ ) جاننے لگے، اور لاکھوں قبروں کے پجاری اور لاکھوں مجاور مزاروں کے بیوپاری بن بیٹھے ۔
اب آگر آہ نکل جائے تو مجبور ہوں میں
قیصر و کسری کی مملکتوں سے خراج وصول کرنے والے اب بزرگوں کی قبروں کی کمائی پر جینے لگے، اور ہزارہا ایسی آیات و احادیث جو ان لغویات سے روکتی اور ان کی مذمت کرتی، انہیں شرک وکفر اور بدعت قرار دیتی ہیں۔ کی موجودگی کے باوجود اپنے ان افعال قبیحہ و مذمومہ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنا گوارہ نہیں کرتے۔ ذرا سوچئے کہ وہ اسلام جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر بار چھوڑ کر، پیٹ پر پتھر باندھ کر طرح طرح کے مصائب جھیل کر پھیلایا تھا، اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے بچوں کے خون سے پالا تھا، آج لغویات اور خرافات کو اس دین سے کیا نسبت ہے؟
چه نسبت خاک را با عالم پاک؟
اسی بناء پر کسی نے کہا ہے کہ
دل صنم خانہ بنا ہے یاد غیر اللہ سے
بنت بھی کہنے لگے ”مسلم نما کافر“ ہمیں
آمدم برسر مطلب !
27 جیٹھ بروز جمعتہ المبارک 2000-6-9 م کو رسول نگر جو کہ علی پور چٹھہ کے شمال مغرب میں واقع ہے جانے کا اتفاق ہوا۔ اڈہ پر بس سے اترنے کے بعد ہم سفر ساتھی جو کہ بریلوی العقیدہ تھا نے بتایا کہ یہاں قریب ہی بابا گلاب شاہ کا دربار ہے، جہاں جو کوئی بھی جاتا ہے دل کی مراد پاتا ہے، اس کی تمام حاجات پوری ہو جاتی ہیں، دنیا وی کسی قسم کی کمی نہیں رہتی ، راقم الحروف اور میرا ہم سفر ساتھی شفقت شاہ مذکورہ دربار تک پہنچے تو ہمیں وہاں لوگوں کا ایک جسم غفیر نظر آیا جس میں بوڑھے، جوان، بچے، بچیاں اور بوڑھی و جوان عورتیں سبھی شاملے تھے ، اور جو بیک زبان بآواز بلند پکا ر رہے تھے ۔
ولی اللہ دے ویکھ ویکھ کے بھر دے بھانڈے نے
ایک ڈھول بجانے والا بھی جب یہی شعر پڑھتا تو جواباً سبھی ”حضرت بابا گلاب شاہ سنخی سرکار“ کا نعرہ بلند کرتے ، اسی ڈھول بجانے والے نے ایک دوسرا شعر یوں بلند کیا ہے ۔
اولیاء اللہ، اللہ، اولیاء بیچ فرق ر میاں نہوروا
اس ہجوم سے ذرا تھوڑی دور کچھ ملنگ، پیر اور بابے سبز چوغے پہنے ہوئے بیٹھے تھے کہ مرد و زن اُن کی خدمت میں مصروف تھے۔ کوئی ان کو دبا رہا تھا تو کوئی ان کے پاؤں پر سر رکھے ہوئے تھا، بعض قوالی کر رہے تھے ، اور کئی لوگ ان کے پاس یہ نعرہ بلند کر رہے تھے کا
پیر کامل صورت ظل الله
یعنی دیده پیر دید كبرياء
فنعوذ بالله من هذه الخزعبلات
چند اوباش نوجوان سروں پر ٹوپیاں رکھے ہوئے بڑے مؤدب ہوکر یہاں دعائیں کرنے میں مصروف تھے، اور چند عورتیں بھی اس دربار پر کچھ تو دربار کی مٹی اور دیواریں چاٹ رہی تھیں، دیئے کا تیل اپنے کانوں کی بالیوں وغیرہ کو لگا رہی تھیں ۔ کچھ ان پرانے درختوں میں بیٹھی تھیں جہاں کبھی بابا گلاب شاہ بیٹھا کرتے تھے، کچھ لوگ ایک ڈولی نما ٹوکری جسے خاص اصطلاح میں گھڑولی کہتے ہیں لے کر آتے اور گلاب شاہ کی قبر پر چڑھاوا چڑھا دیتے ہیں، ان گھڑولیوں میں گلاب شاہ کی قبر کا نمونہ ہوتا، اور بڑی مہارت سے اور محنت سے انہیں سجایا ہوتا ۔ یہ گھڑولیاں جب دربار میں لائی جاتی تو لوگ انہیں سجدہ کرتے ۔ مشہور یہ ہے کہ جو آدمی تین سال مسلسل یہ گھڑولی لائے گا اس کی ہر حاجت پوری ہوگی۔
ان گھڑولیوں کے متعلق ہم نے ایک آدمی ”محمد اعظم آف علی پور چٹھہ“ جو کہ عرصہ آٹھ سال سے از راہ عقیدت اس مزار پر آتا ہے سوال کیا کہ ان گھڑولیوں کی حقیقت کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، کچھ بھی نہیں۔ ایک تو بدعت ہے، شریعت میں تو اس کا تصور تک نہیں ملتا، دوسرا با با گلاب شاہ صاحب نے بھی اس کا کہا اور نہ ہی حکم فرمایا ہے۔
یہ تو تھیں بدعات وخرافات ۔ اب بابا جی کی کرامات کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔

کرامات بابا گلاب شاہ اور ان کی حقیقت:

① جنگ 65ء میں بھارتی فوجی جب بھی رسول نگر اور اس کے گردونواح میں بم وغیرہ پھینکتے تو بابا جی ان کو یہاں نہ گرنے دیتے، ان کی قبر سے ایک روشنی اٹھتی جو ہم کو فضا میں اچک لیتی ، اور پھر اسے قریبی دریا چناب میں پھینک دیتی۔
② ایک عورت سے ان کو عشق ہو گیا، ایک دفعہ وہ وزیر آباد سے آتے چند ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ گئی، اس نے بابا جی کو آواز لگائی تو اس کے اندر سے آواز آئی، میرا عشق سچا ہے، میں تیرے اندر رہتا ہوں، اور اس کو ڈاکوؤں سے بچالیا۔

کرامات کی حقیقت:

① جہاں تک علاقہ محفوظ رکھنے کی بات ہے کسی کو نقصان پہنچانا یا نفع دینا، تنگی یا تکلیف میں مبتلا کرنا، یا اسے دور کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کے لائق ہے، اسی طرح رازق بھی وہی ہے، مشکل کشا بھی وہی ، اور حاجت روا بھی وہی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾
(10-يونس: 107)
”اگر آپ کو اللہ تکلیف دے تو اس کو کوئی اور ٹالنے والا نہیں، اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں۔“
«لا حول ولا قوة إلا بالله العزيز الحكيم»
صحیح مسلم، رقم: 27 – 98 .
”یعنی اللہ عزیز حکیم کے علاوہ کوئی کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا۔“
غور فرمائیے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کو نفع یا نقصان کا مالک تسلیم کریں، لیکن یہاں پر یہی اختیار فوت شدہ کو تفویض کیا جارہا ہے، جو منوں مٹی تلے مدفون ہے۔

حقیقت خرافات میں کھوگئی:

① قارئین کرام! حالانکہ نبی سے ہم نے غیر محرم سے علیحدگی اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن لوگ اسی غلط چیز کو کرامت قرار دے رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر غیر محرم مرد اور عورت ایک دوسرے کی چاہت میں شرم و حیا کی حدود پھلانگ دیں، تنہائی میں ملاقات کریں تو یہ چاہت جسے عشق کہا جاتا ہے۔ یہ اگر سچا عشق ہے، اسے کرنے والا عاشق صادق ہوتا ہے تو پھر جھوٹا عشق کس بلا کا نام ہے؟
قارئین کرام ! یہ لوگ اس قدر بے وقوف ہیں کہ جن اشیاء میں نقصان ہی نقصان ہے فائدہ کچھ بھی نہیں، انہیں تو انہوں نے اپنے معمولات میں شامل کر رکھا ہے، اور احکام الہی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ تو دور یہ لوگ اللہ کا نام بھی نہیں لیتے ، فقط ہر وقت ”پیر سائیں، بابا جی“ کا ورد کرتے ہیں، انہی کا پڑھا یا ہوا کلمہ پڑھتے ہیں، انہی کی دی ہوئی تعلیم کے گن گاتے ہیں۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا رہے ہیں۔ بقول اقبال
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی

اسلام اور قبروں کے عرس:

عربی لغت کی رو سے ”ع رس“ کا مادہ شادی اور اس کے متعلقات میں عام طور پر مستعمل ہے، مگر مروجہ تصوف میں ”عرس“ اس میلے کو کہتے ہیں جوحقیقی اور فرضی قبروں پر سال بہ سال رچایا جاتا ہے۔
شرک اور مشرکین کی تاریخ شاہد ہے کہ امم سابقہ کی گمراہی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب مردوں کی تعظیم میں غلو اور قبروں کا ناجائز اعزاز بھی تھا۔ تاریخ انگلستان سے پتا چلتا ہے کہ عیسائیوں کے پاپوں نے اجتماعات مقرر کر رکھے تھے، خانقاہوں کے نام جاگیریں اور اوقاف کثرت سے تھے، جن پر پاپائے اعظم کے چیلے قابض رہتے تھے، جو زائرین سے ہدایا، نذرانے وصول کر کے انہیں معافی نامے لکھ دیتے تھے ۔ اور معافی نامے لینے والوں کو پورا یقین دیا جاتا تھا کہ ان معافی ناموں کی بدولت انہیں مرنے کے بعد برے افعال کی سزا بھگتے بغیر نجات ابدی حاصل ہو جائے گی، بدچلن مجاوروں کی وجہ سے خانقاہیں بدچلنی اور سیاہ کاری کا مرکز بن گئیں ، اور عیسائی مذہب کا تصور صرف اس حد تک محدود ہو گیا کہ ان ”خدائی اڈوں“ پر کسی نہ کسی صورت میں پہنچ کر سند نجات حاصل کر لینا ہی سعادت کی کھلی دلیل ہے۔
اسی طرح اہل ہند میں قدیم الایام سے یہ رسم موجود ہے کہ وہ حصول مغفرت ، اور تحصیل مقاصد اور دیگر اغراض کے لیے ایک دفعہ مزعومہ مقامات میں سے کسی ایک مقام پر پہنچ جانے کو فلاح و کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہنود اسی غرض سے آج بھی گنگا جمنا وغیرہ پر ہر سال جمع ہوتے ہیں، نذریں اور نیازیں دیتے ہیں اور سادھوؤں کے حضور میں نذرانے پیش کر کے سند نجات حاصل کرتے ہیں، اور ایسے موقع پر وہاں اس قدر اناج وغیرہ جمع ہو جاتے ہیں کہ کسی متمول حکومت کا ”خزانہ عامرہ“ بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
بالکل یہی کیفیت نام نہاد مسلمانوں کی ہے، بلکہ یہ لوگ اس سے بھی زیادہ التزام و انتظام اور عقیدت کے ساتھ قبروں پر اجتماعات کرتے ہیں، اور چاروں اطراف سے ان درگاہوں پر پہنچنے کے لیے شد رحال کرتے ہیں، پھر جب یہ لوگ ان مزاروں پہ پہنچتے ہیں تو وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہندو میلہ گاہوں پر جا کر بجالاتے ہیں، اور روضوں کے کلس دیکھتے ہی احرام باندھ لیتے ہیں، زمین نیاز پر جھک جاتے ہیں، لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں کوئی دہلیز پر جھکتا ہے تو کوئی سیڑھیوں پر ناک رگڑنے لگتا ہے، کوئی طواف میں مصروف ہے، تو کوئی اعتکاف کی حالت میں بیٹھا ہے، کوئی قربانی کے بکرے مجاورین قبر کے حوالے کر رہا ہے، تو کوئی شمع و زینت اور درہم و دنا نیز کی صورت میں اپنی نذر پوری کر رہا ہے۔ الغرض ان میلوں اور اجتماعات میں رسوم مشرکانہ کی ایسی نمائش ہوتی ہے کہ جسے دیکھ کر انسان لرز اٹھتا ہے، اور انسانی خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یاد رکھئے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اجتماع خود اپنی قبر کے لیے بھی جائز نہیں رکھا۔ آپ نے وصیت فرمائی:
«لا تتخذوا قبرى عيدا»
مسند احمد: 367/2۔ سنن ابوداؤد، كتاب المناسك، رقم: 2042 – البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”خبر دار !میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا۔ “
عید میں تین چیزیں ضروری ہیں، ایک اجتماع ، دوسرے: تعین وقت، تیسرے: فرحت ، تو ممانعت کا خلاصہ یہ ہوا کہ میری قبر پر کسی یوم معین میں سامان فرحت کے ساتھ اجتماع نہ کرنا، پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر ایسا پُر تکلف اجتماع جائز نہیں، تو دوسروں کی قبروں پر ایسا اجتماع کیونکر جائز ہوگا۔
شارہین حدیث نے اس کے متعدد معانی بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
«لا تجتمعوا للزيارة اجتماعكم للعيد .»
یعنی تم زیارت کے لیے ایسے نہ جمع ہو جیسے کہ تم عید کے لیے جمع ہوتے ہو۔“
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رقمطراز ہیں:
«لا تجعلوا زيارة قبرى عيدا، بقول هذا اشارة الى سد مدخل التحريف كما فعل اليهود والنصارى بقبور انبيائهم، وجعلوها عيدا وموسما بمنزلة الحج .»
(حجة الله: 77/2.)
”میں کہتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ میری قبر کو عید گاہ نہ بنانا، اس میں تحریف کا دروازہ بند کرنے کی طرف اشارہ ہے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے قبور انبیاء کو عید ، اور موسم حج کی طرح بنا دیا تھا۔“
تفہیمات الہیہ (74/2 ) پر لکھتے ہیں:
«و من اعظم البدع ما اختر عوافي امر القبور، واتخذوها عيدا.»
”بڑی بدعات میں سے یہ بھی ہے جو انہوں نے قبور اولیاء کے متعلق اختراع کر رکھا ہے، اور انہیں میلہ گاہ بنالیا ہے۔“
شاہ عبد العزیز ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں:
«جمع شدن برقبور كه مرد مان يك روز معين نموده و لباسهائے فاخره و نفيس پوشيده مثل روز عيد شادمان شده برقبرها جمع مى شوند رقص و مزامير و ديگر بدعات ممنوعه مثل سجود برائے قبور و طواف كردن قبور مے نمايند حرام و ممنوع است بلكه بعضے سجد كفر مے رسند و همين است محمل اين دو حديث لا تجعلوا قبرى عيدا، واللهم لا تجعل قبرى وثنا يعبد الخ.»
(ملخصا فتاوی عزیزیه 40/1)
”یعنی قبروں پر سالانہ اکٹھا کرنا اور اس پر عید کی طرح لباس فاخرہ پہن کر جانا، اس میں ناچ ڈھول ڈھمکے، ان پر سجدے میں طواف سب حرام ہیں، بلکہ ان کے ارتکاب میں کفر تک کا خدشہ ہے۔ “
اسی طرح قاضی ثناء اللہ پانی پتی مشہور حنفی وصوفی عالم فرماتے ہیں:
«لا يجوز ما يفعله الجهال لقبور الاولياء والشهداء من السجود والطواف حولها واتخاذا السرج والمساجد عليها ومن الاجتماع بعد الحول كالاعياد ويسمونه عرسا .»
(تفسیر مظهری: 65/2 )
”اور یہ جو جاہل (پیر و اور مفاد پرست گدی نشین ) قبروں پر چراغاں کرتے ہیں، اور سجدہ طواف بجالاتے ہیں، اور وہاں مسجدیں بنواتے ہیں، اور سال بہ سال ان کی قبروں پر عرس کرواتے ہیں، یہ قطعا نا جائز ہے۔“
مولانا شاہ محمد اسحاق لکھتے ہیں:
«مقرر كردن روز عرس جائز نيست»
(اربعین مسائل ، ص: 28)
”یعنی عرس کرنے جائز نہیں۔ “
یا رب عطا کر ان کو بصارت بھی بصیرت بھی
کہ مسلمان جاکے لٹتے ہیں سواد خانقاہی میں
پس شریعت اسلامیہ کی رو سے عرس کرنا نہ فرض ہے نہ واجب، نہ سنت ہے نہ مستحب، بلکہ قرآن مجید سے اشارہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ممانعت ثابت ہے۔ کیونکہ اس میں ایک تو مشرکین کے ساتھ مشابہت ہے، دوسرا یہ رسم شرک کا زبردست ذریعہ ہے۔ نیز اس میں بے شمار سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی نقصانات بھی ہیں، جن کی تفصیل کے لیے یہاں گنجائش نہیں ہے۔ تعجب یہ ہے کہ ان فعال شنیعہ کا ارتکاب کرنے والے تمام حضرات صوفیہ کا نام لیتے ، اور حنفی مکتب کی تقلید کا دم بھرتے ہیں۔ حالانکہ صوفیاء کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ تصوف کا چشمہ ان بدعات سے آلودہ نہ ہو، اور اصحاب علم و تحقیق حنفیہ کرام واشگاف طور پر مشرکانہ رسوم و عادات کی تردید کرتے رہے ہیں، جس طرح ہم نے ان کے اقوال ذکر کئے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہے۔ چنانچہ خواجہ نقشبندی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے:
تا کے بہ زیارت مقابر
عمرے گزارنی اے افسردہ
یک گربہ زنده پیش عارف
بہتر از ہزار شیر مرده
”اے پریشان حال تو کب تک قبروں پر حاضری دے کر عمر ضائع کرتا رہے گا، عارفوں کے نزدیک مرے ہوئے ہزار شیر سے ایک زندہ بلی بہتر ہے۔“
(بحوالہ تذکرہ غوثیہ )
حتی کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تو یہاں تک کہہ دیا۔
«وهذا مرض بعض الغلاة من منافقى امة محمدي صلى الله عليه وسلم يومنا هذا .»
(حجة الله البالغه (61/1)
”اور یہ وہ بیماری ہے جس میں امت محمدیہ کے بعض غالی قسم کے منافق مبتلا ہیں۔“
«وفى هذا كفاية لمن له دراية»

● آخری گزارش :

معزز قارئین! قرآن کی تعلیمات کا لب لباب توحید حق ہے، اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے خم خانہ لم یزل سے وہ انقلاب برآمد ہوا جس نے ارباب من دون اللہ کے تمام بت پاش پاش کر دیئے ، جس نے بندوں پر بندوں کی خدائی ختم کر کے وحدت الہیہ، وحدت قوم اور وحدت نصب العین کا وہ دل پذیر عقیدہ دیا جس نے اسود واحمر کے امتیاز ختم کر دیئے۔
معزز قارئین! افسوس آج کلمہ توحید پڑھنے والے توحید کے دشمن ہورہے ہیں، اور شرک وکفر کے انہی تاریک غاروں میں گھس کر ، جن میں گر کر اگلی قومیں تباہ و برباد ہوگئی تھیں ، انہی بزرگوں کے بارے ایسے عقیدے رکھتے اور ان کی قبروں پر ایسے کام کرتے ہیں جو بت پرست اپنے بتوں کے مزاروں میں کرتے تھے۔ سخت حیرت اور بے حد تعجب کا مقام ہے کہ شرک کو اسلام اور کفر کو ایمان سمجھ لیا گیا تھا۔ طاقوں ، تعزیوں ، مقبروں، چبوتروں اور تھان ونشان پر سر جھکنے لگے لیکن مساجد خالی اور بے رونق ہو گئیں۔
ذرا سوچئےیہ تغیر کیونکر رونما ہوا، یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟
جبکہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہی یہ ہے کہ مسلمان شرک سے بچے اور تو حید پر قائم رہے۔ اگر آدمی تو حید پر مضبوط رہا، اس کے اعمال حسنہ اللہ رب العزت کے ہاں مقبول ہوں گے ورنہ سب مردود وا کارت گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مشرکین کو تو حید جیسی نعمت عظمی سے مالا مال فرما کر اعلان وحدت الہی کا علمبر دار بنائے ۔ آمین !
[بشكريه مؤقر مجله اهل حديث جلد: 31، شماره: 25- 1 تا 7 جولائي 2002ء، يكم ربيع الثاني 1421ه۔]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے