کیا رکوع کے بعد ربنا ولک الحمد بلند آواز سے کہنا جائز ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 182

رکوع کے بعد "ربنا ولک الحمد” بلند آواز سے پڑھنے کا حکم

سوال:

کیا رکوع کے بعد "ربنا ولک الحمد” کو بلند آواز سے پڑھنا جائز ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بآواز بلند
ربنا ولک الحمد حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ
کہا، یہ حدیث صحیح ہے، اور اس کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے کہ
اس واقعہ سے قبل اس ذکر کو بلند آواز سے پڑھنے کا معمول نہیں تھا۔

اگر اس وقت تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عمومی طور پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے یہ ذکر بلند آواز سے کیا کرتے، تو:

◈ رسول اللہ ﷺ کو یہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آتی:
مَنِ الْمُتَكَلِّمُ؟ (یہ کس نے کہا؟)
◈ اور پھر آپ ﷺ کو یہ فرمانے کی حاجت بھی نہ ہوتی:
فَإِنَّه لَمْ يَقُلْ بَأْسًا (اس نے کوئی غلط بات نہیں کہی)۔

یہ تمام باتیں اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ
بلند آواز سے یہ ذکر کہنا اس وقت ایک نیا عمل تھا۔

بعد کے حالات کا جائزہ

اس واقعے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ ذکر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بلند آواز سے کہنا
بطور معمول (عملِ مستمر) اختیار کیا گیا، ایسا کوئی ثبوت میری نظر سے نہیں گزرا۔

البتہ، زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ:

◈ اگر کوئی شخص امام کے پیچھے کبھی کبھار یہ ذکر بلند آواز سے کہہ دے تو:

➤ شریعت میں اس کی گنجائش موجود ہے۔
➤ ایسا کرنے والا گناہ گار نہیں ہو گا۔

لیکن اس ذکر کو بلند آواز سے کہنا اگر ہمیشہ کا معمول بنا لیا جائے (عمل مستمر بنے)، تو:

اس پر دلیل درکار ہے، کہ صحابہ رضی اللہ عنہم یا رسول اللہ ﷺ کا ایسا طریقہ رہا ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1