سوال کا مکمل پس منظر:
ہم دو سگے بھائی ہیں، جن میں میرا بھائی عمر میں مجھ سے بڑا ہے۔ میرے بڑے بھائی کی پانچ بیٹیاں ہیں، جبکہ میرے اپنے دو بیٹے ہیں۔ میری بیوی اور میرے بھائی کی بیوی دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں۔ ایک موقع پر میری بیوی نے میرے بڑے بھائی کی ایک بیٹی کو اپنا دودھ پلایا تھا۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے چھوٹے بیٹے کا نکاح میرے بھائی کی چھوٹی بیٹی سے ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل رہنمائی فراہم کریں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿وَأُمَّهَٰتُكُمُ ٱلَّٰتِيٓ أَرۡضَعۡنَكُمۡ وَأَخَوَٰتُكُم مِّنَ ٱلرَّضَٰعَةِ﴾
(النساء: 23)
’’اور مائیں تمہاری جنہوں نے دودھ پلایا تم کو اور بہنیں تمہاری دودھ سے‘‘
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
«اَلرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلاَدَةُ»
(صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب: وامهاتكم اللاتى ارضعنكم)
’’حرام کرتا ہے دودھ پینا وہی رشتے جنہیں نسب حرام کرتا ہے‘‘
مسئلہ کی شرعی وضاحت:
اگر آپ کی بیوی نے آپ کے بھائی کی بیٹی کو دودھ پلایا ہے، اور وہ رضاعت دو سال کی عمر کے اندر ہوئی ہے، اور اس دوران پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ بچے نے دودھ پیا ہے، تو وہ بیٹی آپ کی بیوی کی رضاعی بیٹی کہلائے گی۔
اس صورت میں، چونکہ آپ کے بیٹے کے لیے وہ لڑکی رضاعی بہن بن جائے گی، لہٰذا:
❀ آپ کے کسی بھی بیٹے کا اس لڑکی سے نکاح جائز نہیں ہوگا۔
❀ کیونکہ رضاعت کی بنیاد پر وہ دونوں بھائی بہن کے درجے میں آ جائیں گے۔
اگر رضاعت دو سال سے زائد عمر میں ہوئی ہو یا دودھ پلانے کی تعداد پانچ سے کم ہو، تو اس صورت میں مسئلہ مختلف ہو سکتا ہے، لیکن اس کی مکمل تحقیق ضروری ہوگی۔
نتیجہ:
لہٰذا اگر آپ کی بیوی نے آپ کے بھائی کی بیٹی کو دو سال کی عمر کے اندر پانچ یا زیادہ مرتبہ دودھ پلایا ہے تو وہ لڑکی آپ کے بیٹوں کے لیے رضاعی بہن ہو گئی، اور ان کے ساتھ اس کا نکاح شرعاً حرام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب