کیا دوسری طلاق کے لیے رجوع شرط ہے؟ مکمل شرعی وضاحت
ماخوذ : احکام و مسائل، طلاق کے مسائل، جلد 1، صفحہ 338

سوال:

اگر خاوند ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔ لیکن اگر خاوند ایک دن میں تین مختلف مجلسوں میں تین طلاقیں دے، تو کیا یہ تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی؟ یا مجلس کا اطلاق ایک حیض پر ہوگا؟ بعض اہل حدیث علماء کا کہنا ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ کیا دوسری طلاق کے لیے رجوع کرنا ضروری ہے؟ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد رجوع نہیں کرتا، تو کیا تین ماہ بعد خود بخود یہ طلاق مغلظہ یا طلاق بائن میں شمار ہو گی؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی اور دوسری طلاق کے درمیان رجوع کی شرط کا مسئلہ:

کتاب و سنت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو اس بات کی تصدیق کرے کہ دوسری طلاق کے جواز یا نفاذ کے لیے پہلی طلاق کے بعد رجوع کرنا ضروری ہے۔

قرآن مجید کی آیت:

﴿اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ﴾
(البقرة: 229)
"طلاق دو بار ہے…”

حدیث:

◈ سنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث:

«طَلاَقُ السُّنَّةِ تَطْلِيْقَةٌ وَهِیَ طَاهِرٌ فِیْ غَيْرِ جِمَاعٍ، فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَآ أُخْرٰی» الخ

"طلاق سنت یہ ہے کہ ایک طلاق دی جائے اور عورت حالتِ طہر میں ہو، بغیر ہمبستری کے۔ پس جب حیض آئے اور وہ پاک ہو جائے، تو دوسری طلاق دی جائے۔”

◈ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دوسری طلاق کے لیے رجوع شرط نہیں۔

ایک طلاق کے بعد نکاح کا جواز:

◈ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی اور عدت مکمل ہو گئی، تو اب وہ اس عورت سے نئے نکاح کے ذریعے دوبارہ رشتہ قائم کر سکتا ہے۔

قرآن کریم کی آیت:

﴿فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾
(البقرة: 232)

"پھر جب وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو اگر وہ معروف طریقے سے آپس میں رضا مند ہوں۔”

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1