سوال:
کیا جہیز دینا یا لینا لعنت ہے؟ کیا دینے، لینے اور ایسی شادی میں شرکت کرنے والا ابدی جہنمی ہے؟
سوال کی وضاحت:
راقم الحروف نے حکیم عبدالعزیز (بانی تحریک صراط مستقیم، لاہور) کا لٹریچر پڑھا، جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ:
◈ جہیز ایک لعنت ہے۔
◈ دینے اور لینے والا لعنتی اور ابدی جہنمی ہے۔
◈ حکیم صاحب کے مطابق، سورۃ النساء کی آیات 11 تا 14 میں بیان کردہ احکامِ وراثت اللہ کی حدود ہیں۔ جو لوگ جہیز لیتے یا دیتے ہیں، وہ ان حدود سے روگردانی کرتے ہیں اور جہیز کو ہی وارثی حقوق کا بدل سمجھتے ہیں، اس لیے وہ ابدی جہنمی ہیں۔
◈ حکیم صاحب کا دعویٰ ہے کہ سماج میں موجود تمام برائیوں کی جڑ جہیز ہے، اور یہ ہندوانہ رسم ہے۔
◈ سوال کرنے والے کے ذہن میں شبہ پیدا ہوا کہ اگر واقعی یہ معاملہ اتنا سنگین ہے، تو جماعت اہل حدیث کے بڑے علما، شیوخ الحدیث، اور مفتیان کرام بھی جہیز دینے میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟ کیا وہ ان آیات سے غافل ہیں؟ یا معاذ اللہ، جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں؟
◈ اسی الجھن کے پیش نظر سوال کرنے والے نے رہنمائی کی درخواست کی کہ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ واضح کیا جائے کہ آیا جہیز لینا، دینا اور ایسی شادی میں شرکت کرنا واقعی ابدی جہنم کا باعث ہے یا نہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہیز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا عمل:
سوال میں ذکر کیا گیا:
"رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹیوں کو اپنی گرہ سے جہیز دیا ہے اگر دیا ہے تو سنت رسول اللہ ﷺ ہے، اگر نہیں دیا تو سنت نہیں۔ قرآن و سنت سے ثابت فرمائیں؟”
جواباً عرض ہے:
◈ ہمیں اس پر دلالت کرنے والی کوئی صحیح یا حسن حدیث معلوم نہیں ہے، جو یہ واضح کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی گرہ سے باقاعدہ جہیز دیا ہو۔
البتہ ایک واقعہ جو اس موضوع سے متعلق ہے:
سنن ابن ماجہ، ابواب الزہد، باب ضجاع آل محمد ﷺ میں ایک حدیث مذکور ہے، جس کا مفہوم درج ذیل ہے:
«عَنْ عَلِیٍّ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِﷺ اَتَی عَلِيًّا وَّفَاطِمَةَ وَهُمَا فِیْ خَمِيْلٍ لَّهُمَا وَالْخَمِيْلُ الْقَطِيْفَةُ الْبَيْضَآءُ عَنِ الصُّوْفِ قَدْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِﷺ جَهَّزَهُمَا بِهَا وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ اِذْخِرًا وَّقِرْبَةٍ»
(سیرۃ النبی ﷺ، جلد اول، صفحہ 204، علامہ شبلی نعمانی)
اس حدیث کے مطابق:
◈ رسول اللہ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے جب وہ دونوں اپنی خمیل (اون کی سفید چادر) میں تھے۔
◈ وہ چادر، ایک تکیہ (جو اذخر گھاس سے بھرا ہوا تھا) اور ایک مشک رسول اللہ ﷺ نے انہیں جہیز میں دیا تھا۔
اس حدیث کی تصحیح:
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کا واقعہ:
◈ جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک قیمتی ہار جہیز میں دیا تھا۔
نتیجہ:
◈ اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے جہیز جیسی کسی چیز کا اہتمام کیا، مگر وہ نہ تو رسمی، دکھاوے یا مقابلے کی بنیاد پر تھا، نہ ہی اس کو ضروری یا دینی فریضہ قرار دیا گیا۔
◈ مذکورہ احادیث اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سادہ اور حسب استطاعت اشیاء بطور ساز و سامان دی تھیں۔
◈ لہٰذا، اصل سنت یہ ہے کہ سادگی کو اختیار کیا جائے اور نکاح کو آسان بنایا جائے۔
◈ قرآن و سنت میں کہیں یہ بات نہیں کہ جہیز دینے، لینے یا ایسی شادی میں شرکت کرنے والا ابدی جہنمی ہے۔ اگر کوئی جہیز کو وراثت کے بدلے کے طور پر دے یا لے، تو یہ شرعی حکم کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے، مگر اسے ابدی جہنمی قرار دینا نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی سنت سے۔
◈ کسی بھی گناہ پر ابدی جہنم کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، اور یہ صرف شرک اور کفریہ اعمال پر صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔
خلاصہ:
◈ جہیز دینا یا لینا بذات خود حرام نہیں، مگر اگر اس میں ریاکاری، ظلم، دکھاوا، یا وارثی حقوق کی پامالی ہو، تو یہ گناہ بن سکتا ہے۔
◈ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کو حسبِ استطاعت سادہ سامان دیا، جسے جہیز کا نام دینا مبالغہ ہو سکتا ہے۔
◈ قرآن و سنت سے جہیز دینے والے، لینے والے یا ایسی شادی میں شریک ہونے والے کو ابدی جہنمی قرار دینا درست نہیں۔
◈ حکیم عبدالعزیز صاحب کی رائے ان کے فہم پر مبنی ہے، مگر اسے قطعی شرعی حکم نہیں کہا جا سکتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب