کیا جہیز دینا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں مکمل وضاحت
ماخوذ : احکام و مسائل، نکاح کے مسائل، جلد 1، صفحہ 320

سوال

کیا جہیز ایک لعنت ہے؟ کیا جہیز دینے والا کافر ہے؟ کیا جہیز دینے والا دائمی جہنمی ہے؟ کیا شادی کے موقع پر سرپرست / والد / ولی (منکوحہ) بچی کو سامان دے سکتا ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مجھے جو بات معلوم ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جہیز دینے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس موضوع پر جو روایت پیش کی جاتی ہے، وہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی، یعنی وہ ضعیف یا غیر معتبر روایت ہے اور اس سے شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا۔

لہٰذا، یہ بات یقین سے کہنا کہ:

جہیز دینا لعنت ہے،
جہیز دینے والا کافر ہے،
یا وہ دائمی جہنمی ہے

یہ سب بلا دلیل اور بے بنیاد باتیں ہیں، کیونکہ ایسی کوئی صریح اور صحیح دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں جو ان سخت دعوؤں کی تائید کرے۔

جہاں تک شادی کے موقع پر سرپرست/والد/ولی کی جانب سے بچی کو سامان دیے جانے کا تعلق ہے، تو اگر یہ سامان خوشی سے، زبردستی یا دکھاوے کے بغیر دیا جائے، تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ بلکہ والدین کی طرف سے اپنی بیٹی کو کچھ دینا تحفہ کے طور پر ہو سکتا ہے، جیسا کہ عام طور پر کسی بھی خوشی کے موقع پر ہوتا ہے۔

تاہم، اگر معاشرتی دباؤ یا رواج کے تحت یا لڑکے والوں کی طرف سے مطالبے پر سامان دیا جائے، تو یہ عمل شرعاً ناپسندیدہ ہے اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1