کیا امام شعبہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تدلیس کا الزام لگایا؟ تحقیقی جائزہ
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 342

سوال

کیا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تدلیس کرتے تھے؟

بعض کتب میں یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ امام شعبہ فرمایا کرتے تھے:

’’کان ابو هریرة یدلس‘‘
یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تدلیس کرتے تھے۔

یہ قول درج ذیل کتب میں موجود ہے:

سیر اعلام النبلاء (جلد 2، صفحہ 608، تذکرہ 126)

البدایہ والنہایہ از ابن کثیر (جلد 8، صفحہ 112، کہا: ذکرہ ابن عساکر)

دفاع عن ابی ہریرہ (صفحہ 125، مصنف: عبدالمنعم صالح العلی العزی)

الانوار الکاشفہ (صفحہ 163، مصنف: عبدالرحمن بن یحییٰ المعلمی)

اسی قول کو ماہنامہ "دعوت اہل حدیث” جلد 4، شمارہ 3، رجب 1425ھ مطابق ستمبر 2004ء کے صفحہ 18 پر بغیر کسی مضبوط رد کے نقل کیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ قول امام شعبہ سے سندِ صحیح کے ساتھ ثابت ہے؟
تحقیق فرما کر جواب دیا جائے اور توضیح الاحکام میں شائع کیا جائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ قول تاریخ دمشق از ابن عساکر میں درج ذیل سند کے ساتھ موجود ہے:

اخبرنا ابو القاسم بن السمرقندی: انا ابو القاسم بن مسعدة: انا حمزة بن یوسف: انا ابو احمد: انا الحسن بن عثمان التستری: نا سلمہ بن حبیب قال: سمعت یزید بن هارون قال: سمعت شعبة یقول: ابو هریرة یدلس
(جلد 71، صفحہ 266)

اس روایت میں ابو احمد سے مراد امام عبداللہ بن عدی الجرجانی ہیں۔ یہ روایت ان کی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال میں بھی درج ذیل سند کے ساتھ موجود ہے:

اخبرنا الحسن بن عثمان التستری: نا سلمہ بن شبیب قال: سمعت شعبة یقول: ابو هریرة کان یدلس
(جلد 1، صفحہ 81)

ان دونوں روایتوں کو ملانے سے دو نکات سامنے آتے ہیں:

1. نام کی تصحیح:

تاریخ دمشق میں ’’سلمہ بن حبیب‘‘ کا نام غلطی سے چھپ گیا ہے۔
صحیح نام ’’سلمہ بن شبیب‘‘ ہے جیسا کہ الکامل از ابن عدی میں درج ہے۔

اس کی تائید تہذیب الکمال از المزی سے بھی ہوتی ہے جہاں:

سلمہ بن شبیب کے استادوں میں یزید بن ہارون کا نام موجود ہے۔

❀ اور یزید بن ہارون کے شاگردوں میں سلمہ بن شبیب کا ذکر بھی موجود ہے۔

2. سند کی خامی:

الکامل میں غالباً ناسخ یا ناشر کی غلطی کی وجہ سے
سلمہ بن شبیب اور شعبہ کے درمیان یزید بن ہارون کا واسطہ سقوط کا شکار ہو گیا ہے۔

یعنی:

شعبہ کے شاگردوں میں سلمہ بن شبیب کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

❀ نہ ہی ان دونوں کی ملاقات کا کوئی ثبوت موجود ہے۔

یہ دونوں سندیں دراصل ایک ہی روایت کی مختلف شکلیں ہیں۔
ان کے بنیادی راوی کا نام ہے: الحسن بن عثمان التستری

راوی کا تعارف:

الحسن بن عثمان التستری کے بارے میں سخت جرح موجود ہے:

امام ابن عدی فرماتے ہیں:

"کان عندی یضع و یسرق حدیث الناس، سالت عبدان الأهوازی عنه فقال: هو کذاب”
ترجمہ:
’’وہ میرے نزدیک حدیثیں گھڑتا اور لوگوں کی احادیث چوری کرتا تھا۔ میں نے عبدان اہوازی سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: وہ جھوٹا ہے۔‘‘
(الکامل، جلد 2، صفحہ 756)

نتیجہ:

❀ امام شعبہ سے یہ قول ’’ابو ہریرہ یدلس‘‘ صحیح سند سے ثابت نہیں۔

❀ موجودہ روایت میں بنیادی راوی کذاب اور سارق حدیث ہے۔

❀ اس لیے اس قول کی کوئی علمی حیثیت نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1