کون سا عمل شیطان پر لوہے سے زیادہ شدید ہے

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

171۔ کیا شیطان فطرت میں خرابی کاسبب بنتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں، !
عیاض بن حمار المجاشمعی سے مروی ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا، جس کا کچھ اقتباس مندرجہ ذیل ہے :
ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم مما علمني يومي هذا، كل مالي نحلته عبدا حلال، وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالهم عن دينهم، وحرمت عليهم ما أحللت لهم، وأمرتهم أن يشركوا بي ما لم أنزل به سلطانا
”خبر دار! بلاشبہ مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں وہ باتیں سکھاؤں، جن سے تم ناواقف ہو جو اللہ نے مجھے آج سکھائی ہیں، وہ یہ ہیں کہ ہر مال جو میں بندے کو عطا کروں وہ حلال ہے اور بلاشبہ ان کے پاس شیطان آتے ہیں، جو انھیں ان کے دین سے پھیرتے ہیں اور ان پر میری حلال کردہ چیزوں کو حرام کر دیتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ اس کو شریک شہرائیں، جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ “ [ صحيح مسلم 2197/4 رقم الحديث 2865 سنن النسائي 26/5 صحيح ابن حبان 425/2 ]
——————

172۔ میں کیسے اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ رکھ سکتا ہوں ؟
جواب :
اللہ کے ذکر سے،
سیدنا حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله أمر يحيى بن زكريا بخمس كلمات أن يعمل بها، ويأمر بني إسرائيل أن يعملوا بها وذكر منها :
واٰمركم أن تذكروا الله، فإن مثل ذلك كمثل رجل خرج العدو فى أثره سراعا حتى إذا أتى على حصن حصين فأحرز نفسه منهم، كذلك العبد لا يحر نفسه من الشيطان إلا بذكر الله

بلاشبہ اللہ نے یحیٰی بن زکریا علی علیہ السلام کو پانچ کلمات سکھائے، تاکہ وہ ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیں، پانچ میں سے ایک بات یہ تھی :
اور میں تمھیں اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیتا ہوں اس (ذکر) کی مثال اس آدمی جیسی ہے، جس کے تعاقب میں دشمن بڑی تیزی سے نکلا، لیکن وہ ایک مضبوط قلعے میں آیا اور اپنی ذات کو ان سے محفوظ کر لیا۔ اسی طرح سے بندہ اللہ کے ذکر کے علاوہ کسی کام کے ساتھ اپنے آپ کو شیطان سے نہیں بچا سکتا۔“ [ مسند أحمد 202/4 سنن الترمذي، رقم الحديث 2872 ]
ذکر کے الٰہی فوائد بہت زیادہ ہیں۔ مثلا:
➊ ذکر شیطان کو دور کرنے کا ذریعہ ہے۔
➋ اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
➌ دل سے فکر وغم کو زائل کرتا اور اسے سرور اور چستی دلاتا ہے۔
➍ قلب و بدن کو تقویت پہنچاتا ہے۔
➎ چہرے کو منور کرتا ہے۔
➏ رزق کی کشادگی کا ذریہ ہے۔
➐ ذکر کرنے والے کو اللہ رعب، مٹھاس اور تروتازگی کا لباس پہناتا ہے۔
➑ بندےکو اپنی محبت عطا کرتا ہے۔ [ الوابل الصيب لابن القيم ص: 5 ]
ذکر دل کے لیے ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کے لیے پانی۔ مچھلی کو جب پانی سے باہر نکال دیا جائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے؟ ذکر دل کو پاکیزگی کا وارث بناتا ہے۔ غفلت کی وجہ سے زنگ آلود دل کی صفائی اس ذکر اور استغفار ہی سے ہوتی ہے۔
بندے اور اس کے رب کے درمیان وحشت کا معاملہ اس سے زائل ہو جاتا ہے۔ ذکر کی بدولت فرشتے اترتے ہیں اور یہ اللہ کی راہ میں تلوار چلانے کے برابر ہے۔ جو کثرت سے ذکر کرے گا، وہ نفاق سے بری ہو جائے گا۔ [ يه امام ابن تيميه شمالي كا كلام هے۔ ]
——————

173۔ مجھے شیاطین سے ڈر لگتا ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
جواب :
درج ذیل دعا بہ کثرت پڑھو،
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللهم إنا نجعلك فى نحورهم، ونعوذ بك من شرورهم
”اے اللہ! ہم ان کے مقابلے میں تجھے ہی کرتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ “ [سنن أبى داود 89/2 رقم الحديث 1537] امام حاکم اور امام ذہبی نے اس کو میں کہا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ نے فرمایا :
اللهم رب السموات السبع و رب العرش العظيم، كن لي جارا من فلان و أحزابه وأشياعه من الجن والإنس، أن يفرطوا على وأن يطغوا، عز جارك وجل ثناؤك، ولا إله غيرك
” اے اللہ ! ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کے رب، تو فلاں اور اس کے لشکروں اور اس جیسے دیگر جن و انس کے مجھ پر زیادتی اور سرکشی کرنے سے میرا محافظ بن جا۔ تیری پناہ غالب ہے، تیری ثنا کا بڑا مقام ہے اور تیرے سوا کوئی مجبور نہیں۔ “ [الأدب المفرد 707]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ”الأدب المفرد“، رقم الحدیث 545 میں نے کہا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللهم منزل الكتاب، سريع الحساب، اهزم الأحزاب، اللهم اهزمهم وزلزلهم
”اے اللہ! اے کتاب کو نازل کرنے والے! جلد حساب لینے والے ! لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ! انھیں شکست دے اور
انھیں تباہ کر دے۔“ [ صحيح مسلم 1362/3 رقم الحديث 1742 ]
سیدنا صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الله اكفنيهم بما شئت
”اے اللہ! مجھے ان کے مقابلے میں کافی ہو جا، جیسے تو چاہے۔“ [صحيح مسلم 2300/3 رقم احديث 3005]
——————

174۔ وہ کون ہے جسے اللہ نے شیطان سے پناہ دی ؟
جواب :
وہ عمار بن یاسر ہیں۔
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا:
علقمہ رحمہ اللہ شام گئے۔ وہاں جب مسجد میں داخل ہوئے تو انھوں نے دعا کی : اے اللہ ! مجھے نیک ہم مجلس نصیب فرما۔ پھر وہ ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھ گئے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کن لوگوں سے ہیں؟ انھوں نے کہا: اہل کوفہ سے۔ انھوں نے کہا: کیا تم میں اس راز والا موجود ہیں، جس راز کو اس کے بغیر کوئی نہیں جانتا؟ (وہ اس سے مراد حذیفہ رضی اللہ عنہ لے رہے تھے) علقمہ کہتے ہیں: میں نے کہا : کیوں نہیں، وہ ہم میں موجود ہیں، پھر انھوں نے پوچھا: کیا تم میں وہ جن کو اللہ نے اپنے نبی کی زبان پر شیطان سے محفوظ رکھا، یعنی عمار رضی اللہ عنہ موجود نہیں؟ میں نے کہا: وہ بھی موجود ہیں، پھر انھوں نے پوچھا : کیا تم میں وہ موجود ہیں جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک، تکیے اور چار پائی کا انتظام کرنے والے تھے؟ علقمہ کہتے ہیں:
میں نے کہا: وہ بھی ہیں، پھر انھوں نے پوچھا: عبدالله رضی اللہ عنہ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ کیسے پڑھتے تھے، میں نے کہا : والذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ انھوں نے کہا: یہ لوگ میرے ساتھ (اس معاملے میں) مشغول رہیں گے حتی کہ مجھے اس چیز سے پھسلا دیں، جسے میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ [ صحيح البخاري، رقم الحديث 62 كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمار و حذيفة، رقم الحديث 20 ]
——————

175۔ کون سا عمل شیطان پر لوہے سے زیادہ شدید ہے ؟
جواب :
تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے اور اس پر نظر رکھتے۔ پھر انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لهي أشد على الشيطان من الحديد
”يه شيطان پر لوہے سے زياده سخت ہے. يعني دوران تشهد انگشت شهادت كو حركت دينا۔ “ [صفة الصلاة ص:140]
——————

176۔ شیطان مجھ سے کیسے دور ہو سکتا ہے ؟
جواب :
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من قال يعني إذا خرج من بيته: باسم الله توكلت على الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله. يقال له: هديت، وكفيت، ووقيت، وتنحى عنه الشيطان
”جس شخص نے گھر سے نکلتے ہوئے کہا : باسم الله توكلت على الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله ، اللہ کے نام کے ساتھ (میں گھر سے نکلتا ہوں) میں نے اللہ پر بھروسا کیا، نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی طاقت اللہ کے سوا نہیں ہے اسے کہا جاتا ہے: تو ہدایت دیا گیا، تو کفایت کیا گیا اور تو بچا لیا گیا اور شیطان اس سے دور ہو جا تا ہے۔ “ [ صحيح الجامع الصغير، رقم الحديث 2419 سنن أبى داود مع عون المعبود 437،5073/13 سنن الترمذي، رقم الحديث 154،3486/5]
——————

177۔ نماز کے سترے کے ساتھ شیطان کا کیا تعلق ہے ؟
جواب :
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إذا صلى أحدكم فليصل إلى سترة وليدن منها، لا يقطع الشيطان عليه صلاته
”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترے کی طرف نماز پڑھے اور اس کے قریب ہو۔ شیطان اس پر اس کی نماز کو نہیں کاٹے گا۔“ [ سنن النسائي، رقم الحديث 723 المستدرك للحاكم 251/1 سنن أبى داود، رقم الحديث 388،681 ]
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
إذا كان أحدكم يصلي فلا يدع أحدا يمر بين يديه وليدرأه ما استطاع، فإن أبى فليقاتله، فإنما هو شيطان
”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے آگے سے کسی کو گزرنے نہ دے اور حسب طاقت اسے روکے، پھر اگر وہ انکار کرے تو وہ اس سے لڑائی کرے، کیوں کہ وہ شیطان ہے۔ “ [صحيح مسلم 505،362/1 مختصر صحيح مسلم، رقم الحديث 338 ]
ان دونوں روایتوں کی روشنی میں ثابت ہوا کہ سترہ رکھنا ضروری ہے۔ وگرنہ شیطان نماز کو کاٹ دیتا ہے۔
——————

178۔ کیا زوجیت کے راز کو افشا کرنا شیطان کی طرف سے ہے ؟
جواب :
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں اور دیگر مرد اور عورتیں بھی وہاں بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا:
لعل رجلا يقول ما يفعله بأهله، ولعل امرأة تبر بما فعل مع زوجها فأرم القوم (أي سكتوا) فقلت : إي والله يا رسول الله، إنه ليفعلن، وإنهم ليفعلون، قال: قلا تفعلوا، فإنما ذلك مثل الشيطان لقي شيطانة فى طريق فغشيها، والناس ينظرون
شاید کوئی آ دمی اپنی اہلیہ کے ساتھ کرنے والے معاملے کو بیان کرتا ہو؟ شاید کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ کرنے والے معاملے کو بیان کرتی ہو؟ سبھی لوگ خاموش رہے۔ میں نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول! یقیناً وہ ایسے کرتی ہیں اور یقیناً وہ مرد بھی ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو، بلاشبہ اس کی مثال شیطان سی ہے، جو کسی راستے میں کسی شیطانہ کو ملا اور لوگوں کے سامنے ہی اس کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے۔ [صحيح. آداب الزفاف ص: 72 الفتح الرباني 223،237/16 ]
——————

179۔ کیا شیطان آسمان میں فرشتوں کے درمیان گردش کرنے والی خبروں کو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، کوئی پہچان رکھتا ہے ؟
جواب :
نہیں،
کیوں کہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ ﴿١٧﴾
”اور ہم نے اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ کر دیا ہے۔ “ [ الحجر: 17 ]
یعنی اللہ نے آسمان کی حفاظت کے لیے شہابے پیدا کیے، جو سرکش شیاطین سے اس کی حفاظت کرتے ہیں، تاکہ وہ ملأ اعلی کی بات کی سماعت سے محروم رہیں۔ جو شیطان سرکشی اختیار کرے اور بات کو چرانے کے لیے ان سے آگے بڑھے، اس کے پاس واضح شہابیہ آتا اور اسے جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ کبھی کبھار وہ اپنے سے نچلے تک کوئی کلمہ القا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ دوسرا اسے لیتا اور اپنے دوست تک پہنچا دیتا ہے۔
——————

180۔ بیعت عقبہ میں شیطان نے کیا کارنامہ کیا ؟
جواب :
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ جب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تو شیطان نے گھاٹی کی بلندی سے نہایت بلند آواز کے ساتھ پکارا کہ خیمے والو! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نمٹھو گے؟ اس وقت بے دین اس کے ساتھ ہیں اور وہ تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔ کعب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هذا أزب العقبة، هذا ابن أزيب، قال ابن هشام: ويقال: ابن أزيب: أتسمع، أى عدو الله، أما والله لأفزغن لك
یہ اس گھاٹی کا زہر یلہ ہے، یہ سانپ کا بچہ ہے۔ ابن ہشام نے کہا (ابن اَزیب کو ) ابن اُزیب کہا جاتا ہے۔ کیا تو سن رہا ہے؟ اللہ کی قسم ! اللہ کے دشمن ! میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہو رہا ہوں۔ [مسند احمد 361/3،362]
——————

اس تحریر کو اب تک 22 بار پڑھا جا چکا ہے۔