کلمہ طیبہ کے الفاظ کا ثبوت
سوال
کیا کسی حدیث میں پورا کلمہ ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پورے کلمہ طیبہ "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰه” کے یہی الفاظ بعینہٖ کسی حدیث میں یکجا درج نہیں ہیں۔ دراصل یہ مکمل جملہ "أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وأشھد أن محمد عبدہ و رسولہ” کا خلاصہ ہے، جس میں اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا مکمل طور پر ذکر موجود ہے۔
احادیث میں کلمہ توحید "لا إلہ إلا اللہ” کے الفاظ کا ذکر
احادیث مبارکہ میں "لا إلہ إلا اللہ” کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"أمرت أن أقاتل حتی یقولوا لا إلا إلا اللہ فإذا قالوا لا إلہ إلا اللہ فقد عصموا من اموالھم و انفسھم”
(المعجم الاوسط: 6؍215)
ترجمہ:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک لوگ لا إلہ إلا اللہ نہ کہہ دیں۔ جب وہ لا إلہ إلا اللہ کہہ دیں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیا۔‘‘
یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کلمہ کے توحید والے حصے کے اقرار کو کافی قرار دیا اور الفاظ "لا إلہ إلا اللہ” استعمال فرمائے۔
کلمہ طیبہ کے موجودہ الفاظ کے جواز کی وجوہات
➊ لغوی و نحوی اصول کی بنیاد پر:
◈ کسی بھی زبان میں جملے کے کچھ الفاظ محذوف یا مستور ہوتے ہیں، اور عربی زبان میں بھی اس کی کئی مثالیں ہیں۔
◈ مثلاً:
"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” کا ترجمہ ہے: "میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے”
حالانکہ عربی الفاظ میں "میں شروع کرتا ہوں” شامل نہیں، لیکن اس مفہوم کو ذہنی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
لہٰذا عربی میں "أبتدأ” یا "أشرع” جیسے الفاظ محذوف مانے جاتے ہیں۔
اسی طرح جب کوئی کہتا ہے:
"لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ”
تو اس میں اصل عبارت یوں سمجھی جاتی ہے:
"(أشھد أن) لا إلہ إلا اللہ (وأشھد أن) محمد رسول اللہ”
یہ محذوف الفاظ قاری اور متکلم کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
◈ خود قرآن نے بھی اس طرزِ کلام کو استعمال کیا ہے۔
◈ مذکورہ بالا حدیث میں بھی محذوف حکم موجود ہے، جو کہ الفاظ میں ظاہر نہیں۔
لہٰذا صرف "لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کہنا درست ہے۔
البتہ:
نماز میں التحیات کے دوران الفاظ کو بعینہٖ ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ نماز کے الفاظ مقرر ہیں، ان میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی جائز نہیں۔
➋ علمائے امت کا اجماع:
◈ "لا إلہ إلا اللہ” کو کلمہ کا خلاصہ اور مختصر صورت کے طور پر استعمال کرنے پر اہل علم کا اجماع ہے۔
◈ کسی معتبر عالم دین سے اس پر نکیر (اعتراض) ثابت نہیں۔
◈ لہٰذا اس کا استعمال مشروع اور جائز ہے۔
وبالله التوفيق