کسی نیک اور صالح شخص کے ہاتھوں خارق اور خلاف عادت کام کا ظہور یعنی فطرت کے عام معمولات سے ہٹ کر کسی بات کا معرض وجود میں آنا کرامت کہلاتا ہے۔ اور کرامت کے معنی عزت و بزرگی کے ہیں، اس لیے کہ وہ صاحب کرامت کی عزت و بزرگی کا سبب ہوتی ہے۔ مگر کرامت، ولایت کے لیے شرط نہیں ہے کہ ولی وہی ہوسکتا ہے جس سے کوئی کرامت ظاہر ہو، بلکہ بسا اوقات اکثر صالحین سے کوئی کرامت ظاہر نہیں ہوتی، مگران کے ظاہری اعمال اور تقویٰ ان کے ولی ہونے کے ثبوت ہوتے ہیں۔
اور کرامت، ولایت کی اس لیے بھی شرط نہیں ہے کہ کرامت ولی اللہ کے اختیار میں نہیں ہوتی۔
بلکہ جیسے انبیاء علیہم السلام کے معجزات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھے، اسی طرح کرامات بھی اللہ کے اختیار میں ہیں، اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنے کسی صالح بندے کے ذریعہ اس کا ظہور کر دے۔ بلاشبہ اولیاء اللہ سے سرزد ایسی کرامات کو ہم (جو صحیح نقل وسند کے ساتھ ثابت ہوں ) تسلیم کرتے ہیں، مگر کرامات کو کتاب وسنت کے ترازو میں تولتے ہیں۔ اگر وہ عقیدہ اسلام کے موافق ہو تو قابل قبول، ورنہ ہم اسے شعبدہ بازی، کذب سحر و جادو، فریب و دھو کہ شیطان پر محمول کریں گے۔
کیونکہ خرق عادت بات کا ظہور صرف اولیاء اللہ سے ہی نہیں ہوتا ہے، بلکہ جو لوگ جنات کو سخر و تابع کرتے ہیں، اور جن کا تعلق شیطان سے ہوتا ہے۔ خرق عادت باتوں کا ظہور ان سے بھی ہوتا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تصنیف لطیف ”الفرقان بین اولیاء الرحمن واولياء الشيطان“ میں لکھتے ہیں:
﴿قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿٧٩﴾
(38-ص: 79)
”کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں جنات اڑا کر مکہ یا بیت المقدس یا ان کے علاوہ دوسری جگہوں پر لے جاتے ہیں۔ “
کیونکہ خبیث جن ، خبیث انسانوں کے دوست ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔
﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿١٢٨﴾ وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿١٢٩﴾
(6-الأنعام: 128، 129)
”جس دن اللہ سب لوگوں کو اکٹھا کرے گا (تو فرمائے گا ) اے جنوں کے گروہ! تم نے بہت سے آدمیوں کو اپنا تابع بنا رکھا تھا، اور انسانوں میں سے جو ایسے جنوں کے دوست ہوں گے وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا، یہاں تک کہ وہ وقت آ پہنچا جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اچھا! تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں تم ہمیشہ رہو گے مگر جتنی مدت اللہ بچانا چاہے گا بچالے گا۔ بلاشبہ آپ کا رب بہت دانا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنا دیں گے کیونکہ وہ (مل کر ہی ) ایسے کام کیا کرتے تھے۔“
یعنی جن اور انسان مل کر لوگوں کو خرق عادت معاملات دکھا کر گمراہ کر سکتے ہیں، کیونکہ جنوں کی کچھ خصوصیات ہیں ان میں ایک یہ کہ جن ضرر پہنچا سکتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ﴾
(2-البقرة: 275)
”جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کراسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔“
اسی طرح ایوب علیہ السلام نے فرمایا:
﴿وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ﴿٤١﴾
(38-ص: 41)
”اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف و عذاب میں ڈال دیا ہے۔“
اسی طرح احادیث میں بھی اس طرح کے واقعات موجود ہیں، طوالت سے بچنے کے لیے ہم اس پر اختصار کرتے ہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ خرق عادت بات کا ظہور ولایت کی نشانی نہیں ہوسکتی۔
کیا دعاؤں کی قبولیت ولایت کی نشانی ہے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا دعا کی قبولیت ولایت کی دلیل ہے کہ نہیں؟ اس میں کیا شک ہے کہ اولیاء اللہ مستجاب الدعوات (جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ) ہوتے ہیں۔
ترمذی شریف میں حدیث مبارکہ ہے ، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اللهم استجب لسعد إذا دعاك»
سنن ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3751۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اے اللہ سعد کی دعاؤں کو قبول فرما۔“
مگر وہ رب ولیوں کا ہی نہیں، بلکہ گناہ گاروں، سیاہ کاروں کا بھی ہے۔ انس کا بھی اور جنوں کا بھی ہے۔ جانداروں کا بھی ہے اور غیر جانداروں کا بھی ہے۔ وہ تو سب کا رب، سب کی سنتا ہے، حتی کہ قرآن بیان کرتا ہے۔
﴿قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ ﴿١٣﴾ قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤﴾ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ﴿١٥﴾
(7-الأعراف: 13تا15)
”اللہ نے فرمایا ہے اتر یہاں سے تیرا حق نہ تھا کہ تو یہاں تکبر کرتا ، لہذا نکل جا، تو ان لوگوں سے ہو گیا جنہیں ذلیل ہوکر رہنا پڑتا ہے۔ ابلیس کہنے لگا، اچھا پھر مجھے روز محشر تک مہلت دے دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھے یہ مہلت دے دی جاتی ہے۔ “
دیکھئے ابلیس نے دعاء مانگی کہ اے اللہ ! مجھے قیامت تک مہلت دے دے، اور مانگی بھی اس وقت جب وہ راندہ درگاہ ہو چکا ہے، اور کیا مانگتا ہے کہ تیرے نبی دنیا سے رخصت ہو جائیں ، ولی فوت ہو جائیں، صالحین قبروں میں جا سوئیں، لیکن میں زندہ رہوں۔
فرمایا، جاؤ، تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے۔ جاؤ تمہیں مہلت دی جاتی ہے، پھر جب شیطان کی دعا بھی قبول ہوئی ، اور عکرمہ بن ابی جہل بھاگ کر کشتی میں جا کر سوار ہوئے تو اس وقت ان کی بھی دعا قبول ہوئی حالانکہ وہ اس وقت ایمان دار نہ تھے۔ تو معلوم ہوا دعا کی قبولیت ولایت کی نشانی و دلیل نہیں ہوسکتی۔
کیا کشف ولایت کی دلیل ہے؟
جس طرح کرامت قرآن وسنت سے ثابت ہے، اس طرح کشف بھی قرآن وسنت سے ثابت ہے، جو ان کا انکار کرے گا گویا وہ قرآن وسنت کا انکار کرتا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھو کہ کشف بھی ولایت کی نشانی نہیں۔ کشف کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ بعض تابعین کو کشف ہوتا تھا، اولیاء کی چودہ سو سال کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ بعض اولیاء کو کشف ہوتا تھا۔ وہ شخص روحانی اعتبار سے اندھا ہے جو کشف کا انکار کرتا ہے۔ بلکہ بخاری شریف میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ:
«قرأ رجل الكهف وفي الدار الدابة، فجعلت تنفر، فسلم الرجل ، فإذا ضبابة ، أو سحابة غشيته، فذكره للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: اقرأ فلان فإنها السكينة نزلت للقرآن أو تنزلت للقرآن»
صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فى الاسلام رقم: 3614۔ صحیح مسلم، كتاب صلاة المسافرين وباب نزول السكينة ، رقم: 795 .
”ایک آدمی (اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ) نے سورہ کہف پڑھی اور گھر میں ایک جانور بندھا ہوا تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، تو انہوں نے سلام پھیرا تو کیا دیکھتے ہیں، ایک سائبان یا بادل ہے جس نے اس کو ڈھانپ لیا ہے، اور سایہ کیے ہوئے ہے (اور اس میں روشنیاں تھیں)، انہوں نے آ کر یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: تم پڑھتے رہتے ، یہ سکینت و فرشتے تھے جو تیری قرآت کی آواز سن رہے تھے۔ “
کیا فرشتے اسید بن حضیر پر منکشف نہ ہوئے تھے ، اور کیا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی گواہی نہ دی تھی، اور اس طرح تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جبریل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا۔ پس جو شخص کہتا ہے کہ اولیاء اللہ کو کشف نہیں ہوتا ، اور نہ ہی ہوسکتا ہے، تو وہ حدیث رسول کا منکر ہے۔
لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ کشف صرف اولیاء کو ہوتا ہے، بلکہ اولیاء کے سوا اوروں کو بھی ہوتا ہے حتی کہ کاہنوں اور شیطانوں کو بھی ہوتا ہے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے اترے، وہ اللہ کے لشکر جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطاب فرما کر کہتا ہے:
﴿وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا﴾
(9-التوبة: 26)
”اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے۔“
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا﴾
(9-التوبة: 40)
”کہ اللہ نے نبی کی مدد ایسے لشکروں سے کی ہے جو تمہیں نظر نہیں آتے ۔ “
جبکہ سورہ انفال میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے شیطان کا قول نقل فرمایا ہے کہ:
﴿إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ﴾
(8-الأنفال: 48)
”میرا تمہارا کوئی واسطہ نہیں جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے ۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر فرشتے منکشف نہ ہوئے اور شیطان پر ہو گئے ۔ جب کشف شیطان کو بھی ہوا ہے تو کشف ولایت کی دلیل کیوں کر ہوسکتی ہے اور کسی کے تقرب اور بلندی مدارج و مراتب کی دلیل کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
اس سے بڑھ کر یہ بات کہ کشف تو جانوروں کو بھی ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے:
”جب جنازہ کو رکھ دیا جاتا ہے، اور تو آدمی اس کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے جلدی آگے لے چلو ، مجھے آگے کرو۔ اور اگر وہ نیک نہ ہوتو وہ کہتا ہے، ہائے ہلاکت ! مجھے کہاں لے جارہے ہو۔ “
«يسمع صوتها كل شي إلا الإنسان»
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب حمل الرجال الجنازه دون النساء، رقم: 1314.
”اس آواز کوانسانوں کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے ۔ “
اور یہ کشف صوتی ہے، جب کشف صوتی جانوروں کو بھی ہو تو یہ دلیل ولایت ہوسکتی ہے؟ اور ذرا غور کیجئے کہ سورہ کہف میں مذکور ہے جناب خضر علیہ السلام کو کشف سیدنا موسی علیہ سلام سے زیادہ ہوتا تھا ، مگر سب کا اتفاق ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مقام بلند تر ہے، اور ان کا شمار اولو العزم پیغمبروں میں ہوتا ہے۔ پس کشف کی زیادتی سے کسی کی ولایت کو ماپنا صریحاً گمراہی ہے۔
جب کشف ولایت کی دلیل نہیں۔ خرق عادت کا ظہور ولایت کی کسوٹی نہیں۔ تصرف و تسخیر ولایت کی نشانی نہیں ۔ حتی کہ دعاء کی قبولیت بھی معیار ولایت نہیں۔ تو پھر ولایت کیا ہے، ولی کون ہے، اولیاء اللہ کسے کہتے ہیں؟ جو جتنا بڑا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تابعدار ہوگا وہ اتنا ہی محبوب اللہ العالمین ہوگا ۔ جو جتنی زیادہ بندگانی بجالاتا ہوگا، وہ اتنا ہی مقرب خالق کائنات ہوگا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾
(3-آل عمران: 31)
”آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) میری پیروی و اتباع کرو، اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے گا۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے ۔“
نہ کہ ولایت اس بات سے حاصل ہوتی ہے کہ گھروں کو چھوڑ کر جنگلوں، غاروں، قبرستانوں اور ویرانوں میں جا کر عبادات کی جائیں۔
ولایت اس بات سے بھی نہیں ملتی کہ طبلے وسارنگی کی تھاپ پر نا چا جائے، بانسریوں کی سروں پر سر دھنا جائے ۔ اور نہ ہی اولیاء اللہ ان کو کہا جا سکتا ہے کہ جو قرآت وساع قرآن چھوڑ کر نماز کو پس پشت ڈال کر سانپ کھائیں، بھڑوں کو ہڑپ کر جائیں، گوبر کو تناول کریں، کیڑوں مکوڑوں کو اپنی غذا بنا ئیں ، خون پیئیں اور غیر محرم عورتوں کے ساتھ دھمالیں ڈالیں۔ بے ریش لڑکوں کی صحبت میں سکون محسوس کریں۔ سیٹیاں، تالیاں، ڈھول، تاشے، طبلے وسارنگی، بانسری و گٹار اور طنبورے کی آواز کو سن کر وجد میں آجائیں، اور نماز ترک کریں۔ بلکہ یہ تو شیطان کے ساتھی و دوست ہیں رب تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ﴿٣٦﴾
(43-الزخرف: 36)
”جو رحمن کی یاد سے غافل ہوتا ہے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں ۔ اور وہی اس کا ساتھی بن جاتا ہے ۔“
کیونکہ یہ افعال شیطانیہ ہیں نہ کہ صفات رحمانیہ۔ اور اگر گلوں میں مالائیں ڈال کر، ہاتھوں میں کشکول پکڑ کر ، بھنگ اور چرس کے کش لگا کر گلیوں میں بھیک مانگنا ولایت ہے تو پھر گنج کرا کر گلوں میں رسیاں ڈال کر بھیک مانگنے والوں کو بدھ مت کے بھکشو کہنا زیادتی ہوگی۔
اور جنگلوں میں جا کر ، آبادیوں کو چھوڑ کر اپنی طرف سے عبادتیں و ریاضتیں بجالانے والوں کو سادھو کہنا نا انصافی ہوگی۔
اور کھنڈروں صحراؤں پہاڑوں کے باغات اور غیر آباد علاقوں میں معتکف ہونے والوں اور عبادت کی ایک ہیئت و کیفیت اختیار کر کے اسی حالت عبادت میں یہاں تک رہنا کہ موت کے بعد بھی اس حالت میں لاش پڑی ہونا ان کو سونا (Monusticism) طریقہ عبادت کا پیرو کار قرار دے کر اس پر رہبانیت کا لیبل لگا اور اس کا حکم لگا کر عیسائی کہہ دینا بھی صحیح نہیں ہوگا۔
﴿وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ﴾
(57-الحديد: 27)
”اور ترک دنیا جو انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایسا کیا۔“
ہاں ! یہ ساری باتیں کہنا اس وقت صحیح ہوگا کہ جب تم خود ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسُوةٌ حَسَنَةٌ﴾ کی زندہ تعبیر و بن کر جس قدر حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا جس قدر روپ دھارو گے، اس قدر اللہ کو تم پر پیار آئے گا۔ اس بات کو پلے باندھو کہ ولایت اور قرب الہی کے تمام درجات اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔
﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩﴾
(4-النساء: 69)
”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جنہیں صدیقیت ، اور شہادت کے مقاموں سے نوازا جاتا ہے، اور صلحاء اولیاء کے سب درجات و مراتب کا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہی ہے۔ “
ور نہ ولی تم بھی اور تم میں سے بھی کوئی نہیں ہوسکتا، ہاں! اگر کردار ہو جائے تو پھر ان پر تمہارے وہ سارے حکم صحیح ہوں گے، اور اس وقت تمہارا تعارف یوں ہوگا۔
﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾
(10-يونس: 62، 63)
”غور سے سنو ! جو لوگ اللہ کے ولی و دوست ہیں، ان کو قیامت کے دن ڈر اور غم نہ ہوگا۔ یہ (ولی و دوست ) وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ، اور پرہیز گاری و تقوی کو اختیار کرلیا۔ “
اور مزید برآں ۔
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ﴿٦٤﴾ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ﴿٦٥﴾ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ﴿٦٦﴾ وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧﴾وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا ﴿٧١﴾ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ﴿٧٢﴾ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣﴾ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾ أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا ﴿٧٥﴾
(25-الفرقان: 63تا75)
”اللہ کے نیک بندے (اولیاء اللہ ) وہ ہیں جو عاجزی کے ساتھ (یا آہستگی اور وقار کے ساتھ ) زمین پر چلتے ہیں۔ اور جب جاہل لوگ ان سے بھڑ جاتے ہیں تو کہتے ہیں (اچھا صاحب) سلام ۔ اور جو راتوں کو اپنے مالک کے آگے سجدے اور قیام میں رہتے ہیں (یعنی شب بیدار، تہجد گزار ) ۔ اور جو یوں دعا مانگتے ہیں، اے ہمارے رب! دوزخ کا عذاب ہم پر سے ٹال دے، کیونکہ وہ دوزخ کا عذاب (کافروں اور گناہ گار کے لیے اٹل ہے ) وہ ہر طرح بری ہے، وہاں تھوڑی دیر رہنا ہو یا ہمیشہ رہنا ہو۔ اور جو خرچ کرتے وقت بیکار (اپنا پیسہ اُڑاتے اور نہ تنگی کرتے ہیں (کہ ضرورت میں بھی نہ اٹھائیں ) ۔ اور میانہ روی میں ان کا خرچ رہتا ہے۔ اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں پکارتے (اس کی عبادت کرتے ہیں ) ۔ اور جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کو نہیں مارتے مگر حق پر (جیسے خون کے بدلہ خون ) ۔ اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی یہ کام کرے گا (زنا) تو وہ (اپنے کیے کا ) بدلہ پائے گا، اور قیامت کے دن دگنا عذاب ہوگا اور وہ اس میں ذلیل ہوکر ہمیشہ رہے گا۔ مگر جو شخص (دنیا ہی میں ان گناہوں سے ) تو بہ کرے، اور ایمان لائے ، اور نیک کام کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور جو کوئی گناہ سے توبہ کرے، اور نیک کام کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف پورا ابھر آتا ہے۔ اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے، (یا جھوٹ فریب نہیں کرتے ) اور جب بیہودہ کام پر آ نکلیں (اتفاق سے اس پر گزر ہو ) تو عزت بچا کر چل دیتے ہیں۔ اور جس کو ان کے مالک کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گزرتے (بلکہ انہیں وہ نہایت غور و فکر سے سنتے اور ان سے متاثر ہوتے ہیں )۔ اور جو یہ دعا کرتے ہیں، اے ہمارے رب کریم ! ہم کو ایسی بی بیاں (بیویاں ) اور اولاد عطا فرما جن کی طرف سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم کو پرہیز گاروں کا سردار بنا۔ اور ان لوگوں کو بہشت کے بالا خانوں ان کے صبر کے بدلے میں ملیں گے، اور ان کا دعاء وسلام سے استقبال کیا جائے گا، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے، اچھا ٹھکانہ اور بہترین رہنے کا مقام ہے۔“
پس ولایت کی کسوٹی قرآن و حدیث اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہے، جو جتنا ان کے قریب ہوا، وہ اتنا بڑا ولی ہوا، اور اولیاء اللہ تو واجب الادب اور واجب التعظیم ہوتے ہیں۔ جو اولیاء اللہ کا نام ادب سے نہ لے، اور روح کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم نہ کرے، وہ بھی کوئی انسان ہے۔ اسے اصطبل میں باندھو۔
ان کی شان میں ادنی گستاخی بھی موجب حرماں و بدبختی ہے، اور سدہ مجاری فیض ہے۔ اور یہ بات حدث قدسی میں ہے:
«من عادى لي وليا فقد أذنته بالحرب»
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: 6502 ۔
”جو میرے کسی دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتا ہوں ۔ “
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اپنے اولیاء وصلحاء میں شامل فرمائے ۔ آمین
کرامات اولیاء
اب ہم آپ کے سامنے چند ایک کرامات رکھتے ہیں:
(1) مریم علیہ السلام کی کرامت:
مریم علیہ السلام نبی نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی ولی ومحبوب بندی ، اور ایک پرہیز گار ماں باپ کی متقی و راست باز اولاد ہیں، جنہیں اللہ نے ان کے ماں باپ کے اخلاص کو قبول کرتے ہوئے ایک ایسے پیغمبر کی ماں بنا دیا جو صرف پیغمبر نہیں، بلکہ اللہ کے کلمات میں سے ایک کلمہ، اور نشانی قدرت بھی ہیں۔ لہذا ہم ان کی کرامت کو بیان کرنا مناسب سمجھیں گے۔
﴿فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿٣٧﴾
(3-آل عمران: 37)
”جب بھی زکریا مریم کے کمرہ میں داخل ہوتے تو اس کے ہاں کوئی کھانے پینے کی چیز موجود پاتے ، اور پوچھتے مریم یہ تجھے کہاں سے ملا؟ وہ کہہ دیتیں اللہ کے ہاں سے ۔ یقینا اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ “
اس میں مریم علیہ السلام کی کرامت یہ ہے کہ جس جگہ مریم اہم مصروف عبادت ہوتی تھیں، اس کمرہ میں سیدنا زکریا علیہ السلام کے علاوہ سب کا داخلہ ممنوع تھا، سیدہ مریم علیہ السلام کے لیے سامان خوردونوش بھی سید نا زکریا علیہ السلام ہی وہاں پہنچایا کرتے تھے، پھر بارہا ایسا بھی ہوا کہ سیدنا زکریا علیہ السلام خوراک دینے کے لیے اس کمرہ میں داخل ہوئے تو سیدہ مریم علیہ السلام کے پاس پہلے ہی سے کھانے پینے کا سامان پڑا دیکھا، وہ اس بات پر حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ میرے بغیر یہاں کوئی آتا بھی نہیں، اور اس کے پاس پھل بھی ایسے ہیں جن کا موسم بھی نہیں تو اس حیرانی میں پوچھا مریم علیہ السلام یہ تمہارے پاس کہاں سے آتے ہیں؟ تو انہوں نے بلا تکلف فرمادیا اللہ کے ہاں سے ۔
(2) سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کی کرامت:
امام بخاری رحمہ اللہ ایک طویل حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبیب بن عدی رضی اللہ کے ابو مشرکین مکہ کے ہاتھوں قید ہوجانے کا واقعہ بیان کرتے ہیں، اور اس واقعہ میں خبیب جس کے ہاں قید تھے ان کے گھر کی ایک عورت بنت الحارث کہتی ہیں:
«والله ما رأيت أسيرا قط خيرا من جبيب، والله لقد وجدته يوما يأكل من قطف عنب فى يده وإنه لموثق فى الحديد وما بمكة من ثمر ، وكانت تقول: إنه لرزق من الله رزقه حبيبا»
صحیح بخاری کتاب الجهاد والسير، رقم: 3045.
”بنت الحارث کہتی ہیں کہ میں نے خبیب سے بہتر ، اچھا اور معزز و قیدی نہیں دیکھا کہ وہ انگور کے خوشوں سے انگور کھا رہے تھے (حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایک تو وہ) بیٹریوں میں جکڑے ہوئے تھے (اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ تھی کہ ) مکہ میں ان دنوں سرے سے انگور تھے ہی نہیں ۔ وہ کہا کرتی تھیں، یقیناً وہ اللہ کی عطا تھی کہ اللہ نے اپنے ولی کو رزق پہنچایا ۔“
(3) خادم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت الله:
ان کا نام باختلاف روایات: رومان یا مھر ان تھا، لیکن ایک دفعہ ایک جنگ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سفینہ کہہ دیا تو انہوں نے اپنا یہی نام رکھ لیا، اور اپنا اصل نام کسی کو نہ بتایا بلکہ کہتے کہ میں سفینہ ہی ہوں۔
(مستدرک حاکم، رقم: 6607)
ان کی کرامت یہ ہے وہ کہتے ہیں کہ میں سمندر میں سفر کر رہا تھا کہ کشتی ٹوٹ گئی۔ میں ایک تختے پر سوار ہو گیا اور سمندر کی موجوں نے مجھے گہرے گھنے جنگل کی جھاڑیوں میں ڈال دیا، اور وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شیر موجود ہے، میں پہلے تو اس سے گھبرایا، پھر میں نے اس سے کہا:
«يا ابا الحارث انا مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم فطأطأ رأسه واقبل الى فدفعني منكبه حتى اخرجني من الاجمة ووضعني على فظنننت انه يودعنى فكان ذلك آخر عهدى الطريق وهمهم به»
مستدرك حاكم: 605/3، رقم: 6609 و 618/2 ، رقم: 4293 ۔ حاکم نے اسے صحیح علی شرط مسلم، کہا ہے۔
”اے ابوالحارث (شیر کے باپ ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادمہ ہوں (یہ سنتے ہی اس نے ) سر جھکا لیا، اور میری طرف متوجہ ہوا، اور اپنے کندھے کے ساتھ مجھے اشارہ کیا (اور اس وقت تک اپنے کندھے کے دھکے سے اشارہ کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے مجھے جھاڑیوں سے نکال کر سیدھے راستے پر پہنچادیا، اور اس کے بعد چھنکاڑا میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کر رہا ہے۔“
اگر کرامات کے باب کو پھیلایا جائے تو اس پر ایک ضنخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے، لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے کے لیے ہم اس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں، اور دعاء کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمیں صفات اولیاء کا حامل بنا، اور صفات شیطانیہ سے تو آپ ہی ہماری حفاظت فرما۔ (آمین یا رب العالمین )