کثرت احادیث سے متعلق منکرین حدیث کے شبہات
اصل مضمون فضیلۃ الشیخ عَبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

احادیث کی عددی کثرت کے اسباب

منکرین حدیث نے علم حدیث پر یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ محدثین کے پاس اتنی زیادہ تعداد میں احادیث کیسے پہنچیں۔ وہ بڑے بڑے اعداد و شمار پیش کر کے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان احادیث میں سے %95 جعلی اور موضوع تھیں۔ اگر کچھ صحیح احادیث تھیں بھی، تو وہ بھی اتنی خلط ملط ہو چکی تھیں کہ انہیں الگ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے محدثین نے جو احادیث قبول کیں، وہ بھی ان کے نزدیک قابل اعتماد نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احادیث کی کثرت کے کئی اسباب ہیں، جن میں سے صرف ایک سبب موضوع احادیث کا وجود ہے۔ وہ اسباب درج ذیل ہیں:

1. بلحاظ وسعت معانی

سنن اور احادیث میں فرق کو پہلے واضح کیا جا چکا ہے۔ سنن کا تعلق صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے، جبکہ احادیث میں صحابہ اور تابعین کے اقوال و افعال بھی شامل ہیں۔ اس بنا پر، احادیث کی تعداد سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی گنا زیادہ ہونا منطقی ہے۔

2. بلحاظ اسناد اور طرق

مثال کے طور پر:
«انما الاعمال بالنيات»
ترجمہ: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔”
[صحیح البخاری: کتاب بدء الوحی، باب كيف كان بدء الوحي الخ: 1، صحیح مسلم: کتاب الإمارة: باب قوله صلى الله عليه وسلم إنما الأعمال بالنية: 1907]
یہ ایک سنت قولی ہے، لیکن احادیث میں اس کا شمار سات سو (700) مختلف روایات کے ساتھ ہے۔ اس طرح اسناد اور طرق کی وجہ سے بھی احادیث کی تعداد سنن سے کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔

3. سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دارومدار زیادہ تر تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم پر

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سنت کا دارومدار کتابت و روایت سے زیادہ تعامل صحابہ پر تھا۔ مثال کے طور پر، صحابہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھتے، ویسے ہی نماز پڑھ لیتے۔ یا جب مختلف وفود مدینہ آتے تو آپ انہیں کچھ دن اپنے پاس رکھتے اور رخصت کرتے وقت یہ ہدایت کرتے:
«صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي»

ترجمہ: "نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔”
[صحیح البخاری: کتاب الآذان: باب الآذان للمسافرين إذا كانوا جماعة الخ: 631]

اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

«خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ»

ترجمہ: "مجھ سے حج کے ارکان کی ادائیگی کے طریقے سیکھ لو۔”
[سنن الكبرى للبيهقي: كتاب الحج: باب الإيضاع فى وادي محمر: 5: 125، الحديث 9524](یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھیے: إرواء الغليل، الحديث: 1074)

بعد ازاں، جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز، حج، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر احکام کی تفصیلات کو روایت و کتابت کرنا شروع کیا تو ان چھوٹے چھوٹے ارشادات سے پوری کی پوری کتابیں تیار ہو گئیں۔

4.موضوع احادیث کا وجود

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی بعض منافقین اور مرتدین موجود تھے جو آپ کی وفات کے بعد اپنے باطل نظریات کے ساتھ کھل کر سامنے آئے۔ مثال کے طور پر، ایک واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی پیش آیا، جسے ابن عدی نے اپنی کتاب "کامل” میں سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی سند سے بیان کیا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد حدیث گھڑنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، جنہیں وضاعین کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ چھ مختلف قسموں کے تھے:

  1. زنادقه (سیکولرز)
  2. اہل تشیع
  3. صوفیہ
  4. امراء و سلاطین
  5. معتزلین
  6. خوارج

یہ لوگ اپنے گمراہ کن عقائد اور نظریات کو سچا ثابت کرنے کے لیے بہت سی جعلی احادیث گھڑتے تھے۔ وہ ان احادیث کے ذریعے اپنے نظریات کا دفاع کرتے اور اہل حق کے نظریات کا رد کرتے تھے۔ ایک ہی موضوع حدیث کو جب مختلف سندوں کے ساتھ بیان کیا جاتا، تو بظاہر احادیث کی تعداد زیادہ نظر آتی۔

5.موضوع احادیث کے طرق اور اسناد

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، محدثین کو نہ صرف موضوع احادیث بلکہ ان کی اسناد کا بھی علم ہوتا تھا، تاکہ وہ ان موضوع احادیث کے بارے میں عوام کو متنبہ کر سکیں۔ جس طرح جب سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف طرق کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، تو ان کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے، اسی طرح موضوع احادیث بھی جب مختلف اسناد کے ساتھ آئیں، تو ان کی تعداد زیادہ ہو گئی۔

احادیث کی تعداد کے حوالے سے اعتراضات

منکرین حدیث کی جانب سے احادیث کی تعداد پر کئی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، خاص طور پر طلوع اسلام کے گروہ نے اس پر زور دیا ہے۔ ان اعتراضات میں احادیث کی تعداد کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ "مقام حدیث” کے صفحہ نمبر 25 پر ایک اقتباس میں احادیث کی کثرت پر تنقید کی گئی ہے، جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ مختلف محدثین نے لاکھوں احادیث سے صرف چند ہزار احادیث کو اپنی کتابوں میں درج کیا:

  1. امام بخاری رحمہ اللہ: چھ لاکھ (600,000) احادیث میں سے مکررات نکال کر صرف 2762 احادیث۔
  2. امام مسلم رحمہ اللہ: تین لاکھ (300,000) احادیث میں سے مکررات نکال کر صرف 4248 احادیث۔
  3. امام ابو داود رحمہ اللہ: پانچ لاکھ (500,000) احادیث میں سے مکررات نکال کر صرف 4800 احادیث۔
  4. امام ابن ماجہ رحمہ اللہ: چار لاکھ (400,000) احادیث میں سے مکررات نکال کر صرف 4000 احادیث۔
  5. امام نسائی رحمہ اللہ: دو لاکھ (200,000) احادیث میں سے مکررات نکال کر صرف 4321 احادیث۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی مثال

"مقام حدیث” کے صفحہ نمبر 22 پر امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بیان ہے:

"انہوں نے شہر بہ شہر اور قریہ بہ قریہ پھر کر چھ لاکھ (600,000) کے قریب احادیث جمع کیں۔ ان میں سے انہوں نے اپنے معیار کے مطابق صرف 7200 احادیث کو صحیح پایا اور انہیں اپنی کتاب میں درج کر لیا، باقی پانچ لاکھ ترانوے ہزار کو مسترد کر دیا۔”

کذب بیانی اور دھوکہ دہی:

مندرجہ بالا اعتراضات سے چند اہم نکات قابل غور ہیں:

اعتراضات میں احادیث کی تعداد کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ اقتباس میں بیان کی گئی احادیث کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرتی ہے، جبکہ صحیح روایات میں زیادہ سے زیادہ احادیث کی تعداد 14 لاکھ بتائی گئی ہے۔ ان اعداد و شمار میں صرف چند معروف محدثین شامل نہیں ہیں بلکہ دیگر محدثین بھی شامل ہیں۔ احادیث کی اس کثرت کی پانچ وجوہات پہلے بیان کی جا چکی ہیں، اور یہ تعداد مختلف طرق (روایت کے طریقے) اور اسانید (سندوں) کی ہے، نہ کہ متون (اصل متن) یا سنن اور آثار کی۔ چونکہ محدثین ہر سند اور روایت کے مختلف طریقے کو الگ حدیث شمار کرتے ہیں، لہذا ان کی یہ تعداد انہی کے شمار کے مطابق ہے، متن کے شمار کے مطابق نہیں۔

احادیث کی اصل تعداد

مکررات (یعنی بار بار بیان ہونے والی احادیث) کو نکال کر جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں، وہ دراصل متون، سنن، اور آثار پر مبنی ہیں۔ انہیں عام طور پر "حدیث” کہا جاتا ہے، اور ان کی مجموعی تعداد 20,000 سے زیادہ نہیں ہے۔ مزید یہ کہ بہت سی احادیث ایسی بھی ہیں جو مختلف حدیثی مجموعوں میں ایک ساتھ موجود ہیں، جس کی وجہ سے ان کی اصل تعداد نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ امام حاکم کی تحقیق کے مطابق، صحاح ستہ اور مسند احمد بن حنبل سمیت صحیح احادیث کی تعداد 10,000 سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:

«اَلَا حَادِيتُ الَّتِى فِى الدَّرَجَةِ الأولى لَا تَبْلُغُ عَشَرَةَ آلافٍ»

[تَوْحِيهُ النَّظَرِ بحواله: ”تدوين حديث“ صفحه نمبر: 200]

"اعلیٰ درجہ کی حدیثوں کی تعداد دس ہزار تک نہیں پہنچ پاتی۔”

اگر ان 10,000 احادیث میں مزید وسعت پیدا کی جائے، اور صرف صحیح و اعلیٰ درجہ کی احادیث کے بجائے حسن اور ضعیف روایات کو بھی شامل کیا جائے، نیز صحاح ستہ اور مسند احمد کے علاوہ دیگر بیسیوں کتب احادیث کا بھی شمار کیا جائے، جن کا شمار طبقہ سوم اور چہارم میں ہوتا ہے، تو ان کی مجموعی تعداد کے بارے میں مناظر احسن گیلانی اپنی کتاب "تدوین حدیث” میں لکھتے ہیں:

"بہر حال شمار کرنے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ صحیح، حسن، ضعیف ہر قسم کی تمام حدیثیں جو اس وقت صحاح ستہ، مسند احمد اور دیگر کتابوں میں موجود ہیں، ان کی تعداد 50,000 (50,000) بھی نہیں ہے۔ اور یہ ہر رطب و یابس (اچھی اور ناقص) احادیث کا مجموعہ ہے۔ تمام کتابوں سے چھان بین کرنے کے بعد نہ صرف ابن جوزی، جن کی تنقید کا معیار بہت سخت ہے، بلکہ امام حاکم نے، جو نرمی اور مسامحت میں مشہور ہیں، کہا ہے: ’اول درجہ کی صحیح حدیثوں کی تعداد دس ہزار تک بھی نہیں پہنچتی۔‘”
[تدوين حديث: 195]

احادیث کی تعداد میں شمولیت کی حقیقت

یہ بات بغیر کسی تردید کے کہی جا سکتی ہے کہ اس 50,000 کی تعداد میں احادیث کی تمام اقسام شامل ہیں، چاہے وہ احادیث مقبول کے دائرے میں آتی ہوں یا مردود کے۔ مردود احادیث میں سب سے کم تر درجہ موضوعات (یعنی گھڑی ہوئی احادیث) کا ہے۔ چونکہ ہمارے طبقہ سوم اور چہارم کی حدیثی کتب میں موضوعات کی بڑی تعداد موجود ہے، اس لیے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ذخیرہ احادیث میں رطب و یابس کا اندراج

یہ سوال کہ محدثین نے اپنی کتب میں ہر طرح کے رطب و یابس (یعنی ہر قسم کی احادیث) کو کیوں شامل کر لیا، کا جواب ہم "وضع حدیث” کے باب میں دے چکے ہیں۔ مختصر یہ کہ باطل فرقوں کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کی گنجائش کو ختم کرنے کے لیے ایسا کیا گیا:

"محدثین نے ہماری روایات کو ضائع کر دیا ہے حالانکہ وہ صحیح تھیں۔”

اس اعتراض کو رد کرنے کے لیے محدثین نے ہر طرح کی احادیث کو محفوظ رکھا تاکہ سچ اور جھوٹ کی تمیز ہو سکے۔

صحیح احادیث کی تعداد کے بارے میں عقلی دلیل

صحیح احادیث کی کل تعداد کے بارے میں گفتگو چل رہی تھی کہ وہ 10,000 تک بھی نہیں پہنچتی۔ اب اس تعداد کا موازنہ اس تحریری ذخیرے سے کیجیے جو عہد نبوی میں ہی تحریر کیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل ہم نے "کتابت حدیث” کے باب میں پیش کی تھی، اور اس کا طلوع اسلام کو بھی اعتراف ہے۔ کیا اس سے یہ حقیقت واضح نہیں ہو جاتی کہ اگر تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں حدیثی ذخیرے میں کچھ اضافہ یا ملاوٹ بھی ہوئی تھی، تو محدثین کی محقق جماعت نے ان خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں الگ کر دیا؟

صحیح احادیث کی حفاظت میں محدثین کا کردار

اسی محنت اور تحقیق کے ذریعے صحیح احادیث کے خدوخال واضح ہو کر سامنے آئے ہیں۔ یہ وہی احادیث ہیں جن کی اتباع قیامت تک مسلمانوں کے لیے ضروری ہے اور جن کی حفاظت کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے کیا تھا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی دنیا میں اپنی ذمہ داری کو انسانوں کے ذریعے پورا کراتا ہے، اور اس سلسلے میں جن انسانوں نے اپنا کردار ادا کیا، وہ یہی محدثین کرام رحمہ اللہ کی جماعت تھی۔ انہوں نے احادیث کے خزانوں کو محفوظ کیا اور امت تک پہنچایا، تاکہ مسلمان صحیح تعلیمات کو سیکھ سکیں اور ان پر عمل پیرا ہو سکیں۔

”طلوع اسلام“ کا سفید جھوٹ

طلوع اسلام کی جانب سے کیے گئے اعتراضات میں محدثین خصوصاً امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے احادیث کے رد و قبول میں "ذاتی بصیرت، اپنے معیار اور اپنی دانست” پر انحصار کیا۔ یہ بیان قطعی جھوٹ پر مبنی ہے۔ محدثین نے احادیث کو قبول کرنے یا رد کرنے کے لیے کبھی اپنی ذاتی رائے کو معیار نہیں بنایا۔ ان کے لیے معیار وہ اصول اور قواعد تھے جنہیں انہوں نے روایت و درایت کے اصولوں کی بنیاد پر اپنایا، جن کی ابتدا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کی تھی اور یہ اصول وقت کے ساتھ ساتھ محدثین کے ہاں ترقی کرتے گئے۔

مزید یہ کہ یہ جھوٹ اس لیے بھی عیاں ہے کیونکہ طلوع اسلام نے خود اسی کتاب "مقام حدیث” کے صفحہ 107 اور صفحہ 158 پر ان اصولوں کا ذکر کیا ہے جنہیں محدثین نے احادیث کی تحقیق کے لیے اپنایا۔ اگر واقعی محدثین کے پاس احادیث کے قبول یا رد کے لیے کوئی اصول نہ ہوتے، اور وہ صرف اپنی دانست سے کام لیتے، تو پھر طلوع اسلام کو ان موضوعات پر تفصیلی تبصرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟

حدیثوں کے ضیاع کی فکر

طلوع اسلام نے یہ سوال اٹھایا کہ لاکھوں احادیث کے انبار میں جنہیں محدثین نے مسترد کر دیا، شاید کچھ صحیح احادیث بھی ضائع ہو گئی ہوں گی۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ اصل فکر ان لوگوں کو ہونی چاہیے جن کے نزدیک احادیث کی اہمیت ہے اور وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کا لازم جز سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جن کا عقیدہ یہ ہو کہ احادیث صرف عہد نبوی کے زمانے تک ہی واجب العمل تھیں اور بعد کے حالات میں ان کی اہمیت کم ہو گئی ہے، انہیں اس معاملے کی فکر کیوں ہونی چاہیے؟

مزید وضاحت کے لیے عرض ہے کہ صحیح بخاری میں مرویات (اخبار و آثار سمیت) کی مجموعی تعداد 9684 ہے۔ اگر آثار اور مراسیل کو الگ کر دیا جائے، تو مکررات کو نکالنے کے بعد مرفوع احادیث کی تعداد 2663 رہ جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باقی پانچ لاکھ نوے ہزار احادیث کو مسترد نہیں کیا تھا، بلکہ انہیں اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا، کیونکہ یہ کتاب "المختصر” (مختصر انتخاب) کے طور پر تھی۔ ان صحیح احادیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے بعد میں اپنی تصنیف "مستدرک حاکم” میں شامل کر دیا، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ دین کا کوئی حصہ ضائع ہو گیا۔

طلوع اسلام کی اصل شکایت

طلوع اسلام کی طرف سے دیے گئے تیسرے اعتراض میں یہ کہا گیا ہے:

"ذرا سوچئے کہ اگر امام بخاری پانچ لاکھ چورانوے ہزار (594,000) احادیث کو یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان کی دانست میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوسکتیں اور وہ منکر حدیث نہیں قرار پاتے، تو اگر آج کوئی شخص ایک حدیث کے متعلق کہتا ہے کہ اس کی قرآنی بصیرت کی رو سے (یہ حدیث) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہو سکتی، تو وہ کافر اور خارج از اسلام کس طرح قرار پا سکتا ہے؟”

یہ سوال خود طلوع اسلام کو غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، مگر انہوں نے ذمہ داری دوسروں پر ڈال دی۔ اس سوال کے پس پردہ چند غلط فہمیاں ہیں جنہیں ہم یہاں وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

امام بخاری رحمہ اللہ کا طریقہ کار:

  1. احادیث کے انتخاب کی اقسام: امام بخاری رحمہ اللہ نے جن احادیث کو چھوڑا، وہ تین اقسام کی تھیں:
    • ایسی احادیث جن کی حیثیت صرف طرق و اسانید، شواہد و توابع کی تھی، جن کا درج کرنا ضروری نہ تھا۔
    • وہ احادیث جو امام بخاری کی مقرر کردہ شرائط پر پوری نہ اترتی تھیں۔ مثال کے طور پر، امام بخاری کی ایک شرط یہ تھی کہ راویوں کا محض ہم عصر ہونا کافی نہیں، بلکہ ان کی ملاقات کا ثابت ہونا بھی ضروری ہے، جب کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے۔ اسی لیے کچھ صحیح احادیث جنہیں امام بخاری نے اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا، امام مسلم نے انہیں اپنی "صحیح” میں درج کیا۔
    • بعض احادیث جن کا مفہوم امام بخاری نے پہلے منتخب شدہ احادیث میں شامل سمجھا، ان کو دوبارہ درج کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
  2. ذاتی رائے کا انکار: امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث کی تحقیق میں ذاتی رائے یا پسندیدگی و ناپسندیدگی کا کوئی عمل دخل نہیں رکھا۔ بلکہ انہوں نے روایت و درایت کے کڑے اصولوں کو اپنایا، جن کی بنیاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی اور جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پاتے رہے۔ یہ اصول دوسری صدی ہجری کے آخر تک مکمل فن کی صورت اختیار کر چکے تھے، اور امام بخاری رحمہ اللہ اس فن کے ماہر تھے۔
  3. دینی بصیرت: امام بخاری رحمہ اللہ کی بصیرت محض قرآنی نہیں بلکہ مکمل دینی تھی، جس میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی بڑا حصہ تھا۔ یہ بصیرت صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین کے راستے سے انہیں ملی۔ تبع تابعین کا دور 220 ہجری تک مانا جاتا ہے، اور امام بخاری کی پیدائش 194 ہجری اور وفات 257 ہجری میں ہوئی، جس سے انہیں تبع تابعین سے استفادہ کا بھرپور موقع ملا۔ یہ بصیرت محض متوارث نہ تھی بلکہ یہ روایت و درایت کے اصولوں کی سختی سے پابند تھی۔

کفر کی اصل وجہ

طلوع اسلام کے اعتراضات کا مرکز وہ شخص ہے جو اپنی "قرآنی بصیرت” کی بنیاد پر احادیث کا انکار کرتا ہے۔ اس کی بصیرت کے دو اہم ماخذ ہیں:

  1. دورِ جاہلیت کی عربی لغت: اس شخص کا کہنا ہے کہ وہ قرآن کو دور جاہلیت کی عربی لغت کے مطابق سمجھتا ہے۔
  2. جدید اور ملحدانہ افکار و نظریات: یہ شخص اپنے خیالات کو قرآن میں شامل کرنے کے لیے لغت کا سہارا لیتا ہے، تاکہ وہ اپنے ملحدانہ نظریات کو قرآن کے متن میں فٹ کر سکے۔

یہ شخص قرآن کے معانی میں تحریف کرتا ہے، آیات کے مفہوم میں تبدیلیاں لاتا ہے، اور انہیں اپنی عقل کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ اب ایسے شخص سے یہ توقع کرنا کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا، اس کی عقل کو بوجھل کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے نزدیک احادیث میں مذکور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اتباع صرف صحابہ کرام کے لیے تھی، اور بعد میں آنے والوں کے لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے مطابق، بعد کے زمانوں میں شریعت کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی مرکز ملت (یعنی مسلم حکومت) وضع کرے، وہی دراصل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ اس نظریے کی رو سے احادیث کا پورا ذخیرہ اس شخص کی نظر میں بیکار اور بے وقت ہو جاتا ہے۔ لہذا ایسے شخص کو منکر سنت یا منکر حدیث نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

امام بخاری رحمہ اللہ کی احادیث سے انکار پر کفر کا مسئلہ

طلوع اسلام نے یہ اعتراض اٹھایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کسی ایک حدیث سے انکار کرنے پر کسی کو کافر یا اسلام سے خارج قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک حدیث کے انکار پر کفر کا فتویٰ دینا کسی بھی محدث یا فقیہ کا مؤقف نہیں رہا ہے۔ مقام حدیث میں بھی ذکر ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر چند نامور شخصیات نے بعض احادیث کا انکار کیا یا ان پر جرح کی، لیکن انہیں محض اس بنیاد پر کافر قرار نہیں دیا گیا۔

  • یہ اختلاف اس وجہ سے تھا کہ وہ ان احادیث کے صحیح ہونے پر متفق نہیں ہوتے تھے، اور ان کی تحقیق کے مطابق وہ احادیث صحت کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھیں۔
  • کفر کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح ثابت ہونے کے بعد بھی اسے واجب الاتباع نہ سمجھے۔ یعنی اس کے لیے سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ترک کرنا دینی معاملے میں تحریف کے مترادف ہے۔

احادیث کی تعداد اور صحیفہ ہمام بن منبہ رحمہ اللہ

طلوع اسلام نے اپنی کتاب "مقام حدیث” کے صفحہ 19 پر یہ نکتہ اٹھایا ہے:

"امام ہمام بن منبہ رحمہ اللہ 58 ہجری سے پہلے مدینہ میں بیٹھ کر احادیث کا مجموعہ مرتب کرتے ہیں اور انہیں صرف 138 حدیثیں ملتی ہیں۔ جبکہ تیسری صدی ہجری میں امام بخاری رحمہ اللہ احادیث جمع کرتے ہیں تو انہیں چھ لاکھ (600,000) احادیث ملتی ہیں۔”

طلوع اسلام نے اس بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا کہ پہلی صدی ہجری میں حدیث کا تحریری ذخیرہ نہ ہونے کے برابر تھا اور دوسری و تیسری صدی ہجری میں اچانک احادیث کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ آئیے، اس دعوے پر غور کرتے ہیں:

چند غور طلب حقائق

1. ہمام بن منبہ اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

طلوع اسلام کا یہ دعویٰ کہ امام ہمام بن منبہ رحمہ اللہ نے صرف 138 حدیثیں جمع کیں، درست نہیں ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے 12 ہجری سے پہلے احادیث لکھنا شروع کیں اور انہیں 500 (پانچ سو) احادیث مل گئیں۔ غور کیجیے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ، ہمام بن منبہ رحمہ اللہ سے 47 سال پہلے احادیث کی جمع و تدوین کا کام کر رہے تھے، اور انہیں چار گنا زیادہ احادیث دستیاب تھیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلی صدی ہجری میں احادیث کی تحریری شکل میں کافی مواد موجود تھا۔ طلوع اسلام نے بھی مقام حدیث میں کئی مقامات پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ان 500 احادیث کا ذکر کیا ہے، اور یہ تسلیم کیا ہے کہ عہد نبوی میں حدیث کی کتابت ہو رہی تھی۔ اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایک ہزار (1000) احادیث پر مشتمل صحیفہ صادقہ مرتب کیا تھا۔

2. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات

طلوع اسلام کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد ہزاروں میں ہے، لیکن ان کے شاگرد ہمام بن منبہ رحمہ اللہ کے مجموعہ میں صرف 138 حدیثیں ہیں۔ یہ اعتراض دراصل غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اگر امام ہمام رحمہ اللہ نے یہ دعویٰ کیا ہوتا کہ انہوں نے اپنے استاد کی تمام احادیث کو جمع کر لیا ہے، تو یہ اعتراض بجا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ امام ہمام رحمہ اللہ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ یہ 138 حدیثیں ان کے استاد کی تمام روایات کا احاطہ کرتی ہیں۔

  • ہمام بن منبہ رحمہ اللہ نے صرف قولی احادیث کو اپنے مجموعہ میں شامل کیا، جبکہ فعلی اور تقریری احادیث شامل نہیں کیں۔
  • آج بھی بہت سے علماء احادیث کے منتخب مجموعے مرتب کرتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان کا علم یا ان کے استادوں کا علم صرف ان احادیث تک محدود ہے۔

3. تحریری ذخیرے کا فقدان

طلوع اسلام کا یہ نتیجہ کہ "پہلی صدی ہجری کے آخر تک 138 احادیث کے علاوہ کوئی اور تحریری ذخیرہ نہیں ملتا”، جھوٹ پر مبنی ہے۔ کیونکہ اسی کتاب "مقام حدیث” کے صفحہ 10 پر طلوع اسلام نے خود ہی ان تحریری ذخائر کا ذکر کیا ہے جو دور نبوی میں ہی موجود تھے۔ ہم نے بھی کتابت حدیث کے باب میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلی صدی ہجری میں احادیث کا تحریری ذخیرہ موجود تھا، اور یہ دعویٰ کہ تیسری صدی ہجری میں اچانک احادیث کی تعداد میں اضافہ ہوا، حقیقت سے دور ہے۔

خلاصہ:

اس مضمون میں "طلوع اسلام” تحریک کی جانب سے احادیث کی صداقت اور جمع و تدوین پر کیے گئے اعتراضات کا رد کیا گیا ہے۔ تحریک کا دعویٰ ہے کہ امام بخاری اور دیگر محدثین نے احادیث کو اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر قبول یا رد کیا۔ تاہم، مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے کیونکہ محدثین نے احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے روایت (نقل) اور درایت (فہم) کے اصولوں کا سختی سے اطلاق کیا، جن کی بنیاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رکھی تھی۔

اہم نکات:

  • امام بخاری رحمہ اللہ جیسے محدثین پر یہ الزام کہ انہوں نے اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر احادیث کو قبول کیا، بے بنیاد ہے۔ انہوں نے احادیث کی صداقت کو جانچنے کے لیے سخت معیارات اپنائے۔
  • ہزاروں احادیث کے ضائع ہونے کا دعویٰ بھی مسترد کیا گیا ہے۔ امام بخاری نے بہت سی احادیث کو صحیح بخاری میں شامل نہیں کیا، لیکن اس کی وجہ ان کا غلط ہونا نہیں تھا، بلکہ وہ ان کی شرائط پر پوری نہیں اترتی تھیں یا مکررات تھیں۔
  • ہمام بن منبہ کی 138 احادیث جمع کرنے پر اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی تمام احادیث ہیں۔ مزید برآں، عہد نبوی میں دیگر تحریری مجموعے بھی موجود تھے، جیسے صحیفہ صادقہ جسے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مرتب کیا۔
  • احادیث کی تعداد میں اضافے کو مختلف اسناد (روایت کے طریقے) اور راویوں کے فرق کی وجہ سے سمجھایا گیا ہے، نہ کہ نئے مواد کی وجہ سے۔
  • طلوع اسلام کا یہ موقف کہ صرف وہی سنت مانی جائے جو ان کی قرآنی تشریح سے مطابقت رکھتی ہو، تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ مضمون میں یہ مؤقف ہے کہ جب کوئی حدیث مکمل تحقیق کے بعد صحیح ثابت ہو جائے، تو اسے رد کرنا کفر کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا انکار ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے