ڈاکٹر اشرف جلالی (بریلوی) اور ضعیف روایت
ماخوذ: ماہنامہ الحدیث، حضرو، تحریر: نوید شوکت

ڈاکٹر اشرف جلالی (بریلوی) اور ضعیف روایت

ڈاکٹر اشرف جلالی صاحب جو کہ کئی سالوں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں ”عقیدہ توحید سمینار“ کے نام سے مختلف پروگرام کر رہے ہیں اور جو بریلوی حضرات شرک و بدعات کرتے ہیں اسے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، شرک و بدعات کے جواز کے لئے ضعیف و موضوع روایات، غیر ثابت اور جھوٹے واقعات بیان کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنے کے بارے میں ایک روایت پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنا جائز ہے اور کہا: یہ عقیدہ تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی تھا، تابعین کا بھی تھا اور تبع تابعین کا بھی تھا۔ یہ عقیدہ ساری صدیوں میں موجود رہا ہے اور آج بھی اس عقیدے پر امت مسلمہ موجود ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کے فرامین اور امت کا عمل پریکٹیکل پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو واضح ہو کہ اہل سنت (یعنی اہل بدعت) کھوکھلی بنیادوں والا مذہب نہیں ہے۔ ایک اور بیان میں جلالی صاحب نے کہا: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اٹھارہ (18ھ) ہجری کو جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا تو اس وقت صحابہ کا عقیدہ کیا تھا؟“
اس کے لئے انہوں نے البدایہ والنہایہ سے روایت پیش کی اور کہا: "پوری سند کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور چونکہ ان کے امام نے بھی کہا ہے کہ یہ بالکل صحیح الاسناد ہے۔ اور کہا: کسی کو بہانے کی گنجائش نہیں دیں گے اور اگر کسی کا بہانہ ہوا بھی تو آخری سانس تک اس سند کو پاور فل (POWERFUL) ثابت کریں گے۔“
ایک بیان میں انہوں نے اس روایت کو ابن ابی شیبہ کے حوالے سے پیش کیا اور کہا: حافظ ابن حجر نے اس کو فتح الباری میں صحیح قرار دیا ہے۔
مالک الدار کہتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط پڑا، پس ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف آیا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! اپنی امت کے لئے بارش طلب کیجئے پس بیشک وہ ہلاک ہو رہے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )اس کے خواب میں آئے اور کہا: عمر کے پاس جا اور اس کو میرا سلام کہنا اور خبر دینا کہ بارش ہوگی اور عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا کہ دانائی لازم پکڑو۔ پس آدمی آیا اور خبر دی عمر کو تو انہوں نے کہا: اے میرے رب! میں کمی نہیں کروں گا مگر جس سے میں عاجز آ گیا۔ ” (انتہی کلام الجلالی البریلوی)
یہ روایت مختلف کتابوں میں موجود ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1) محدث بیہقی نے اس کو دلائل النبوۃ میں نقل کیا:
«أخبرنا أبو نصر بن قتادة و أبو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر ابن مطر: حدثنا إبراهيم بن على الذهلي: حدثنا يحيى بن يحيى: حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبى صالح عن مالك قال ۔ ۔ إلخ» (جلد 7)
اور یہی سند حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں بحوالہ بیہقی درج کی ہے۔ (ج 7 ص 89)
(2)مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی سند اس طرح ہے: حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبى صالح عن مالك الدار قال … إلخ (ج 7 ص 482)
(3 )فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے اسی روایت کو ذکر کیا۔
حافظ ابو یعلی الخلیلی نے اسے اس طرح روایت کیا ہے: «حدثنا محمد بن الحسن بن الفتح: حدثنا عبد الله بن محمد البغوي: حدثنا أبو خيثمة: حدثنا محمد بن خازم الضرير: حدثنا الأعمش عن أبى صالح عن مالك» الدار (الارشاد ج 1 ص 313)
اس کی تمام سندوں میں ایک راوی ہیں جن کا نام ہے سلیمان بن مہران الأعمش اور وہ مشہور مدلس ہیں، اس روایت کی کسی بھی سند میں ان کی تصریح بالسماع نہیں، اور امام اعمش کو بہت سے علماء نے مدلس قرار دیا ہے۔
(1)انہیں ان کے شاگرد امام شعبہ نے مدلس قرار دیا۔ (دیکھئے جزء مسئلة التسمية لمحمد بن طاہر المقدسی ص 47 وسندہ صحیح)
(2)اعمش کو ان کے شاگرد ابو معاویہ نے بھی مدلس قرار دیا۔ (التاریخ الکبیر 1/74 وسندہ صحیح)
(3)ابوزرعہ الرازی نے فرمایا: ”الأعمش ربما دلس“ اعمش بعض اوقات تدلیس کرتے تھے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم ج 1 ص 14، رقم 9)
(4)ابو حاتم الرازی نے بھی انہیں مدلس قرار دیا۔ (علل الحدیث: 2119، الجرح والتعدیل 8/179)
(5)امام عثمان بن سعید الدارمی نے انہیں تدلیس التسویہ کا مرتکب قرار دیا۔ (تاریخ الدارمی: 952)
(6)امام بخاری نے اعمش کی ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا۔
(التاريخ الاوسط 2/801 ح 550، التشکیل 1/51)
(7)علامہ نووی نے کہا: ”والأعمش مدلس ۔۔ إلخ“ اور اعمش مدلس تھے۔ (شرح صحیح مسلم ج 1 ص 72 ح 109)
(8)عینی حنفی نے بھی اعمش کو مدلس قرار دیا۔ (عمدۃ القاری 2/435 تحت ح 1160)
اس کے علاوہ بھی کئی علماء نے امام اعمش کو مدلس قرار دیا ہے اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک تصریح بالسماع نہ کرے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: "فقلنا: لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول فيه حدثني أو سمعت“ پس ہم نے کہا: ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے حتی کہ وہ حدثنی یا سمعت کہے۔ (کتاب الرسالہ: 1035)
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: ”فما لم يقل المدلس و إن كان ثقة حدثني أو سمعت فلا يجوز الاحتجاج بخبره، و هذا أصل أبى عبد الله محمد بن إدريس الشافعي رحمه الله و من تبعه من شيوخنا“
پس جب تک مدلس اگر ثقہ ہو، حدثنی یا سمعت نہ کہے تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں اور یہ ابو عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کی اصل ہے اور ہمارے اساتذہ کا اصول ہے جنہوں نے اس میں ان کی اتباع (یعنی موافقت) کی ہے۔ (کتاب المجروحین ج 1 ص 92)
اعمش اپنے نزدیک غیر ثقہ راوی سے بھی تدلیس کرتے تھے۔ (دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی 1/301 نسخه اخری 1/322 نسخۃ جدیدہ 2/148، وسندہ حسن لذاتہ)
جو راوی ضعیف راویوں سے تدلیس کرے تو اس کی معنعن روایت مردود ہوتی ہے۔ (الموقظة للذہبی ص 132، المعنعن)
کئی علماء جو اس فن کے ماہر تھے، انہوں نے بھی ”الأعمش عن ابی صالح“ کی سند سے روایات کو اعمش کی تدلیس کی وجہ سے رد کر دیا ہے۔ مثلاً:
(1)امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
"حديث الأعمش عن أبى صالح الإمام ضامن، لا أراه سمعه من أبى صالح” اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث، میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔ (تقدمة الجرح والتعدیل ص 82)
(2)حاکم نیشاپوری نے ایک حدیث کے بارے میں کہا: ”لم يسمع هذا الحديث الأعمش من أبى صالح” اعمش نے ابو صالح سے یہ حدیث نہیں سنی۔ (معرفة علوم الحدیث ص 35)
(3)بیہقی نے فرمایا: ””و هذا الحديث لم يسمعه الأعمش باليقين من أبي صالح ۔۔ إلخ“ اور یہ حدیث اعمش نے یقیناً ابو صالح سے نہیں سنی … الخ (السنن الکبری ج 1 ص 430)
(4)امام دارقطنی نے الأعمش عن ابی صالح والی ایک روایت کے بارے میں کہا:
”و لعل الأعمش دلسه عن حبيب و أظهر اسمه مرة والله أعلم“
اور شاید اعمش نے حبیب سے تدلیس کی اور ایک دفعہ اس کا نام ظاہر کر دیا۔ واللہ اعلم (العلل الواردة ج 10 ص 95)
اس سے پتا چلا کہ حافظ ابن حجر اور حافظ ابن کثیر کا اس روایت کو صحیح کہنا اصول حدیث کی رو سے درست نہیں بلکہ اصولِ محدثین کی رو سے یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے اور جب تک امام الأعمش کی تصریح بالسماع نہیں مل جاتی اس وقت تک یہ روایت ضعیف ہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ ہم اس سند کو پاور فل ثابت کریں گے (!) اس پر زور لگانا بے سود ہے جب تک اس روایت میں تصریح بالسماع ثابت نہ کر دی جائے۔ ڈاکٹر صاحب اور فرقہ بریلویہ سے گزارش ہے کہ اگر ان کو یہ مضمون پہنچے تو وہ اس کو پڑھ کر اس پر جو اعتراض کیا گیا ہے اس کا جواب اصولِ حدیث کی رو سے دیں۔
یہ تو محدثین کی گواہیاں تھیں، آخر میں ہم ”ڈاکٹر “صاحب کے گھر سے بھی ایک گواہی دے دیتے ہیں، محمد عباس رضوی صاحب نے ایک روایت کو جو الأعمش عن ابي صالح … الخ کی سند سے تھی اس کے بارے میں کہا: "اور چونکہ اس سند میں بھی امام اعمش رحمہ اللہ علیہ نے عن سے روایت کی وہ چونکہ مدلس ہیں لہذا یہ روایت ناقابل قبول ہے۔ (واللہ آپ زندہ ہیں ص 354)
اس روایت میں جو علت ہے وہی علت مالک الدار والی روایت میں بھی ہے اور اگر یہ ضعیف ہے تو وہ صحیح کیسے ہو گئی؟ اس کے علاوہ الارشاد والی سند میں ایک اور راوی محمد بن الحسن بن الفتح ہے جو کہ مجہول الحال ہے اس کے حالات کہیں نہیں ملے، لہذا ابو معاویہ (مدلس) کی تصریح سماع میں بھی نظر ہے۔ تو ایسی ضعیف اور غیر ثابت روایتیں پیش کر کے عوام کو دھوکہ دینا اور ان کو یہ باور کرانا کہ صحابہ کا بھی یہی عقیدہ تھا، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر الزام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تقریروں میں اس طرح کی بہت سی روایات پائی جاتی ہیں کیونکہ بریلویت کی گاڑی چلتی ہی ضعیف اور مردود روایات کے سہارے پر ہے۔
اگر بالفرض یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو پھر بھی ”ڈاکٹر “ صاحب کو یہ مفید نہیں تھی کیونکہ بریلوی حضرات کا یہ باطل قاعدہ ہے کہ عقائد میں اخبار آحاد صحیح بھی حجت نہیں، جیسا کہ بریلویت کے بانی احمد رضا خان صاحب نے لکھا ہے:
عقائد میں حدیث آحاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں۔ (فتاوی رضویہ ج 5 ص 477)
اگر صحیح روایت خبر واحد عقیدے میں حجت نہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب ضعیف روایات کے ذریعے سے اپنے باطل عقائد کو ثابت کرنے کے لئے کیوں دن رات کوشش کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح روایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1