پنجتن پاک کا تصور
اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کی روشنی میں تحقیقی جائزہ
سوال:
زید نامی ایک شخص، جو مذہباً شیعہ ہے، کہتا ہے کہ ’’پنجتن پاک‘‘ یعنی حضرت محمد ﷺ، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم ہی پاک ہیں اور ان کے سوا کوئی دوسرا پاک نہیں۔ جبکہ اہل سنت والجماعت کے بعض افراد اس دعوے کے جواب میں خلفائے راشدین کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کی بات کرتے ہیں۔
کیا اہل سنت والجماعت، خصوصاً فقہ حنفی میں، ’’پنجتن پاک‘‘ کا تصور پایا جاتا ہے؟
اور اگر نہیں، تو اس کا واضح اور مدلل جواب کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
1. پنجتن پاک کا مفہوم اور رافضی عقیدہ
زید (جو شیعہ مذہب کا پیروکار ہے) اگر یہ کہتا ہے کہ پنجتن پاک یعنی حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم انبیا کی طرح معصوم عن الخطاء ہیں، تو یہ دعویٰ صریحاً باطل ہے۔
اس کا نہ قرآن سے ثبوت ہے نہ کسی صحیح حدیث سے۔
اہل سنت والجماعت، جن میں اہل حدیث، حنفی، شافعی، مالکی، اور حنبلی شامل ہیں، سب کا اجماعی عقیدہ ہے کہ:
نبوت کے علاوہ کسی بشر کی عصمت قطعی اور یقینی نہیں۔
نبی کے علاوہ کوئی بھی شخص خواہ کتنا بلند مرتبہ کیوں نہ ہو، معصوم نہیں۔
لہٰذا حضرت علی، حضرت فاطمہ، حسنین کریمین یا دیگر ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کی عصمت کا عقیدہ اہل سنت کے ہاں تسلیم شدہ نہیں۔ اسی طرح حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم بھی معصوم نہیں، اگرچہ وہ سب بلند مرتبہ، نیک، اور افضل امت ہیں۔
2. آیت تطہیر کا مفہوم اور دائرہ
شیعہ حضرات عام طور پر یہ استدلال کرتے ہیں کہ:
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجْسَ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًۭا﴾(الأحزاب: 33)
اس آیت کے ذریعے وہ صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو "اہل بیت” قرار دے کر ان کی پاکیزگی پر دلیل قائم کرتے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے۔
آیت کا اصل سیاق:
آیت 33 سے پہلے اور بعد کی تمام آیات میں خطاب ازواجِ نبی ﷺ سے ہے:
﴿يَـٰنِسَآءَ ٱلنَّبِىِّ﴾ …
﴿وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ﴾ …
﴿وَأَقِمْنَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتِينَ ٱلزَّكَوٰةَ﴾ …
یہ سب آیات نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو خطاب کر رہی ہیں، جن کے درمیان آیت تطہیر آئی ہے۔ لہٰذا اصولِ تفسیر کے مطابق "أهل البيت” سے مراد ازواجِ نبی ﷺ ہی ہوں گی۔
مفسرین کا موقف:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ: ’’یہ آیت ازواجِ مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔‘‘
عکرمہ رحمہ اللہ: ’’جو چاہے میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں کہ یہ آیت ازواجِ نبی ﷺ کے بارے میں ہے۔‘‘
3. حدیثِ کساء اور اس کا محلِ استدلال
شیعہ حضرات حدیثِ کساء (جس میں حضرت علی، حضرت فاطمہ، حسنین کو چادر میں لے کر نبی ﷺ نے دعا فرمائی) کو دلیل بناتے ہیں کہ یہی ’’اہل بیت‘‘ ہیں۔
اہل سنت کا جواب:
یہ بات درست ہے کہ حدیث کساء میں ان پانچ افراد کو "اہل بیت” کہا گیا۔
لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیت تطہیر میں بھی صرف یہی حضرات مراد ہوں۔
حدیث کساء دعا پر مشتمل ہے، جبکہ آیت تطہیر میں طہارت کے ارادہ کی بات ہے، وقوع طہارت کی نہیں۔
اگر واقعی ان حضرات کی طہارت قطعی اور یقینی ہوتی، تو نبی ﷺ دعا نہ فرماتے بلکہ شکر ادا کرتے۔
4. آیت تطہیر کا ارادہ: مشیئت یا تشریع؟
اہل سنت کے مفسرین کے مطابق آیت تطہیر میں "ارادہ” سے مراد ارادہِ تشریعی ہے، نہ کہ ارادہِ تکوینی۔
یعنی:
اللہ تعالیٰ اہل بیت کو ناپاکی سے بچنے کا حکم دے رہا ہے،
یہ خبر نہیں دے رہا کہ وہ لازماً پاک ہیں۔
ورنہ قرآن کی دیگر آیات جیسے:
﴿وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ﴾
﴿يُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ﴾
ان سب میں بھی یہی لفظ "يريد” آیا ہے، لیکن ان سے یہ لازم نہیں آتا کہ مخاطبین ضروری طور پر پاک اور تائب ہو چکے ہیں۔
5. "پنجتن پاک” کی اصطلاح کا ماخذ اور حکم
اہل سنت والجماعت کے نزدیک:
"پنجتن پاک” ایک رافضی اصطلاح ہے، اہل سنت کی نہیں۔
یہ اصطلاح اور اس سے جڑا ہوا نظریہ شیعہ مذہب کا شعار ہے۔
اہل سنت والجماعت میں ایسی کوئی اصطلاح یا تصور شرعی طور پر ثابت نہیں۔
ہمارے نزدیک صرف انبیاء معصوم ہوتے ہیں، غیر نبی کا معصوم ہونا ضروری نہیں۔
خلاصہ و نتیجہ
آیت تطہیر کا صحیح مفہوم ازواجِ مطہرات کے لیے ہے۔
اہل بیت کے دیگر افراد بھی اس کے دائرے میں دعا کے اعتبار سے داخل ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی عصمت پر کوئی دلیل نہیں۔
"پنجتن پاک” کی اصطلاح اہل سنت کے ہاں نہ کتاب و سنت سے ثابت ہے، نہ اجماعی عقیدہ ہے۔
اہل سنت والجماعت کے ہاں صرف نبی ﷺ کی عصمت قطعی اور واجب الاعتقاد ہے، باقی تمام صحابہ اور اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم پاکیزہ، افضل اور جلیل القدر تو ہیں، لیکن معصوم نہیں۔