سوال کا مفصل بیان
اگر ظہر کی نماز میں امام بھول کر پانچ رکعتیں پڑھا دے اور مقتدیوں کو اس بات کا علم ہو کہ یہ پانچویں رکعت ہے، مگر وہ "سبحان اللہ” نہ کہیں، اور امام پانچویں رکعت کے بعد سلام پھیر دے، پھر مقتدیوں میں سے کوئی امام کو بتائے کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں، اور امام سجدہ سہو کر لے، تو:
◈ امام سجدہ سہو کرنے کے بعد مقتدیوں سے کہے کہ:
◈ جس کو معلوم تھا کہ پانچویں رکعت ہو رہی ہے اور اس نے "سبحان اللہ” نہیں کہا، اس کی نماز باطل ہو گئی، وہ دوبارہ پڑھے۔
◈ جس نے نماز کے بعد سجدہ سہو سے پہلے بات کی، اس کی نماز بھی باطل ہے، وہ بھی نماز دہرائے۔
◈ امام کی دلیل یہ ہو کہ:
◈ جس کو علم تھا کہ پانچویں رکعت ہو رہی ہے اور اس نے کچھ نہ کہا، تو یہ گویا جان بوجھ کر پانچ رکعت پڑھوانا ہے، لہٰذا وہ مجرم ہے۔
◈ جس نے نماز کے بعد زبان سے بات کی، وہ اس لیے مجرم ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اَلتَّسْبِيْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيْقُ لِلنِّسَائِ”
لہٰذا مرد کو "سبحان اللہ” کہنا چاہیے تھا، چاہے نماز کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ زبان سے بات کرنے کی وجہ سے اس کی نماز باطل ہو گئی۔
سائل کا کہنا یہ ہے کہ:
◈ امام صاحب فرما رہے ہیں کہ ان دونوں کو نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔
◈ مگر سائل کی رائے ہے کہ نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی ظہر کی پانچ رکعتیں ہو گئی تھیں، تو صرف سجدہ سہو کیا گیا تھا، نماز دوبارہ نہیں پڑھی گئی تھی۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا مؤقف بالکل درست ہے کیونکہ یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھ لیں، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز کے بعد عرض کیا کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے سجدہ سہو کیا، لیکن کسی کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
لہٰذا:
◈ جو شخص نماز کے دوران خاموش رہا، اس کی نماز درست ہے، کیونکہ اس نے جان بوجھ کر کوئی غلطی نہیں کی۔
◈ جس نے نماز کے بعد بات کی، اس کی نماز بھی باطل نہیں ہوئی کیونکہ وہ نماز ختم ہونے کے بعد بات کر رہا تھا، اور نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا تھا، لیکن نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا گیا۔
"ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب”