اولیاء اللہ کی متعدد خصوصیات ہیں۔ ذیل میں ہم ان کو اختصار سے ذکر کرتے ہیں۔
1 : اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ کے دوستوں کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اتباع رسول کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
(3-آل عمران:31، 32)
” کہہ دیجیے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو ، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کا فروں سے محبت نہیں رکھتا۔ “
پس ثابت ہوا کہ ابتاع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا۔
2 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
اولیاء اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر چیز و فرد و بشر سے بڑھ کر محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(3-آل عمران:31، 32)
” کہہ دیجیے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو ، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ “
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
(9-التوبة:24)
” آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں تمہارے کنبے قبیلے، تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کے مندہ پڑنے سے تم ڈرتے ہواور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہوا اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو تم اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔ اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
عبد الرحمن بن ناصر السعد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ:
” یہ آیت کریمہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت فرض ، اور دیگر تمام اشیاء کی محبت پر مقدم ہے۔ “
3 : نفلی و فرضی روزوں کا اہتمام
دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ یہ اللہ کے لیے فرضی اور نفلی روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٨٣﴾ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
(2-البقرة:183,184)
”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گیے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گیے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ گنتی کے چند ہی دن ہیں، لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرلے، اور اس کی طاقت نہ رکھنے والے، فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں۔ پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اس کے لیے بہتر ہے، لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باخبر ہو۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان فرماتے ہوئے ان پر روزے فرض کیے جس طرح اس نے پہلی امتوں پر روزے فرض کیسے تھے کیونکہ روزے کا تعلق ایسی شرائع اور اوامر سے ہے جو ہر زمانے میں مخلوق کی بھلائی پر مبنی ہیں۔ نیز روزے اس اُمت کو اس جرات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اعمال کی تکمیل اور خصائل حسنہ کی طرف سبقت کرنے میں دوسرے لوگوں سے مقابلہ کریں، نیز روزے بوجھل اعمال میں سے نہیں ہیں جن کا صرف تمہیں ہی بطورِ خاص حکم دیا گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روزے کی مشروعیت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ”تا کہ تم متقی بن جاؤ“ کیونکہ روزہ تقویٰ کا سب سے بڑا سبب ہے۔
اس لیے روزے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی کامل اطاعت اور اسی کی نہی سے مکمل اجتناب ہے، پس یہ آیت کریمہ تقویٰ کے جن امور پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں کہ روزہ دار کھانا پینا، اور جماع وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جنہیں وقتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حرام قرار دیا ہے، اور جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے لیکن وہ صرف تقرب الہی اور ثواب کی امید پر ان چیزوں کو ترک کر دیتا ہے، اور یہی تقویٰ ہے۔
روزے دار اپنے نفس کو یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہے چنانچہ وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں ترک کر دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ان پر مطلع ہے۔
روزہ شیطان کی راہوں کو تنگ کر دیتا ہے ، شیطان ابن آدم کے اندر یوں گردش کرتا ہے جیسے اس کی رگوں میں خون گردش کرتا ہے روزے کے ذریعے سے شیطان کا اثر و نفوذ کمزور پڑ جاتا ہے اور گناہ کم ہو جاتے ہیں۔ غالب حالات میں روزہ دار کی نیکیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور نیکیاں تقویٰ کے خصائل میں شمار ہوتی ہیں۔ جب خوش حال روزہ دار بھوک کی تکلیف کا مزا چکھ لیتا ہے تو یہ چیز محتاجوں ، ناداروں کی غمگساری اور دست گیری کی موجب بنتی ہے، اور یہ بھی تقوی کی ایک خصلت ہے ۔ “
(تفسیر السعدی: 1/ 226، 227)
4 : صدقہ و خیرات کرنا
تیسری خصوصیت صدقہ و خیرات کرنا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ ﴿٢٦٣﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
(2-البقرة:263، 264)
”نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو، اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور بردباد ہے۔اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے، اور نہ اللہ تعالیٰ پر نہ قیامت پر ایمان رکھے ، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو ، پھر اس پر زور دار مینہ برسے، اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔ ان ریا کاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی ۔ اور اللہ تعالیٰ کا فروں کی قوم کوسیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ “
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ
(57-الحديد:18)
”صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جنھوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا۔ ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا، اور ان کے لیے باعزت اجر ہے۔ “
نیز ارشاد فرمایا:
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
(2-البقرة:177)
”ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ ، قیامت کے دن ، فرشتوں ، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو اور جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وہ وعدہ کرے تب اسے پورا کرے تنگدستی ، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پر ہیز گار ہیں۔“
وہ اللہ تعالیٰ کے لیے غربا کو اپنے مال میں سے زکوۃ دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿٥٤﴾ وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا
(19-مريم:54، 55)
” اس کتاب میں اسماعیل کا واقعہ بھی بیان کرو، وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا، اور وہ رسول اور نبی تھا، وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا، اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں بھی پسندیدہ اور مقبول تھا۔ “
5 : استغفار
چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے ہمہ وقت استغفار کرتے رہتے ہیں، قرآن میں ہے:
سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
(57-الحديد:21)
” (آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف، جس کی وسعت آسمان وزمین کی وسعت کے برابر ہے، یہ ان کے لیے بنائی گئی جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “
قرآن میں سیدنا آدم علیہ السلام کے استغفار کے کلمات یوں مذکور ہیں:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
(7-الأعراف:23)
” دونوں نے کہا: اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ “
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الشيطان قال: وعزتك يا رب لا أبرح أغوي عبادك ما دامت أرواحهم فى أجسادهم . قال الرب ! وعزتى وجلالي لا أزال أغفر لهم ما استغفروني
مسند احمد: 29/3 – صحيح الجامع الصغير، رقم: 1650 ـ سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: 104.
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ شیطان نے کہا تھا: اے پروردگار ! تیری عزت کی قسم ! میں تیرے بندوں کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں اُن کے جسموں میں رہیں گی، تو رب تعالیٰ نے فرمایا: مجھے میری عزت و جلال کی قسم ! میں ان کو مسلسل بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے۔“
6 : اللہ کا ذکر کرنا
پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں محو رہتے ہیں۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
(8-الأنفال:2تا4)
”بس ایمان والے وہی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیتیں اُن کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ (آیتیں) ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں، اور وہ لوگ اپنے رب پر تو کل کرتے ہیں۔ جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں، اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس، اور مغفرت اور باعزت رزق ہے۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں منافقوں کے دل میں نہ فریضے کی ادائیگی کے وقت ذکر اللہ ہوتا ہے نہ کسی اور وقت پر ، نہ ان کے دلوں پر ایمان کا نور ہوتا ہے ، نہ اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے، نہ تنہائی میں نمازی رہتے ہیں، نہ اپنے مال کی زکوۃ دیتے ہیں ، ایسے لوگ ایمان سے خالی ہوتے ہیں لیکن ایمان داران کے برعکس ہوتے ہیں، ان کے دل یادِ خالق سے کپکپاتے رہتے ہیں۔ فرائض ادا کرتے ہیں، آیات الہی سن کر ان کے ایمان چمک اُٹھتے ہیں ، تصدیق میں بڑھ جاتے ہیں، رب کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے ، اللہ کی یاد سے تھر تھراتے رہتے ہیں ، اللہ کا ڈران میں سمایا ہوا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ تو حکم کا خلاف کرتے ہیں، اور نہ منع کیے ہوئے کام کو کرتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہا گر ان سے کوئی بُرائی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو یاد الہ کرتے ہیں ، پھر اپنے گناہ سے استغفار کرتے ہیں ،حقیقت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی گناہوں کا بخشنے والا بھی نہیں، یہ لوگ باوجود علم کے کسی گناہ پر اصرار نہیں کرتے ۔“
(تفسیر ابن کثیر : 457/2)
7 : تو بہ کرنا
اللہ کے دوستوں کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
(2-البقرة:222)
”بے شک اللہ تو بہ کرنے والوں، اور صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا
(19-مريم:60)
”سوائے ان کے جو تو بہ کر لیں، اور ایمان لائیں، اور نیک عمل کریں۔ اور ایسے لوگ جنت میں جائیں گے، اور ان کی ذراسی بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔“
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : التائب من الذنب كمن لا ذنب له
سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذكر التوبه ، رقم : 4250۔ علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے اسے "حسن” کہا ہے۔
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گناہوں سے تو بہ کرنے والا اس طرح ہو جاتا ہے گویا اس کے ذمے کوئی گناہ نہیں۔ “
8 : رجوع الی اللہ
ان کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرتے ہی۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
(51-الذاريات:50)
” پس تم اللہ کی طرف دوڑو، یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف ڈرانے والا ہوں۔ “
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
(73-المزمل:8)
”اور تو اپنے رب کے نام کا ذکر کر اور تمام مخلوق سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہو جا۔“
نیز فرمایا:
مزید فرمایا:
وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب
(94-الشرح:8)
”اور اپنے رب کی طرف رغبت کرو۔ “
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
(42-الشورى:13)
”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا، اور جو ( بذریعہ وحی ) ہم نے تیری طرف بھیج دیا ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم موسیٰ اور عیسی کو دیا تھا کہ اس کو قائم رکھنا، اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے، اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہ نمائی کرتا ہے۔ “
9 : اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا
اللہ تعالیٰ کے دوستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں۔
اس امر کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
(5-المائدة:11)
”اے ایمان والو! اللہ نے جو احسان تم پر کیا ہے، اسے یاد کرو جب کہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا ، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔“
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه أخبره أنه غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل نجد فلما قفل رسول الله صلى الله عليه وسلم قفل معه فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم وتفرق الناس فى العضاء يستظلون بالشجر ونزل رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت سمرة فعلق بها سيفه قال جابر فنمنا نومة فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعونا فجئناه فإذا عنده أعرابي جالس . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن هذا اخترط سيفي وأنا نائم فاستيقظت وهو فى يده صلنا فقال لي! من يمنعك مني؟ قلت الله فها هو جالس ثم لم يعاقبه رسول الله صلى الله عليه وسلم
صحیح بخاری ، رقم : 4135، صحيح مسلم، رقم : 843.
” سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اُترے، لوگ ادھر اُدھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اُتار کر ایک درخت پر لٹکا دیے ، ایک اعرابی نے آکر آپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہو گیا، اور کہنے لگا: اب بتا کہ مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فوراً جواب دیا کہ اللہ عز وجل ، اس نے پھر یہی سوال کیا اور آپ نے پھر یہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ کے جواب کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آواز دی اور جب وہ آگئے تو ان سے سارا واقعہ سنایا ، اعرابی اس وقت بھی موجود تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی بدلا نہ لیا۔ “
مزید ارشاد فرمایا:
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
(12-يوسف:67)
”حکم تو صرف اس کا چلتا ہے میں اس پر بھروسہ کرتا ہوں، اور بھروسہ کرنے والوں کواس پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: انِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ”حکم تو اللہ ہی کا ہے“ یعنی فیصلہ وہی ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے، اور حکم وہی ہے جو اس کا حکم ہے، پس جس چیز کا فیصلہ اللہ تعالی کر دے وہ ضرور واقع ہوتا ہے۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ”اس پر میرا بھروسہ ہے“ یعنی جن اسباب کو اختیار کرنے کی میں نے تمہیں وصیت کی ہے ، میں اس پر بھروسہ نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ وَ عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ ” اور اسی پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔“ کیونکہ تو کل ہی کے ذریعے سے ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوتا ہے اور تو کل ہی کے ذریعے سے ہر خوف کو دور کیا جاتا ہے ۔
(تفسیر السعدی : 2/ 1270)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
(16-النحل:99)
”اس (شیطان) کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے ، اور اپنے رب پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہیں۔“
10 : خوف الہی رکھنا
اللہ والوں کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے قلوب پر خوف الہی طاری رہتا ہے۔ اللہ کے خوف کی وجہ سے ان کے بدن کپکپاتے ہیں۔ اس امر کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
(3-آل عمران:133)
” اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف، اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر ) ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ “
ایک مقام پر فرمایا:
إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(3-آل عمران:175)
”یہ خبر دینے والا صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مومن ہو۔“
11 : صبر تحمل
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
من أذهبت حبيبتيه فصبر واحتسب لم أرض له ثوابا دون الجنة
سنن ترمذی، کتاب الزهد، ، رقم: 2401 – علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”میں جس کی دونوں آنکھیں لے لوں پھر وہ ثواب کی نیت سے صبر کر لے تو میں اُس کے لیے جنت سے کم کسی ثواب پر راضی نہیں ہوں گا ۔ “
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ
(3-آل عمران:146)
کتنے ہی نبی گزر چکے ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا۔ان کو اللہ کی راہ میں جو مصائب در پیش ہوئے ان میں نہ انھوں نے ہمت ہاری ، نہ کمزوری دکھائی اور نہ سرنگوں ہوئے ، ایسے ہی ثابت قدم رہنے والوں اور صبر کرنے والوں کو اللہ پسند کرتے ہیں ۔“
12 : عمل صالح کرنا
اللہ تعالیٰ کے دوستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اعمال صالحہ بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(2-البقرة:82)
”اور جو لوگ ایمان لائے ، اور انہوں نے نیک کام کیے وہ جنت والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “
عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
وَالَّذِينَ آمَنُوا یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالٰی ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّلِحت اور اعمال صالحہ کیے، اور اعمال مندرجہ ذیل دو شرائط کے بغیر اعمال صالحہ کے زمرے میں نہیں آتے:
❀ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوں ۔
”ان آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ نجات اور فوز وفلاح کے مستحق صرف نیک کام کرنے والے اہل ایمان ہیں ، اور ہلاک ہونے ولے جہنمی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں ۔ “
(تفسير السعدي)
13 : اللہ کی یاد سے غافل نہ رہنا
ارشاد باری تعالی ہے:
إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا
(18-الكهف:24)
”اور اپنے رب کو یاد کر لیتا جب تم بھول جاؤ، اور کہو امید ہے کہ میرا رب مجھے نیکی کا اس سے قریب تر راستہ دکھائے گا۔ “
14 : اگر غافل ہو گئے تو
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
(63-المنافقون:9)
”اے مسلمانو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں۔ اور جو ایسا کریں وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“
فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس میں نفع ، فوز وفلاح اور بے شمار بھلائیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال اور اولاد کی محبت میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہونے سے روکا ہے کیونکہ مال اور اولاد کی محبت اکثر نفوس کی جبلت ہے ، اسی لیے وہ مال اور اولاد کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بہت بڑا خسارہ ہے، اس لیے فرمایا: وَمَنْ يَفْعَلُ ذلِكَ ”جسے اس کے مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کر دیتے ہیں“ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ ”تو وہی لوگ خسارہ اُٹھانے والے ہیں۔“ ابدی سعادت اور ہمیشہ رہنے والی نعمت کے بارے میں خسارے میں رہنے والے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ رہنے والی چیز پر فانی چیز کو ترجیح دی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ
(64-التغابن:15)
” بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں، اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔ “
15 : امر بالمعروف و نہی عن المنکر
اللہ کے دوستوں کی چودہویں خصوصیت یہ ہے کہ یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(3-آل عمران:104)
” اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہیے جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں، اچھے کاموں کا حکم دیتے رہیں، اور بُرے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ مراد اور فلاح پانے والے ہیں۔“
16 : موت کو یاد کرنا اور آخرت کی فکر کرنا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
(3-آل عمران:143)
”اس سے پہلے تو تم موت کی آرزو کیا کرتے تھے کہ وہ تمہیں نصیب ہو ، سو اب تم نے اس کو خود بچشم دیکھ لیا ہے۔ “
مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
أكثروا ذكرها ذم اللذات يعني الموت
سنن ترمذی ، کتاب الزهد، رقم: 2307 – شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”لذتوں کو ختم کر دینے والی یعنی موت کا ذکر زیادہ کیا کرو۔ “
قرآنِ مجید میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(59-الحشر:18)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر آدمی دیکھ لے کہ اس نے کل (یعنی روز قیامت) کے لیے کیا تیاری کی ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔“
مذکورہ بالا آیت کریمہ ” فکر آخرت “یعنی محاسبہ نفس کے باب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
17 : نمودونمائش سے دوررہنا
اللہ تعالیٰ کے دوست نمود و نمائش سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ نمود و نمائش سے اعمالِ صالحہ باطل ہو جاتے ہیں۔ قرآن میں آتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴿٢٦٤﴾وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿٢٦٥﴾ أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
(2-البقرة:264تا266)
”اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے، اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے، نہ قیامت پر ، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے، اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔ ان ریا کاروں کو اپنی کمائی سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی ۔ اور اللہ تعالیٰ کا فروں کی قوم کو راہ نہیں دکھاتا۔ ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ پھوار جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زور دار بارش اس پر بر سے، اور وہ اپنا پھل دُگنا لا دے اور اگر اس پر بارش نہ بھی بُر سے تو پھوار ہی کافی ہے، اور اللہ تعالیٰ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ۔ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں، اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں ، اس شخص کا بڑھاپا آ گیا ہو، اس کے ننھے ننھے سے بچے بھی ہوں، اور اچانک باغ کو بگو لا آ پہنچے جس میں آگ بھی ہو، پس وہ باغ جل جائے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آیتیں بیان کرتا ہے تا کہ تم غور وفکر کرو۔“
18 : جھگڑا چھوڑ دینا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ
(23-المؤمنون:3)
”اور (وہ مؤمنین ) جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔“
عبد الرحمن السعد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
” یہاں اغو سے مراد وہ کلام ہے جس میں کوئی بھلائی اور کوئی فائدہ نہ ہو ۔ مُعْرِضُونَ ” اعراض کرنے والے ہیں“ اپنے آپ کو لغو سے پاک اور برتر رکھنے کے لیے، جب کبھی کسی لغو چیز پر سے ان کا گزر ہوتا ہے تو نہایت وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں، اور جب یہ اغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں تو حرام کاموں سے ان کا اعراض اولی واحری ہے ۔ جب بندہ بھلائی کے سوا لغویات میں اپنی زبان پر قابو پالیتا ہے تو معاملہ اس کے اختیار میں آ جاتا ہے جیسا کہ
عن معاذ بن جبل قال ألا أخبرك بملاك ذلك كله؟ قلت بلى يا نبي الله! فأخذا بلسانه قال: كف عليك هذا
جامع ترمذی ، رقم الحديث : 2616 ، سنن ابن ماجه ، رقم : 3973 ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہ آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرما رہے تھے۔ فرمایا: ” کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں آگاہ نہ کروں جس پر ان سب چیزوں کا دارو مدار ہے؟ سیدنا معاذ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا ، جی ہاں! ضرور بتائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ” اس کو اپنے قابو میں رکھو ۔ “
(تفسير السعدي، تحت لهذه الآية)
پس اہل ایمان کی صفات حمیدہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ لغو بات اور محرمات سے اپنی زبان کو رو کے رکھتے ہیں۔
19 : امانت و دیانتدار ہونا
اللہ کے دوستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ امانت و دیانت سے کام لیتے ہیں۔
ارشاد فرمایا:
وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
(2-البقرة:283)
”اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھا لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اُسے ادا کر دے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے، اور گواہی کو نہ چھپا ؤ، اور جو اُسے چھپالے وہ گہنگار دل والا ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو ا سے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ “
دوسری جگہ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٧﴾ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٢٨﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
(8-الأنفال:27تا29)
” اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول کے حقوق میں خیانت مت کرو، اور اپنی قابل حفاظت چیزوں (امانتوں) میں خیانت مت کرو، اور تم جانتے ہو۔ اور تم اس کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے، اور اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کن چیز دے گا، اور تم سے تمہارے گناہ دور کر دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ “
20 : فواحش سے دور رہنا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ بُرے اور فخش کاموں سے گریز کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
(6-الأنعام:151)
”آپ کہہ دیجیے کہ آؤ میں تم کہ وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں، اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ، خواہ وہ علانیہ ہوں، اور خواہ پوشیدہ، اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے اس کو قتل مت کرو، ہاں ! مگر حق کے ساتھ ، اس کا تم کو تا کیدی حکم دیا ہے تا کہ تم سمجھو ۔ “
نیز فرمایا:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(7-الأعراف:33)
” آپ فرمادیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فخش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں، اور ہر گناہ کی بات کو، اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ، اور اس بات کو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمے ایسی بات لگا دو جس کو تم نہیں جانتے۔ “
21 : پوشیدہ اور ظاہر گناہوں سے بچنا
ارشاد رب العالمین ہے:
وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ
(6-الأنعام:120)
” اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو ۔ بلاشبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو اُن کے کیے کی عنقریب سزا ملے گی۔“
عبد الرحمن السعد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”یہاں اثم سے مراد تمام معاصی ہیں جو بندے کو گناہ گار کرتے ہیں یعنی اسے ان اُمور کے بارے میں گناہ اور حرج میں مبتلا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق سے متعلق ہوتے ہیں، پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ظاہری اور باطنی گناہوں کے ارتکاب سے منع کیا ہے یعنی چھپ کر یا علانیہ ان تمام گناہوں سے روکا ہے جو بدن ، جوارح اور قلب سے متعلق ہیں۔ بندہ ظاہری اور باطنی گناہوں کو اس وقت تک کامل طور پر ترک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ بحث و تحقیق کے بعد ان کی معرفت حاصل نہیں کر لیتا، بنا بریں گناہوں کے بارے میں بحث و تحقیق کرنا قلب و جوارح کے گناہوں کی معرفت اور ان کے بارے میں علم حاصل کرنا مکلف پر حتمی طور پر فرض ہے، اور بہت سے لوگوں پر ان کے گناہ مخفی رہتے ہیں ، خاص طور پر قلب کے گناہ چھپے رہتے ہیں، مثلاً تکبر، خود پسندی اور ریا وغیرہ۔ یہاں تک کہ بندہ ان میں سے بہت سے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے مگر اسے اس کا احساس اور شعور تک نہیں ہوتا، اور یہ علم سے اعراض اور عدم بصیرت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ جو لوگ ظاہری اور باطنی گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے اکتساب کے مطابق اور ان کے گناہوں کی قلت و کثرت کے اعتبار سے ان کو سزا دی جائے گی، اور یہ سزا آخرت میں ملے گی، کبھی کبھی بندے کو دنیا میں سزا دے دی جاتی ہے،اس طرح اس کی برائیوں اور گناہوں میں تخفیف ہو جاتی ہے۔“
(تفسير السعدى : 816/1 )
22 : اللہ کی رضا کا متلاشی رہنا
اللہ کے دوست اپنے رب کی رضا جوئی کے طلب گار رہتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
(2-البقرة:207)
”لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان تک بیچ ڈالتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بڑا مہربان ہے۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من التمس رضاء الله بسخط الناس كفاه الله مونة الناس ، ومن التمس رضاء الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس
سنن ترمذی، کتاب الزهد، باب منه عاقبته من التمس رضا الناس سخط الله ومن عكسه ، رقم: 2414 ـ سلسلة الأحاديث الصحيحة ، رقم: 2414 .
جس نے لوگوں کو ناراض کر کے اللہ کی رضا جوئی حاصل کی ، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی تکالیف سے کافی ہو جاتا ہے، اور جس نے اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو خوش کرنا چاہا، اسے اللہ تعالیٰ لوگوں کے سپر د کر دیتا ہے۔“
23 : خیر خواہی اور بھلائی کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الدين النصيحة ، قلنا : لمن؟ قال: لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين عامتهم
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بيان ان الدين النصيحه ، رقم: 95 .
”دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے ( دین خلوص کا نام ہے )۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من آتى إليكم معروفا فكافتوه
سنن ابو داؤد ، کتاب الأدب، رقم: 5109 ـ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” جو تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے تم بھی اُسے اس کا بدلہ دو “
24 : شکر گزار ہونا
اللہ کے دوست اپنے رب کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
(2-البقرة:152)
” تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میر ا شکر کرو اور ناشکری مت کرو۔ “
عبد الرحمن السعد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَاذْكُرُونِي اذْكُرُكُمْ ”پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا “اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے، اور اس پر بہترین اجر کا وعدہ کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے فرمایا: ” جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، جو کسی مجلس میں مجھے یاد کرتا ہے میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں ۔ “
صحیح بخاری ، کتاب التوحيد، رقم : 745 ۔
سب سے بہتر ذکر وہ ہے جس میں دل اور زبان کی موافقت ہو اور اسی ذکر سے اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور ذکر الہی ہی شکر کی بنیاد ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا حکم دیا ہے پھر اس کے بعد شکر کا عمومی حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: وَاشْكُرُ ولي ” اور میرا شکر کرو“ یعنی میں نے جو یہ نعمتیں تمہیں عطا کیں اور اور مختلف قسم کی تکالیف اور مصائب کو تم سے دُور کیا اس پر میرا شکر کرو۔ شکر دل سے ہوتا ہے اس کی نعمتوں کا اقرار واعتراف زبان سے ہوتا ہے ، اس کا ذکر اور حمد وثنا ، اعضا سے ہوتا ہے اس کے حکموں کی اطاعت و فرمان برداری اور اس کی منہیات سے اجتناب کر کے ، پس شکر موجود نعمت کے باقی رہنے اور مفقود نعمت ( مزید نئی نعمتوں) کے حصول کے جذبے کا مظہر ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
(14-إبراهيم:7)
”اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا۔ “
”علم ، تزکیہ اخلاق اور توفیق عمل جیسی دینی نعمتوں پر شکر کا حکم دینے میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ یہ سب سے بڑی نعمتیں ہیں بلکہ یہی حقیقی نعمتیں ہیں جن کو دوام حاصل ہے جب کہ دیگر نعمتیں زائل ہو جائیں گی۔ ان تمام حضرات کے لیے جن کو علم و عمل کی توفیق سے نوازا گیا ہے یہی مناسب ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں تا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا اضافہ ہو، اور ان سے عجب اور خود پسندی دُور رہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کے شکر میں مشغول رہیں۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن أشكر الناس لله أشكرهم للناس
مسند احمد 212/5۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے۔
”لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کا شکر کرنے والا شخص وہ ہے جولوگوں کا سب سے زیادہ شکر گزار ہو۔“
25 : عہد پورا کرنا
اللہ کے دوستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ جو عہد بھی کرتے ہیں اس کو پورا کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ
(5-المائدة:1)
”اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو۔“
ایک جگہ فرمایا:
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
(16-النحل:91)
”اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول و قرار کرو، اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، باوجود یکہ تم اللہ کو اپنا ضامن ٹھہر چکے ہو، بے شک اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔“
نیز فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
(61-الصف:2،3)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے ۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے ۔“
25 : مخلص ہونا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر کام اخلاص سے کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
(12-يوسف:24)
”چنانچہ اس عورت نے یوسف کا قصد کیا، اور وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر اللہ کی برہان نہ دیکھ لیتے ۔ اس طرح ہم نے انھیں اس برائی اور بے حیائی سے بچا لیا کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے ۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم نے فرمایا:
إن الله لا يقبل من العمل ، إلا ما كان له خالصا ، وابتغي به وجهه
سنن نسائی ، کتاب الجهاد، باب من غزا يلتمس الاجر و الذكر رقم : 3142۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”یقیناً اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص ہو، اور جس کے ذریعے اُس کی رضا مندی تلاش کی گئی ہو۔ “
26 : انصاف پسند ہونا
ان کی ایک خصوصیت انصاف پسندی بھی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(5-المائدة:8)
”اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ ، اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی دشمنی تمہیں مجرم نہ بنادے کہ تم انصاف نہ کرو، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔“
27 : انصاف پسندی کے ساتھ ساتھ
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
(6-الأنعام:152)
”اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے ، اور ناپ تول پوری پوری کرو انصاف کے ساتھ ، ہم کسی شخص کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ، اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو خواہ قرابت دار ہی ہو ، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو یہ تاکیدی حکم اس نے تمہیں دیا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔“
28 : اعتدال پسند ہونا
ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں ۔ ارشاد ہے:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿٢٦﴾ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ﴿٢٧﴾ وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا ﴿٢٨﴾ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
(17-الإسراء:26تا29)
” اور رشتے داروں ،مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو، اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو۔ بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔ اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں جس کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے۔ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہو اور حسرت کیا ہوا بیٹھ جائے۔“
نیز فرمایا:
وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا
(25-الفرقان:67)
”اور جو خرچ کرتے وقت نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل راہ ہوتی ہے۔ “
29۔ احسان کرنا
ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
(2-البقرة:264)
”اے ایمان والو ! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے، اور نہ اللہ تعالیٰ پر ، اور نہ قیامت پر ایمان رکھے ، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو ، پھر اس پر زور دار بارش برسے ،اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔ ان ریا کاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی ۔ اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ومن آتى إليكم معروفا فكافتوه
سن ابوداؤد، کتاب الادب، رقم: 109۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”جس کے ساتھ احسان اور بھلائی کی جائے اسے اس کا بدلہ دینا چاہیے۔ “
30 : صلہ رحمی کرنا
ایک خصوصیت ان کی یہ ہے کہ یہ ہر ایک کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ
(13-الرعد:21)
” اور جن روابط کو اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے انھیں ملاتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور بُرے حساب سے ڈرتے ہیں۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سره أن يبسط له فى رزقه و أن ينسأ له فى أثره فليصل رحمه
صحیح بخاری ، کتاب الأدب، رقم: 5985 .
” جو یہ چاہے کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔“
31 : نماز کی پابندی کرنا
اللہ کے دوست نماز کی بہت زیادہ پابندی کرتے ہیں، انہی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
(2-البقرة:3)
” جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو ہم نے انھیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذي نفسه بيده ، لقد همممت أن أمر بحطب ليحطب ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ، ثم امر رجلا فيوم الناس ، ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم
صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب صلاة الجماعة ، رقم: 644 .
”دو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ کسی کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں، پھر ایک شخص کو امامت کے لیے آمادہ کروں، پھر جو لوگ جماعت میں شریک نہ ہوں ان کے گھروں کو آگ لگادوں۔ “
32 : ثابت قدم رہنا
یہ ثابت قدمی کی صفت سے متصف ہوتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١٣﴾ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
(46-الأحقاف:13، 14)
”بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر جمے رہے تو ان پر کوئی خوف ہو گا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ تو اہل جنت ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔“
ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
(41-فصلت:30، 31)
”بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے ، پھر اس (عقیدہ توحید اور عمل صالح) پر جمے رہے، اُن پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو، اور اس جنت کی خوش خبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے دوست اور مددگار رہے، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور وہاں تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی تمہارا نفس خواہش کرے گا، اور ہر وہ چیز جس
کی تم تمنا کرو گے۔“
عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا ذکر فرماتا ہے، اور اس ضمن میں اہل ایمان میں نشاط پیدا کرتا اور انہیں ان کی اقتدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، چنانچہ فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ”بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ، پھر وہ اس پر ڈٹ گئے ، یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اعتراف کر کے اس کا اعلان کیا ، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا، پھر علم وعمل کے اعتبار سے راہ راست پر استقامت کے ساتھ گامزن ہوئے ان کے لیے دنیا و آخرت میں خوش خبریہے۔
تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ ” ان پر ( نہایت عزت و اکرام والے) فرشتے نازل ہوتے ہیں ۔“ یعنی ان کا نزول بتکرار ہوتا ہے۔ ان کے پاس حاضر ہو کر خوش خبری دیتے ہیں۔ اَنْ لَّا تَخَافُوا” نہ ڈرو “یعنی اس معاملے پر خوف نہ کھاؤ جومستقبل میں تمہیں پیش آنے والا ہے۔ وَلَا تَحْزَنُوا ”نہ غمگین رہو ۔ “یعنی جو کچھ گزر چکا ہے اس پر غم نہ کھاؤ ۔ گویا ماضی اور مستقبل میں ان سے کسی بھی نا گوار امر کی نفی کر دی گئی ہے۔ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ اور تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ جنت تمہارے لیے واجب ہوگئی ہے ، اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو پورا ہوکر رہے گا۔
وہ ثابت قدمی کے لیے ان کی ہمت بڑھاتے اور ان کو خوش خبری دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ”ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ۔“ وہ دنیا کے اندر انہیں بھلائی کی ترغیب دیتے ہیں اور بھلائی کو ان کے سامنے مزین کرتے ہیں وہ ان کو برائی سے ڈراتے ہیں، اور ان کے دلوں میں بُرائی کو فتیح بنا کر پیش کرتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں، اور مصائب اور مقامات خوف میں ان کو ثابت قدم رکھتے ہیں ، خاص طور پر موت کی سختیوں ، قبر کی تاریکیوں ، قیامت کے روز پل صراط کے ہولناک منظر کے وقت ان کی ہمت بڑھاتے ہیں، اور جنت کے اندر ان کے رب کی طرف سے عطا کردہ اکرام و تکریم پر انہیں مبارک باد دیتے اور ہر دروازے میں سے داخل ہوتے ہوئے ان سے کہیں گے:
سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
(13-الرعد:24)
”تم پر سلامتی ہے دنیا میں تمہارے صبر کے سبب سے کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر ۔“
(تفسير السعدي، تحت هذه الآية)
33 : اوّل فرصت میں فریضہ حج ادا کرنا
جب حج فرض ہو جائے ، یعنی انسان صاحب استطاع ہو تو حج ادا کرنا بھی اہل ایمان ، اولیاء اللہ کی خاصیت ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حج فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه
صحیح بخاری، کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور ، رقم: 1521.
”جس شخص نے حج کیا، پس نہ تو شہوت کی بات کی ، اور نہ ہی ( اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکلا ، تو جب وہ ( حج کر کے) واپس آتا ہے تو اس طرح ہوتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہے۔ “
34 : شرک سے بچنا
اللہ کے دوستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ شرک سے اجتناب کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ ﴿٦٤﴾ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٥﴾ بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٦﴾ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
(39-الزمر:64، 67)
” کہہ دیجیے پھر کیا تم مجھے غیر اللہ کے بارے میں حکم دیتے ہو کہ میں (ان کی ) عبادت کروں اے جاہلو! اور یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا، اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا۔ بلکہ اللہ ہی کی پھر عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا۔ اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسان اس کے دائیں ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے، اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں ۔ “
حدیث میں ہے کہ،
جاء حبر من الأحبار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد إنا نجد أن الله يجعل السموات على إصبع ، والأرضين على إصبع ، والشجر على إصبع ، والماء والثرى على إصبع ، وسائر الخلائق على إصبع ، فيقول: أنا الملك ، فضحك النبى حتى بدت نواجده تصديقا لقول الحبر ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم :﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقٌّ قَدْرِهِ﴾
ایک یہودی عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور اس نے کہا کہ ہم اللہ کی بابت ( کتابوں میں ) یہ بات پاتے ہیں کہ وہ ( قیامت والے دن ) آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور تری کو ایک انگلی پر ، اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا، اور فرمائے گا : میں بادشاہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر اس کی تصدیق فرمائی اور آیت وَمَا قدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِه کی تلاوت فرمائی۔“
35 : مشرک کا انجام
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
(5-المائدة:72)
”بے شک وہ لوگ کافر ہو گئے جنھوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے، حالانکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل ! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ سے شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ اور گہنگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ “
صحیح بخاری ، کتاب التفسير ، رقم: 4811.
36 : اللہ کی راہ میں مال و جان قربان کرنا
اللہ کے دوستوں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنا مال ، اپنی جان الغرض یہ کہ ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا
(4-النساء:76)
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اللہ کے سوا اوروں کی راہ میں لڑتے ہیں، پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو۔ بے شک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔“
ایک مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
(9-التوبة:111)
”بلاشبہ اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ انہیں جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں۔ اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے، تو اس سودے پر خوب خوش ہو جاؤ جو تم نے اس (اللہ ) سے کیا ہے، اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“
37 : قرآن حکیم کی تلاوت کرنا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ قرآن حکیم کی تلاوت کثرت سے کرتے ہیں۔
ارشاد ربانی ہے:
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
(2-البقرة:121)
” جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ اسے یوں پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ یہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور جو اس کتاب کا انکار کرتا ہے تو ایسے ہی لوگ خسارہ اُٹھانے والے ہیں ۔“
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حق تلاوت یہ ہے کہ جنت کے ذکر کے وقت جنت کا سوال کیا جائے اور جہنم کے ذکر کے وقت اس سے پناہ مانگی جائے ۔ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حلال و حرام کو جاننا ، کلمات کو ان کی جگہ رکھنا، تغیر و تبدل نہ کرنا وغیرہ یہی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے۔
(تفسیر الطبری: 267/2)
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کھلی آیتوں پر عمل کرنا ، متشابہ آیتوں پر ایمان لانا ، مشکلات کو علماء کے سامنے پیش کرنا ، حق تلاوت کے ساتھ پڑھنا ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کا مطلب حق اتباع بجالانا بھی مروی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر : 226/1)
” سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رحمت کے ذکر کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرتے اور جب کبھی کسی عذاب کی آیت تلاوت فرماتے تو رک کر اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب فرماتے ۔ “
صحيح مسلم، کتاب الصلوة المسافرين، رقم : 772.
مزید فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾ قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
(10-يونس:57، 58)
”اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے، اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے، اور رہنمائی کرنے والی ہے، ایمان والوں کے لیے رحمت ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے۔ وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں۔“
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سلك طريقا يلتمس فيه علما ، سهل الله له به طريقا إلى الجنة ، وما اجتمع قوم فى بيت من بيوت الله ، يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم ، إلا نزلت عليهم السكينه وغشيتهم الرحمة ، وحفتهم الملائكة ، وذكر هم الله فيمن عنده ، ومن بطابه عمله ، لم يسرع به نسبه
صحیح مسلم، كتاب الذكر و الدعا، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر، رقم : 2699 .
جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لیے کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اور جب کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں بیٹھ کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اور اُسے آپس میں ایک دوسرے کو پڑھاتے ہیں تو ان پر سکون نازل ہوتا ہے، رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو گھیرے میں لے لیتے ہیں، اور ایسے لوگوں کا تذکرہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے اور جس کو اس کا عمل ہی پیچھے چھوڑ دے اس کا نسب اُسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔“
38 : صرف اللہ کی عبادت کرنا
ارشاد پروردگار عالم ہے:
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
(3-آل عمران:79)
” کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالیٰ کتاب و حکمت اور نبوت دے، یہ لائق نہیں کہ پھر بھی وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ ، بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔“
نیز قرآن میں ہے:
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۚ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
(6-الأنعام:56)
”آپ کہہ دیجیے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان کی عبادت کروں جن کی تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو۔ آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہارے خیالات کا اتباع نہ کروں گا کیوں کہ اس حالت میں تو میں بے راہ ہو جاؤں گا، اور سیدھی راہ پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا۔“
39 : اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا
ان کی ایک قابل ستائش خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، اور اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(3-آل عمران:31)
”کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا، اور اللہ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اس آیت کریمہ نے فیصلہ کر دیا جو شخص اللہ کی محبت کا دعوی کرے، اور اس کے اعمال افعال ، عقائد فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہوں طریقہ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کار بند نہ ہو تو وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے۔“ اس لیے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھنے کے دعوے میں بچے ہو تو میری سنتوں پر عمل کرو اس وقت تمہاری چاہت سے زیادہ اللہ تمہیں دے گا یعنی خود تمہارا چاہنے والا بن جائے گا۔ جیسے کہ بعض حکیم علماء نے کہا ہے کہ تیرا چاہنا کوئی چیز نہیں لطف تو اس وقت ہے کہ اللہ تجھے چاہنے لگ جائے ، غرض اللہ کی محبت کی نشانی یہی ہے کہ ہر کام میں اتباع سنت مد نظر ہو۔
(تفسير ابن كثير: 1/ 472)
40 : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا
قرآن کریم میں ہے:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
(9-التوبة:24)
”آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ،تمہارے بیٹے ،تمہارے بھائی تمہاری بیویاں تمہارے کنبے قبیلے ، تمہارے کمائے ہوئے مال، اور وہ تجارت جس میں گھاٹے سے تم ڈرتے ہو، اور وہ رہائشیں جنہیں تم پسند کرتے ہو ، اگر یہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے ، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں، تو تم اللہ کے عذاب کے آنے کا انتظار کرو ۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا
(33-الأحزاب:6)
”یہ نبی مومنوں پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھنے والا ہے، اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں، اور رشتے دار کتاب اللہ کی رُو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں سے آپس میں زیادہ حق دار ہیں، ہاں تمہیں اپنے دوستوں کے ساتھ سلوک کرنے کی اجازت ہے۔ یہ حکم کتاب (لوح محفوظ ) میں لکھا ہوا ہے۔ “
41 : اچھا اخلاق
انسانیت کے لیے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ حسنہ ہیں، اور آپ مظہر خلق عظیم ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
(68-القلم:4)
”اور آپ یقیناً اعلیٰ اخلاق پر ہیں ۔ “
نیز فرمانِ خداوندی ہے:
وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
(2-البقرة:195)
” اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور احسان و اخلاق کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“
42 : باوضو رہنا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہمہ وقت باوضو رہتے ہیں:
عن عبد الله بن بريدة قال حدثني أبى بريدة قال: أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعا بلالا فقال: يا بلال بم سبقتني إلى الجنة؟ ما دخلت الجنة قط إلا سمعت خشخشتك أمامي ، دخلت البارحة الجنة فسمعت خشخشتك آمامي، فقال بلال : يا رسول الله! ما أذنت قط إلا صليت ركعتين ، وما اصابني حدث قط إلا توضأت عندها ورأيت إن لله على ركعتين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بهما
سنن الترمذی، کتاب المناقب، رقم : 3689 – مسند احمد : 354/5 ـ المستدرك للحاكم : 285/3 ۔ امام حاکم ، امام ذہبی اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
سید نا عبد الله بن بریدہ اپنے باپ ( بریدہ رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا : ”اے بلال ! تم مجھ سے جنت میں سبقت کیسے کر گئے ؟ گذشتہ رات میں نے تمہارے قدموں کی آواز جنت میں اپنے آگے آگے سنی ۔ “ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول ! میں جب اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھتا ہوں، اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو فوراً وضو کر لیتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ ہے!“
43 : نماز تہجد کا اہتمام کرنا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ نماز تہجد کا اہتمام بڑے ذوق وشوق سے کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا
(17-الإسراء:79)
”اور رات کو تہجد ادا کیجیے یہ آپ کے لیے زائد ہے، ممکن ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے۔ “
ایک اور مقام پر مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
(32-السجدة:16)
”اے لوگو ! سلام کو پھیلاؤ ، ( لوگوں کو ) کھانا کھلا ؤ، اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں تو اُس وقت اُٹھ کر تہجد کی نماز پڑھو، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔ “
44 : اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(2-البقرة:218)
”البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الہی کے امیدوار ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔ “
نیز فرمایا:
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
(3-آل عمران:195)
”پس ان کے رب نے اُن کی دُعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا تم آپس میں ایک ہی ہو، اس لیے وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی ، اور اپنے گھروں سے نکال دیے گئے ، اور جنہیں میری راہ میں ایذا دی گئی ، اور جنہوں نے جہاد کیا، اور شہید کیے گئے، میں ضرور بالضرور ان کی برائیاں ان سے دُور کر دوں گا، اور بالیقین انہیں ان جنتوں میں داخل کردوں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب، اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔“ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں ہجرت کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:
وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
(4-النساء:100)
” جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا، وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں پائے گا۔ اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اُسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا، اور اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“
نیز ان کے متعلق اللہ تعالیٰ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
(16-النحل:41،42)
”جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے، ہم انہیں بہتر ٹھکا نہ دنیا میں عطا فرمائیں گے ، اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے کاش کہ لوگ اس سے واقف ہو تے ۔ وہ جنہوں نے صبر کیا اور اپنے پالنے والے ہی پر بھروسہ کرتے رہے۔ “
45 : قول میں سچا ہونا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
(9-التوبة:119)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔“
سید نا عبد الرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أحببتم أن يحبكم الله تعالى ورسوله فأدوا إذا نتمنتم ، واصدقوا إذا حدثتم ، وأحسنوا جوار من جاوركم
صحيح الجامع الصغير لللالباني ، رقم: 1409 ۔
”اگر تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تم سے محبت کریں تو جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو، جب بات کرو تو سچ بولو، اور جو شخص تمہارے پاس پڑوس میں ہو اس سے نیک (اچھا ) سلوک کرو۔“
46 : اللہ کی پسند کو محبوب رکھنا
یہ اللہ کی محبت چیز سے محبت کرتے ہیں ۔ قرآن اس امر کو یوں بیان کرتا ہے:
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
(22-الحج:30)
” یہ اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لیے اس کے پاس بہتری ہے، اور تمہارے لیے مال مویشی حلال کر دیے گئے سوائے ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔ “
47 : اللہ کی ناپسندیدہ چیزوں سے نفرت کرنا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی ناپسندیدہ چیزوں سے نفرت کرتے ہیں۔
ارشاد ربانی ہے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا
(4-النساء:140)
”اور اللہ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو، جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو۔ یقیناً اللہ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔ “
48 : اللہ تعالی کے دشمنوں سے دشمنی کرنا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اللہ کے دشمنوں سے دشمنی کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(58-المجادلة:22)
” تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو اللہ اور آخرت کے دن پر جو ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اس سے دوستی رکھتے ہوں، جس نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ، خواہ وہ ان کے باپ دادا ہوں یا ان کے بیٹے ہوں، یا ان کے بھائی ہوں، یا ان کے کنبے والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے، اور ان کی اپنی طرف سے ایک روح کیسا تھ مدد کی اور وہ انہیں (ان ) باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے، یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں، خوب یاد رکھو۔ اللہ کا گروہ ہی ( دو جہاں میں ) کامیاب ہونے والا ہے۔ “
49 : اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنا
ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اللہ کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
(47-محمد:7)
”اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم جمادے گا۔“
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سورہ یونس آیت 9 میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُه ”اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی کرے گا“ اس لیے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اس جنس کی جزا ہوتی ہے، اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالٰی پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جمادے گا۔
(تفسیر ابن کثیر : 126/5 ، مكتبه قدوسيه)
50 : صرف اچھی بات کرنا
اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے:
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا
(17-الإسراء:53)
” اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے، بے شک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف وکرم ہے کہ اس نے انہیں بہتر اخلاق، اعمال اور اقوال کا حکم دیا ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کے موجب ہیں ، چنانچہ فرمایا:وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ(17-الإسراء:53)” کہ دومیرے بندوں سے بات وہی کہیں جو اچھی ہو ۔“ یہ ہر اس کلام کے بارے میں حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہو۔ مثلاً قرآت قرآن ، ذکر الہی ، حصول علم ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب مراتب اور حسب منزلت شیریں کلامی وغیرہ۔ اگر دوا چھے اُمور در پیش ہوں اور ان دونوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو تو ان میں جو بہتر ہو اس کو ترجیح دی جائے اور اچھی بات ہمیشہ خلق جمیل اور عمل صالح کو دعوت دیتی ہے ، اس لیے جسے اپنی زبان پر اختیار ہے اس کے تمام معاملات اس کے اختیار میں میں إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ (17-الإسراء:53)” بے شک شیطان ان کے درمیان جھڑپ کرواتا ہے۔“
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو ارشاد فرمایا:
((املك عليك لسانك))
سنن ترمذی ، ابواب الزهد ، باب ما جاء في حفظ اللسان ، رقم : 2406 – علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
یعنی شیطان بندوں کے دین و دنیا کو خراب کر کے ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتا ہے اور اس فساد کی دوا یہ ہے کہ وہ بُری باتوں میں شیطان کی پیروی نہ کریں جن کی طرف شیطان دعوت دیتا رہتا ہے اور آپس میں نرم رویہ اختیار کریں تا کہ شیطان کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع ہو جوان کے درمیان فساد کا بیج بوتا رہتا ہے کیونکہ شیطان ان کا حقیقی دشمن ہے، اور ان پر لازم ہے کہ وہ شیطان کے خلاف مصروف جنگ رہیں ۔
(تفسير السعدي تحت هذه الآية)
51 : محبت اور خوف الہی سے آنکھوں میں آنسو بہانا
وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
(5-المائدة:83)
”اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ ( کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں، اس وجہ سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم مسلمان ہو گئے ، پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعد ی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اس کا ایک سبب یہ بھی ہے وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ (5-المائدة:83)” جب وہ اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر نازل کی گئی ۔ “تو یہ کتاب ان کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور وہ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں، اور ان کی آنکھوں سے اس حق کے سننے کے مطابق جس پر وہ یقین لائے ہیں ، آنسو جاری ہو جاتے ہیں ، پس اس لیے وہ ایمان لے آئے اور اس کا اقرار کیا، اور کہا رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (5-المائدة:83) اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ لے۔ اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسولوں کی رسالت، اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے ہیں اس کی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔
(تفسیر السعدی: 720/1)
52 : غصہ پی جانا اور درگزر کرنا
اللہ کے دوستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ غصہ پینے والے ، اور درگزر کرنے والے ہوتے ہیں۔ارشاد فرمایا:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
(3-آل عمران:133تا136)
” اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جولوگ آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ جب ان سے کوئی بے حیائی کا کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور اللہ کے علاوہ کون گناہ بخشتا ہے۔ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی بڑے کام پر اڑ نہیں جاتے ۔ یہی لوگ ہیں ان کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے، اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب بہت ہی اچھا ہے۔“
53 : اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کرنا
اللہ کے دوستوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ﴿١٨﴾ ۞ أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٢٠﴾يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ ﴿٢١﴾ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٢٢﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٣﴾ قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
(9-التوبة:18تا24)
”اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، نمازوں کا پابند ہو، زکوۃ دیتا ہو اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتا ہو، تو امید ہے یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہوں گے، کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا نا، اور مسجد حرام کی خدمت کرنا، اس کے برابر کر دیا ہے کہ جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ، اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے ، ہجرت کی، اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبے والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔ انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضا مندی کی اور جنتوں کی جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے۔ وہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اللہ کے پاس یقیناً بہت بڑے ثواب ہیں۔ اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر سے محبت زیادہ کرتے ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہی لوگ ظالم ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے ، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے کنبے قبیلے، اور تمہارے کمائے ہوئے مال ، اور وہ تجارت جس کے مند ا پڑنے سے ( کمی آجانے سے ) تم ڈرتے ہو، اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں، تو تم اللہ کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظار کرو۔ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
54 : صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنا
ان کی ایک خصوصیت کا تذکرہ قرآن میں یوں آیا ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
(2-البقرة:186)
”جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں قبول کرتا ہوں، تو انھیں چاہیے کہ وہ میری بات مانیں، اور مجھ پر یقین رکھیں، تا کہ وہ ہدایت پائیں۔“
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: ” رسول اللہ نے علم سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ” کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سر گوشی کے انداز میں مناجات کریں یاوہ دُور ہے کہ ہم اسے پکاریں؟ اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ (2-البقرة:186) ”اور جب تجھ سے میرے بندے میری بات پوچھیں تو ( ان کو بتلا دیں کہ ) میں قریب ہوں۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا اور اسے دیکھنے والا ہے وہ بھید اور ہر چھپی ہوئی چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں مدفون رازوں کو جانتا ہے وہ دعا قبول کرنے کے اعتبار سے بھی پکارنے والے کے قریب ہے ، اسی لیے فرمایا:أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (2-البقرة:186) ” جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ۔ “دعا کی دواقسام ہیں:
❀ دعائے عبادت
❀ دعائے سوال
اسی طرح قرب کی بھی دو قسمیں ہیں:
❀ اپنے علم کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا۔
❀ دعا کی قبولیت ، مدد اور تو فیق کے ساتھ اپنے عبادت گزار بندوں اور پکارنے والوں کے قریب ہونا۔
جو کوئی حضور قلب کے ساتھ اپنے رب سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جو شروع ہو، اور قبولیت دعا میں کوئی مانع بھی نہ ہو، مثلاً حرام کھانا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، خاص طور پر جب بندہ ایسے اسباب اختیار کرتا ہے جو اجابت دعا کے موجب ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کے قولی، اور فعلی اوامر و نواہی کے سامنے سر افگندہ ہونا ( سر جھکا لینا و تسلیم کر لینا ) اور اس پر ایمان لانا جو قبولیت دعا کا موجب ہیں۔“
(تفسیر السعدی : 1/ 239 )
55 : دیدار الہی کا شوق رکھنا
قرآن کی متعدد آیات کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے دوست اللہ کے دیدار کا شوق رکھتے ہیں۔ ذیل میں ہم چند آیات ذکر کرتے ہیں:
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ
(75-القيامة:22، 23)
”اس روز بہت سے چہرے تر و تازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔“
دوسرے مقام پر فرمایا:
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ
(84-الانشقاق:6)
”اے انسان تو سخت مشقت کرتے کرتے اپنے رب کی طرف جانے والا ہے پھر اس سے ملنے والا ہے۔“
ایک اور جگہ اسی بات کو یوں بیان فرمایا:
اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
(13-الرعد:2)
”اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اس نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے ۔ ہر ایک مقرر وقت کے لیے چل رہا ہے، وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، وہ اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو۔ “
56 : دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا
اللہ کے دوستوں کی ایک منفرد اور لائق تحسین خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہمیشہ اپنے پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ قرآن میں اس کا یوں ذکر ملتا ہے:
وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(59-الحشر:9)
” اور ان کے لیے جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے، اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں، اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے ، بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو، بات یہ ہے کہ جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچالیے گئے وہی کامیاب لوگ ہیں ۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
”اور اپنی ذات پر (ان کو) ترجیح دیتے ہیں اگر چہ خود انہیں سخت ضرورت ہو۔“
یعنی انصار کے اوصاف میں سے ایک وصف ایثار ہے، جس کی بنا پر وہ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور ان سے ممتاز ہیں اور یہ کامل ترین جود وسخا ہے اور نفس کے محبوب اموال وغیرہ میں ایثار کرنا اور ان اموال کے خود حاجت مند بلکہ ضرورت مند (اور اس پر بھی مستزاد یہ کہ خود ) بھوکے ہونے کے باوجود دوسرے پر خرچ کرنا، یہ وصف اخلاق زکیہ اللہ تعالیٰ سے محبت ، پھر شہوات نفس اور اس کی لذات پر اللہ کی محبت کو مقدم رکھنے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے ۔
(تفسیر السعدی)
عن أبى موسى قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم إن الأشعريين إذا أرملوا فى الغزو او قل طعام عيالهم بالمدينة جمعوا ما كان عندهم في ثوب واحد ، ثم اقتسموه بينهم فى إناء واحد بالسوية فهم مني وأنا منهم
صحیح بخارى، كتاب الشركة ، باب الشركة، رقم: 2486 .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلہ اشعر والوں کی عادت ہے کہ جب کسی غزوہ میں ان کا زادراہ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے، یا مدینہ میں ان کے اہل وعیال کی خوراک کم پڑ جاتی ہے تو سب کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اسے ایک کپڑے میں جمع کرتے ہیں، پھر ایک برتن سے سب کو برابر برابر تقسیم کر دیتے ہیں۔ وہ مجھ سے ہیں ، اور میں ان میں سے ہوں ۔ “