وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام کا شرعی حکم
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام کی وصیت کرنا بدعت اور عمل جاہلیت ہے۔ اگر وصیت نہ کی گئی ہو تو اہل میت کا از خود اس قسم کی دعوتوں کا انتظام کرنا بھی جائز نہیں ہے۔‘‘
صحابہ کرام کا طرزِ عمل
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"ہم دفن کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔”
(ابن ماجہ: 2161)
شریعت کی تعلیمات
شریعت کا حکم اس کے برعکس ہے، کیونکہ شریعت میں اہلِ میت کے لیے کھانا تیار کر کے ان کی دلجوئی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، کیونکہ وہ مصیبت کے باعث مشغول ہوتے ہیں۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے کی خبر پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا:
’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، ان لوگوں پر ایسی مصیبت آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔‘‘
(أبو داؤد: الجنائز، باب: صنعۃ الطعام لأہل المیت: 2313، ابن ماجہ: 1610، فتاوی اسلامیہ، جلد دوم، ص 88)
ساتواں یا چالیسواں منانا
سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی "الجنۃ الدائمۃ” نے فرمایا:
میت کے لیے اس کی وفات کے دن یا کسی معین دن مثلاً ساتویں یا چالیسویں دن بکری، گائے، اونٹ یا پرندے وغیرہ کو ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔
اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے لیے دن یا رات کا تعین کرنا، مثلاً جمعرات، جمعہ، یا جمعہ کی رات، یہ بھی بدعت ہے۔
سلف صالحین کے ہاں اس طرح کا کوئی رواج نہیں تھا۔ لہٰذا ان بدعتوں کو ترک کرنا واجب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ))
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات شامل کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
(بخاری، الصلح: 2697، مسلم، الاقضیۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور: 1718، فتاوی اسلامیہ، جلد دوم، ص 76)
میت کے لیے محفل منعقد کرنے کا شرعی حکم
فتویٰ کمیٹی "الجنۃ الدائمۃ” کا بیان:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے میت کے لیے کسی قسم کی محفل منعقد کرنا ہرگز ثابت نہیں:
◄ نہ وفات کے وقت
◄ نہ وفات کے بعد
◄ نہ ساتویں یا چالیسویں دن
◄ نہ ایک سال کے بعد
بلکہ یہ بدعت ہے اور بہت بری بدعت ہے۔ یہ قدیم مصریوں اور دیگر کفار کی رسوم میں سے ہے۔
لہٰذا:
"جو مسلمان اس قسم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، انہیں سمجھانا اور اس عمل سے روکنا ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر کے ان بدعات اور کفار کی مشابہت سے اجتناب کریں۔”
(فتاوی اسلامیہ، جلد دوم، ص 98)
دین میں زیادتی سے اجتناب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک آدمی کو چھینک آئی، تو اس نے کہا:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ))
یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
"میں بھی ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) کہہ سکتا ہوں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ہمیں یہ تعلیم نہیں دی۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”
"چھینک آنے پر ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ)) پڑھا جائے۔”
(ترمذی، الادب، باب ما یقول العاطس اذا عطس: 2738، امام حاکم (4/562، 662) اور امام ذہبی نے اسے صحیح قرار دیا)
نتیجہ
اس تمام بحث سے معلوم ہوا کہ دین میں اپنی طرف سے کسی قسم کی زیادتی کرنا یا نئی رسم ایجاد کرنا ناجائز ہے۔ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا، وہ ہمیں بھی نہیں کرنا چاہیے۔ بدعات سے بچنا اور دین کو اصل شکل میں اپنانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔