وضو کے دوران نیل پالش اور مصنوعی ناخن کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

وضو کے دوران مصنوعی ناخن اور نیل پالش کے استعمال کا شرعی حکم

سوال:

ایسی عورت کے وضو کا کیا حکم ہے جس نے اپنے ناخنوں پر مصنوعی ناخن یا نیل پالش لگا رکھی ہو؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کے لیے مصنوعی ناخن یا نیل پالش کا استعمال، جبکہ وہ نماز پڑھتی ہو، جائز نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اشیاء وضو یا غسل کے دوران پانی کے جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔

کوئی بھی چیز جو وضو یا غسل کے اعضا تک پانی کے پہنچنے کو روکے، اس کا استعمال شرعاً ناجائز ہے۔ اس کی دلیل قرآن کریم کی درج ذیل آیت ہے:

﴿فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم﴾ … سورة المائدة: 6
"تو منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو۔”

جب عورت نے نیل پالش یا مصنوعی ناخن لگائے ہوں، جو پانی کے ہاتھوں تک پہنچنے میں رکاوٹ بنیں، تو اس کے ہاتھ دھونے کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے وضو یا غسل کے فرائض میں سے ایک فرض ترک کر دیا۔

اگر عورت نماز نہیں پڑھ رہی ہو:

اگر عورت نماز ادا کرنے والی حالت میں نہ ہو، جیسے کہ وہ حیض کی حالت میں ہو، تو اس کے لیے مصنوعی ناخن یا نیل پالش کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ، اگر یہ عمل کفار عورتوں کے طرزِ عمل کی مشابہت میں ہو، تو اس مشابہت کی وجہ سے بھی یہ جائز نہیں ہوگا۔

غلط فتاویٰ کا تذکرہ:

کچھ لوگوں نے فتویٰ دیا ہے کہ مصنوعی ناخن اور نیل پالش کا استعمال موزے پہننے کی طرح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت ایک دن اور رات (مقیم ہونے کی صورت میں) یا تین دن و رات (مسافر ہونے کی صورت میں) تک ان کا استعمال کر سکتی ہے۔

لیکن یہ فتویٰ بالکل غلط ہے، کیونکہ تمام وہ چیزیں جن سے انسان اپنے بدن کو چھپاتا ہے، ان سب کو موزوں پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔

شریعت نے محض موزوں پر مسح کی اجازت اس لیے دی ہے کہ:

◈ پاؤں سردی سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے

◈ پاؤں براہ راست زمین یا کنکریوں پر پڑتے ہیں

◈ ان پر خاص طور پر شریعت نے نرمی کی اجازت دی ہے

قیاس کے غلط اطلاقات:

کچھ لوگوں نے مصنوعی ناخنوں اور نیل پالش کو عمامہ پر بھی قیاس کیا ہے، لیکن یہ قیاس بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ:

◈ عمامہ کا تعلق سر سے ہے، اور سر پر فرض صرف مسح کرنا ہے

◈ جبکہ ہاتھوں کو دھونا فرض ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دستانوں پر مسح کی بھی اجازت نہیں دی، حالانکہ دستانے بھی ہاتھوں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ بننے والی کسی بھی چیز کو نہ عمامہ پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور نہ موزوں پر۔

فتویٰ دینے کی ذمہ داری:

ایک مسلمان کو چاہیے کہ:

◈ وہ حق کی تلاش میں پوری کوشش کرے

◈ فتویٰ دینے سے گریز کرے، جب تک کہ یقین نہ ہو کہ فتویٰ دینا اس پر واجب ہے

◈ اگر وہ فتویٰ نہ دے اور اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں سوال کرے تو وہ ذمہ دار ہوگا

کیونکہ فتویٰ دینا، درحقیقت اللہ تعالیٰ کی شریعت کی ترجمانی کرنا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1