وضو میں گردن کے مسح سے متعلق 4 روایات کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 384

تحقیقی جائزہ: کیا وضو میں گردن کا مسح مستحب ہے؟

مقدمہ

رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے "احسن الفتاویٰ” (2/12) میں وضو کے دوران گردن کے مسح کو مستحب قرار دیا ہے اور اس کے حق میں پانچ احادیث سے استدلال کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف، فتاویٰ میں مسئلہ (169) کے تحت یہ موقف پیش کیا گیا ہے کہ گردن کا مسح مستحب نہیں بلکہ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ بدعت ہے۔ اس تضاد کی روشنی میں زیرِ تحقیق سوال یہ ہے کہ ان پانچ احادیث کی حقیقت کیا ہے اور کیا واقعی گردن کا مسح مستحب ہے؟

استحباب کا اصولی مفہوم اور ضعیف حدیث کا مقام

استحباب ایک شرعی حکم ہے جو شرعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔

شرعی دلائل:

◈ کتاب اللہ
◈ سنتِ صحیحہ
◈ اجماعِ امت

ضعیف حدیث سے شرعی حکم یا استحباب ثابت نہیں ہو سکتا۔

رشید احمد رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ضعیف حدیث سے استحباب ثابت ہوتا ہے، علمائے اصول کی مخالفت ہے۔

اگر کوئی حدیث مختلف سندوں سے ہو لیکن سب سندیں ضعیف ہوں تو وہ حدیث حسن نہیں بن جاتی۔

حسن حدیث وہ ضعیف حدیث بن سکتی ہے:
◈ جس کا ضعف معمولی ہو
◈ تمام سندوں میں ضعف ایک ہی جگہ نہ ہو
حوالہ: مقدمہ تمام المنہ، ص 31

ضعیف حدیث پر عمل کی شرائط

➊ حدیث موضوع نہ ہو
➋ عمل کرنے والے کو علم ہو کہ یہ حدیث ضعیف ہے
➌ اس پر عمل مشہور نہ ہو

حوالہ:
ابن حجر: تبیین العجب، ص 403
قواعد التحدیث للقاسمی، ص 114–116
قواعد التحدیث، ص 118
شیخ الاسلام ابن تیمیہ: منہاج السنہ

مزید حوالہ جات:
شرح نخبۃ الفکر، ص 25
فیض القدیر للمناوی
جامع الصغیر للالبانی
الفتاویٰ، جلد 18، ص 25

گردن کے مسح سے متعلق احادیث کا تفصیلی جائزہ

(1) حدیث: کعب بن عمر رضی اللہ عنہ

"میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اپنی داڑھی اور گردن کا گدی تک مسح کیا۔”
روایت: ابن السکن (کتاب الحروف)، ابو داؤد (1/19)، احمد
سند کی کمزوری:
◈ لیث بن سلیم: ضعیف راوی، اجماعی طور پر ضعیف
◈ مصرف بن عمرو: مجہول
◈ ابو داؤد کی روایت میں "القذال” کا لفظ ہے، جو گردن کے مسح پر دلالت نہیں کرتا
حوالہ: تہذیب الاسماء واللغات، نیل الاوطار (1/203)

(2) حدیث: ابن عمر رضی اللہ عنہما

"جو شخص وضو کرے اور گردن کا مسح کرے، وہ قیامت کے دن طوق سے بچ جائے گا۔”
روایت: ابو نعیم، تاریخ اصفہان
سند کی کمزوری:
◈ محمد بن عمرو الانصاری: ضعیف
◈ حدیث موضوع ہے
حوالہ: نیل الاوطار (1/203)، السلسلہ الضعیفہ (2/167)، حدیث رقم 744

(3) اثر: موسیٰ بن طلحہ

"جس نے سر کے ساتھ گدی کا مسح کیا، وہ قیامت کے دن طوق سے بچ گیا۔”
روایت: ابو عبید، کتاب الطہور
عینی (شرح الہدایہ) کے مطابق: "اگرچہ موقوف ہے، لیکن رفع کا حکم دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں رائے کی گنجائش نہیں۔”
تبصرہ:
◈ موسیٰ بن طلحہ صحابی نہیں بلکہ تابعی یا اتباع تابعین میں سے ہیں۔
◈ اس اصول پر اگر چلا جائے تو تمام تابعین کی آراء اقوالِ نبوی ﷺ بن جائیں گی جو غلط ہے۔
سند کی خرابی:
◈ راوی المسعودی: مختلط راوی
حوالہ: تلخیص الحبیر (1/92)، السلسلہ الضعیفہ (1/98)، حدیث 69–744

(4) حدیث: دیلمی (مسند الفردوس)

"گردن کا مسح قیامت کے دن طوق سے امن کا سبب بنے گا۔”
روایت: دیلمی، ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً
سند کی خرابی:
◈ محمد بن عمرو الانصاری، ابو سہل بصری: دونوں ضعیف راوی
◈ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا
حوالہ: الموضوعات الکبریٰ، ص 63

اہل علم کی آراء

امام ابن قیم رحمہ اللہ

"گردن کے مسح کی کوئی حدیث ثابت نہیں۔”
حوالہ: زاد المعاد، جلد 1، ص 28

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

"رسول اللہ ﷺ سے وضوء میں گردن کا مسح کرنا صحیح طور پر ثابت نہیں۔ بلکہ جو احادیث وضوء کے بارے میں صحیح طور پر روایت کی گئی ہیں، ان میں گردن کا مسح مذکور ہی نہیں۔”
حوالہ: مجموع الفتاویٰ، جلد 21، ص 127

مالک، شافعی، احمد اور جمہور علماء کے نزدیک گردن کا مسح مستحب نہیں
جو حضرات اسے مستحب کہتے ہیں ان کا انحصار:
◈ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے آثار
◈ ضعیف روایات پر ہے
"اگر کوئی گردن کا مسح چھوڑ دے تو اس کا وضوء تمام علماء کے نزدیک صحیح ہے۔”

نتیجہ

◈ تمام مذکورہ احادیث ضعیف یا موضوع ہیں
◈ استحباب کا شرعی حکم صرف صحیح دلیل سے ثابت ہو سکتا ہے
◈ اس بنیاد پر، گردن کا مسح کرنا نہ سنت ہے نہ مستحب
◈ یہ عمل بدعت کے زمرے میں آتا ہے

"دلیل کے تابعدار پر لازم ہے کہ وہ گردن کا مسح نہ کرے، اور محض حواشی یا غیرمحقق فتاویٰ کے پیچھے نہ چلے۔”

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1