وضو کرتے ہوئے کسی ایک عضو کو دھونا بھول جانے کا حکم
سوال:
اگر کوئی شخص وضو کرتے ہوئے کسی ایک عضو کو دھونا بھول جائے، تو ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی شخص وضو کرتے وقت کسی ایک عضو کو دھونا بھول جائے، تو اس کے لیے درج ذیل احکام لاگو ہوں گے:
➊ اگر جلد یاد آجائے:
اگر انسان کو وضو کے دوران یا فوراً بعد یاد آ جائے کہ وہ کسی ایک عضو کو دھونا بھول گیا ہے، تو:
اسے اسی عضو کو دھونا ہوگا جسے وہ بھول گیا تھا۔
اس کے بعد اس عضو کے بعد آنے والے تمام اعضا کو بھی دوبارہ دھونا ہوگا۔
مثال:
ایک شخص نے وضو کیا:
دایاں ہاتھ دھو لیا
بایاں ہاتھ دھونا بھول گیا
سر اور کانوں کا مسح کر لیا
دونوں پاؤں دھو لیے
پھر اسے یاد آیا کہ بایاں ہاتھ نہیں دھویا تھا
اب اسے:
بایاں ہاتھ دھونا ہوگا
سر اور کانوں کا دوبارہ مسح کرنا ہوگا
دونوں پاؤں دوبارہ دھونے ہوں گے
وجہ:
یہ ترتیب واجب ہے، جیسا کہ وضو کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ﴾ سورة المائدة: 6
"تو اپنے منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔”
➋ اگر کافی وقت گزرنے کے بعد یاد آئے:
اگر طویل مدت گزر جائے اور بعد میں یاد آئے کہ کوئی عضو دھونا بھول گیا تھا، تو:
پورا وضو از سر نو کرنا واجب ہوگا۔
مثال:
ایک شخص نے وضو کیا اور بایاں ہاتھ دھونا بھول گیا
وضو سے فارغ ہو کر چلا گیا
کافی دیر بعد یاد آیا
اب اس کا پہلا وضو باطل ہوگا اور دوبارہ مکمل وضو کرنا ہوگا
وجہ:
موالات (یعنی اعضائے وضو کو مسلسل ترتیب سے دھونا) وضو کی صحت کے لیے شرط ہے۔ طویل وقفے سے یہ شرط باقی نہیں رہتی۔
➌ اگر شک ہو کسی عضو کے دھونے یا نہ دھونے میں:
اگر محض شک ہو کہ کوئی عضو دھویا ہے یا نہیں، تو:
اس شک کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
نماز جاری رکھی جائے گی
کوئی حرج نہیں
مثال:
کسی شخص کو وضو کے بعد شک ہوا کہ شاید بایاں ہاتھ دھونا رہ گیا ہو یا کلی اور ناک صاف نہیں کی ہو
اس شک کی بنا پر وہ وضو یا نماز نہیں توڑے گا
وجہ:
عبادت مکمل ہونے کے بعد پیدا ہونے والے شک کو شریعت میں قابلِ التفات نہیں سمجھا جاتا۔ اگر بعد از عبادت شک کو معتبر قرار دیا جائے، تو اس سے وسوسے کا دروازہ کھل جائے گا اور لوگ اپنی عبادات میں مسلسل شک کرتے رہیں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر ایک رحمت ہے کہ وہ بعد از عبادت شک کو نظر انداز کرنے کا حکم دیتا ہے۔
البتہ، اگر کسی چیز کے نہ ہونے کا یقین ہو، تو پھر اس کی تلافی واجب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب