سوال
کیا وضو میں سارے سر کا مسح فرض ہے؟ یا صرف پیشانی یا سر کے کسی اور حصے پر اقتصار کرنا بھی جائز ہے، جیسا کہ بعض فقہاء کا قول ہے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، أما بعد:
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ افضل یہی ہے کہ مکمل سر کا مسح کیا جائے۔ مسح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ سر کے اگلے حصے سے گدی تک لے جائے جائیں اور پھر واپس وہیں لائے جائیں جہاں سے آغاز ہوا تھا۔
بعض حضرات نے مخصوص کیفیت بیان کی ہے جیسے وضو کرنے والا اپنے تین انگلیاں سر کے اگلے حصے پر رکھے اور دو انگلیاں الگ رکھ کر گدی تک لے جائے پھر واپسی پر وہ دو انگلیاں استعمال کرے، لیکن ایسی کوئی کیفیت سنتِ مطہرہ سے ثابت نہیں۔
پورے سر کے مسح کے وجوب کے دلائل:
➊ قرآن مجید کی آیت:
﴿وَامْسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ﴾
(المائدہ:6)
"اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت دھو لو۔”
یہ آیت کسی جزوی مسح کی اجازت نہیں دیتی۔ اس کی ساخت تیمم کی آیت کی طرح ہے:
﴿فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ﴾
(المائدہ:6)
"تو اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو۔”
دونوں آیات میں لفظ "مسح” اور حرف "باء” استعمال ہوا ہے۔ تیمم کی آیت میں مسح کا بدل مٹی ہے، اور وضو میں پانی۔ تیمم میں چونکہ تکرار جائز نہیں، تو وضو میں کیسے ہو سکتی ہے؟
جو لوگ "باء” کو باء تبعیضیہ مانتے ہیں، وہ لغت، اصول اور فہم قرآن تینوں اعتبار سے غلطی پر ہیں۔
➋ "باء” کا مفہوم – لغوی و نحوی پہلو:
"باء” یہاں باء الصاق ہے یعنی فعل کو مفعول کے ساتھ جوڑنے کے لیے آتی ہے۔ جیسے:
(يَشرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ)
(الدہر:6)
"جس سے اللہ کے بندے سیراب ہو کر پیتے ہیں۔”
اگر یہاں "بھا” کو "منہا” سمجھا جائے تو سیراب ہونے کی معنیٰ باقی نہیں رہتے۔
وضو اور تیمم دونوں میں یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ اگر آیت میں
"فَامسَحوا رُءوسَكم”
(بغیر باء کے) ہوتا تو الصاق کا مفہوم نہ نکلتا۔
➌ رسول اللہ ﷺ کا عمل – سنت نبوی:
رسول اللہ ﷺ سے کسی صحیح حدیث میں کبھی بھی جزوی مسح ثابت نہیں۔ زاد المعاد
(1/67) میں ہے:
آپ ﷺ نے ہمیشہ مکمل سر کا مسح کیا۔
حدیث مغیرہ بن شعبہؓ:
"آپ ﷺ نے وضو کیا اور پیشانی، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔”
(صحیح مسلم، مشکوۃ: 1/46)
یہ حدیث کامل سر کے مسح کے خلاف دلیل نہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے ناصیہ سے آغاز کیا اور پھر پگڑی پر مسح مکمل کیا۔
حدیث انسؓ:
"آپ ﷺ نے پگڑی کے نیچے ہاتھ داخل کر کے اگلے حصے کا مسح کیا، پگڑی نہیں کھولی۔”
(ابو داؤد: 1/147)
انسؓ کا سکوت مسح کی تکمیل کی نفی نہیں کرتا۔ اس روایت میں ابو معقل مجہول راوی ہے، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
(ابن ماجہ، رقم 564)
➍ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف:
امام بخاری رحمہ اللہ نے
صحیح بخاری (1/31) میں باب قائم کیا:
باب: مسح الرأس کلہ لقوله تعالیٰ:
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ
یعنی مکمل سر کا مسح کرنا قرآن کے مطابق ہے۔
ائمہ کرام اور دیگر اقوال:
امام ابن مسیب رحمہ اللہ:
عورت و مرد دونوں کے لیے سر پر مکمل مسح کرنا فرض ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ:
بعض سر کا مسح کافی نہیں۔ انہوں نے عبد اللہ بن زید کی حدیث سے استدلال کیا جس میں مکمل سر کا مسح کیا گیا ہے۔
نبی ﷺ کے مسح کے تین طریقے:
اول: مکمل سر کا مسح
عبد اللہ بن زیدؓ کی حدیث:
"آپ ﷺ نے ہاتھ آگے لے جا کر گدی تک اور واپس لے آئے۔”
(صحاح ستہ)
دوم: صرف پگڑی پر مسح
عمر بن امیہؓ، بلالؓ کی روایات:
"آپ ﷺ نے پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔”
(احمد، بخاری، ابن ماجہ)
سیدنا عمرؓ:
"جسے پگڑی کا مسح پاک نہیں کرتا، اللہ اسے پاک نہ کرے۔”
(صحاح ستہ)
سوم: ناصیہ اور پگڑی پر مسح
مغیرہ بن شعبہؓ:
"آپ ﷺ نے وضو کیا، پھر پیشانی، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔”
دیگر تفسیری و فقہی اقوال:
تفسیر قرطبی
(2/267):
اللہ تعالیٰ نے "رُءُوسِكُمْ” کا ذکر اس لیے کیا تاکہ مکمل سر مراد لیا جائے، جیسے "وُجُوهَكُمْ” میں مکمل چہرہ مراد ہے۔
المنار
(1/53):
مکمل سر پر مسح واجب ہے، اور باء الصاق کا فائدہ بھی مکمل مسح پر دلالت کرتا ہے۔
الکشف القناع
(1/98):
چہرے کی طرح سر کے مکمل حصے پر مسح واجب ہے۔ نبی ﷺ کا عمل قرآن کی توضیح ہے۔
اقوالِ ائمہ لغت:
ابو بکر رحمہ اللہ:
"میں نے ابن درید اور ابن عرفہ سے پوچھا کہ کیا باء تبعیض کے لیے آتی ہے؟ دونوں نے انکار کیا۔”
ابن برہان رحمہ اللہ:
"باء کو تبعیض کے لیے لینا عربیت کے خلاف ہے۔”
نتیجہ:
تین طریقے نبی ﷺ سے مسح کے ثابت ہیں:
❀ مکمل سر کا مسح
(عبداللہ بن زیدؓ)
❀ صرف پگڑی پر مسح
(عمر بن امیہؓ، بلالؓ)
❀ ناصیہ اور پگڑی پر مسح
(مغیرہؓ)
جزوی سر کا مسح کہیں بھی مستقل طور پر ثابت نہیں۔
واللہ أعلم بالصواب