وضوء اور غسل میں نیت کرنا فرض ہے
سوال :
کیا وضوء اور غسل میں نیت کرنا فرض ہے؟
جواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبادات میں نیت کا مقام اور فرضیت
جمہور اہل علم کے نزدیک، اور جو قول راجح اور اصح مانا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ:
نیت تمام عبادات میں فرض ہے۔
چاہے وہ عبادت بذاتِ خود مقصود ہو یا کسی عبادت مقصودہ کا ذریعہ۔
جو اہل علم عبادات میں مقصود اور وسیلہ کا فرق کرتے ہیں، ان کے پاس محض قیاس کے سوا کوئی واضح دلیل نہیں، اور یہ قیاس نصوص کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
نبی کریم ﷺ کی حدیث اور نیت کی بنیاد
نبی کریم ﷺ کا فرمان جو صحاح، سنن، اور مسانید میں وارد ہے:
"إنما الأعمال بالنیات”
(بیشک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
تمام اعمال نیت کے تابع ہیں۔
جو شخص اعمال کے درمیان نیت کے مسئلے میں فرق کرتا ہے، اس پر دلیل پیش کرنا لازم ہے۔
یہ حدیث اسلام کے عظیم قواعد میں سے ایک ہے جس کی طرف توجہ دینا فرض ہے۔
وضوء اور طہارت: مستقل عبادت کی حیثیت
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وضوء اور طہارت مستقل عبادات میں شامل ہیں۔
جیسا کہ امام احمد، مالک، دارمی اور ابن ماجہ نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
"اسْتَقِيمُوا وَلَنْ تُحْصُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةُ، وَلَا يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِن”
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ:
وضوء پر مداومت ایمان کی علامت ہے۔
چاہے وہ وضوء نماز کے لیے ہو یا نہ ہو، یہ عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ طہارت کو پسند فرماتا ہے، لہٰذا وضوء بذاتِ خود اللہ کو محبوب عمل ہے، اور یہ صرف وسیلہ نہیں بلکہ مستقل عبادت ہے۔
تیمم کی مثال – عبادت یا نفسِ عبادت؟
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے مطابق، نبی کریم ﷺ پیشاب کے بعد مٹی سے تیمم کر لیتے تھے، حالانکہ پانی قریب ہوتا۔
جب پوچھا گیا تو فرمایا:
"میں کیا جانوں شاید میں (پانی تک) نہ پہنچ سکوں”
(احمد: 1/303)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
تیمم صرف عبادت کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ بذاتِ خود نفس عبادت تھا۔
ذکر و طہارت کے ساتھ رات گزارنے کی فضیلت
امام احمد، ابو داؤد اور المشکاۃ (1/108) میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جو مسلمان ذکر کر کے بحالت طہارت رات بسر کرتا ہے، پھر رات میں جاگ جائے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی خیر مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے”
اس مفہوم کی احادیث کثیر تعداد میں موجود ہیں، جو طہارت کی مستقل عبادت ہونے کو تقویت دیتی ہیں۔
وضوء کو کپڑے دھونے پر قیاس: ایک ناقص قیاس
جو لوگ وضوء کو کپڑے دھونے پر قیاس کرتے ہیں اس بنیاد پر کہ کپڑے دھونے میں نیت واجب نہیں، ان کا یہ قیاس مع الفارق ہے، کیونکہ:
طہارت کی دو اقسام ہیں:
➊ حدث سے طہارت – (وضوء، غسل):
یہ نیت کی محتاج ہے۔
➋ نجاست سے طہارت – (کپڑوں، بدن یا جگہ کی صفائی):
اس میں نیت کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کا تعلق ترکِ منہیات سے ہے۔
جیسے:
◈ زنا چھوڑ دینا
◈ شراب نہ پینا
◈ عملِ قومِ لوط سے اجتناب
◈ چوری اور غصب نہ کرنا
ان امور میں روز نیت کرنا ضروری نہیں ہوتا کہ مثلاً:
"میں نیت کرتا ہوں کہ زنا نہیں کروں گا”
"میں نیت کرتا ہوں کہ میں شراب نہیں پیوں گا”
وغیرہ
اقوالِ ائمہ کی تائید
امام نووی رحمہ اللہ نے "شرح المہذب (1/309)” میں اس بات کا ذکر فرمایا ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی "فتح الباری (1/11)” میں اس کی تائید کی ہے۔
جو شخص دین میں احتیاط سے کام لیتا ہے، وہ اسی قول کو ترجیح دے گا۔
اور جو شخص تقلید کے اندھیروں میں گھر چکا ہے، تو اس پر حق دیکھنے کی ملامت نہیں، کیونکہ وہ تاریکی میں ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب