وضوء کے دوران گفتگو سے متعلق 5 شرعی دلائل
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 358

وضوء کے دوران باتیں کرنا: شرعی حکم اور دلائل

سوال 

وضوء کرتے ہوئے باتیں کرنا جائز ہے؟ کیا اس میں کوئی کراہت ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بات چیت کی دو اقسام

اچھی باتیں:

اچھی باتیں وضوء میں بھی اچھی ہیں اور غیر وضوء کی حالت میں بھی اچھی سمجھی جاتی ہیں۔

بری باتیں:

بری باتیں ہر حالت میں بری ہی رہتی ہیں، چاہے وہ وضوء کے دوران ہوں یا کسی اور وقت۔

وضوء میں مباح باتیں حرام یا مکروہ کہنے کی غلطی

جو شخص وضوء کے دوران مباح یا اچھی باتوں کو حرام یا مکروہ کہے، اس کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔

بعض لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ وضوء میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں، اور بات چیت ان دعاؤں کے فوت ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے:

وضوء کے دوران صرف تین دعائیں ہی صحیح سند سے ثابت ہیں، باقی تمام دعائیں ثابت نہیں۔ لہٰذا بغیر دلیل کسی چیز کو مکروہ کہنا شرعاً ناجائز ہے۔

شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کوئی حکم (مثلاً مکروہ یا حرام کہنا) وضع کرے۔

وضوء میں بات کرنے کے جواز پر صحیح احادیث کی روشنی

حدیث عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیغام بھیجا کہ مسلح ہو کر آپ کے پاس آؤں۔ جب میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضوء فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:
’’اے عمرو! میں تمہیں ایک مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں…‘‘
میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میں نے تو ہجرت مال کے لیے نہیں کی، میری ہجرت تو صرف اللہ اور اس کے رسول کے لیے تھی۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اچھا مال نیک آدمی کے لیے اچھی چیز ہے‘‘
(احمد: 4/197-202، بغوی شرح السنہ، المشکاۃ: 2/326، للخطیب، بسند صحیح)

حدیث ام ہانیء بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا

ام ہانیء بیان کرتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فتح مکہ کے سال آئی۔ آپ غسل فرما رہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ پر کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھیں۔
میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ کون ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں ام ہانیء بنت ابی طالب ہوں‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ام ہانیء کو خوش آمدید ہو‘‘
(بخاری: 1/42، مسلم: 1/249، المشکاۃ باب الامان: 2/377)

یہ حدیث غسل کرتے ہوئے بات کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، تو وضوء میں بات کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔

حدیث مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"ہم غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ فجر کے وقت آپ قضائے حاجت کے لیے گئے۔ میں برتن اٹھا لایا۔ آپ نے وضوء کیا، ہاتھ دھوئے، چہرہ دھویا، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔
جب میں موزے اتارنے لگا تو آپ نے فرمایا:
’’انہیں چھوڑ دو، میں نے ان میں طہارت کی حالت میں پاؤں داخل کیے تھے‘‘
(بخاری: 1/40، مسلم: 1/48، المشکاۃ: 1/48)

امام نووی رحمہ اللہ کی وضاحت

شرح مسلم (1/249) میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی مہمان یا ملاقات کرنے والے کو حالت غسل یا وضوء میں ‘مرحبا’ کہنا جائز ہے۔
نیز، وضوء یا غسل کے دوران بات کرنا یا سلام کہنا شرعاً درست ہے، البتہ قضائے حاجت کے دوران ایسا کرنا جائز نہیں۔”

حدیث ابن عباس و مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم

ابن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کے درمیان محرم کے غسل کے بارے میں اختلاف ہوا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس تحقیق کے لیے بھیجا۔
وہ غسل کر رہے تھے اور پردہ کیے ہوئے تھے۔ ابن عباس نے سلام کیا تو ابو ایوب نے کہا:
’’کون ہے؟‘‘
جب نام بتایا تو کپڑے کو تھوڑا سا نیچے کیا اور سر دکھا کر وضاحت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں کیسے غسل کیا۔
(مسلم: 1/383-384)

امام نووی رحمہ اللہ کا تبصرہ

امام نووی رحمہ اللہ اس پر فرماتے ہیں:
"یہ حدیث وضوء و غسل کرنے والے کو سلام کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، برخلاف قضائے حاجت کے۔”

خلاصہ

وضوء کے دوران بات کرنا جائز ہے، چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی، بشرطیکہ وہ بات مباح یا اچھی ہو۔
اس کو مکروہ یا ناجائز کہنا بلا دلیل بات ہے اور شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔
احادیث مبارکہ اور اقوال محدثین اس بات پر واضح دلیل فراہم کرتے ہیں کہ وضوء کے دوران گفتگو کی اجازت ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1