وضوء میں کسی دوسرے کی مدد لینے کا شرعی حکم
سوال:
کیا وضوء کے دوران کسی دوسرے شخص سے مدد لینا جائز ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بغیر عذر کسی سے مدد لینا
کسی شرعی عذر کے بغیر دوسروں سے مدد لینا متقی اور پرہیزگار انسان کا شیوہ نہیں۔
اس کی بنیاد ایک صحیح حدیث پر ہے:
ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو مجھے لوگوں سے کچھ بھی نہ مانگنے کی ضمانت دے، تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔”
تو ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "میں ضمانت دیتا ہوں۔” پھر وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے۔
(ابو داؤد 1/239، نسائی 1/362، المشکاۃ 1/163)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بھی لوگوں سے کچھ نہ مانگنے کی شرط پر رضامند کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر تیرا کوڑا تجھ سے گر جائے تو اسے بھی خود ہی اٹھا لے۔”
(مسند احمد 5/181، المشکاۃ 1/164)
یہ اور دیگر احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ بغیر عذر کے دوسرے سے مدد مانگنا مکروہ ہے۔
عذر کی صورت میں مدد لینا
اگر کوئی شخص کسی جسمانی عذر کی وجہ سے مدد لینے پر مجبور ہو، جیسے ہاتھ یا پاؤں میں زخم ہو، تو پھر مدد لینا نہ صرف جائز بلکہ بعض اوقات لازم ہوتا ہے کہ مسلمان بھائی اس کی مدد کرے۔
الفقہ الاسلامی (1/252) میں یہی وضاحت موجود ہے۔
پانی ڈالنے میں مدد لینا
ابن ماجہ (1/67) میں ایک باب ہے:
’’باب: آدمی کا وضوء کرتے ہوئے کسی سے مدد لینا تاکہ وہ اسے پانی ڈالے‘‘۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے گئے، پھر واپس آئے، میں آپ کے لیے پانی لایا۔
میں نے پانی انڈیلا، آپ نے ہاتھ دھوئے، منہ دھویا، جب آستینیں تنگ ہو گئیں تو آپ نے ہاتھ آستین کے نیچے سے نکال کر دھوئے اور موزوں پر مسح کیا، پھر نماز پڑھائی۔
بخاری و مسلم میں ربیع بنت معوذ کی روایت ہے:
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹا لایا، آپ نے فرمایا: "پانی ڈال”۔
میں نے پانی انڈیلا، آپ نے منہ، ہاتھ دھوئے، پھر نئے پانی سے سر کا آگے پیچھے مسح کیا اور پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے۔
(ابو داؤد: 117، 122، 1/27)
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وضوء کے دوران پانی ڈالنے میں دوسرے سے مدد لینا جائز ہے، اگرچہ کوئی عذر نہ ہو۔
فقہاء کا اختلاف
المنتقی بشرح النیل (1/218) میں ابو البرکات ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی اور فرمایا:
"حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وضوء میں دوسرے سے مدد لینا جائز ہے۔”
بعض فقہاء اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں۔
بحر میں لکھا ہے:
"پانی ڈالنے میں دوسرے کی مدد لینے پر اجماع ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی صحابہ پانی ڈالتے تھے۔”
بعض ضعیف روایات
کچھ لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
"میں وضوء میں کسی کی مدد نہیں لیتا۔”
لیکن امام نووی شرح المہذب میں کہتے ہیں:
"یہ حدیث باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔”
بزار اور ابو یعلی نے اسے روایت کیا، لیکن اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ راوی مجہول اور ناقابل اعتماد ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت
ان سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا وضوء کا پانی کسی کے حوالے نہیں کرتے تھے۔”
(ابن ماجہ، دارقطنی)
اس روایت میں مطہر بن ہیثم ضعیف راوی ہے، جب کہ صحیحین میں ثابت ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید، ربیع بنت معوذ، اور صفوان بن عسال رضی اللہ عنہم سے پانی انڈیلنے میں مدد لی تھی۔
ان احادیث سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ پانی ڈالوانے میں مدد لینا جائز ہے اور اس پر اجماع بھی ہے۔
اعضاء دھلوانے میں اختلاف
اختلاف کا مرکز اعضاء دھلوانے میں دوسرے سے مدد لینے پر ہے، نہ کہ صرف پانی ڈالوانے پر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی اپنے اعضاء دھلوانے کے لیے کسی کو استعمال کیا ہو۔
اسی طرح آپ کے اقوال سے بھی اس کا جواز معلوم نہیں ہوتا۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مکلف کے لیے کسی کو نائب بنانا کافی ہے، ان پر دلیل پیش کرنا واجب ہے۔
امام بخاری کی تصریح
امام بخاری نے فرمایا:
’’باب ہے آدمی کا اپنے ساتھی کو وضوء کرانا‘‘
(بخاری 1/30)
پھر انہوں نے اسامہ اور مغیرہ بن شعبہ کی پانی ڈالنے والی احادیث ذکر کیں۔
امام ابن حجر فتح الباری (1/229) میں فرماتے ہیں:
"یہ دونوں حدیثیں پانی ڈالنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں لیکن اعضاء دھلوانے کا ثبوت نہیں دیتیں۔”
امام ابو جعفر الطبری اور دیگر اقوال
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں وضوء میں کسی سے مدد لوں یا رکوع و سجدے میں۔”
اس قول کو صرف اعضاء دھلوانے پر محمول کیا جا سکتا ہے، نہ کہ پانی ڈالنے پر۔
طبرانی وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ:
"ابن عمر رضی اللہ عنہما خود پانی انڈیلتے تھے جب پاؤں دھوتے تھے۔”
بیہقی، السنن الکبری (1/83) میں بھی پانی ڈالنے کی احادیث نقل کی گئی ہیں۔
نتیجہ
❀ بلا عذر اپنے اعضاء (ہاتھ، پاؤں) دھلوانا جائز نہیں۔
❀ عذر کی صورت میں یہ جائز اور بعض اوقات ضروری ہے۔
❀ صرف پانی ڈالوانے میں مدد لینا جائز ہے، اگرچہ مستحب نہیں۔
❀ اعضاء دھلوانے میں دوسرے کی مدد کے جواز کے لیے کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب