وضوء کے بعد خشک جگہ رہ جانے پر 7 شرعی احکام
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 380

وضوء یا غسل کے بعد بدن پر جگہ خشک رہ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

سوال :

اگر کوئی شخص وضوء یا غسل کے بعد دیکھے کہ اس کے بدن پر کوئی جگہ خشک رہ گئی ہے، تو کیا اسے وضوء یا غسل دوبارہ کرنا ہوگا یا صرف اس جگہ پر گیلا ہاتھ پھیر لینا کافی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ کی بنیاد

یہ مسئلہ اس اصول پر مبنی ہے کہ وضوء میں موالاۃ (یعنی اعضائے وضوء کو پے در پے دھونا) فرض ہے یا نہیں؟
صحیح اور راجح بات یہی ہے کہ موالاۃ وضوء میں فرض ہے، جیسا کہ درج ذیل دلائل سے ثابت ہوتا ہے:

دلائل:

➊ حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ:
’’ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ وہ وضوء کر چکا تھا، اور اس کے قدموں پر ناخن جتنی جگہ خشک تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واپس جا کر اچھی طرح وضوء کر۔‘‘
(صحیح مسلم: 125، ابو داؤد: 1/35، باب تفریق الوضوء)

➋ حدیث عمر فاروق رضی اللہ عنہ:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واپس جا اور اپنا وضوء اچھی طرح کر۔‘‘
نیز امام احمد کی روایت میں ہے:
’’وہ شخص واپس گیا، وضوء کیا اور نماز ادا کی۔‘‘
(احمد: 1/21، 23؛ 3/146)

امام نووی رحمہ اللہ کا تبصرہ:

شرح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض وغیرہ نے ان احادیث سے موالاۃ کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنا وضوء اچھی طرح کر‘‘
لیکن یہ نہیں کہا:
’’جگہ چھوڑی ہے اسے دھو۔‘‘

امام نووی کے نزدیک اس قول میں مکمل وضوء یا صرف جگہ کو دھونے دونوں کا احتمال ہے، لہٰذا کسی ایک پر عمل کو ضروری قرار دینا درست نہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ کی رائے کی تردید:

راجح بات یہ ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول باطل ہے۔

اس مسئلہ میں استیناف (نئے سرے سے وضوء کرنا) ہی مراد ہے کیونکہ:

ابو داؤد (1/36، حدیث: 175) میں صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جس کے قدم پر درہم کے برابر جگہ خشک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز اور وضوء دہرانے کا حکم دیا۔

عون المعبود کی وضاحت:

عون المعبود (1/68) میں عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث موالاۃ کے وجوب کی صریح دلیل ہے، کیونکہ تھوڑی سی جگہ خشک رہ جانے کی بنا پر وضوء کے اعادے کا حکم تبھی دیا جا سکتا ہے جب موالاۃ فرض ہو۔‘‘

یہ امام مالک، اوزاعی، احمد بن حنبل اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کے قول کی تردید مسند احمد کی روایت سے ہو جاتی ہے۔

روایت عمر رضی اللہ عنہ:

ابن ابی شیبہ (1/41) میں قلابہ سے روایت ہے کہ: ’’عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا، اس کے قدم کی پشت پر ناخن جتنی جگہ خشک تھی، تو انہوں نے اسے وضوء اور نماز کے اعادے کا حکم دیا۔‘‘

مزید تحقیقی حوالہ جات:

تفصیلی تحقیق کے لیے ملاحظہ کریں:
الارواء (1/126، رقم: 86)
نیل الاوطار از امام شوکانی (1/217-218)

المغنی کی وضاحت:

المغنی (1/158) کے مطابق:

امام احمد رحمہ اللہ نے موالاۃ کے وجوب کی تصریح کی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے دو اقوال میں سے ایک یہی ہے۔
امام مالک فرماتے ہیں:
اگر دانستہ تفریق کی جائے تو وضوء باطل ہے۔
اگر بھول سے ہو تو وضوء باطل نہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی بنا پر:
’’جب آپ نے ایک شخص کے قدم پر درہم کے برابر جگہ خشک دیکھی تو وضوء اور نماز دونوں کے اعادے کا حکم دیا۔‘‘

اگر موالاۃ فرض نہ ہوتی تو صرف اسی جگہ کو دھونا کافی ہوتا۔
کیونکہ یہ عبادت ہے، اور حدث اس کو فاسد کر دیتا ہے، جیسے نماز میں تسلسل ضروری ہے۔

غسل کے بارے میں حکم:

وضوء کے برعکس، غسل کو ایک ہی عضو کے برابر سمجھا جاتا ہے، اس میں موالاۃ واجب نہیں۔

اس کی بنیاد وہ روایت ہے جو ابن ابی شیبہ (1/41) میں علاء سے مروی ہے کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کے بعد نکلے تو آپ نے کندھے پر ایک خشک جگہ دیکھی، تو اپنے بالوں سے ہاتھ تر کر کے اسے گیلا کر دیا۔‘‘

لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ابو علی الرجی مجہول راوی ہے۔

خلاصہ:

اگر وضوء یا غسل کے دوران کوئی جگہ خشک رہ جائے، اور بعد میں اس پر پانی بہایا جائے جبکہ باقی اعضا خشک ہو چکے ہوں، تو:

➤ وضوء یا غسل دوبارہ کرنا ضروری ہوگا۔
➤ اگر ایسے وضوء سے نماز پڑھی گئی ہو، تو نماز کا اعادہ بھی واجب ہے۔

یہ حکم صرف اس وقت لاگو ہوتا ہے جب موالاۃ کو فرض مانا جائے، اور دلائل کے مطابق یہی راجح قول ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1