وضوء کے آغاز میں تسمیہ سے متعلق 5 رہنما احکام
فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص355

وضوء کے آغاز میں "بسم اللہ” کہنا

سنتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں تسمیہ کے الفاظ

سوال

وضوء شروع کرتے وقت تسمیہ کن الفاظ میں ادا کیا جائے؟

جواب 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضوء کے آغاز میں تسمیہ: احادیث کی روشنی میں

پہلی حدیث: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت

ابن السنی، عمل الیوم واللیلۃ، رقم (27)

روایت:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ میں سے ایک شخص نے وضوء کا پانی مانگا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟”
پھر آپ ﷺ نے برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا:
"بسم اللہ کہہ کر وضوء کرو”

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

"میں نے دیکھا کہ آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکل رہا تھا، یہاں تک کہ سب نے وضوء کر لیا۔”

میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

"آپ کا کیا خیال ہے، وہ کتنے لوگ تھے؟”
انہوں نے فرمایا:
"تقریباً ستر کے قریب تھے۔”

باب کا عنوان:

’’یہ باب وضوء کے تسمیہ کی کیا کیفیت ہے؟‘‘

دیگر حوالہ جات:

نسائی (1/18) رقم (76)
بیہقی (1/43)
دارقطنی (1/71)

دوسری حدیث: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت

روایت:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اے ابو ہریرہ! جب تو وضوء کرنے لگے تو کہہ: بسم اللہ والحمد للہ۔ تیرے محافظ فرشتے تیرے لئے نیکیاں لکھتے رہیں گے جب تک تیرا یہ وضوء ٹوٹ نہیں جاتا۔”

حوالہ جات:

طبرانی صغیر (73)
المجمع للھیثمی (1/220)

سند کی حیثیت:

اس کی سند کو "حسن” کہا گیا ہے۔

رد المختار (1/74) میں بھی یہی بات درج ہے۔

اس باب کی احادیث کی صحت پر گفتگو

بعض علماء کے نزدیک اس باب کی صریح احادیث معلول (علت والی) ہیں، اور کوئی بھی سند اعتراض سے خالی نہیں۔
لہٰذا، کلی اعتبار سے ان کی سند کو ضعیف سمجھا جاتا ہے۔
تاہم، پہلی حدیث صحیح الاسناد ہے مگر غیر صریح ہے۔

تحفۃ الاحوذی (1/37) میں وضاحت ہے:

"اس باب کی احادیث یا تو حسن صریح ہیں یا صحیح غیر صریح۔”

احادیث کا مجموعی استدلال

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ان احادیث کے مجموعے سے ایک قوت پیدا ہوتی ہے جو اس کی اصل مشروعیت پر دلالت کرتی ہے۔”

ولی اللہ الدہلوی کا موقف

حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہ الدہلوی فرماتے ہیں:

"یہ (ابو ہریرہ والی حدیث) نص ہے کہ تسمیہ رکن ہے یا شرط۔”

ایک ضعیف حدیث: علی رضی اللہ عنہ کی روایت

مطالب عالیہ لابن حجر (1/25) رقم (81)

علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اے علی! جب تو وضوء کرے تو کہہ: اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ! میں تجھ سے اس وضوء کا اتمام چاہتا ہوں، اور اتمام نماز، تیری رضا کا اور مغفرت کا۔ یہ وضوء کی زکاۃ ہے۔”

نوٹ:

یہ حدیث حارث سے مروی ہے، جس میں شدید ضعف ہے۔

فقہاء کا موقف

فقہاء فرماتے ہیں کہ:

"وضوء کرنے والا تسمیہ سے شروع کرے، اور یہ تسمیہ ذکر سے حاصل ہو جاتا ہے۔”

نبی ﷺ سے یہ الفاظ منقول ہیں:

"بسم اللہ العظیم والحمد للہ علی دین الاسلام”

حوالہ: رد المختار

اس روایت کی سند و مخرج کی تحقیق ضروری ہے، جو واضح طور پر موجود نہیں۔

تعوذ کے اضافے کی روایت

بعض حضرات نے اس میں تعوذ (اعوذ باللہ…) کا اضافہ بھی کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ ماخذ میں آیا ہے۔

خلاصہ مسئلہ

سنت یہ ہے کہ وضوء کے آغاز میں صرف "بسم اللہ” یا "بسم اللہ الرحمن الرحیم” کہا جائے۔

ان کے علاوہ جو الفاظ منقول ہیں، ان کی صحیح سند موجود نہیں۔

حوالہ جات:

المجموع (1/344)
المغنی (1/115)

تسمیہ سے مراد:

"بسم اللہ” کہنا ہے۔

اس کا کوئی قائم مقام نہیں، جیسے کہ ذبیحہ کے تسمیہ میں ہوتا ہے۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1