وضوء اور غسل میں غرغرہ کرنا: شرعی حکم اور تفصیلی دلائل
سوال :
کیا وضوء اور غسل کرنے والے کے لیے غرغرہ کرنا واجب ہے؟ اور اگر روزہ دار کو دن میں احتلام ہو جائے تو کیا افطار کے وقت غرغرہ کرنا ضروری ہے؟
جواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:
وضوء یا غسل میں غرغرہ کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی روزہ دار کو دن کے وقت احتلام ہو جائے، تو افطار کے وقت غرغرہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
وضوء اور غسل میں ناک میں پانی چڑھانے اور کلی کرنے کی فرضیت
شرعی احکام:
ناک میں خوب پانی چڑھانا صرف اس صورت میں فرض ہے جب روزہ نہ ہو۔
ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ اور مشکاۃ میں حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
"مکمل وضوء کر، انگلیوں کا خلال کر اور ناک میں خوب پانی چڑھا جب تیرا روزہ نہ ہو۔”
(ابو داؤد 1/29، ترمذی 1/41، ابن ماجہ 1/70، المشکاۃ 1/76)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے:
"جب تم میں سے کوئی وضوء کرے تو ناک میں پانی ڈال کر جھاڑے۔”
(ابو داؤد 1/29، سند صحیح ہے)
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو، تو اسے ناک تین بار جھاڑنا چاہیے کیونکہ شیطان اس کی ناک میں ٹھہرا رہتا ہے۔”
(مشکاۃ 1/45)
وضوء اور غسل میں کلی کرنا اور ناک جھاڑنا فرض کیوں ہے؟
اہم نکات:
◈ منہ کو دھونے کا حکم قرآن میں آیا ہے، اور کلی (مضمضہ) و ناک میں پانی ڈالنا (استنشاق) اسی میں شامل ہیں۔
◈ اگرچہ منہ اور ناک کے الگ الگ نام ہیں، لیکن یہ دونوں چہرے میں داخل ہیں، جیسے رخسار، آنکھ، پلکیں وغیرہ۔
اضافی دلائل:
مسلمہ بن قیس کی حدیث:
"جب تو وضوء کرے تو ناک جھاڑ۔”
(ترمذی 1/10، نسائی 1/27)
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت:
"جب تو وضوء کرے تو کلی کر۔”
(ابو داؤد 1/21، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اسے صحیح الاسناد کہا)
مضمضہ اور استنشاق کے وجوب پر دیگر دلائل:
دارقطنی کی روایت:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا حکم دیا۔”
دارقطنی کے مطابق: "یہ روایت اگرچہ بعض نے مرسل بیان کی ہے، مگر راوی ‘ہدبہ’ صحیحین کا راوی ہے، لہٰذا قابل قبول ہے۔”
زاد المعاد (1/167) – امام ابن القیم رحمہ اللہ:
نبی ﷺ سے کبھی بھی مضمضہ اور استنشاق ترک کرنا ثابت نہیں۔
ابو بشر الدولابی اور ابو الحسن بن القطان کی تصریحات:
"جب تو وضوء کرے تو مضمضہ اور استنشاق میں مبالغہ کر، سوائے جب کہ تو روزے سے ہو۔”
بیہقی کی روایت (1/52) – حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:
"مضمضہ اور استنشاق وضوء میں ضروری ہیں۔”
اعتراضات اور ان کے جوابات:
اعتراض:
"دس چیزیں سنن میں سے ہیں۔”
جواب:
یہ حدیث فطری امور کے بارے میں ہے، اصطلاحی سنت مراد نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث (مضمضہ اور استنشاق سنت ہے) ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن مسلم راوی ضعیف ہے۔
(دارقطنی 1/85)
اعتراض:
"قرآن میں چہرہ دھونے کا ذکر ہے، مگر مضمضہ اور استنشاق کا نہیں۔”
جواب:
چہرے کے دھونے میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنا شامل ہے۔
نبی ﷺ کا حکم، اللہ کا حکم ہے:
"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا”
(الحشر)
اقوالِ ائمہ
◈ امام شوکانی (السيل الجرار 1/81):
"وجوب کا قول ہی حق ہے، کیونکہ قرآن میں چہرے کے دھونے کا حکم ہے اور یہ دونوں (مضمضہ و استنشاق) چہرے میں داخل ہیں۔”
◈ امام ابن حزم (المحلی 1/297):
"استنشاق و استنثار واجب ہیں۔”
◈ حجۃ اللہ البالغہ (2/175):
"نبی ﷺ سے بغیر مضمضہ و استنشاق کے وضوء کی کوئی صحیح اور صریح روایت نہیں۔”
لغوی وضاحت:
◈ مضمضہ: پانی کو منہ میں گھمانا۔
◈ استنشاق: ناک کے ذریعے پانی نکالنا۔
غرغرہ اور ناک میں انگلی ڈالنے کا حکم:
◈ غرغرہ (پانی کو گلے تک لے جا کر گڑگڑانا) کی کوئی اصل نہیں۔
◈ ناک میں انگلی ڈالنے کی کوئی دلیل نہیں۔
عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث:
"نبی ﷺ نے مضمضہ اور استنشاق ایک ہی چلو سے کیا، اور یہ فعل تین بار کیا۔”
(متفق علیہ)
بعض احادیث میں انہیں الگ الگ کرنا بھی ثابت ہے۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب