وصیت سے متعلق 5 اہم شرعی احکام اور ہدایات

وصیت کرنے کی اہمیت اور طریقہ

قرض یا امانت کی موجودگی میں وصیت کرنا ضروری ہے

اگر کسی شخص پر کسی کا قرض ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت ہو، اور وہ زندگی میں ان کی ادائیگی سے قاصر ہو، تو اس پر لازم ہے کہ ان معاملات کی وصیت کرے تاکہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء یہ ذمہ داریاں ادا کریں۔ اگر مرنے والے کے ترکہ میں اتنا مال موجود نہ ہو تو اس کے وارثوں کو چاہیے کہ وہ اس کی طرف سے قرض یا امانت ادا کریں۔

حدیثِ مبارکہ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کسی مسلمان کے پاس کوئی مال قابل وصیت ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ دو راتیں بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کئے بغیر گزارے۔‘‘
(بخاری، کتاب الوصایا باب الوصایا: 8372، مسلم: 7261)

وصیت کرنے کی حد: تہائی مال تک اجازت

تہائی مال میں وصیت کی اجازت

قرض کی ادائیگی کے بعد باقی مال میں سے انسان کو صرف ایک تہائی مال تک وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ اس تہائی حصے میں وہ کسی مستحق فرد یا ادارے کو کچھ دینے کی وصیت کر سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے وارثین میں سے کسی کو اس کے حق سے زیادہ نہیں دے سکتا۔

حدیثِ مبارکہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"ایک تہائی حصے کی وصیت کرو اور تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔”
(بخاری: 2472، مسلم، الوصیۃ باب الوصیۃ بالثلث: 8261)

وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں

شرعی حکم

اسلام میں ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا گیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

حدیثِ مبارکہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔”
(ابو داؤد، الوصایا باب ما جاء فی الوصیۃ للوارث: 2780)

کسی کے انجام کے متعلق یقین کے ساتھ رائے دینا

حتمی رائے دینے سے اجتناب

اسلام میں کسی کے متعلق، خواہ وہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، حتمی طور پر یہ کہنا کہ وہ جنتی ہے یا اللہ کا ولی ہے، صرف ظن و گمان کی بنیاد پر درست نہیں ہے۔ البتہ اس کے متعلق اچھی امید رکھنا جائز ہے۔

ام العلاء رضی اللہ عنہا کا واقعہ

ام العلاء انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
جب سیّدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، انہیں غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا:
"اے ابو سائب! آپ پر اللہ کی رحمت ہو، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تجھے عزت بخشی ہے۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تجھے کیسے پتا کہ اللہ نے اسے عزت بخشی ہے؟”
میں نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر اللہ کس کو عزت دے گا؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اسے موت آچکی ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے بھی امید ہے کہ اللہ اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا، لیکن اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے، حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔”
میں نے کہا:
"آج کے بعد میں کبھی کسی کے متعلق ایسی گواہی نہیں دوں گی۔”
(بخاری، الجنائز، الدخول علی المیت بعد الموت اذا ادرج فی کفنہ: 3421)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1