وحیہ بن خلیفہ کی روایت کی تحقیق اور سند کا درجہ
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد3، اصول، تخریج الروایات اور ان کا حکم، صفحہ 262

سوال

ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت وحیہ بن خلیفہ الکلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم (عیسائی بادشاہ) کے پاس اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بطور قاصد بھیجا۔ حضرت وحیہ وہاں تشریف لے گئے تو قیصر نے شام کے عرب تاجروں کو جمع کیا، جن میں ابو سفیان بن حرب اور ان کے ساتھی مشرکین مکہ بھی شامل تھے۔ پھر اس (قیصر) نے ان سے متعدد سوالات کیے، جیسا کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ میں مذکور ہے۔

ابو سفیان (جو اس وقت مسلمان نہیں تھے) نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہرقل کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر و بے ادبی کی جائے۔

اسی روایت میں ابو سفیان سے نقل ہوا ہے کہ:

“اللہ کی قسم! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بادشاہ کی نظر میں آپ کی عظمت کو کم کرنے کی کوشش میں کوئی جھوٹی بات نہیں کہی تاکہ مجھے جھوٹا نہ سمجھا جائے اور میری تصدیق نہ ہو۔ اس وقت میرے دل میں ایک خیال آیا اور میں نے کہا: بادشاہ سلامت! سنیں، میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ انھوں نے غلط کہا ہے۔ سنیے! ایک دن انھوں نے کہا کہ وہ اس رات مکہ سے چلے اور آپ کی اس مسجد (یعنی بیت المقدس) میں آئے اور پھر صبح سے پہلے واپس مکہ پہنچ گئے۔”

میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری، جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس عزت سے بیٹھا ہوا تھا، فوراً بول اٹھا:

“یہ بالکل سچ ہے، مجھے اس رات کا علم ہے۔”

قیصر نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا: “تجھے کیسے معلوم ہوا؟”

اس نے کہا:

“میری یہ پکی عادت تھی کہ رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے خود بند کرتا تھا۔ اس رات جب میں نے دروازے بند کیے تو ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا۔ میں نے بہت زور لگایا لیکن دروازہ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں۔ پھر میں نے اپنے ماتحتوں کو بلایا، وہ آئے اور سب نے مل کر زور لگایا لیکن ناکام رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانا چاہتے ہیں، جو اپنی جگہ سے ذرا بھی حرکت نہیں کرتا۔

میں نے کارپینٹر (بڑھئی) بلوایا، اس نے دیکھ کر کہا: اس پر عمارت کا کچھ حصہ اور بڑا پتھر گر گیا ہے، ہم صبح تک اسے ہلا نہیں سکتے، صبح دیکھیں گے کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔ وہ دروازہ رات کو کھلا رہا۔ پھر میں صبح سویرے اس دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے کونے میں جو پتھریلی چٹان تھی، اس میں سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رات کو کسی نے اس میں کوئی جانور باندھا تھا۔ اس کا اثر اور نشان موجود تھا۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنے ساتھیوں سے کہا: آج کی رات ہماری مسجد کسی نبی کے لیے کھلی رکھی گئی تھی اور انھوں نے اس میں ضرور نماز پڑھی ہے۔”

یہ روایت تفسیر ابن کثیر (مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ ج3ص215۔216) میں بحوالہ دلائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبہانی مذکور ہے۔

 کیا یہ روایت اصول حدیث اور اسماء الرجال کے مطابق صحیح اور قابل حجت ہے؟ براہ کرم تحقیق کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔

جزاکم اللہ خیراً

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دلائل النبوۃ سے نامکمل سند کے ساتھ نقل کی ہے۔

(دیکھئے تفسیر ابن کثیر مع تحقیق عبدالرزاق المہدی ج4ص115)

تاہم، یہ روایت ہمیں دلائل النبوۃ کے مطبوعہ نسخے یا دیگر کسی کتاب میں مکمل سند کے ساتھ دستیاب نہیں ہوئی۔ لہٰذا حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ سند کی تحقیق درج ذیل ہے:

اس روایت کی کمزوری کے اسباب

➊ بنیادی راوی محمد بن عمر بن واقدی الاسلمی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔

حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"ضعفہ الجمہور”
جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

(مجمع الزوائد ج3ص255)

حافظ ابن الملقن نے کہا:

"وقد ضعفه الجمهور ونسبه الي الوضع: الرازي والنسائي”
جمہور نے اسے ضعیف کہا اور (ابو حاتم) الرازی و نسائی نے وضاع (احادیث گھڑنے والا) کہا۔

(البدر المنیرج5ص324)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"متروک الحدیث”

(کتاب الضعفاء بتحقیقی :344)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کہا:

"کذبہ احمد”

(الکامل لا بن عدی ج6ص2245، دوسرا نسخہ ج7 ص481، وسندہ صحیح)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا”

واقدی احادیث کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا۔ وہ ابن اخی الزہری کی حدیث کو معمر کے ذمے ڈال دیتا اور اسی طرح کی حرکتیں کرتا تھا۔

امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"كما وصف وأشد لأنه عندي ممن يضع الحديث”

جس طرح احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا وہی بات بلکہ اس سے بھی سخت، کیونکہ وہ میرے نزدیک حدیث گھڑتا تھا۔
(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21، وسندہ صحیح)

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"كتب الواقدي كذب”

واقدی کی کتابیں جھوٹ (کا پلندا) ہیں۔
(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21، وسندہ صحیح)

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"والكذابون المعروفون بوضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة. بن أبي يحيى بالمدينة والواقدي ببغداد، ومقاتل بن سليمان بخراسان، ومحمد بن السعيد بالشام، يعرف بالمصلوب”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیثیں گھڑنے والے چار مشہور جھوٹے ہیں:
(1) بن ابی یحییٰ مدینہ میں، (2) واقدی (محمد بن عمر بن واقد الاسلمی) بغداد میں، (3) مقاتل بن سلیمان خراسان میں، (4) محمد بن سعید شام میں (جسے مصلوب کہا جاتا ہے)۔
(آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ص310، دوسرا نسخہ ص265)

نتیجہ:
اس شدید جرح اور جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں بعض علماء کی واقدی کی توثیق مردود اور غلط ہے۔

تنبیہات:

✿ سیرو مغازی یا تاریخ و حدیث کی کوئی بھی سند جس میں واقدی آئے، وہ سخت ضعیف اور مردود بلکہ موضوع ہوتی ہے۔

✿ جس راوی کی بعض نے توثیق کی ہو لیکن جمہور نے جرح کی ہو اور اس پر تطبیق ممکن نہ ہو، تو اس کی منفرد روایت ضعیف اور مردود ہوتی ہے۔

➋ راوی عمر بن عبد اللہ مولیٰ غفرہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"ضعيف وكان كثير الارسال”

(تقریب التہذیب :4934)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"عمر ضعیف”

(تلخیص المستدرک ج1ص495، ح1820)

➌ محمد بن کعب القرظی رحمۃ اللہ علیہ تابعی تھے اور یہ روایت مرسل ہے۔

اگر ان تک یہ سند صحیح بھی ہوتی تو مرسل (یعنی منقطع) ہونے کی وجہ سے ضعیف ہوتی کیونکہ انھوں نے (بشرط صحت) صحابی کا ذکر نہیں کیا۔ اور راجح تحقیق میں مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔

دیکھئے: مقدمہ صحیح مسلم (ص20، طبع دارالسلام)
العلل الصغیر للترمذی (ص896،897، طبع دارالسلام مع السنن الترمذی)

➍ امام ابو نعیم سے لے کر واقدی تک سند نامعلوم ہے۔

یہ ممکن ہے کہ اس میں کوئی مجروح یا مجہول راوی پوشیدہ ہو۔

واللہ اعلم۔

خلاصہ تحقیق

یہ روایت جس کا سوال کیا گیا، سخت ضعیف اور مردود ہے۔
لہٰذا بغیر تنبیہ کے اس کا بیان کرنا جائز نہیں۔

وما علینا الاالبلاغ۔
(26/جون 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1