وتر کے بعد دو نفل پڑھنا، احادیث کی روشنی میں مکمل وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 219

وتر کے بعد دو نفل نماز پڑھنے کا حکم

سوال:

کیا وتر کے بعد دو نفل مشروع ہیں؟ اکثر لوگ رمضان میں تراویح کے بعد وتر کے بعد دو نفل پڑھتے ہیں، اور اسی طرح غیر رمضان میں بھی عشاء کی نماز اور وتر کے بعد دو نفل ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ عمل صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ ان دو نفل کی فضیلت کیا ہے؟ نیز، بیٹھ کر یہ نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وتر کے بعد دو نفل نماز پڑھنا مشروع (جائز اور ثابت شدہ عمل) ہے۔ رسول اللہ ﷺ بھی یہ دو نفل نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اس عمل کے بارے میں صحیح حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے۔

البتہ ان دو نفل نمازوں کو کھڑے ہو کر پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ اگر کوئی شخص بلا کسی شرعی عذر کے یہ دو نفل بیٹھ کر ادا کرے گا، تو اس کو آدھا اجر ملے گا۔

تاہم، رسول اللہ ﷺ کے متعلق خاص بات یہ ہے کہ آپﷺ اگر بغیر عذر کے بھی نفل بیٹھ کر ادا فرماتے تو آپ کو اس کا پورا اجر ہی ملتا تھا۔

صحیح مسلم کی روایت:

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«قُلْتُ حُدِّثْتُ يَا رَسُوْلُ اﷲِ! اَنَّکَ قُلْتَ : صَلاَةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا عَلٰی نِصْفِ الصَّلاَةِ ۔ وَأَنْتَ تُصَلِّیْ قَاعِدًا ؟ قَالَ : اَجَلْ وَلٰکِنِّیْ لَسْتُ کَاَحَدٍ مِنْکُمْ»
(بحواله مشکوة، باب القصد فى العمل، الفصل الثالث)

"حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ‘آدمی کا بیٹھ کر نماز پڑھنا آدھی نماز کے برابر ہے’، لیکن میں نے آپﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا (حیرانی کی حالت میں)، تو آپﷺ نے فرمایا: ‘اے عبداللہ بن عمرو! تمہیں کیا ہوا؟’ میں نے عرض کیا: مجھے یہ حدیث سنائی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا آدمی کا نماز بیٹھ کر پڑھنا آدھی نماز کے برابر ہے، اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ‘ہاں، لیکن میں تم میں سے کسی ایک کی طرح نہیں ہوں۔'”
(روایت: صحیح مسلم)

نتیجہ:

◈ وتر کے بعد دو نفل پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔
◈ یہ نفل نمازیں کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے۔
بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں آدھا اجر ملے گا۔
◈ رسول اللہ ﷺ کو نفل نماز بغیر عذر بیٹھ کر پڑھنے پر بھی پورا اجر عطا کیا جاتا تھا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1