ایک رکعت وتر کی مشروعیت:
صرف ایک رکعت کے بارے میں صحیح بخاری و مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ رات کی نماز (تہجد) کیسے ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
صلاة الليل مثنى مثنى فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة
رات کی نماز دو دو کر کے ہے اور جب تمہیں صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لو۔
رواه الجماعة النيل 31/3/2 مشكاة 1/394
اسی طرح ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں ارشاد نبوی ہے کہ وتر ہر مسلمان پر حق (ثابت) ہے۔
ومن أحب أن يوتر بواحدة فليفعل
جو شخص صرف ایک ہی وتر پڑھنا چاہے تو وہ ایک ہی پڑھ لے۔
مشكاة وصحه 1396/1 نیل الاوطار 29/3/2، 30
ایسے ہی صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔
الوتر ركعة من آخر الليل
وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے۔
نیل الاوطار 33/3/2 تحفۃ الاحوذی 556/2 مدنی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکورہ ارشادات کے علاوہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی وتر کی ایک رکعت کا ثبوت ملتا ہے مثلاً صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک رکعت وتر پڑھا؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
أصاب فإنه فقيه
ان کا عمل مبنی بر صواب و صحیح ہے اور بلاشبہ وہ فقیہ شخص ہیں۔
بخاری شریف میں ہی ایک روایت میں ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھی۔ اس وقت ان کے پاس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک شخص موجود تھا۔ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں (ایک رکعت وتر پڑھنے کی) خبر دی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
ودعه فإنه قد صحب النبى صلى الله عليه وسلم
ان کے اس فعل کو شک کی نظر سے دیکھنا چھوڑیں کیونکہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف صحابیت سے سرفراز ہیں۔
مشكاة ال399 محقق
اسی طرح حسن سند کے ساتھ دارقطنی، طحاوی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا اور طحاوی میں حسن سند کے ساتھ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا اور قیام اللیل مروزی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا اور اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ، حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔
راجع لتفصيل الحصه مدنی
امام شوکانی نے لکھا ہے کہ جمہور علماء امت کے نزدیک ایک رکعت وتر مشروع ہے اور علامہ عراقی سے نقل کرتے ہوئے کثیر صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام ذکر کیے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ ان میں چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے علاوہ پندرہ نام اور بھی ہیں۔ اسی طرح تابعین میں سے حسن بصری، ابن سیرین اور عطاء وغیرہ اور آئمہ میں سے امام احمد، مالک، شافعی، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ، ابوثور، داؤد اور ابن حزم سب ایک رکعت کی مشروعیت کے قائل ہیں۔
تحفہ الاحوزی 55/2-557-558
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ صحیح بخاری و مسلم اور سنن میں مذکور ارشاد نبوی ہے۔
فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة
جب صبح ہو جانے سے ڈر جاؤ تو وتر کی ایک رکعت پڑھ لو۔
سبق التخریج
فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى
اگر کوئی صبح ہو جانے کا خدشہ محسوس کرے تو ایک رکعت پڑھ لے وہ پہلے پڑھی رکعتوں کو وتر بنادے گی۔
بخاری مع الفتح
جس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر کی اجازت صرف اس شکل میں دی ہے جبکہ صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو ورنہ نہیں۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ” اندیشے کی قید “ والی حدیث میں پائے جانے والے اس اشکال یا اعتراض کا حل خود بخاری شریف کی ہی ایک اگلی حدیث میں مذکور ہے جس میں ارشاد نبوی کے الفاظ ہیں۔
فإذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة
جب تو نماز سے پھرنا چاہے (یعنی نماز کو ختم کرنا چاہے) تو ایک رکعت وتر پڑھ لو۔
بخاری مع الفتح 47812
اس حدیث کے الفاظ نے ایک رکعت وتر کی مشروعیت میں اندیشے کی قید یا شرط کا ازالہ کر دیا اور واضح کر دیا کہ نمازی اپنی نماز کو مکمل کر کے جب بھی اپنی جگہ سے پھرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ سکتا ہے۔
ایک رکعت وتر پر بتراء ہونے کا اعتراض اور اس کا علمی رد تیل الاوطار 32-33/3/2، طبع بیروت، محلی ابن حزم 54/3/2 طبع بیروت تحقیق احمد شاکر میں دیکھیں
تین رکعات:
اب آئیے تین رکعت نماز وتر کے دلائل دیکھیں۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کی رکعتوں کے حسن طول کا ذکر کرتی ہیں اسی حدیث میں ہے۔
وثم يصلي ثلاثا
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات (وتر) پڑھتے تھے۔
بخاری مع الفتح 33/3 تخفه 11 حوزی 549/3 النیل 35/3/2
اسی طرح صحیح مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے ذکر میں فرماتے ہیں۔
ثم أوتر بثلاث
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وتر پڑھے تھے۔
تحفہ الاحوزی 549/3
ومن أحب أن يوتر بثلاث فليفعل
اور جو شخص تین وتر پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے۔
مشكاة 1396/1 وصحه النيل 30 . 29/3/2
پانچ رکعات:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتروں کی پانچ رکعتیں بھی ثابت ہیں جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس ولا يجلس فى شيء منهن إلا فى آخرهن
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ان میں سے پانچ وتر ہوتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (پانچ وتروں) کے مابین نہیں بیٹھتے تھے بلکہ صرف آخر میں ایک ہی تشہد بیٹھتے تھے۔
نیل الاوطار 46/3/2
سات رکعات:
بعض احادیث میں وتر کی پانچ رکعتوں کے علاوہ سات رکعتوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں تو پانچ، تین اور ایک رکعت کا ذکر ہے۔
مشکاة 396/1 و صحه ، نیل الاور طار 29/3/2
وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بسبع وخمس لا يفصل بينهن بسلام ولا كلام
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سات اور کبھی پانچ وتر بھی پڑھتے تھے اور ان سب کے درمیان سلام اور کلام سے فصل نہیں کرتے تھے۔
نیل الاوطار 36/3/2
یعنی پانچوں یا ساتوں رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ وتر کی پانچ اور سات رکعتوں کی مشروعیت کا پتا دینے والی اور بھی کئی احادیث ہیں۔
انظر النیل 371312۔
نو رکعات:
دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایسی روایات بھی مذکور ہیں جن سے نو وتروں کی مشروعیت کا پتا چلتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی اور مسواک تیار کر کے رکھتے اور جب اللہ چاہتا نیند سے بیدار کر دیتا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر کے وضو کرتے۔
ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا فى الثامنة
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ ان کے مابین صرف آٹھویں رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھتے۔
اس قعدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر الہی اور تمہید بیان کرتے اور اس سے دعا کرتے پھر سلام پھیرے بغیر ہی (نویں رکعت کے لیے) کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قعدہ ثانیہ تشہد اخیر کے لیے بیٹھتے۔ اس قعدہ میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر الہی و تمہید باری تعالیٰ کے علاوہ دعا کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ آواز کے ساتھ اس طرح) سلام پھیرتے کہ ہمیں سلام سنا دیتے تھے۔ اسی حدیث میں آگے یہ بھی مذکور ہے کہ جب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہو گئے اور گوشت کچھ بڑھ گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات وتر پڑھتے تھے۔
النیل 2713/4 شرح السنہ 18014 الفتح الربانی 98/4
گیارہ رکعات وتر:
ترمذی شریف میں امام ترمذی لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتروں کی تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک رکعت مروی ہیں۔
الترمذی مع التخصه 54512 مدنی مستدرک حاکم 306/1 و قال: واصحبا وتره (ص) برکعته واحده نظر قیام الليل للمروزي ص 88 فتح الباری 80/2
الغرض جو صاحب جتنی رکعتیں پڑھنا چاہے اسے اختیار ہے۔ بخاری و مسلم کی صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ تیرہ رکعتوں والی حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر وغیرہ شارحین نے لکھا ہے کہ ان میں دو رکعتیں وہ ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کا افتتاح فرمایا کرتے تھے یا پھر عشاء کی دو سنتیں ہیں کیونکہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جا کر ہی پڑھا کرتے تھے۔
فتح الباری 48412 انفتح الربانی 479٬299/4