قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا حکم
سوال:
قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے یا نہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ابو حاتم الرازی اور امام ابو زرعہ الرازی کے درمیان مکالمہ:
امام ابو حاتم الرازیؒ (وفات: 277ھ) بیان کرتے ہیں:
"قال لي ابو زرعة : ترفع في القنوت؟ قلت :لا! فقلت له : فترفع انت ؟ قال : نعم : فقلت :ماحجتك ؟ قال : حديث ابن مسعود ‘ قلت : رواه ابن لهيعة ‘ قال : حديث ابن عبا س‘ قلت <: رواه عوف ‘قال: فما حضتك في تركه ؟ قلت : حديث انس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كا ن لايرفع يديه في شئي من الدعاء الا في الاستسقاء فسكت "
تشریح:
امام ابو زرعہ الرازیؒ (وفات: 268ھ) نے امام ابو حاتمؒ سے سوال کیا:
"کیا آپ قنوت میں ہاتھ اٹھاتے ہیں؟”
امام ابو حاتمؒ نے جواب دیا: "نہیں!”
پھر ابو حاتمؒ نے ابو زرعہؒ سے پوچھا: "کیا آپ ہاتھ اٹھاتے ہیں؟”
ابو زرعہؒ نے کہا: "جی ہاں”
ابو حاتمؒ نے پوچھا: "آپ کی دلیل کیا ہے؟”
جواب دیا: "حدیث ابن مسعودؓ”
ابو حاتمؒ نے کہا: "اسے لیث بن ابی سلیم نے روایت کیا ہے”
ابو زرعہؒ نے کہا: "حدیث ابو ہریرہؓ”
ابو حاتمؒ نے کہا: "اسے ابن الہیعہ نے روایت کیا ہے”
ابو زرعہؒ نے کہا: "حدیث ابن عباسؓ”
ابو حاتمؒ نے کہا: "اسے عوف الاعرابی نے روایت کیا ہے”
آخر میں ابو زرعہؒ نے پوچھا: "تو آپ کے پاس ہاتھ نہ اٹھانے کی کیا دلیل ہے؟”
ابو حاتمؒ نے کہا: "حدیث انسؓ کہ رسول اللہ ﷺ دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے سوائے استسقاء کے”
تو امام ابو زرعہؒ خاموش ہو گئے۔
(ماخذ: تاریخ بغداد، جلد 2، صفحہ 76، ترجمة 455، سند حسن۔ وذکرہ الذہبی فی سیر اعلام النبلاء 13/253)
روایت کے راویوں کا مختصر تعارف
◈ منصور محمد بن عیسی بن عبدالعزیز:
"وكان صدوقا”
(تاریخ بغداد 2/406، ترجمة 937)
◈ صالح بن احمد محمد الحافظ:
"وكان حافظا، فهما، ثقۃ ثبتا”
(تاریخ بغداد 9/331، ترجمة 4871)
◈ القاسم بن ابی صالح بندار:
"كان صدوقا متقنا للحديث”
(لسان المیزان 4/460، ترجمة 6685)
تنبیہ:
قاسم بن ابی صالح پر تشیع کا الزام ہے، لیکن یہاں روایتِ حدیث میں یہ الزام مردود ہے۔
صالح بن احمد کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قاسم بن ابی صالح سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے، اس لیے یہ سند "حسن لذاتہ” ہے۔
متنازعہ احادیث کی تحقیق:
➊ حدیث ابن مسعودؓ:
جزء القراءۃ للبخاری (تحقیقی نسخہ: 99)
مصنف ابن ابی شیبۃ 2/307، حدیث 6953
الطبرانی فی الکبیر 9/327، حدیث 19425
السنن للبیہقی 3/41
تحقیق:
سند میں لیث بن ابی سلیم ہے، جو ضعیف و مدلس ہے، اس لیے حدیث ضعیف ہے۔
باوجود اس کے کہ نیموی تقلیدی نے اس حدیث کو "باسنادہ صحیح” کہا
(آثار السنن: 635)،
جمہور محدثین نے لیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
زیلعی حنفی کہتے ہیں:
"وليث هذا الظاهر انه ليث بن ابي سليم وهو ضعيف”
مزید حوالے برائے جرح:
احسن الکلام (سرفراز خان صفدری دیوبندی، جلد 2، صفحہ 128)
جزو القراءۃ، تحریفات امین اوکاڑوی (صفحہ 70، حدیث 58)
➋ حدیث ابو ہریرہؓ:
السنن الکبری للبیہقی 3/41
تحقیق:
سند میں ابن الہیعہ کی تدلیس اور اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➌ حدیث ابن عباسؓ:
مصنف ابن ابی شیبۃ 2/316، حدیث 7042، 7043
الاوسط لابن منذر 5/213
تحقیق:
روایت قنوت فجر سے متعلق ہے
پہلی سند میں سفیان ثوری (مدلس)
دوسری سند میں ہشیم بن بشیر (مدلس)
دونوں سندیں ضعیف ہیں
امام ابو حاتم رازی نے عوف الاعرابی کی روایت کو ناقابلِ حجت قرار دیا
(حالانکہ الجرح والتعدیل: 7/15 پر "صدوق صالح الحدیث” لکھا ہے)
تنبیہ:
عوف الاعرابی پر جرح مردود ہے، جمہور محدثین نے انھیں ثقہ و صدوق کہا ہے
صحیحین میں ان کی روایات صحیح ہیں
لہٰذا وہ حسن الحدیث یا صحیح الحدیث تھے
➍ حدیث انسؓ:
صحیح البخاری: 1030
صحیح مسلم: 7/796
نتیجہ تحقیق:
امام ابو حاتم الرازیؒ "حسن لغیرہ” روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے
امام ابو زرعہ الرازیؒ کی پیش کردہ تینوں روایات، باوجود ضعف کے، باہم تقویت پذیر ہیں
جو اصول "ضعیف + ضعیف = حسن لغیرہ” کے قائل ہیں، ان کے مطابق یہ روایات حسن لغیرہ بنتی ہیں
مگر امام ابو حاتمؒ اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے تھے
اضافی فائدہ:
ثقہ تابعی عامر بن شبل الجری سے روایت ہے:
"رايت ابا قلابة يرفع يديه في قنوته”
(سنن الکبری للبیہقی 3/41، سند حسن)
یعنی: "میں نے ابو قلابة کو قنوت میں ہاتھ اٹھاتے دیکھا”
قنوت نازلہ میں دعا کی طرح ہاتھ اٹھانا:
مسند احمد 3/137، حدیث 12429 (سند صحیح)
ائمہ کا موقف:
امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے قائل تھے
ماخذ: مسائل ابی داود صفحہ 66
مسائل احمد و اسحاق، روایت اسحاق بن منصور الکوسج
جلد 1، صفحہ 211، روایت 465
روایت 259، ترجمة 3468
خلاصہ:
قنوت وتر میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا یا نہ اٹھانا دونوں جائز ہیں۔
البتہ بہتر یہ ہے کہ:
حدیث انسؓ اور دیگر دلائل کی روشنی میں قنوت میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں۔
واللہ اعلم