وبائی امراض سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

حصہ اول: احتیاطی تدابیر

بیمار شخص تندرست لوگوں میں جانے سے پرہیز کرے۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎﴿١٧٣﴾
(2-البقرة:173)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اللہ نے تو تم پر صرف مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ چیز حرام کی ہے جس پر اللہ کے سوا کسی کا نام پکارا جائے۔ پھر جو شخص مجبور ہو جائے جبکہ وہ سرکشی کرنے والا اور حد سے گزرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔“

حدیث 1

عن أبى سلمة سمع أبا هريرة رضى الله عنه بعد يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يوردن ممرض على مصح.
(صحیح بخاری رقم: 5771)
اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فرمایا: ”کوئی شخص بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس نہ لے جائے۔“

مجزوم آدمی تندرست لوگوں سے دور رہے۔

حدیث 2

وعن عمرو عن أبيه قال كان فى وفد ثقيف رجل مجذوم فأرسل إليه النبى صلى الله عليه وسلم ارجع فقد بايعناك.
(صحیح مسلم، کتاب السلام رقم: 3544)
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت شرید ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: ”قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک مجزوم آدمی تھا۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اسے پیغام بھیجا: واپس چلا جا۔ ہم نے تیری بیعت لے لی۔“

تندرست لوگ بھی کوڑھ کے مریض سے دور رہیں۔

حدیث 3

وعن أبى هريرة رضى الله عنه يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر وفر من المجذوم كما تفر من الأسد.
( صحیح بخاری رقم: 5707)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں۔ البتہ کوڑھی آدمی سے اس طرح بھاگ جیسے تو شیر سے بھاگتا ہے۔“

پانی پیتے وقت برتن میں سانس نہ لیں۔

حدیث 4

وعن أبى قتادة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا شرب أحدكم فلا يتنفس فى الإناء وإذا بال أحدكم فلا يمسح ذكره بيمينه وإذا تمسح أحدكم فلا يتمسح بيمينه.
(صحیح بخاری رقم: 5630)
اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنی شرمگاہ کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور جب استنجا کرے تو دائیں ہاتھ سے نہ کرے۔“

بڑے برتن کو منہ لگا کر پانی مت پیئیں۔

حدیث 5

وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من فم القربة أو السقاء وأن يمنع جاره أن يغرز خشبه فى داره.
(صحیح بخاری رقم: 5630، 5627)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مشکیزے کے منہ سے منہ لگا کر پانی پینے سے منع کیا اور اس سے بھی منع کیا کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی لگانے سے روکے۔“

چھینک لیتے وقت منہ ڈھانپیں۔

حدیث 6

وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا عطس غطى وجهه بيده أو بثوبه وغض بها صوته.
(سنن ترمذی، کتاب الادب رقم: 2745، محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے )
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنه کہتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے۔“

جسم کو اچھے طریقے سے صاف رکھیں۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ‎
(9-التوبة:108)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“

حدیث 7

وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا استيقظ أحدكم من نومه فلا يغمس يده فى الإناء حتى يغسلها ثلاثا فإنه لا يدري أين باتت يده.
( صحیح مسلم، کتاب الطهارة رقم: 643)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اس وقت تک اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے تین دفعہ دھو نہ لے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ رات کے وقت اس کا ہاتھ کہاں رہا۔“

حصہ دوم: دعا

دعائیں تقدیر بدل دیتی ہیں۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى:أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ‎﴿٦٢﴾‏
(27-النمل:62)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”(کیا یہ بت بہتر ہیں) یا وہ (اللہ) جو مجبور و لاچار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور وہ اس کی تکلیف دور کر دیتا ہے اور وہ تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔“

حدیث 8

وعن سلمان رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرد القضاء إلا الدعاء ولا يزيد فى العمر إلا البر.
(سنن ترمذی رقم: 2139، محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے )
اور حضرت سلمان رضی اللہ عنه کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی۔“

اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ‎﴿٢٤﴾‏
(28-القصص:24)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”چنانچہ اس نے ان دونوں کی خاطر پانی پلایا۔ پھر وہ (پیچھے) سائے کی طرف ہٹ آیا اور کہا: اے میرے رب! بے شک تو میری طرف جو بھی خیر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى:وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ‎﴿٦٠﴾‏
(40-غافر:60)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“

حدیث 9

وعن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يغني حذر من قدر والدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل وإن البلاء لينزل فيتلقاه الدعاء فيعتلجان إلى يوم القيامة.
(معجم الكبير للطبراني رقم: 201)
اور حضرت عائشہ رضی الله عنها سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”تقدیر سے ڈرتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور دعا تجھے فائدہ دے گی جو نازل ہو چکی اور جو ابھی نازل ہونے والی ہے۔ کیونکہ مصیبت دعا کے ساتھ مدبھیڑ ہو جاتی ہے تو یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی رہتی ہیں۔“

حدیث 10

وعن عبادة بن الصامت رضى الله عنه حدثهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما على الأرض مسلم يدعو الله بدعوة إلا آتاه الله إياها أو صرف عنه من السوء مثلها ما لم يدع بإثم أو قطيعة رحم فقال رجل من القوم إذا نكثر قال الله أكثر.
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات رقم: 3573، محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے )
اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”زمین پر کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں جو گناہ اور قطع رحمی کی دعا کو چھوڑ کر کوئی بھی دعا کرتا ہو اور اللہ اسے وہ چیز نہ دیتا ہو یا اس کے بدلے اس کے برابر کی کوئی برائی دور نہ کر دیتا ہو۔“ اس پر ایک شخص نے کہا: تب تو ہم بہت دعائیں مانگیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والا ہے۔“

شفا کی دعا کرنا۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ‎﴿٨٠﴾‏
(26-الشعراء:80)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔“

حدیث 11

وعن عائشة رضي الله عنها أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يعوذ بعض أهله يمسح بيده اليمنى ويقول: اللهم رب الناس أذهب البأس اشفه وأنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما.
(صحیح بخاری رقم: 5743)
اور حضرت عائشہ رضی الله عنها سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم اپنے بعض اہل خانہ کو یہ دعا پڑھ کر دم کرتے اور اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے تھے: اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أَذْهِبِ الْبَأْسَ، اشْفِهِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا ”اے اللہ! لوگوں کے رب! تکلیف دور کر دے۔ اسے شفا عطا فرما اور تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں۔ ایسی شفا دے کہ کسی قسم کی بیماری باقی نہ رہے۔“

صبح و شام مصائب سے پناہ مانگنے کی دعا۔

حدیث 12

وعن أبان بن عثمان قال سمعت عثمان بن عفان رضى الله عنه يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من عبد يقول فى صباح كل يوم ومساء كل ليلة بسم الله الذى لا يضر مع اسمه شيء فى الأرض ولا فى السماء وهو السميع العليم ثلاث مرات لم يضره شيء.
( سنن ترمذی، کتاب الدعوات رقم: 3388، مستدرک حاکم: 514/1، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا اور امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے )
اور ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنه کو یہ کہتے سنا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ایسا کوئی شخص نہیں جو ہر روز صبح و شام تین بار کہے: بِسْمِ اللهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے۔“ ابان کو ایک جانب فالج کا اثر تھا، حدیث سننے والا ان کی طرف دیکھنے لگا، ابان نے کہا: کیا دیکھ رہے ہو؟ حدیث ویسی ہی ہے جیسی میں نے بیان کی، لیکن جس دن مجھ پر فالج کا اثر ہوا، میں نے یہ دعا نہیں پڑھی تھی اور اللہ نے مجھ پر اپنی تقدیر کا فیصلہ جاری کر دیا۔“

سخت مصیبت سے اللہ عز و جل کی پناہ مانگو۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ‎﴿١٥﴾‏ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ ‎﴿١٦﴾‏
(41-فصلت:15، 16)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”پھر جو عاد تھے وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور انہوں نے کہا: ہم سے قوت میں کون زیادہ سخت ہے؟ اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا، قوت میں ان سے کہیں زیادہ سخت ہے اور وہ ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔ تو ہم نے ان پر ایک سخت تند ہوا چند منحوس دنوں میں بھیجی تا کہ ہم انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کا عذاب چکھائیں اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کرنے والا ہے اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔“

حدیث 13

وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: تعوذوا بالله من جهد البلاء ودرك الشقاء وسوء القضاء وشماتة الأعداء.
(صحیح بخاری رقم: 6616)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مصیبت کی شدت، بدبختی، برے خاتمے اور دشمن کی خوشی سے اللہ کی پناہ مانگا کرو۔“
فائدہ:
یعنی یہ دعا پڑھا کریں: أَعُوذُ بِاللهِ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ

ہر ضرر رساں نظر کے شر سے پناہ مانگو۔

حدیث 14

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال كان النبى صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين ويقول إن أباكما كان يعوذ بها إسماعيل وإسحاق أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة.
(صحیح بخاری رقم: 6616، 3371)
اور حضرت ابن عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی الله عنهما کو دم کرتے اور فرماتے تھے: ”تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام انہی کلمات سے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کو دم کرتے تھے: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر شیطان، زہریلے جانور اور ہر ضرر رساں نظر کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔“

ہر قسم کی بری بیماری سے پناہ مانگو۔

حدیث 15

وعن أنس رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يقول: اللهم إني أعوذ بك من البرص والجنون والجذام وسيئ الأسقام.
(مسند احمد: 192/3، سنن النسائی: 270/8 رقم: 1554، المشكاة رقم: 2470، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
اور حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص سے، پاگل پن سے، کوڑھ سے اور بری بیماریوں سے۔“

ہر قسم کی برائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُم مُّفْرَطُونَ ‎﴿٦٢﴾‏
(16-النحل:62)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور وہ اللہ کے لیے وہ چیز ٹھہراتے ہیں جس سے خود کراہت کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ بے شک ان کے لیے بھلائی ہے۔ بلاشبہ یقیناً ان کے لیے آگ ہے اور بے شک وہ اس میں سب سے آگے بھیجے جائیں گے۔“

حدیث 16

وعن خولة بنت حكيم السليمة رضي الله عنها تقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من نزل منزلا ثم قال أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق لم يضره شيء حتى يرتحل من منزله ذلك.
(صحیح مسلم، کتاب الذکر رقم: 2708/54)
اور حضرت خولہ بنت حکیم سلمیہ رضی الله عنها سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص کسی منزل میں اترے پھر کہے: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر لے۔“

سورہ البقرہ کی آخری دو آیات ہر معاملہ میں کافی ہیں۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ‎﴿٢٨٥﴾‏ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ‎﴿٢٨٦﴾‏
(2-البقرة:285، 286)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”رسول اس ہدایت پر ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی اور سب مومن بھی۔ سب اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے اور وہ کہتے ہیں: ہم نے حکم سنا اور اطاعت کی۔ اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اللہ کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ کسی شخص نے جو نیکی کمائی اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو اس نے برائی کی اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے تو ہماری گرفت نہ کر۔ اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب! جس بوجھ کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں وہ ہم سے نہ اٹھوا اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ پس تو کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔“

حدیث 17

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال بينما جبريل قاعد عند النبى صلى الله عليه وسلم سمع نقيضا من فوقه فرفع رأسه فقال هذا باب من السماء فتح اليوم لم يفتح قط إلا اليوم فنزل منه ملك فقال هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم ف سلم وقال أبشر بنورين أوتيتهما لم يؤتهما نبي قبلك فاتحة الكتاب وخواتيم سورة البقرة لن تقرأ بحرف منهما إلا أعطيته.
(صحیح مسلم، کتاب فضائل القران وما یتعلق بہ رقم: 1877)
اور حضرت ابن عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انہوں نے اوپر سے ایسی آواز سنی جیسی دروازہ کھلنے کی ہوتی ہے۔ انہوں نے سر اٹھایا اور کہا: آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا ہے۔ آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس سے ایک فرشتہ اترا تو انہوں نے کہا: یہ ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے۔ یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ اس فرشتے نے سلام کیا اور کہا: آپ کو دونوں نور ملنے کی خوشخبری ہو جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے: فاتحة الكتاب اور سورہ بقرہ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی جملہ بھی نہیں پڑھیں گے مگر وہ آپ کو عطا کر دیا جائے گا۔“

سورہ فاتحہ سے روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿٢﴾‏ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ‎﴿٣﴾‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ‎﴿٤﴾‏ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ‎﴿٥﴾‏ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿٦﴾‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎﴿٧﴾‏
(1-الفاتحة)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بے حد رحم والا، نہایت مہربان۔ بدلے کے دن کا مالک۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔“

حدیث 18

وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن نفرا من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم مروا بماء فيهم لديغ أو سليم فعرض لهم رجل من أهل الماء فقال هل فيكم من راق إن فى الماء رجلا لديغا أو سليما فانطلق رجل منهم فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء فبرأ فجاء بالشاء إلى أصحابه فكرهوا ذلك وقالوا أخذت على كتاب الله أجرا حتى قدموا المدينة فقالوا يا رسول الله أخذ على كتاب الله أجرا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله.
(صحیح بخاری، کتاب الطب رقم: 5737)
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنهما فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنهم کی ایک جماعت کا ایک تالاب پر گزر ہوا تو وہاں ایک آدمی کو سانپ نے یا کسی زہریلی چیز نے ڈسا ہوا تھا۔ تالاب والوں میں سے ایک آدمی نے کہا: کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے؟ کیونکہ تالاب کے پاس آبادی میں ایک سانپ یا زہریلی چیز کا ڈسا ہوا آدمی ہے۔ صحابہ میں سے ایک آدمی نے جا کر بکریاں لینے کی شرط پر سورة فاتحہ کا دم کیا۔ وہ آدمی شفایاب ہو گیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے پاس بکریاں لے آیا تو انہوں نے اسے ناپسند کیا اور کہا: تو نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی؟ حتی کہ وہ مدینہ منورہ پہنچے تو کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ تم اللہ کی کتاب پر اجرت لینے کے حقدار ہو۔“

ہر شر سے محفوظ رہنے اور بچنے کے لیے مسنون عمل۔

حدیث 19

وعن عبد الله بن جبيب عن أبيه رضى الله عنه قال خرجنا فى ليلة مطيرة وظلمة شديدة نطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي لنا قال فأدركته قال قل فلم أقل شيئا ثم قال قل فلم أقل شيئا قال قل فقلت ما أقول قال قل قل هو الله أحد والمعوذتين حين تمسي وتصبح ثلاث مرات تكفيك من كل شيء.
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات رقم: 3575، محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے )
اور حضرت عبد الله بن جبیب رضی الله عنه کہتے ہیں: ہم ایک بارش والی سخت تاریک رات میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کو تلاش کرنے نکلے تا کہ آپ ہمیں صلاۃ پڑھائیں۔ میں آپ کو پا گیا۔ آپ نے کہا: کہو۔ میں نے کچھ نہ کہا۔ پھر کہا: کہو۔ میں نے کچھ نہ کہا۔ آپ نے کہا: کہو۔ میں نے کہا: کیا کہوں؟ آپ نے فرمایا: ”قل هو الله أحد اور معوذتين صبح و شام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ یہ سورتیں تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔“
فائدہ:
قارئین کے فائدے کے لیے ذیل میں تینوں سورتیں ذکر کی جا رہی ہیں۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ۝ اللَّهُ الصَّمَدُ ۝ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ۝ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾

(112-الإخلاص)
❀ کہہ دیجیے: وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی اس کے برابر کا ہے۔“
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎﴿١﴾‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ‎﴿٢﴾‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ‎﴿٣﴾‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ‎﴿٤﴾‏ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ‎﴿٥﴾‏

(113-الفلق)
❀ آپ کہہ دیجیے: میں مخلوق کے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‎﴿١﴾‏ مَلِكِ النَّاسِ ‎﴿٢﴾‏ إِلَٰهِ النَّاسِ ‎﴿٣﴾‏ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ‎﴿٥﴾‏ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ‎﴿٦﴾

(114-الناس)
❀ آپ کہہ دیجیے: میں پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔“

سیدنا یونس علیہ السلام کی پریشانی کے وقت کی دعا۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‎﴿٨٧﴾‏ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿٨٨﴾‏
(21-الأنبياء:87، 88)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور مچھلی والے کو یاد کریں جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلا گیا تھا اور اس نے سمجھا تھا کہ ہم اس پر ہرگز تنگی نہیں کریں گے۔ پھر اس نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے۔ بلاشبہ میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ چنانچہ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور ہم نے اسے غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیتے ہیں۔“

حدیث 20

وعن سعد رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعوة ذي النون إذ دعا وهو فى بطن الحوت لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين فإنه لم يدع بها رجل مسلم فى شيء قط إلا استجاب الله له.
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات رقم: 3505، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے )
اور حضرت سعد رضی الله عنه کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ذوالنون کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہتے ہوئے کی تھی وہ یہ تھی:لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ۔ کیونکہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔“

ایمان و یقین کے بعد عافیت بہت بڑی نعمت ہے۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‎﴿٢٠١﴾
(2-البقرة:201)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“

حدیث 21

وعن معاذ بن رفاعة أخبره عن أبيه رضى الله عنه قال قام أبو بكر الصديق رضى الله عنه على المنبر ثم بكى فقال قام رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الأول على المنبر ثم بكى فقال اسألوا الله العفو والعافية فإن أحدا لم يعط بعد اليقين خيرا من العافية.
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات رقم: 3558، محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے )
اور حضرت رفاعہ بن رافع انصاری رضی الله عنه کہتے ہیں: ابو بکر صدیق رضی الله عنه منبر پر چڑھے اور روئے پھر کہا: رسول الله صلى الله عليه وسلم ہجرت کے پہلے سال منبر پر چڑھے، روئے پھر فرمایا: ”اللہ سے گناہوں سے عفو و درگزر اور مصیبتوں اور گمراہیوں سے عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد کسی بندے کو عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔“

حدیث 22

وعن ابن عمر رضي الله عنهما يقول لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يدع هؤلاء الدعوات حين يمسي وحين يصبح اللهم إني أسألك العافية فى الدنيا والآخرة اللهم إني أسألك العفو والعافية فى ديني ودنياي وأهلي ومالي اللهم استر عوراتي وآمن روعاتي اللهم احفظني من بين يدي ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي.
(سنن ابن ماجه، کتاب الاستعاذة رقم: 5531، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے )
اور حضرت ابن عمر رضی الله عنهما فرمایا کرتے تھے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم شام اور صبح کے وقت یہ دعائیں نہ چھوڑتے تھے: ”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کے آرام اور راحت کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے معافی اور عافیت کا طلبگار ہوں اپنے دین و دنیا میں اور اپنے اہل و مال میں۔ اے اللہ! میرے عیب چھپا دے۔ مجھے میرے اندیشوں اور خطرات سے امن عطا فرما۔ یا اللہ! میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں اور اوپر میری حفاظت فرما اور میں تیری عظمت کے ذریعے اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ نیچے سے ہلاک کر دیا جاؤں۔“

احکام شریعت کی حفاظت کریں اللہ آپ کا محافظ ہوگا۔

حدیث 23

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال يا غلام إني أعلمك كلمات احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك إذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك رفعت الأقلام وجفت الصحف.
(سنن الترمذی، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع رقم: 2516، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے ) اور حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنهما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! بے شک میں تمہیں چند اہم باتیں بتاتا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا۔ تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھ، اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے۔ جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو۔ جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو اور یہ جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا۔ قلم اٹھا لیے گئے اور تقدیر کے صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔“

قیام اللیل بیماری کو دور کرنے کا ذریعہ۔

حدیث 24

وعن أبى أمامة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عليكم بقيام الليل فإنه دأب الصالحين قبلكم وإن قيام الليل قربة إلى الله تعالى ومنهاة عن الإثم وتكفير للسيئات ومطردة للداء عن الجسد.
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات رقم: 3549، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے )
اور حضرت ابو امامہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”قیام اللیل کو تھامے رکھو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور یقیناً قیام اللیل اللہ کا قرب حاصل کرنے، گناہوں سے محفوظ رہنے، خطاؤں کے مٹانے اور بیماری کو جسم سے دور کرنے کا ذریعہ ہے۔“

درود شریف وبا کے خاتمے کا سبب۔

حدیث 25

وعن أبى بن كعب رضى الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب ثلثا الليل قام فقال يا أيها الناس اذكروا الله اذكروا الله جاءت الراجفة تتبعها الرادفة جاء الموت بما فيه جاء الموت بما فيه قال أبى قلت يا رسول الله إني أكثر الصلاة عليك فكم أجعل لك من صلاتي فقال ما شئت قال قلت الربع قال ما شئت فإن زدت فهو خير لك قلت النصف قال ما شئت فإن زدت فهو خير لك قال قلت فالثلثين قال ما شئت فإن زدت فهو خير لك قلت أجعل لك صلاتي كلها قال إذا تكفى همك ويغفر لك ذنبك.
(سنن ترمذی، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع رقم: 2457، سلسلة الصحيحة رقم: 954، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح اور محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے )
اور حضرت ابی بن کعب رضی الله عنه کہتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول الله صلى الله عليه وسلم اٹھتے اور فرماتے: ”لوگو! اللہ کو یاد کرو۔ اللہ کو یاد کرو۔ کھڑکھڑانے والی آگئی اور اس کے ساتھ ایک دوسری آگئی۔ موت اپنی فوج لے کر آگئی۔ موت اپنی فوج لے کر آگئی۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت درود پڑھتا ہوں۔ اپنے وظیفے میں آپ پر درود کے لیے کتنا وقت مقرر کروں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو۔“ میں نے کہا: چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر زیادہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ میں نے کہا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر زیادہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ میں نے کہا: دو تہائی؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر زیادہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ میں نے کہا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہوگا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔“
فائدہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”من أعظم الأشياء الدافعة للطاعون وغيره من البلايا العظام كثرة الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم.“
(بذل الماعون ص: 333)
” اور دیگر بڑی مصیبتوں کے خاتمے کا سب سے بڑا ذریعہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم پر کثرت سے درود و سلام بھیجنا ہے۔“

حصہ سوم: دوا

بیماری میں دوا کا استعمال۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
(9-التوبة:14)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور مومنوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔“

حدیث 26

وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء.
(صحیح بخاری رقم: 5678)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔“

بیماری میں دم کروانا۔

حدیث 27

وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم رضي الله عنها أنها قالت كان إذا اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم رقاه جبريل قال بسم الله يبريك ومن كل داء يشفيك ومن شر حاسد إذا حسد وشر كل ذي عين.
(صحیح مسلم، کتاب السلام رقم: 5699)
اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی الله عنها سے روایت ہے کہ جب رسول الله صلى الله عليه وسلم بیمار ہوتے تو جبریل علیہ السلام آپ کو دم کرتے اور کہتے: ”اللہ کے نام سے۔ وہ آپ کو بچائے اور ہر بیماری سے شفا دے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اور نظر لگانے والی ہر آنکھ کے شر سے۔“

زیتون سے بیماری کا علاج کرنا۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ‎﴿١١﴾‏
(16-النحل:11)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”وہ اسی پانی سے تمہارے لیے کھیتی اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى:وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ‎﴿١﴾‏
(95-التين:1)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔“

حدیث 28

وعن أبى أسيد رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كلوا من الزيت وادهنوا به فإنه من شجرة مباركة.
(سنن ترمذی، ابواب الاطعمة رقم: 1852، مسند احمد: 497/3، محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے )
اور حضرت ابو اسید رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”تم زیتون کھاؤ اور اس کا تیل استعمال کرو کیونکہ یہ بابرکت درخت کا پھل ہے۔“

کلونجی سے بیماری کا علاج کرنا۔

حدیث 29

وعن خالد بن سعد رضى الله عنه قال خرجنا ومعنا غالب بن أبجر رضى الله عنه فمرض فى الطريق فقدمنا المدينة وهو مريض فعاده ابن أبى عتيق رضى الله عنه فقال لنا عليكم بهذه الحبيبة السوداء فخذوا منها خمسا أو سبعا فاسحقوها ثم اقطروها فى أنفه بقطرات زيت فى هذا الجانب وفي هذا الجانب فإن عائشة رضي الله عنها حدثتني أنها سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول إن هذه الحبة السوداء شفاء من كل داء إلا من السام قلت وما السام قال الموت.
(صحیح بخاری رقم: 5687)
اور حضرت خالد بن سعد رضی الله عنه سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نکلے۔ ہمارے ساتھ حضرت غالب بن ابجر رضی الله عنه بھی تھے۔ وہ راستے میں بیمار ہو گئے۔ ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو وہ بیمار ہی تھے۔ حضرت ابن ابی عتیق رضی الله عنه ان کی عیادت کے لیے آئے تو کہا: انہیں کلونجی استعمال کراؤ۔ اس کے پانچ یا سات دانے پیس کر زیتون کے تیل میں ملا کر چند قطرے ناک کی ایک جانب اور چند قطرے دوسری جانب ٹپکاؤ۔ میں نے حضرت عائشہ رضی الله عنها سے سنا، وہ رسول الله صلى الله عليه وسلم سے بیان کرتی تھیں کہ آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ کلونجی میں سام کے علاوہ ہر مرض کی شفا ہے۔“ میں نے پوچھا: سام کیا ہے؟ فرمایا: ”موت۔“

شہد سے بیماری کا علاج کرنا۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى:ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٦٩﴾
(16-النحل:69)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”پھر ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے کھا، پھر اپنے رب کی آسان کی ہوئی راہوں پر چل۔ ان کے پیٹوں سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے۔ اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ بے شک اس میں بھی غور و فکر کرنے والوں کے لیے بہت نشانی ہے۔“

حدیث 30

وعن أبى سعيد رضى الله عنه أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال أخي يشتكي بطنه فقال اسقه عسلا ثم أتى الثانية فقال اسقه عسلا ثم أتاه الثالثة فقال اسقه عسلا ثم أتاه فقال فعلت فقال صدق الله وكذب بطن أخيك اسقه عسلا فسقاه فبرأ.
(صحیح بخاری رقم: 5684)
اور حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنه سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ۔“ وہ دوبارہ آیا، آپ نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ۔“ تیسری مرتبہ آیا، آپ نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ۔“ پھر وہ آیا اور کہا: میں نے شہد پلایا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا، البتہ تیرے بھائی کا پیٹ خطاکار ہے۔ اسے پھر شہد پلاؤ۔“ چنانچہ اس نے شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا۔“

عجوہ کھجور سے بیماری کا علاج۔

حدیث 31

وعن سعد بن أبى وقاص رضى الله عنه قال قال النبى صلى الله عليه وسلم: من اصطبح كل يوم تمرات عجوة لم يضره سم ولا سحر ذلك اليوم إلى الليل وقال غيره سبع تمرات.
(صحیح بخاری، کتاب الطب رقم: 5768)
اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صبح کے وقت عجوہ کھجور استعمال کرے اسے رات تک زہر اور جادو سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔“ علی بن مدینی کے علاوہ دوسرے راوی نے کہا: ”سات کھجوریں۔“

عود ہندی سے بیماری کا علاج۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ‎﴿٨٣﴾
(21-الأنبياء:83)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور ایوب کو یاد کریں جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ: اے رب! بے شک مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“

حدیث 32

وعن أم قيس بنت محصن رضي الله عنها قالت سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: عليكم بهذا العود الهندي فإن فيه سبعة أشفية يستعط من العذرة ويلد به من ذات الجنب.
(صحیح بخاری رقم: 5692)
اور حضرت ام قیس بنت محصن رضی الله عنها سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: ”عود ہندی استعمال کیا کرو۔ بلاشبہ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے۔ حلق کے درد میں اسے ناک میں ڈالا جاتا ہے اور سینے کے درد کے لیے اسے چبایا جاتا ہے۔“

گناہوں کی وجہ سے امت پر جذام اور افلاس مسلط ہوگا۔

قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ‎﴿٢٤﴾‏ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ‎﴿٢٥﴾
(46-الأحقاف:24,25)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تو جب انہوں نے اسے ایک بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کا رخ کیے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا: یہ بادل ہے جو ہم پر مینہ برسائے گا۔ بلکہ یہ وہ عذاب ہے جو تم نے جلدی مانگا تھا۔ آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔ پس وہ اس طرح ہو گئے کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ اسی طرح ہم مجرم لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔“

حدیث 33

وعن عمر بن الخطاب رضى الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من احتكر على المسلمين طعامهم ضربه الله بالجذام والإفلاس.
(سنن ابن ماجه رقم: 2155، مشكوة المصابيح رقم: 2895، حافظ ابن حجر نے اسے حسن کہا، فتح الباری: 348/4)
اور حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص مسلمانوں پر غلہ روک دے تو اللہ اس پر جذام اور افلاس مسلط کر دیتا ہے۔“

ظلم و ستم بھی وباؤں کا سبب۔

حدیث 34

وعن أبى موسى رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ليملي للظالم حتى إذا أخذه لم يفلته قال ثم قرأ ﴿وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ‎﴾‏ (11-هود:102)
(صحیح بخاری رقم: 4686)
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب وہ اس کی گرفت کرتا ہے تو ظالم بھاگ نہیں سکتا۔“ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیت کی تلاوت کی: ”اور اے نبی! آپ کے رب کی پکڑ ایسی ہی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ ظالم ہوتی ہیں۔ بے شک اس کی پکڑ نہایت دردناک اور شدید ہے۔“

طاعون کے مرض میں احتیاط اور صبر کرنے کا اجر۔

حدیث 35

وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم رضي الله عنها أنها أخبرتنا أنها سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون فأخبرها نبي الله صلى الله عليه وسلم أنه كان عذابا يبعثه الله على من يشاء فجعله الله رحمة للمؤمنين فليس من عبد يقع الطاعون فيمكث فى بلده صابرا يعلم أنه لن يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر الشهيد.
(صحیح بخاری رقم: 5734)
اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی الله عنها سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے طاعون کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے بتایا: ”طاعون اللہ کا عذاب تھا۔ وہ اسے جس پر چاہتا بھیج دیتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے اہل ایمان کے لیے باعث رحمت بنا دیا۔ اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ اللہ نے اس کے لیے لکھ دیا وہ اسے ضرور پہنچ کر رہے گا تو اسے شہید کا ثواب ملے گا۔“

نیک اعمال مصیبت سے بچنے کا ذریعہ

حدیث 36

وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: انطلق ثلاثة رهط ممن كان قبلكم حتى أووا المبيت إلى غار فدخلوه، فانحدرت صخرة من الجبل فسدت عليهم الغار، فقالوا: إنه لا ينجيكم من هذه الصخرة إلا أن تدعوا الله بصالح أعمالكم. فقال رجل منهم: اللهم كان لي أبوان شيخان كبيران، وكنت لا أغبق قبلهما أهلا ولا مالا، فنأى بي فى طلب شيء يوما فلم آتهما حتى ناما، فحلبت لهما غبوقهما فوجدتهما نائمين، فكرهت أن أغبق قبلهما أهلا أو مالا، فلبثت والقدح على يدي أنتظر استيقاظهما حتى برق الفجر، فاستيقظا فشربا غبوقهما، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخرة، فانفرجت شيئا لا يستطيعون الخروج منه. قال النبى صلى الله عليه وسلم: وقال الآخر: اللهم كانت لي بنت عم كانت أحب الناس إلي، فأردتها عن نفسها فامتنعت مني حتى ألمت بها سنة من السنين، فجاءتني فأعطيتها عشرين ومائة دينار على أن تخلي بيني وبين نفسها ففعلت، حتى إذا قدرت عليها قالت: لا أحل لك أن تفض الخاتم إلا بحقه، فتحرجت من الوقوع عليها فانصرفت عنها وهى أحب الناس إلى وتركت الذهب الذى أعطيتها، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه، فانفرجت الصخرة غير أنهم لا يستطيعون الخروج منها. قال النبى صلى الله عليه وسلم: وقال الثالث: اللهم إني استأجرت أجراء فأعطيتهم أجرهم غير رجل واحد ترك الذى له وذهب، فثمرت أجره حتى كثرت منه الأموال، فجاءني بعد حين فقال: يا عبد الله أد إلى أجري، فقلت له: كل ما ترى من أجرك من الإبل والبقر والغنم والرقيق، فقال: يا عبد الله لا تستهزئ بي، فقلت: إني لا أستهزئ بك، فأخذه كله فاستاقه فلم يترك منه شيئا، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه، فانفرجت الصخرة فخرجوا يمشون.
(صحیح بخاری، کتاب الإجارة، رقم: 2272)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم سے پہلے زمانے کے تین آدمی ایک سفر پر نکلے، یہاں تک کہ وہ رات گزارنے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ جب وہ غار میں چلے گئے تو پہاڑ سے ایک پتھر لڑھک کر آیا اور غار کا دہانہ بند ہو گیا۔ انہوں نے کہا: اس پتھر سے نجات کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے نیک اعمال کے صدقے اللہ سے دعا کرو۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں ان سے پہلے نہ اپنے اہل و عیال کو اور نہ ہی کسی اور کو شام کا دودھ پلاتا تھا۔ ایک دن کسی کام کے سلسلے میں مجھے دیر ہو گئی، جب میں ان کے پاس آیا تو وہ سو چکے تھے۔ میں نے ان کے لیے دودھ دوہا، لیکن مجھے یہ ناگوار لگا کہ ان سے پہلے اپنے اہل و عیال یا غلاموں کو پلاؤں، چنانچہ میں پیالہ ہاتھ میں لیے ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنا دودھ پیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا تو اس پتھر کی مصیبت سے ہمیں نجات دے۔ چنانچہ پتھر کچھ ہٹا، لیکن وہ باہر نہ نکل سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوسرے نے کہا: اے اللہ! میری چچا زاد بہن مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے اس سے ناجائز تعلق کی خواہش کی، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ پھر ایک سال قحط پڑا تو وہ میرے پاس آئی۔ میں نے اسے 120 دینار اس شرط پر دیے کہ وہ مجھے اپنی مرضی سے اجازت دے۔ وہ مان گئی، لیکن جب میں اس پر قادر ہوا تو اس نے کہا: میں تجھے ناجائز طور پر اپنا خاتم توڑنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ میں نے اسے گناہ سمجھا اور اس سے باز آ گیا، حالانکہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز تھی، اور میں نے جو سونا دیا تھا وہ بھی چھوڑ دیا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ تیری رضا کے لیے کیا تو اس مصیبت سے ہمیں نجات دے۔ چنانچہ پتھر کچھ اور سرکا، لیکن وہ باہر نہ نکل سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرے نے کہا: اے اللہ! میں نے کچھ مزدور رکھے اور سب کو ان کی مزدوری دی، سوائے ایک شخص کے جو اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کام میں لگایا یہاں تک کہ اس سے بہت مال پیدا ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ آیا اور بولا: اے اللہ کے بندے! میری مزدوری دے۔ میں نے کہا: یہ سب اونٹ، گائیں، بکریاں اور غلام جو تو دیکھ رہا ہے تیری مزدوری سے ہیں۔ اس نے کہا: مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا: میں مذاق نہیں کر رہا۔ اس نے سب کچھ لے لیا اور ہانک کر لے گیا، کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ تیری رضا کے لیے کیا تو اس مصیبت سے ہمیں نجات دے۔ چنانچہ پتھر مکمل طور پر ہٹ گیا اور وہ باہر نکل کر چلے گئے۔“

اللہ عزوجل پر توکل کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى:فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ‎﴿١٢٩﴾‏
(9-التوبة:129)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اگر وہ منہ پھیر لیں تو کہہ دیجیے: مجھے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ عظیم عرش کا رب ہے۔“

حدیث 37

وعن عمر بن الخطاب رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو أنكم توكلتم على الله حق توكله لرزقتم كما يرزق الطير، تغدو خماصا وتروح بطانا
(سنن ترمذی، کتاب الزہد، رقم: 2344، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے )
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو جیسا کہ اس پر توکل کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، جو صبح بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں۔“

حرام کمائی اور حرام کاموں سے اجتناب کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿١٩﴾‏
(24-النور:19)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“

حدیث 38

وعن عمران بن حصين رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”في هذه الأمة خسف ومسخ وقذف،“ فقال رجل من المسلمين: يا رسول الله، ومتى ذاك؟ قال: ”إذا ظهرت القينات والمعازف وشربت الخمور.“
(سنن ترمذی، کتاب الفتن، رقم: 2212، محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے )
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت میں زمین میں دھنسنا، شکلیں بگڑنا اور پتھروں کی بارش ہوگی۔“ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! یہ کب ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”جب گانے والی عورتیں اور باجے عام ہو جائیں گے اور شراب پی جائے گی۔“

عذاب سے بچنے کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر

قَالَ اللهُ تَعَالَى:كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
(3-آل عمران:110)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“

حدیث 39

وعن حذيفة بن اليمان رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر، أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم عقابا منه، ثم تدعونه فلا يستجاب لكم.“
(سنن ترمذی، کتاب الفتن، رقم: 2169، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے )
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب بھیج دے، پھر تم اسے پکارو گے اور تمہاری دعا قبول نہ ہوگی۔“

بخار کے بدلے جہنم سے آزادی

حدیث 40

وعن أبى هريرة رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم عاد رجلا من وعك كان به، فقال: ”أبشر، فإن الله يقول: هي ناري أسلطها على عبدي المؤمن لتكون حظه من النار.
(سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: 557)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت کی جسے بخار تھا۔ آپ نے فرمایا: ”خوشخبری قبول کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ میری آگ ہے جو میں اپنے مومن بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ یہ جہنم کی آگ سے اس کا حصہ بن جائے۔“

بڑی آزمائش کا بڑا ثواب

قَالَ اللهُ تَعَالَى:‏ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ‎﴿٣﴾‏
(29-العنكبوت:3)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہہ کر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی؟ ہم نے ان سے پہلے والوں کو بھی آزمایا، اللہ ضرور ان کو جانچے گا جنہوں نے سچ کہا اور ضرور جھوٹوں کو ظاہر کرے گا۔“

حدیث 41

وعن أنس بن مالك رضى الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: ”عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله إذا أحب قوما ابتلاهم، فمن رضي فله الرضا، ومن سخط فله السخط.“
(سنن ترمذی، کتاب الزہد، رقم: 2396، امام ترمذی نے اسے حسن غریب کہا ہے )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثواب کی عظمت آزمائش کی عظمت کے ساتھ ہے۔ اللہ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے۔ جو راضی رہا اس کے لیے رضا ہے اور جو ناراض ہوا اس کے لیے ناراضی ہے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1