ہمارے واٹس اپ چینل میں شامل ہوں۔
جائز اور ناجائز وسیلہ
🌿 دعا میں وسیلہ اور اس کی اقسام
للہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اسے قبولیت کے درجے تک پہنچانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اسے وسیلہ کہا جاتا ہے۔
چونکہ دعا بذاتِ خود عبادت ہے اور ہر عبادت کا طریقہ قرآن و سنت سے ہی معلوم ہوتا ہے، لہٰذا دعا میں وسیلے کے بارے میں بھی قرآن و سنت کی تعلیمات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
✅ جو طریقے کتاب و سنت سے ثابت ہیں وہی جائز و مشروع ہیں، جبکہ باقی طریقے ناجائز اور غیر مشروع ہیں۔
✿ وسیلے کی اقسام
➊ اللہ کے اسماء و صفات کا وسیلہ دینا
📖 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا
”اور اللہ ہی کے اچھے اچھے نام ہیں، تو انہی کے ساتھ اسے پکارو۔“
📚 [الاعراف: 180]
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اطلبوا منه بأسمائه، فيطلب بكل اسم ما يليق به، تقول : يا رحيم ارحمني …
”یعنی اس سے اس کے ناموں کے وسیلے سے مانگو۔ ہر نام کے مطابق چیز طلب کرو، جیسے: اے رحیم! مجھ پر رحم فرما۔“
📚 [الجامع لأحکام القرآن 7/327]
➋ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دینا
📖 فرمانِ الٰہی:
رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
”اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں، تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔“
📚 [آل عمران: 16]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بإيماننا بك وبما شرعته لنا، فاغفرلنا ذنوبنا…
”یعنی ہم نے تیرے ساتھ ایمان اور تیری شریعت کو تسلیم کرنے کے طفیل یہ دعا کی۔ پس ہمارے گناہ معاف فرما۔“
📚 [تفسير ابن کثير 2/23]
دیگر آیات:
رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ… [آل عمران: 53]
رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا… [آل عمران: 193]
📌 ان آیات سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر دعا کرنا جائز ہے۔
حدیث: اصحابِ غار نے اپنی مصیبت کے وقت اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور فرما دی۔
📚 [بخاري 5974، مسلم 2743]
➌ زندہ و صالح بندے سے دعا کرانا
📖 قرآن میں ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
📚 [النساء: 64]
حدیث:
ایک نابینا صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے لیے دعا کرائی تھی۔
📚 [ترمذي 3578، حسن]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کے لیے نبی ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔
📚 [بخاري 1010]
🌸 صراحت اور خلاصہ:
قرآن و سنت سے وسیلے کی صرف یہ تین قسمیں ثابت ہیں:
اللہ کے اسماء و صفات کا وسیلہ۔
اپنے نیک اعمال کا وسیلہ۔
زندہ، صالح اور موحد بندے سے دعا کروانا۔
ان کے علاوہ کوئی اور وسیلہ جائز نہیں۔
کسی فوت شدہ یا غائب نبی یا ولی کو وسیلہ بنانا، یا کسی اور طریقے سے دعا میں واسطہ دینا ناجائز اور غیر مشروع ہے۔
اہلِ سنت والجماعت کا ہمیشہ انہی تین پر عمل رہا ہے اور مسلمانوں کو بھی انہی پر اکتفا کرنا چاہیے۔
✿ وسیلے کی ناجائز صورتیں
ان مذکورہ تین جائز صورتوں کے علاوہ وسیلے کی تمام قسمیں غیر مشروع، ناجائز اور بدعت ہیں۔
❌ بعض باطل صورتیں یہ ہیں:
حاضر یا غائب، زندہ یا فوت شدہ کی ذات کو وسیلہ بنانا۔
کسی قبر والے سے کہنا: آپ میرے حق میں دعا اور سفارش کریں۔
📌 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں یا آپ کی وفات کے بعد آپ کی ذاتِ اقدس کو وسیلہ نہیں بنایا۔
📌 سلف صالحین اور ائمہ محدثین سے بھی یہ قطعاً ثابت نہیں۔
پھر ایسی غیر مشروع صورتوں کو اپنانا دین کیسے بن سکتا ہے؟
➤ پہلی وجہ: بدعت ہونا
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
”جو آدمی کوئی ایسا کام کرے جس پر ہمارا طریقہ نہ ہو، وہ مردود ہے۔“
📚 [مسلم 1877]
➤ دوسری دلیل: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا:
سمعت ابن عباس يقول : عجبا لترك الناس هذا الإهلال، ولتكبير هم ما بي، الا أن يكون التكبيرة حسنا، ولكن الشيطان ياتي الإنسان من قبل الإثم، فاذا عصم منه جاءه من نحو البر، ليدع سنة وليبتدي بدعة۔
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگوں کا تلبیہ چھوڑ کر تکبیر کہنا تعجب کی بات ہے۔ میرے نزدیک تکبیر اچھی ہے، لیکن شیطان پہلے گناہ کی طرف بلاتا ہے، جب وہاں کامیاب نہ ہو تو نیکی کے دروازے سے آتا ہے تاکہ انسان سنت چھوڑ کر بدعت کو اپنا لے۔“
📚 [مسند اسحاق بن راهويه 482، سند صحیح]
➤ تیسری وجہ: غلوّ ہونا
نبی ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ
”تم دین میں غلوّ سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے امتیں دین میں غلوّ ہی سے ہلاک ہوئیں۔“
📚 [مسند أحمد 1/215، نسائي 3059، ابن ماجه 3029، وسند صحیح]
🌸 خلاصہ:
وسیلے کی صرف وہی تین صورتیں جائز ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔
اس کے علاوہ تمام وسیلے (فوت شدہ یا غائب نبی/ولی کی ذات، قبروں سے سفارش مانگنا وغیرہ) بدعت، ناجائز اور غلوّ ہیں۔
دین میں غلوّ اور بدعت ہلاکت کا سبب ہے، لہٰذا عبادات میں صرف قرآن و سنت پر اکتفا ضروری ہے۔
↰ وسیلہ اور قرآن کریم
بعض لوگ وسیلے کی ان صورتوں کے قائل ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ یہ حضرات اپنے ہمنواؤں کو طفل تسلی دینے کے لیے قرآن کریم سے دلائل گھڑنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کی اختیار کردہ صورتیں صریحاً کتاب و سنت سے متصادم ہیں۔
اصلاحِ احوال کی خاطر ان کے پیش کردہ دلائل کا علمی جائزہ درج ذیل ہے:
✿ دلیل نمبر ➊
قرآن:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔“
📚 [المائدة: 35]
✔ تبصرہ:
تمام مفسرین کے اتفاق سے یہاں وسیلے سے مراد ذاتی نیک اعمال ہیں، جن کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔ فوت شدگان کے وسیلے کا اس آیت سے استدلال قرآن کی معنوی تحریف ہے۔
✿ اقوالِ مفسرین
🔹 امام طبری رحمہ اللہ (م 310ھ):
وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ یعنی:
واطلبوا القربة إليه بالعمل بما يرضيه…
”یعنی اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کے ذریعے اس کا قرب حاصل کرو۔“
📚 [تفسیر طبری 1/628]
🔹 امام زمخشری رحمہ اللہ (م 538ھ):
الوسيلة : كل ما يتوسل به… من فعل الطاعات وترك المعاصي
”وسیلہ ہر وہ عمل ہے جس کے ذریعے قرب حاصل کیا جائے، جیسے طاعات بجا لانا اور گناہوں سے بچنا۔“
📚 [الكشاف 1/628]
🔹 امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ (م 606ھ):
”یہود اطاعت سے دور ہو کر صرف آباء کے شرف پر فخر کرتے تھے۔ مسلمانو! تم اس کے برعکس اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے تقرب حاصل کرو۔“
📚 [التفسير الكبير 11/348-349]
🔹 امام خازن رحمہ اللہ (م 741ھ):
وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ یعنی:
”اس کی اطاعت و فرماں برداری کے اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب تلاش کرو۔“
📚 [لباب التأويل 2/38]
🔹 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م 774ھ):
وهذا الذى قاله هؤلاء الأئمة، لا خلاف بين المفسرين
”ان ائمہ نے جو کہا یہی مفسرین کا متفقہ قول ہے۔“
📚 [تفسير ابن كثير 2/535]
✿ مزید وضاحت
امام فخر رازی رحمہ اللہ نے فرمایا:
یہود و نصاریٰ اپنے آباء و اجداد کے اعمال پر فخر کرتے تھے:
﴿نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ﴾ [المائدة: 18]
اللہ نے فرمایا: اے ایمان والو! اپنے اسلاف کے شرف پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی اعمال پر فخر کرو اور انہی کے ذریعے اللہ کا قرب تلاش کرو۔
📚 [التفسير الكبير 11/349]
🌸 خلاصہ:
آیت وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ کے بارے میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ وسیلہ سے مراد ذاتی نیک اعمال ہیں۔
اس آیت سے فوت شدگان کے وسیلے کا استدلال سراسر تحریف اور اسلاف کے اجماعی فہم کے خلاف ہے۔
قرآن نے یہود و نصاریٰ کے آباء پر فخر کرنے کو رد کیا، اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ اللہ کا قرب صرف اپنے اعمالِ صالحہ سے تلاش کرو۔
↰ وسیلہ اور قرآن کریم
✿ دلیل نمبر ۲
ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ﴾
”یہ لوگ جنہیں مشرکین پکارتے ہیں، یہ تو اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں۔“
📚 [الإسراء: 57]
✔ تبصرہ:
یہ آیت اس بات پر بالکل واضح ہے کہ جن نیک لوگوں کو مشرکین معبود بنا کر پکارتے تھے وہ خود اللہ کا قرب نیک اعمال کے ذریعے تلاش کرتے تھے۔
اس سے فوت شدگان یا ذوات کو وسیلہ بنانے کا کوئی تعلق نہیں۔
✿ اقوالِ مفسرین
🔹 امام طبری رحمہ اللہ (310ھ):
يبتغون إلى ربهم القربة والزلفة…
”جنہیں مشرکین معبود سمجھتے تھے، وہ تو خود اللہ کے قریب ہونے کے لیے نیک اعمال کرتے تھے۔“
📚 [جامع البيان 17/471]
🔹 امام سمرقندی رحمہ اللہ (373ھ):
القربة والفضيلة والكرامة بالأعمال الصالحة
”یہ نیک لوگ اپنے رب کے قرب، فضیلت اور کرامت نیک اعمال کے ذریعے تلاش کرتے ہیں۔“
📚 [بحر العلوم 2/317]
🔹 امام قرطبی رحمہ اللہ (671ھ):
يتضرعون إلى الله تعالىٰ فى طلب الجنة، وهى الوسيلة
”یہ نیک لوگ جنت کے لیے اللہ تعالیٰ سے گریہ و زاری کرتے ہیں، یہی وسیلہ ہے۔“
📚 [الجامع لأحكام القرآن 10/279]
🔹 امام بیضاوی رحمہ اللہ (685ھ):
يبتغون إلى الله القرابة بالطاعة
”یہ نیک لوگ اطاعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔“
🔹 تفسیر جلالین:
القربة بالطاعة
”یعنی نیک اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا۔“
📚 [تفسير الجلالين 372]
🔹 امام زمخشری رحمہ اللہ (538ھ):
يحرصون أيهم يكون أقرب إلى الله وذلك بالطاعة
”وہ اس حرص میں رہتے ہیں کہ کون اللہ کے زیادہ قریب ہو جائے، اور یہ اطاعت کے ذریعے ہوتا ہے۔“
✿ اعترافِ متاخرین
دیوبند کے شیخ الحدیث انور شاہ کشمیری (م 1352ھ) لکھتے ہیں:
لا حجة فيه على التوسل المعروف… ولم يأت بنقل عن السلف
”اس آیت میں ہمارے ہاں رائج وسیلے (توسل بالاموات یا بالذوات) پر کوئی دلیل نہیں، اور نہ ہی سلف سے اس کی کوئی روایت منقول ہے۔“
📚 [فيض الباري 3/434]
🌸 خلاصہ:
آیت ﴿يبتغون إلى ربهم الوسيلة﴾ سے وسیلے کا صحیح مطلب صرف نیک اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔
سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اس آیت سے فوت شدہ یا بزرگوں کی ذوات کا وسیلہ مراد نہیں لیا۔
اس آیت سے اموات یا ذوات کے وسیلے کو ثابت کرنا قرآن کی تحریف اور سلف کے اجماعی فہم کے خلاف ہے۔
✿ دلیل نمبر ۳
آیت:
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾
📚 [النساء: 64]
ترجمہ:
”اور (اے نبی ﷺ!) اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے، آپ کے پاس آ جاتے، پھر خود اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی دعا کرتے، تو وہ اللہ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان پاتے۔“
✔ تبصرہ:
آیت میں بیان ہے کہ گناہگار لوگ نبی ﷺ کی زندگی میں آپ کے پاس آئیں، خود اللہ سے معافی مانگیں اور آپ ﷺ بھی ان کے لیے دعا کریں۔
یہ دراصل مشروع وسیلہ (زندہ صالح سے دعا کروانا) ہے۔
اس میں وفات کے بعد قبر سے استغفار یا سفارش طلب کرنے کا کوئی ذکر یا ثبوت نہیں۔
✿ فہمِ سلف و دلائل
سیاق: خطاب نبی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے متعلق ہے۔
منافقین کی مذمت:
﴿تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ﴾ [المنافقون: 5]
”جب ان سے کہا جاتا کہ آؤ تاکہ رسول اللہ ﷺ تمہارے لیے استغفار کریں، تو وہ تکبر سے منہ پھیر لیتے تھے۔“
یہ بھی آپ ﷺ کی زندگی ہی کا واقعہ ہے۔
عملِ صحابہ: نبی ﷺ کے وصال کے بعد کسی صحابی یا تابعی سے یہ عمل ثابت نہیں کہ وہ قبر پر آ کر استغفار کی درخواست کرتے ہوں۔ ان کا معمول صرف سلام کہنا تھا۔
ممانعت: نبی ﷺ نے فرمایا:
«لا تجعلوا قبري عيدًا»
”میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناؤ۔“
📚 [ابوداؤد 2041، سند حسن]
✿ اقوالِ ائمہ
🔹 ابن عبدالہادی رحمہ اللہ:
عربی:
«لم يفهم أحد من السلف إلا المجيء إليه في حياته ليستغفر لهم… ولم يأت أحدٌ قبرَه يسأله الاستغفار بعد وفاته…»
📚 [الصارم المنكي ص 317–321]
ترجمہ:
”سلف میں سے کسی نے بھی اس آیت سے یہی نہیں سمجھا سوائے اس کے کہ آپ ﷺ کی زندگی میں آپ کے پاس آ کر استغفار کی درخواست کی جائے۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد کسی نے بھی آپ کی قبر پر آ کر استغفار کی درخواست نہیں کی۔“
🔹 ابن تیمیہ رحمہ اللہ:
عربی:
«سؤال الدعاء والشفاعة عند القبر بعد الموت لا أصل له، ولم يفعله واحد من السلف، ولو كان مستحبًّا لكانوا أسبقَ الناس إليه…»
📚 [مجموع الفتاوی 1/241]
ترجمہ:
”وفات کے بعد قبر کے پاس آ کر دعا یا شفاعت طلب کرنا بے اصل ہے۔ سلف میں سے کسی نے یہ عمل نہیں کیا۔ اگر یہ مستحب ہوتا تو وہ (صحابہ و تابعین) سب سے پہلے اس پر عمل کرتے۔“
🌸 خلاصہ:
یہ آیت صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی ﷺ کی زندگی میں گناہگار آپ کے پاس آئیں، اللہ سے معافی مانگیں اور آپ ﷺ ان کے لیے دعا کریں۔
وفات کے بعد قبر پر آ کر استغفار یا سفارش طلب کرنا نہ قرآن سے ثابت ہے نہ سلف کے عمل سے۔
لہٰذا یہ آیت بھی مشروع وسیلے (زندہ سے دعا کروانا) پر دلیل ہے، نہ کہ اموات یا ذوات کے وسیلے پر۔
🌿 جائز وسیلہ قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآن کریم اور صحیح احادیث سے تین طرح کا وسیلہ ثابت ہے:
1️⃣ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا وسیلہ۔
2️⃣ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ۔
3️⃣ کسی زندہ نیک شخص کی دعا کا وسیلہ۔
لہٰذا وسیلے کی صرف یہی قسمیں جائز اور مشروع ہیں۔ باقی تمام اقسام غیر مشروع، ناجائز اور حرام ہیں۔
✿ زندہ نیک شخص کی دعا کے وسیلے کا جواز
❀ حدیث سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ:
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ:
أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا. قال: فيسقون .
📚 [صحيح البخاري 137/1، ح:1010]
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب قحط پڑتا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلے سے بارش طلب کرتے اور بارش عطا ہو جاتی۔“
✿ اقوالِ ائمہ
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:
التوسل به في حياته هو أن يسألوه أن يدعو الله، فيدعو لهم، ويدعون فيتوسلون بشفاعته ودعائه.
”نبی ﷺ کی زندگی میں وسیلہ یہی تھا کہ صحابہ آپ سے دعا کی درخواست کرتے، آپ ﷺ دعا فرماتے، اور وہ لوگ آپ کی دعا کا حوالہ اللہ کے حضور پیش کرتے۔“
📚 [مختصر الفتاوى المصرية، ص 194]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ:
ويستفاد من قصة العباس من استحباب الاستشفاع بأهل الخير وأهل بيت النبوة.
”سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل خیر اور اہل بیت سے سفارش کروانا مستحب ہے۔“
📚 [فتح الباري 2/497]
✿ اہم وضاحت
✔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قحط کے موقع پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرواتے تھے، نہ کہ ان کی ذات کو بطور وسیلہ پیش کرتے تھے۔
✔ اگر شخصی وسیلہ پیش کرنا مشروع ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے مدینہ منورہ میں خود نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک موجود تھی۔ وہ چاہیں تو قبر نبوی پر جا کر دعا کرتے یا کم از کم دعا میں یہ کہتے: ”اے اللہ! ہمیں اپنے نبی کے وسیلے سے بارش عطا فرما“۔
❌ لیکن ایسی کوئی بات کسی صحیح حدیث میں منقول نہیں۔
✅ جو چیز ثابت ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک زندہ شخص یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی گئی۔
🌸 خلاصہ:
قرآن و سنت سے وسیلے کی صرف تین قسمیں ثابت ہیں۔
حدیثِ عمر و عباس رضی اللہ عنہما سے واضح ہے کہ مشروع وسیلہ صرف زندہ نیک شخص کی دعا ہے۔
اگر فوت شدگان یا ذوات کا وسیلہ جائز ہوتا تو سب سے پہلی مثال نبی ﷺ کی قبر مبارک ہی ہوتی، مگر صحابہ کرام نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
✿ استسقاءِ عمر و عباسؓ — صحیح و ضعیف روایات کا تحقیقی جائزہ
✿ صحیح روایت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1010 میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے موقع پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔
یہی صحیح اور قابلِ حجت روایت ہے، جس سے زندہ نیک شخص کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔
✿ ضعیف و موضوع روایات
1) روایتِ کلبی (موضوع)
یہ روایت بیان کرتی ہے کہ قحط کے موقع پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دعا کرتے وقت کہا:
متن:
«اللهم إنه لم ينزل بلاء إلا بذنب، ولم يكشف إلا بتوبة، وقد توجه القوم بي إليك لمكاني من نبيك»
ترجمہ:
”اے اللہ! ہر مصیبت گناہ کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ ہی سے دور ہوتی ہے۔ لوگوں نے میرے ذریعے تیری طرف رجوع کیا ہے، کیونکہ میں تیرے نبی کے ہاں مرتبہ رکھتا تھا۔“
جرح و حکم:
اس کی سند میں محمد بن سائب کلبی ہے:
◈ امام بخاری: منكر الحديث
◈ امام نسائی: متروك الحديث
◈ ابن حبان: كان سبئياً يكذب
اس میں ابو صالح باذام بھی ہے جو ضعیف و مختلط ہے۔
🔴 یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔
2) روایتِ ابن عبدالبر (بے سند)
اس روایت کے مطابق قحط کے وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دعا میں کہا:
متن:
«اللهم إنا نتقرب إليك بعم نبيك ونستشفع به، فاحفظ فينا نبيك كما حفظت الغلامين لصلاح أبيهما»
ترجمہ:
”اے اللہ! ہم تیرے نبی کے چچا کے ذریعے تیرا قرب چاہتے ہیں اور ان کی سفارش تجھ سے کرتے ہیں۔ تو ہمارے بارے میں اپنے نبی کا اسی طرح لحاظ فرما جس طرح تو نے والدین کی نیکی کے سبب دو بچوں کا لحاظ فرمایا تھا۔“
جرح و حکم:
یہ روایت الاستیعاب، التمہید اور الاستذکار میں منقول ہے مگر بغیر سند۔
اصولِ حدیث کے مطابق بے سند روایت حجت نہیں، خاص طور پر عقائد و احکام میں۔
🔴 یہ روایت ناقابلِ اعتبار ہے۔
3) روایتِ ابن عمر (سخت ضعیف)
یہ روایت بیان کرتی ہے کہ عام الرمادہ (قحط کے سال) میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کی دعا میں کہا:
متن:
«اللهم! هذا عم نبيك العباس، نتوجه إليك به، فاسقنا…»
پھر بارش ہوئی اور اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا:
”لوگو! رسول اللہ ﷺ عباس رضی اللہ عنہ کا احترام اپنے والد کی طرح کرتے تھے، ان کی تعظیم کرتے اور ان کی قسم پوری کرتے تھے، لہٰذا تم بھی ان کی اقتدا کرو اور ان کو وسیلہ بنا کر اللہ سے بارش طلب کرو۔“
ترجمہ:
”اے اللہ! یہ تیرے نبی کے چچا عباس ہیں، ہم ان کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں، پس ہمیں بارش عطا فرما۔“
جرح و حکم:
اس روایت کی سند میں داود بن عطاء مدنی ہے:
◈ امام احمد: ليس بشيء
◈ ابوحاتم: ضعيف الحديث، منكر الحديث
◈ ابو زرعہ: منكر الحديث
◈ بخاری: منكر الحديث
◈ دارقطنی: متروك
◈ ابن عدی: في حديثه بعض النكارة
◈ ذہبی: متروك
🔴 لہٰذا یہ روایت شدید ضعیف ہے اور حجت نہیں۔
✿ خلاصہ
صحیح بخاری (1010): زندہ نیک شخص (عباسؓ) کی دعا کا وسیلہ۔
ضعیف روایات: یا موضوع (کلبی)، یا بے سند (ابن عبدالبر)، یا شدید ضعیف (ابن عمر)۔
صحابہ کرام نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد کبھی بھی قبر یا فوت شدگان کی ذات کو وسیلہ نہیں بنایا؛ ہمیشہ زندہ نیک شخص کی دعا کو وسیلہ بنایا۔
✿ استسقاء سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید بن الاسود رحمہ اللہ کا وسیلہ
صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بارش کے لیے ایک بہت ہی نیک تابعی یزید بن الاسود رحمہ اللہ کا وسیلہ پکڑا تھا۔
✿ پہلی روایت
إن الناس قحطو ابد مشق، فخرج معاوية يستسقي بيزيد بن الأسود…
”دمشق میں لوگ قحط زدہ ہو گئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یزید بن الاسود رحمہ اللہ کے وسیلے سے بارش طلب کرنے کے لیے نکلے۔۔۔“
📚 (تاريخ أبي زرعة الدمشقي:602/1، تاريخ دمشق:112،111/65، وسنده صحيح)
یہاں پر قارئین کرام غور فرمائیں کہ یہ بالکل وہی الفاظ ہیں، جو صحیح بخاری کی حدیث میں ہیں کہ اس میں «استسقي بالعباس بن عبدالمطلب» کے لفظ ہیں اور اس میں «يستسقي بيزيد بن الأسود» کے الفاظ ہیں۔
اب دیکھیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کو جو یزید بن الاسود رحمہ اللہ کا واسطہ دیا تھا، اس سے کیا مراد تھی ؟
إن السماء قحطت، فخرج معاوية بن أبي سفيان و أهل دمشق يستسقون، فلما قعد معاوية على المنبر، قال : أين يزيد بن الأسود الجُرشي ؟ فناداه الناس، فأقبل يتخطى الناس، فأمره معاوية فصعد المنبر، فقعد عند رجليه، فقال معاوية : اللهم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا و أفضلنا، اللهم ! إنا نستشفع إليك اليوم بيزيد بن الأسود الجرشي، يا يزيد ! إرفع يديك إلى الله، فرفع يديه، ورفع الناس أيديهم، فما كان أوشك أن ثارت سحابة في الغرب، كأنها ترسٌ، وهبَّت لها ريحٌ، فسقتـنا حتى كاد الناس أن لا يبلغوا منازلهم.
”ایک دفعہ قحط پڑا۔ سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور دمشق کے لوگ بارش طلب کرنے کے لیے نکلے۔ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھ گئے تو فرمایا: یزید بن الاسود جرشی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے ان کو آواز دی۔ وہ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا تو وہ منبر پر چڑھ گئے اور آپ کے قدموں کے پاس بیٹھ گئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی :
”اے اللہ ! ہم تیری طرف اپنے میں سے سب سے بہتر اور افضل شخص کی سفارش لے کر آئے ہیں، اے اللہ ! ہم تیرے پاس یزید بن الاسود جرشی کی سفارش لے کر آئے ہیں۔“
(پھرفرمایا) یزید! اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ اٹھائیے (اور دُعا فرمائیے) ، یزید نے ہاتھ اٹھائے، لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے۔ جلد ہی افق کی مغربی جانب میں ایک ڈھال نما بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا، ہوا چلی اور بارش شروع ہو گئی، حتی کہ محسوس ہوا کہ لوگ اپنے گھروں تک بھی نہ پہنچ پائیں گے۔“
📚 (المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي:219/2، تاريخ دمشق:112/65، وسنده صحيح)
✿ توثیق
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
📚 (الإصابة في تميز الصحابة:697/6)
✿ نتیجہ
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زندہ نیک لوگوں سے دعا کرا کے اس کا حوالہ اللہ تعالیٰ کو دیتے تھے۔ یہی ان کا نیک لوگوں سے توسل لینے کا طریقہ تھا۔
✿ زندہ نیک شخص کی دعا کا وسیلہ — صحابہ کرام کے عملی دلائل
✿ سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ صحابی رسول سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے بھی اسی نیک تابعی کی دعا کا وسیلہ پکڑا تھا، اس روایت کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں:
إن الضحاك بن قيس خرج يستسقي، فقال ليزيد بن الأسود: قم يا بكاء!
”ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ بارش طلب کرنے کے لیے (کھلے میدان میں) نکلے تو یزید بن اسود رحمہ اللہ سے کہا: اے (اللہ کے سامنے) بہت زیادہ رونے والے! کھڑے ہو جائیے (اور بارش کے لیے دعا کیجیے) ۔“
📚 (المعرفة والتاريخ:220/2، تاريخ أبي زرعة الدمشقي:602/1، تاريخ دمشق:220/65، وسنده صحيح)
🔎 قارئین کرام ہی بتائیں کہ کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کو وسیلے کے مفہوم کا زیادہ علم تھا یا بعد والے ادوار کے کسی شخص کو؟ پھر کسی ایک بھی صحابی یا تابعی یا ثقہ محدث سے ذات کے وسیلے کا جواز ثابت نہیں ہے۔
کیا اب بھی کوئی ذی شعور انسان صحیح بخاری والی حدیث میں مذکور وسیلے سے ذات کا وسیلہ مراد لے گا؟
✿ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنهم لما فتحوا تستر، قال : فوجد رجلا أنفه ذراع في التابوت، كانوا يستظهرون ويستبطرون به، فكتب أبو موسى إلى عمر بن الخطاب بذلك، فكتب عمر : إن هذا نبي من الانبياء والنار لا تأكل الانبياء، والارض لا تأكل الانبياء، فكتب أن أنظر أنت وأصحابك – يعني أصحاب أبي موسى – فادفنوه في مكان لا يعلمه أحد غيركما، قال : فذهبت أنا وأبو موسى فدفناه.
”جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا۔ اس کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور سارا واقعہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا: تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سیدنا ابو موسیٰ گئے اور اسے (ایک گمنام جگہ میں ) دفن کر دیا۔“
📚 (مصنف ابن أبي شيبه:4/7، الرقم:33819، وسنده صحيح)
🔎 یعنی سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیائے کرام کے جسم یا ان کی ذات کو وسیلہ بنانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ عجمی علاقوں کے کفار اس توسل کے قائل تھے، ان کے اس فعل شنیع کو ختم کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس نبی کے جسم کو کسی گمنام جگہ میں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔
✿ علمی خیانت پر تنبیہ
بعض لوگ خیانتِ علمی سے کام لیتے ہوئے ان روایات کے آدھے ٹکڑے سامعین کے سامنے رکھتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ انبیائے کرام کے اجسام اور ان کی قبروں سے توسل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ اگلے ٹکڑے ڈکار جاتے ہیں جن میں وضاحت ہے کہ یہ کام عجمی کفار کا تھا اور صحابہ کرام نے ان کے اس کام کو جائز نہیں سمجھا، نہ انہیں اس کام کی اجازت دی، بلکہ اس کے سدباب کے لیے انتہائی اقدامات کیے۔
یہ حرکت بدترین خیانت ہے۔ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے ایسے نام نہاد سکالرز کو مہلت دی ہوئی ہے، لیکن ایسے لوگ روزِ قیامت عذابِ الٰہی سے نہیں بچ پائیں گے۔ اب بھی موقع ہے، انہیں حشر اور حساب سے ضرور جانا چاہیے۔
✿ قبر نبوی سے توسل والی روایات کا تجزیہ
روایت نمبر ۱
ابوحرب ہلالی کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے فریضہ حج ادا کیا، پھر وہ مسجد نبوی کے دروازے پر آیا، وہاں اپنی اونٹنی بٹھا کر اسے باندھنے کے بعد مسجد میں داخل ہو گیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آیا اور آپ کے پاؤں مبارک کی جانب کھڑا ہو گیا اور کہا: السلام عليك يا رسول الله ! پھر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف بڑھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں گناہگار ہوں، اس لیے آیا ہوں تاکہ اللہ کے ہاں آپ کو وسیلہ بنا سکوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کريم میں فرمایا ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ (النساء 4 :64 )
” (اے نبی !) اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو آپ کے پاس آئیں، پھر اللہ سے معافی مانگیں اور ان کے لیے اللہ کا رسول بھی معافی مانگے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحیم پائیں گے.“ (شعب الإيمان للبيھقي:495/3، ح:4178، وفي نسخة:3880)
تبصره :
یہ سخت قسم کی ’’ضعیف ‘‘ روایت ہے، کیونکہ :
(1) محمد بن روح بن یزید مصری راوی کے حالات نہیں مل سکے۔
(2) ابوحرب ہلالی کون ہے؟ معلوم نہیں۔
(3) عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسین کے نہ حالات ملے ہیں، نہ توثیق۔
یہ ’’مجہول ‘‘ راویوں میں سے کسی کی کارستانی ہے۔ ایسی روایت سے دلیل لینا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔
حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۵۔۷۴۴ ھ) فرماتے ہیں : باسناد مظلم۔
”یہ واقعہ سخت مجہول سند سے مروی ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص : 384)
روایت نمبر ۲
محمد بن حرب ہلالی بیان کرتا ہے:
دخلت المدينة فأتيت قبر النبي صلى الله عليه وسلم فزرته, وجلست بحذائه، فجاء أعرابي فزاره، ثم قال: يا خير الرسل ! إن الله أنزل عليك كتابًا صادقًا، قال فيه: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ﴾إلي قوله ﴿رَحِيمًا﴾ واني جئتك مستغفرًا ربك من ذنوبي، متشفعابك۔۔۔
میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر گیا، اس کی زیارت کی اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ایک بدوی شخص آیا اور قبر مبارک کی زیارت کے بعد کہنے لگا: اے خیرالرسل !بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر سچی کتاب نازل کی ہے۔ اس میں اللہ نے فرمایا ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ۔۔۔﴾ اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں اور پھر آپ کے پاس آ کر اللہ سے معافی طلب کریں اور آپ بھی ان کے لیے معافی مانگیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کو معاف فرما دے گا)۔۔۔ (وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفٰي للسمھودي:1361/4، اتحاف الزائر لأبي اليمن عبدالصمد بن عبدالوھاب بن عساكر:68،69، أخبار المدينة لابن النجار:147، مثيرالعزم الساكن لابن الجوزي:477، شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام لمحد بن أحمد بن علي الفاسي:369/4، وقد ذكره ابن بشكوال أيضا كما في القول البديع للسخاوي:162، 163)
تبصره:
یہ بھی جھوٹی داستان ہے۔ اس حکایت کے بارے میں علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۴۴ھ) فرماتے ہیں :
وهذه الحكاية التي ذكرها بعضهم يرويها عن العتبي، بلا إسناد، وبعضهم يرويها عن محمد بن حرب الهلالي، وبعضهم يرويها عن محمد بن حرب، بلا إسناد، عن أبي الحسن الزعفراني عن الأعرابي. وقد ذكرها البيهقي في كتاب "شعب الإيمان” بإسناد مظلم عن محمد بن روح بن يزيد البصري، حدثني أبو حرب الهلالي، قال: حج أعرابي، فلما جاء إلى باب مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ راحلته فعقلها، ثم دخل المسجد حتى أتى القبر، ثم ذكر نحو ما تقدم. وقد وضع لها بعض الكذابين إسناداً إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه، كما سيأتي ذكره۔ وفي الجملة؛ ليست ھذه الحكاية المذكورة عن الأعرابي مما تقوم به الحجة، وإسنادها مظلم، ولفظها مختلف "أيضاً”، ولو كانت ثابتة لم يكن فيها حجة على مطلوب المعترض، ولا يصلح الاحتجاج بمثل هذه الحكاية، ولا الاعتماد على مثلها عند أهل العلم
اس حکایت کو بعض لوگوں نے عتبی سے بیان کیا ہے اور بعض نے بلاسند ذکر کیا ہے۔ جبکہ بعض نے محمد بن حرب ہلالی سے اسے روایت کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی سند یوں بیان کی ہے: محمد بن حرب، ابوالحسن زعفرانی سے بیان کرتا ہے اور وہ بدوی سے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس واقعے کو اپنی کتاب شعب الایمان میں ایک سخت ضعیف سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ وہ سند یوں ہے : محمد بن روح بن یزید بصری کہتے ہیں کہ ہمیں ابوحرب ہلالی نے بیان کیا کہ ایک بدوی نے حج کیا پھر مسجد نبوی کے پاس آ کر اپنا اونٹ باندھ دیا، مسجد میں داخل ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر، مبارک پر آیا۔۔۔ بعض جھوٹے لوگوں نے اس کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک سند گھڑ لی ہے ، الغرض بدوی والے اس منکر قصے سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔ اس کی سند سخت ضعیف ہے اور اس کی سند و متن دونوں میں اختلاف ہے۔۔۔ اس جیسی حکایت سے دلیل لینا اور اس پر اعتماد کرنا اہل علم کے نزدیک جائز نہیں۔ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص:212)
راویوں کا حال:
(1) ابن فضیل نحوی
(2) محمد بن روح
(3) محمد بن حرب ہلالی
تینوں کی توثیق نہیں مل سکی۔ جس کے دین کا علم نہ ہو، اس کی بیان کردہ روایات کو اپنا دین بنانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ یہ داستان انہی تینوں میں سے کسی ایک کی کارروائی لگتی ہے۔
✿ قبر نبوی سے توسل والی روایات کا تجزیہ
روایت: ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ تابعی رحمہ اللہ
متن:
قحط أهل المدينة قحطا شديدا، فشكوا إلى عاشة، فقالت : انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فاجعلوا منه كوى إلى السما، حتى لا يكون بينه وبين السما سقف، قال : ففعلوا، فمطرنا مطرا حتى نبت العشب، وسمنت الإبل، حتى تفتقت من الشحم، فسمي عام الفتق
”ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اس کیفیت کے بارے میں) شکایت کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے اسی طرح کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ ایسے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے، لہٰذا اس سال کا نام عام الفتق (پیٹ پھٹنے والا سال ) رکھ دیا گیا۔“
📚 (مسند الدارمي: 58/1، ح:93، مشكاة المصابيح:5650)
✿ تبصرہ
یہ روایت سنداً ضعیف ہے:
راوی عمرو بن مالک نکری اگرچہ ثقہ ہے لیکن اس کی حدیث ابوالجوزاء سے غیر محفوظ ہے۔
امام ابن عدی نے فرمایا:
«حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة»
”عمرو بن مالک نے ابوالجوزاء سے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔“
📚 (تهذيب التهذيب 1/336)
لہٰذا یہ روایت بھی غیر محفوظ شمار ہوتی ہے۔
✿ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ردّ
انہوں نے فرمایا:
«وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء، لينزل المطر فليس بصحيح، ولا يثبت إسناده…»
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بارش کے لیے قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی جو روایت مروی ہے وہ صحیح نہیں، اس کی سند بھی ضعیف ہے۔“
پھر وضاحت کی:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان موجود ہی نہ تھا۔
وہ حجرہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا نبی ﷺ کے زمانے میں تھا، یعنی کچھ حصہ مسقوف اور کچھ کھلا۔
صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے کہ عصر کی نماز کے وقت سورج کی دھوپ حجرے میں آتی تھی۔
بعد میں جب حجرہ مسجد کے اندر شامل ہوا تو اس کے گرد بلند دیوار بنائی گئی اور پھر بعد میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی کے لیے داخل ہوا جا سکے۔
📚 (الرد على البكري، ص 68-74)
✿ اگر صحیح بھی مان لیا جائے
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«لو صح ذلك لكان حجة ودليلاً على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق، ولا يتوسلون في دعائهم بميت، ولا يسألون الله به، وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه…»
”اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نہ تو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ فوت شدگان کا وسیلہ پکڑتے تھے اور نہ ہی ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مانگتے تھے۔ انہوں نے تو صرف قبر مبارک پر سے کھڑکی کھولی تاکہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔“
📚 (الرد على البكري، ص 74)
یعنی یہ روایت فوت شدگان سے توسل کے قائلین کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
✿ ایک الزامی جواب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:
«ومن حدثك أنه يعلم الغيب، فقد كذب، وھو يقول : لا يعلم الغيب إلا الله»
”جو تمہیں یہ کہے کہ محمد ﷺ غیب جانتے ہیں تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ غیب کو صرف وہی جانتا ہے۔“
📚 (صحيح بخاري 2/298، ح:7380، صحيح مسلم 1/98، ح:177)
قبوری حضرات چونکہ اس بات کو ماننے پر تیار نہیں، اس لیے اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
”آپ کا یہ قول اپنی رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں۔“
📚 (جاء الحق 1/124)
❓ سوال یہ ہے کہ اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول (علم غیب کے بارے میں) محض رائے ہے اور قبول نہیں تو پھر ان کا قبر نبوی سے کھڑکی کھولنے والا قول کیوں کر معتبر ہو سکتا ہے، جب کہ اس پر بھی نہ کوئی آیت ہے نہ حدیث، اور وہ روایت بھی ضعیف ہے؟
🌸 خلاصہ:
یہ اثر ضعیف ہے اور اگر بالفرض صحیح مان بھی لیا جائے تو بھی یہ فوت شدگان کے وسیلے کی دلیل نہیں بنتا، بلکہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بارش کے لیے رحمتِ الٰہی مانگی گئی، نہ کہ قبر یا ذات سے دعا کی گئی۔
✿ کائنات کی تخلیق کس لیے ہوئی؟
✿ قرآنی جواب
اللہ تعالیٰ نے صاف اور واضح اعلان فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾
”میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔“
📚 (الذاريات:56)
یعنی کائنات اور اس کا نظام عبادتِ الٰہی کے لیے تخلیق ہوا، نہ کہ کسی اور مقصد کے لیے۔
✿ من گھڑت صوفیانہ عقیدہ
گمراہ صوفیوں نے ایک جھوٹی روایت مشہور کر رکھی ہے کہ:
”اگر نبی کریم ﷺ نہ ہوتے تو کائنات تخلیق ہی نہ ہوتی“۔
یہ نظریہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور اس بارے میں بیان کی گئی روایات سب کی سب ضعیف، جعلی اور موضوع ہیں۔
✿ باطل روایت
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ اللہ نے فرمایا:
«ولولاك يا محمد ! ما خلقت الدنيا»
”اے محمد ﷺ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا۔“
📚 (تاريخ ابن عساكر 3/518، الموضوعات لابن الجوزي 1/288-289)
✿ محدثین کا حکم
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ: موضوع (من گھڑت)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ: ابن الجوزی کے حکم کو برقرار رکھا۔
📚 (اللآلي المصنوعة 1/272)
✿ سند کے رواۃ پر جرح
1️⃣ محمد بن عیسیٰ بن حیان مدائنی
دارقطنی: متروك الحديث، ضعیف (سؤالات الحاكم 171، سنن الدارقطني 1/78)
ابواحمد الحاکم: حدث عن مشايخه ما لم يتابع عليه (تاريخ بغداد 2/399)
لالکائی: ضعیف (تاريخ بغداد 2/398)
ابن الجوزی: ضعیف (الموضوعات 1/289)
✔ صرف ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا، مگر جمہور کی تضعیف راجح ہے۔
2️⃣ محمد بن صباح (کوفی)
ابوحاتم رازی: ليس بقوي (الجرح والتعديل 7/290)
3️⃣ ابراہیم بن ابی حیہ
امام بخاری: منكر الحديث (التاريخ الكبير 1/283)
دارقطنی: متروك (الضعفاء والمتروكين 17)
نسائی: ضعیف
ابوحاتم: منكر الحديث (الجرح والتعديل 2/149)
علی بن مدینی: ليس بشيء (لسان الميزان 1/52)
ابن حبان: يروي المناكير والأوابد، يسبق إلى القلب أنه المتعمد بها (المجروحين 1/103-104)
4️⃣ خلیل بن مرہ
امام بخاری: منكر الحديث، فيه نظر (التاريخ الكبير 3/199، سنن الترمذي 2666، 3474)
ابوحاتم: غير قوي (الجرح والتعديل 3/379)
نسائی: ضعيف (الضعفاء والمتروكين 178)
یحییٰ بن معین: ضعيف
ابن حبان: منكر الحديث عن المشاهير، كثير الرواية عن المجاهيل (المجروحين 1/286)
5️⃣ یحییٰ (ابن ابی صالح یا ابن ابی حیہ کلبی)
اگر ابن ابی صالح ہے تو مجہول (تقريب التهذيب 7569)
اگر ابوجناب کلبی ہے تو ضعیف و مدلس (نصب الراية 2/23، تخريج الإحياء 3708)
✿ خلاصہ
یہ روایت پانچ وجوہات سے باطل ہے:
راوی مجہول،
متروک،
کذاب،
منکر الحدیث،
سند منقطع و مظلم۔
قرآن نے واضح کیا کہ کائنات عبادتِ الٰہی کے لیے تخلیق ہوئی ہے، نہ کہ کسی کے طفیل یا صدقے کے لیے۔
📌 مزید تحقیق کے لیے دیکھیں:
🔗 https://tohed.com/3daa7e
✿ آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ
✿ قرآن کا بیان
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ (البقره:37)
”آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے۔ پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔“
وہ کلمات قرآن میں یوں بیان ہوئے:
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (الاعراف:23)
”اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔“
➤ یعنی آدم و حواء علیہما السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی مغفرت اور رحمت کی صفات کا وسیلہ دیا۔
✿ موضوع روایت (باطل حکایت)
بعض لوگوں نے یہ روایت بیان کی ہے:
متن:
«لما أذنب آدم صلى الله عليه وسلم الذنب الذي أذنبه، رفع رأسه إلى العرش، فقال : أسألك بحق محمد، إلاّ غفرت لي… ولولاه يا آدم ما خلقتك»
📚 (المعجم الصغير للطبراني 2/182 ح992، المعجم الأوسط 6502)
ترجمہ:
”جب آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ! میں محمد ﷺ کے حق کے واسطے تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: محمد کون ہیں؟ آدم نے کہا: جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش پر لکھا دیکھا: لا إله إلا الله محمد رسول الله۔ میں جان گیا کہ یہ بڑی ہستی ہے۔ اللہ نے فرمایا: وہ تمہاری اولاد میں آخری نبی ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔“
✿ حکم: یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے
✿ سند کے رواۃ پر جرح
1️⃣ عبدالرحمن بن زید بن اسلم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:
ضعيف – ”یہ ضعیف ہے۔“
امام بخاری رحمہ اللہ:
منكر الحديث – ”منکر الحدیث ہے (یعنی ایسی روایات بیان کرتا ہے جو معروف راویوں کے خلاف ہوں)۔“
امام نسائی رحمہ اللہ:
ضعيف – ”یہ ضعیف ہے۔“
امام دارقطنی رحمہ اللہ:
متروك الحديث – ”ترک کیا گیا راوی ہے۔“
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ:
ضعيف الحديث، منكر الحديث – ”ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔“
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ:
ضعيف – ”یہ ضعیف ہے۔“
امام ابن سعد رحمہ اللہ:
ضعيف – ”یہ ضعیف ہے۔“
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ:
لا أحتج به – ”میں اس کی روایت کو حجت نہیں مانتا۔“
امام ترمذی رحمہ اللہ:
ضعيف – ”یہ ضعیف ہے۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ:
يخطئ كثيرا، يقلب الأسانيد – ”یہ بہت غلطیاں کرتا اور اسانید کو الٹ پلٹ دیتا ہے۔“
حافظ ذہبی رحمہ اللہ:
ضعفه الجمهور – ”جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:
متفق على تضعيفه – ”اس کے ضعیف ہونے پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔“
🔴 خلاصہ: عبدالرحمن بن زید کو محدثین نے متفقہ طور پر ضعیف، متروک اور کثیر الغلطی راوی قرار دیا ہے۔
2️⃣ محمد بن داود بن عثمان صدفی مصری
اس کی معتبر توثیق محدثین سے ثابت نہیں۔
3️⃣ احمد بن سعید مدنی فہری
اس کی بھی معتبر توثیق نہیں ملی۔
✿ خلاصۂ کلام
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔
بنیادی علت: عبدالرحمن بن زید بن اسلم، جو جمہور کے نزدیک سخت ضعیف اور متروک ہے۔
قرآن مجید میں خود بیان موجود ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفاتِ مغفرت اور رحمت کا واسطہ دیا، کسی نبی یا مخلوق کی ذات کا نہیں۔
🔗 مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ کریں:
👉 https://tohed.com/e2719e
✿ قبر نبوی سے وسیلہ: مالک الدار والی روایت کا تحقیقی جائزہ
✿ روایت کا متن
عن مالك الدار، قال : وكان خازن عمر على الطعام، قال : أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له : عليك الكيس، عليك الكيس، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب ! لا آلو إلا ما عجزت عنه.
”مالک الدار، جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں غلے کے خزانچی تھے، روایت کرتے ہیں کہ قحط پڑا تو ایک شخص نبی ﷺ کی قبر پر آیا اور کہا: یا رسول اللہ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا فرمائیے۔ پھر خواب میں نبی ﷺ اس شخص کے پاس آئے اور کہا: عمر کے پاس جاؤ، میرا سلام کہو اور خبر دو کہ بارش ہو گی، اور عمر کو کہو کہ عقلمندی سے کام لیں۔ وہ شخص سیدنا عمر کے پاس آیا اور بتایا تو سیدنا عمر رو پڑے اور کہا: اے اللہ! میں اپنی استطاعت کے مطابق کوتاہی نہیں کرتا۔“
📚 (مصنف ابن أبي شيبه 6/356، تاريخ ابن أبي خيثمه 2/70، دلائل النبوة للبيهقي 7/47، تاريخ دمشق 44/345)
✿ سند پر تبصرہ
1️⃣ الاعمش (سلیمان بن مہران) – مدلس
یہ روایت "عن” سے ہے، سماع کی صراحت نہیں، اس لیے اصولِ محدثین کے مطابق ضعیف ہے۔
🔹 امام شافعی رحمہ اللہ:
«لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول: حدثني أو سمعت»
”مدلس کی روایت اس وقت تک قبول نہیں جب تک وہ سماع کی صراحت نہ کرے۔“
📚 (الرسالة، ص 380)
🔹 امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ:
«لا يكون حجة فيما دلس»
”مدلس کی تدلیس والی روایت حجت نہیں ہوتی۔“
📚 (الكامل لابن عدي 1/34)
🔹 حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ:
«لا يقبل تدليس الأعمش»
”اعمش کی تدلیس قبول نہیں۔“
📚 (التمهيد 1/30)
🔴 لہٰذا اعمش کی اس روایت کو ضعیف کہا گیا ہے۔
2️⃣ مالک الدار – مجہول الحال
سوائے ابن حبان کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
🔹 حافظ منذری: «لا أعرفه» – ”میں اسے نہیں جانتا۔“ (الترغيب 2/29)
🔹 حافظ ہیثمی: «لم أعرفه» – ”میں اسے نہیں پہچان سکا۔“ (مجمع الزوائد 3/123)
🔴 لہٰذا مالک الدار بھی مجہول ہے۔
3️⃣ خواب کا قصہ
حدیث کی دنیا میں خواب حجت نہیں۔ خواب سے شرعی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہو سکتا۔
✿ محدثین کا کلام
حافظ ابن کثیر (البدایہ 5/167) اور حافظ ابن حجر (الإصابة 3/484) نے اس کو "صحیح” کہا ہے، مگر یہ ان کا تسامح ہے، کیونکہ انہوں نے اصولِ حدیث کے مطابق اعمش کی تدلیس اور مالک الدار کی جہالت پر بحث نہیں کی۔
خود حافظ ابن حجر نے اعمش کی تدلیس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ روایت معلول ہے۔
📚 (التلخيص الحبير 3/19)
✿ تنبیہ
بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ خواب دیکھنے والا شخص سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے، لیکن یہ اضافہ بھی سخت ضعیف اور بے بنیاد ہے، کیونکہ اس کی سند میں شعیب بن ابراہیم رفاعی (مجہول) اور سیف بن عمر (وضاع و متروک) جیسے جھوٹے راوی ہیں۔
✿ خلاصہ
مالک الدار کی روایت میں دو بنیادی علتیں ہیں:
اعمش مدلس ہے اور سماع کی تصریح نہیں۔
مالک الدار مجہول الحال ہے۔
اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔
اس سے قبر نبوی سے دعا یا وسیلے کا جواز لینا بالکل غلط ہے۔
📌 مزید تفصیلی تحقیق اور اسی طرح کی دیگر روایات کا علمی جائزہ یہاں پڑھیں:
🔗 وسیلے کی ممنوع اقسام کے 41 دلائل کا تحقیقی جائزہ
https://tohed.com/a79785
✿ وسیلے کے عقلی دلائل کا ردّ
یہ تو بیان ہو چکا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تین قسم کا وسیلہ جائز ہے، اس کے علاوہ ہر قسم کا وسیلہ، مثلاً کسی مخلوق کی ذات یا فوت شدگان کا وسیلہ ناجائز و حرام ہے۔ بعض حضرات ناجائز وسیلے پر مبنی اپنے خود ساختہ عقائد کو ثابت کرنے کے لیے من گھڑت، جعلی، بناوٹی اور ضعیف روایات پیش کرتے ہیں۔ آئیے اب وسیلے کے حق میں پیش کردہ عقلی دلائل کی طرف آتے ہیں:
░ پہلی عقلی دلیل: سیڑھی اور چھت والی مثال
کہا جاتا ہے کہ جیسے چھت تک پہنچنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے اللہ تک پہنچنے کے لئے اولیاء کا وسیلہ چاہیے۔
جواب:
پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کے لئے مخلوق کی مثالیں دینا منع ہے، کیونکہ اللہ کی کوئی مثل نہیں:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾
ترجمہ: "اس جیسا کوئی بھی نہیں، اور وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔”
📚 (الشورى: 11)
اللہ تو عرش پر ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے:
﴿الرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾
ترجمہ: "رحمٰن عرش پر مستوی ہے۔”
📚 (طٰہ: 5)
تاہم علم و قدرت کے اعتبار سے وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے:
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾
ترجمہ: "اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔”
📚 (ق: 16)
چونکہ اللہ علم و قدرت کے اعتبار سے ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے اس لئے اس تک پہنچنے کے لئے کسی مخلوق کے شخصی و ذاتی وسیلے کی کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ سیڑھی والی مثال میں باور کروایا جاتا ہے۔
مزید برآں اللہ نے براہ راست خود کو پکارنے کا حکم دیا ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾
ترجمہ: "اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔”
📚 (غافر: 60)
اور قرآن و حدیث میں جتنی بھی دعائیں آئی ہیں وہ سب براہ راست اللہ سے ہیں، بغیر کسی تیسرے فریق کے شخصی وسیلے کے۔ اس لئے سیڑھی اور چھت والی مثال بالکل باطل ہے۔
░ دوسری عقلی دلیل: بادشاہ اور وزیر والی مثال
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جیسے بادشاہ تک پہنچنے کے لئے پہلے وزیروں سے ملنا پڑتا ہے، ویسے اللہ تک رسائی کے لئے اولیاء کی ضرورت ہے۔
جواب:
بادشاہ تک رسائی اس لئے مشکل ہے کہ وہ کمزور اور محتاج انسان ہے، ہر ایک کو براہ راست نہیں ملتا، اس لئے وزیروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن اللہ کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ اللہ تو دل کی پکار بھی براہ راست سنتا ہے:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾
ترجمہ: "اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (کہہ دیجئے) کہ میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔”
📚 (البقرة: 186)
لہٰذا اللہ تک پہنچنے کے لئے کسی وزیر، دربان یا ولی کی ضرورت نہیں۔
░ تیسری عقلی دلیل: پولیس اور ماں والی مثال
دعوتِ اسلامی کے سربراہ الیاس قادری صاحب کی ایک وائرل ویڈیو ہے جس میں وہ کہتے ہیں: اگر چوری ہو جائے تو ہم پولیس سے مدد لیتے ہیں، کھانے کے لئے ماں سے مدد لیتے ہیں، تو کیا یہ بھی شرک ہے؟ مدد تو صرف اللہ سے مانگنی چاہیے۔
جواب:
اس بچگانہ دلیل کا جواب بہت آسان ہے۔ کیا ہم مرے ہوئے پولیس والوں سے مدد لیتے ہیں؟ یا ان پولیس والوں سے جو موقع پر موجود ہی نہیں؟ کیا ہم مری ہوئی ماں سے روٹی مانگتے ہیں؟ یا زندہ اور موجود ماں سے جو واقعی مدد کر سکتی ہے؟ یہ سب ماتحت الاسباب مدد ہے، جس کے جائز ہونے پر قرآن و حدیث کے دلائل موجود ہیں:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾
ترجمہ: "نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔”
📚 (المائدہ: 2)
لیکن اصل مسئلہ مافوق الاسباب (اسباب سے ہٹ کر) مدد مانگنے کا ہے، یعنی غیبی طور پر کسی سے فریاد کرنا جو مدد پر قادر ہی نہ ہو۔ مثلاً عبدالقادر جیلانی کو ’’غوث الاعظم‘‘ (سب سے بڑا فریاد رس) مان کر "یا غوث الاعظم مدد” کے نعرے لگانا، یہ صریح شرک ہے، بالکل ویسا ہی جیسا ہندو اپنے مندروں میں کرتے ہیں۔
بدعات کا رد
علامہ مجد الدین یعقوب بن محمد فیروز آبادیؒ رقمطراز ہیں:
﴿بدعة بالكسر: الحدث فى الدين بعد الإكمال أو ما استحدث بعد النبى من الأهواء والاعمال .﴾
📗 القاموس المحيط: 3/3
بدعت : باء کے کسرہ کے ساتھ : ایسی چیز جو تکمیلِ دین کے بعد نکالی جائے یا وہ چیز جو رسول اللہ ﷺ کے بعد خواہشات و اعمال کی صورت میں پیدا کی جائے۔
📚 علامہ محمد بن ابی بکر الرازیؒ فرماتے ہیں:
﴿البدعة: الحديث فى الدين بعد الإكمال .﴾
📘 مختار الصحاح ، ص : 44
’’بدعت تکمیلِ دین کے بعد کسی چیز کو دین میں نیا ایجاد کرنا ہے۔‘‘
🌸 ابو اسحٰق الشاطبیؒ فرماتے ہیں:
’’اصل مادہ اس کا بدع ہے‘‘، جس کا مفہوم ہے بغیر کسی نمونے کے چیز کا ایجاد کرنا۔
اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ﴾
یعنی: آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ نمونے کے بغیر بنانے والا۔
مزید فرمایا:
﴿قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ﴾
📖 (الاحقاف : 9)
’’آپ کہہ دیں! میں اللہ کی طرف سے رسالت لے کر آنے والا پہلا نیا آدمی نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت رسول آچکے ہیں۔‘‘
اسی طرح جب کہا جاتا ہے:
’’ابْتَدَعَ فُلَانٌ بِدْعَةٌ‘‘
یعنی اس نے ایسا طریقہ شروع کیا جس کی طرف پہلے کسی نے سبقت نہیں کی۔
📘 الاعتصام ، الباب الاول : 36/1
ان ائمہ لغات کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ بدعت کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی چیز ایجاد کی جائے جس کی مثال یا نمونہ پہلے موجود نہ ہو۔
🌷 بدعت کی اصطلاحی تعریف 🌷
حافظ ابن کثیرؒ رقمطراز ہیں کہ:
﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ﴾ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ مثال کے بغیر پیدا کرنے والا ہے۔
یہی لغوی تقاضا ہے، اس لیے کہ لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہا جاتا ہے۔
اور بدعت کی دو اقسام ہیں👇
⚖ (1) بدعتِ شرعی:
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
’’ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
💡 (2) بدعتِ لغوی:
جیسے امیرالمؤمنین عمرؓ نے لوگوں کے جمع ہو کر تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا:
"یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے”
📗 تفسير ابن كثير 348/1، بتحقيق عبد الرزاق المهدى، تفسير سورة البقرة آيت :117
📖 امام عبد الرحمٰن بن رجبؒ فرماتے ہیں:
﴿والمراد بالبدعة: مما لا أصل له فى الشريعة يدل عليه فأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة﴾
📘 جامع العلوم والحكم : 127/2
’’بدعت سے مراد وہ نو ایجاد چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے۔
بہر کیف جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دلالت کرے تو وہ شرعی بدعت نہیں اگرچہ لغت کے اعتبار سے بدعت ہو۔‘‘
📙 مولوی عبد الغنی خان حنفی اپنی کتاب
"الـجـنة لأهل السنة” (ص: 161)
میں ’’البحر الرائق‘‘ اور ’’در مختار‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’بدعت وہ چیز ہے جو ایسے حق کے خلاف ایجاد کی گئی ہو جو رسول اللہ ﷺ سے اخذ کیا گیا ہو — علم، عمل یا حال میں — اور کسی شبہ کی بنیاد پر اسے اچھا سمجھ کر دینِ قویم اور صراطِ مستقیم بنا لیا گیا ہو۔‘‘
🌺 نتیجہ:
ان ائمہ اور حنفی اکابر کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ:
ہر وہ نیا کام جسے ثواب و عبادت سمجھ کر دین میں داخل کر لیا گیا ہو وہ بدعت ہے۔
لفظ ’’کل‘‘ عموم پر دلالت کرتا ہے۔
جس طرح:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾
کا مطلب ہے ’’ہر نفس کو موت آئے گی‘‘،
اسی طرح:
كل بدعة ضلالة
کا مطلب ہے ’’دین میں ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
لہٰذا یہ کہنا کہ بدعتِ حسنہ بھی ہوتی ہے، غلط ہے۔
کیونکہ اگر کوئی کہے کہ شرکِ حسنہ یا کفرِ حسنہ بھی ہوتا ہے —
تو پھر اس کا کیا جواب ہوگا؟
اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود کے لیے سخت وعید فرمائی —
جو تورات کی آیات اور احکام کو دنیا کی حقیر متاع کے لیے بدل دیتے تھے،
اور تحریف شدہ کلام کو اللہ کا کلام قرار دیتے تھے۔
ایسے لوگ دوہرا ظلم کرتے تھے:
1️⃣ دین میں تبدیلی،
2️⃣ اور ناجائز طریقے سے لوگوں کا مال کھانا۔
📖 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾
📘 (البقره : 79)
ترجمہ:
’’پس خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلے کچھ مال حاصل کریں، پس ان کے لیے خرابی ہے، اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی (کتاب) کے سبب، ان کے لیے خرابی ہے ان کی اپنی کمائی کے سبب۔‘‘
📚 شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
اگرچہ یہ آیت یہود علماء کے بارے میں ہے،
لیکن اس میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے
جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے
قرآن و سنت میں تحریف کرتے ہیں۔
یہ ان لوگوں کی بھی مذمت ہے جو:
قرآن کو سمجھے بغیر صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں،
یا دنیاوی مقاصد کے لیے جھوٹی بات کو
اللہ کی شریعت قرار دیتے ہیں،
اور وہ جو قرآن و سنت کو چھپاتے ہیں تاکہ حق واضح نہ ہو۔
🌸 اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
📖 (الانعام : 153)
ترجمہ:
’’اور بے شک یہی میری سیدھی راہ ہے، پس تم لوگ اسی کی پیروی کرو،
اور دوسرے طریقوں پر نہ چلو جو تمھیں اس کی سیدھی راہ سے الگ کر دیں،
اللہ نے یہی حکم دیا ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
📗 حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
اسلام کے لیے سبیل (راہ) واحد ہے،
جبکہ دیگر مذاہب و فرقوں کے لیے سبل (راہیں) جمع کی صورت میں ہیں۔
کیونکہ حق ایک ہے اور باطل کے کئی رخ ہیں۔
📚 تفسير ابن كثير، تحت الآية
📖 ابن عطیہؒ فرماتے ہیں:
"سبل” سے مراد یہودیت، نصرانیت، مجوسیت
اور تمام بدعتی و گمراہ فرقے ہیں
جنہیں اہلِ ہوا و ہوس نے ایجاد کیا۔
📖 قتادہؒ فرماتے ہیں:
جان لو کہ ہدایت کا راستہ ایک ہے —
اسی پر چلنے والوں کا انجام جنت ہے،
اور ابلیس نے بہت سے راستے بنائے
جو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔
🌿 نتیجہ:
امتِ اسلام کا اتحاد اسی وقت ممکن ہے
جب وہ تمام فرقوں کو چھوڑ کر
صرف قرآن و سنت کی پیروی کرے۔
جیسا کہ امام مالکؒ نے فرمایا:
"یہ امت اسی راہ پر چل کر اصلاح پائے گی
جس پر چل کر صحابہ کرامؓ نے اصلاح پائی تھی۔”
🌸 اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾
📘 (یونس : 69)
ترجمہ:
’’آپ کہہ دیجیے کہ بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘
📍 بدعت افترا علی اللہ اور افترا علی الرسول ﷺ کے مترادف ہے۔
بدعتی کبھی کامیاب نہیں ہوتا — اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
📖 اللہ تعالیٰ کا مزید فرمان:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾
📘 (الاحزاب : 36)
ترجمہ:
’’اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دے،
تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا
وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘
📍 مطلب یہ کہ دین کے کسی معاملے میں
رائے، قیاس یا بدعت کی کوئی گنجائش نہیں —
جب اللہ و رسول ﷺ کا حکم آ جائے، تو بس اطاعت لازم ہے۔
📖 اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
📘 (النساء : 65)
ترجمہ:
’’آپ کے رب کی قسم! وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے
جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں حَکم نہ مان لیں،
پھر آپ کے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں،
اور پورے طور پر تسلیم کر لیں۔‘‘
📚 حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
یہ حکم تمام امور کو شامل ہے۔
جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم آجائے،
تو کسی اور کی رائے یا قول کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
📘 تفسير ابن كثير، تحت الآية
🌿 ایک اور فرمانِ الٰہی:
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
📖 (الشورى : 21)
ترجمہ:
’’کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا
جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟
اور اگر اللہ کی طرف سے فیصلہ مؤخر نہ ہوتا
تو ان کے درمیان دنیا ہی میں فیصلہ کر دیا جاتا،
اور بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
📚 مفسرین فرماتے ہیں:
یہ آیت شرک باللہ اور بدعت کے ہر تصور کو رد کرتی ہے۔
اگر اللہ نے فیصلہ مؤخر نہ کیا ہوتا،
تو ان بدعتیوں کو دنیا ہی میں ہلاک کر دیا جاتا۔
📘 تيسر الرحمن ، ص : 1359
🌸 اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
📘 (الصف : 7)
ترجمہ:
’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے خلاف جھوٹ باندھے
حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو،
اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو
اسلام جیسا برحق دین دے کر مبعوث فرمایا —
جو حق و باطل کے درمیان واضح فرق کر دیتا ہے۔
اب جو شخص اس دین سے منہ موڑ کر
اللہ پر افترا کرے —
وہی سب سے بڑا ظالم ہے۔
📍 یہی حال مشرکینِ قریش کا تھا:
وہ اللہ کے لیے بیٹے، شریک اور معبود ٹھہراتے،
حرام کو حلال، اور حلال کو حرام کرتے،
اور کہتے کہ “اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم ایسا نہ کرتے” —
حالانکہ یہی افترا علی اللہ ہے۔
بدعت، سنت کی ضد ہے۔
بدعت دین میں اضافہ کا نام ہے، جس سے قرآن و سنت میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔
🟢 ① روایتِ سمرہ بن جندبؓ — اضافہ سے ممانعت
﴿إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن عليه﴾
📘 مسند احمد 11، حدیث نمبر: 81691
"جب میں تمھیں کوئی بات بیان کروں تو تم اس پر اضافہ ہرگز نہ کرنا۔”
وضاحت:
رسول اللہ ﷺ نے دین میں اپنی طرف سے کسی اضافہ یا کمی سے سختی سے روکا۔
یعنی دین وہی ہے جو نبی ﷺ نے سکھایا، اس میں اپنی رائے شامل کرنا ممنوع ہے۔
🟢 ② روایتِ براء بن عازبؓ — دعا کے الفاظ عین سنت کے مطابق
﴿عن البراء بن عازبؓ قال: قال النبى ﷺ: إذا أتيت مضجعك ، فتوضأ وضونك للصلاة ، ثم اضطجع على شقك الأيمن، ثم قل اللهم أسلمت وجهى إليك ، وفوضت أمرى إليك ، وألجأت ظهرى إليك ، رغبة ورهبة إليك ، لا ملجأ ولا ، أ منك إلا إليك ، اللهم آمنت بكتاب الذى أنزلت ، ونبيك الذى أرسلت. فإن مت من ليلتك، فأنت على الفطرة، واجعلهن آخر ما تكلم به . قال: فرددتها على النبى ﷺ، فلما بلغت: اللهم آمنت بكتابك الذى أنزلت ، قلت: ورسولك، قال: لا، ونبيك الذى أرسلت﴾
📗 صحيح البخاري ، رقم : 247
مکمل ترجمہ:
سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو نماز کا سا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو:
اے اللہ! تیرے ثواب کے شوق اور تیرے عذاب کے خوف سے میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کیا، تجھ پر توکل کیا، تجھے اپنا پشت پناہ بنایا، تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں مگر تیرے ہی پاس۔ اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے نبی پر جو تو نے بھیجا۔
اگر تو اس رات فوت ہو جائے تو فطرتِ اسلام پر مرو گے،
اور یہ کلمات آخری بات کے طور پر کہنا۔”
براءؓ فرماتے ہیں:
"میں نے یہ الفاظ نبی ﷺ کے سامنے دہرائے، جب میں نے کہا: ’آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَرَسُولِكَ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، یوں کہو ’وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ‘۔”
وضاحت:
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نبی ﷺ نے حتیٰ کہ دعاؤں کے الفاظ میں بھی اپنی مرضی سے تبدیلی کی اجازت نہیں دی۔
یعنی سنت کے الفاظ، طریقے اور عمل میں معمولی تبدیلی بھی قابلِ قبول نہیں۔
🟢 ③ وصیتِ رسول ﷺ — بدعات سے اجتناب اور سنتِ خلفائے راشدین کی پابندی
﴿عن العرباض بن سارية ، قال: وعظنا رسول الله ﷺ يوما بعد صلاة الغداة موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال رجل: إن هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا يارسول الله؟ قال: أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن تأمر عليكم عبد حبشي فإنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا وإياكم ومحدثات الأمور فإنها ضلالة فمن أدرك منكم ذالك فعليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ، عضوا عليها بالنواجذ﴾
📕 سنن ترمذی، رقم: 2676؛ ابو داؤد: 4607؛ ابن ماجہ: 42 — صحیح کہا البانیؒ نے
سیدنا عرباض بن ساریہؓ فرماتے ہیں:
ایک دن صبح کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایسا پُراثر وعظ فرمایا کہ آنکھیں بہہ پڑیں اور دل کانپ گئے۔
ایک شخص نے کہا: "یہ الوداعی نصیحت معلوم ہوتی ہے، آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، سنو اور اطاعت کرو، خواہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا جائے۔
جو زندہ رہے گا وہ اختلافات دیکھے گا، لہٰذا نئی بدعات سے بچنا، کیونکہ وہ گمراہی ہیں۔
تم میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لینا، دانتوں سے تھام لینا۔”
وضاحت:
یہ حدیث دین میں کسی بھی نئی بات (بدعت) کے حرام ہونے پر واضح نص ہے۔
آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اختلاف و گمراہی کے زمانے میں "میری سنت” اور "خلفائے راشدین” کی سنت کو مضبوطی سے پکڑو، کیونکہ اسی میں نجات ہے۔
🟢 ④ حدیثِ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ — نئی چیز مردود ہے
﴿من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد﴾
📘 صحیح بخاری، کتاب الصلح، حدیث: 2697؛ صحیح مسلم، کتاب الاقضیہ، رقم: 1718
"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ مردود ہے۔”
اور امام بغویؒ نے فرمایا:
﴿من أحدث فى ديننا ما ليس منه فهو رد﴾
📗 شرح السنة ، باب رد البدع والأهواء: 211/1 ، 103
وضاحت:
اس حدیث میں صاف بتا دیا گیا کہ دین میں ہر وہ نیا عمل جو نبی ﷺ کے طریقے پر نہیں، وہ مردود ہے۔
دنیاوی ایجادات جیسے گھڑی، مائک، گاڑیاں وغیرہ بدعتِ شرعی نہیں۔
بدعتِ شرعی صرف وہ ہے جو دین میں نئی گھڑی جائے اور عبادت سمجھ کر اختیار کی جائے۔
🟢 ⑤ بدعتی پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت
❀ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
﴿لَعَنَ اللَّهُ مَنْ أَحْدَثَ فِي الْإِسْلَامِ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا﴾
📘 مسند الربيع ، رقم : 372
ترجمہ:
"اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت فرمائے جس نے اسلام میں کوئی نئی بات ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی۔”
وضاحت:
یہ لعنت اس بات پر ہے کہ دینِ اسلام میں نئی بات داخل کرنا یا بدعتی کی حمایت کرنا —
دونوں اعمال دین کی بنیادوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔
🟢 ⑥ بدعت ایجاد کرنے والے پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.”
📗 مسند أحمد: 22/1؛ صحیح البخاري، رقم : 1870؛ صحیح مسلم، رقم : 1370
ترجمہ:
"جس نے بدعت ایجاد کی یا بدعتی کو اپنے ہاں ٹھکانہ دیا،
اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔
اس سے نہ کوئی نفل قبول کیا جائے گا نہ فرض۔”
وضاحت:
یہ بدعت کے خطرے کی انتہائی واضح وعید ہے —
جو شخص بدعت ایجاد کرے یا اس کی پشت پناہی کرے،
اس پر اللہ کی لعنت اور اس کے اعمال کی قبولیت ختم ہو جاتی ہے۔
🟢 ⑦ ہر بدعت گمراہی ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
﴿أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ﴾
📘 صحیح مسلم، رقم : 867/43؛ سنن نسائی، رقم : 1578
ترجمہ:
"اما بعد! بہترین بات اللہ کی کتاب ہے، بہترین ہدایت محمد ﷺ کی ہدایت ہے،
اور بدترین کام نئے امور ہیں،
اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
وضاحت:
یہ جامع الفاظ ہر اس چیز کو شامل کرتے ہیں
جو نبی ﷺ اور صحابہؓ کے زمانے میں دین کا حصہ نہ تھی —
خواہ وہ کتنی ہی خوبصورت یا فائدہ مند کیوں نہ لگے،
دین میں شامل کرنے سے وہ "ضلالت” بن جاتی ہے۔
🟢 ⑧ سنت سے ہٹنے والے کی ہلاکت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
﴿لِكُلِّ عَمَلٍ شِرَّةٌ، وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةٌ، فَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى سُنَّتِي فَقَدْ اهْتَدَى، وَمَنْ كَانَتْ فَتْرَتُهُ إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَقَدْ هَلَكَ﴾
📗 مسند أحمد : 2/188؛ صحیح الترغيب والترهيب، رقم : 56؛ الطبرانی الکبیر: 10339
ترجمہ:
"ہر عمل میں جوش اور شدت آتی ہے،
اور ہر جوش کے بعد سستی آتی ہے۔
جس کی سستی میری سنت کی طرف ہو، وہ ہدایت یافتہ ہے،
اور جس کی سستی غیر سنت کی طرف ہو، وہ ہلاک ہو گیا۔”
وضاحت:
یعنی عمل میں کمی یا تھکن اگر سنت کے دائرے میں رہے تو خیر ہے،
لیکن اگر انسان بدعت یا خواہش کے پیچھے چلنے لگے
تو وہ تباہی کی راہ پر ہے۔
🟢 ⑨ مدینہ میں بدعت کی سخت ممانعت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.”
📘 صحیح البخارى، كتاب فضائل المدينة: 1867؛ كتاب الاعتصام: 7306؛ صحیح مسلم: 441/1
ترجمہ:
"مدینہ (منورہ) حرام ہے، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں،
اور نہ اس میں کوئی بدعت نکالی جائے۔
جس نے اس میں بدعت نکالی یا بدعتی کو پناہ دی،
اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو،
اس سے نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل۔”
وضاحت:
مدینہ طیبہ میں بدعت ایجاد کرنا ایسا جرم ہے
کہ اس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔
یہ واضح اعلان ہے کہ بدعتی کا مقام و مرتبہ اسلام میں نہیں۔
🟢 ⑩ بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ حَجَبَ التَّوْبَةَ عَنْ كُلِّ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّى يَدَعَ بِدْعَتَهُ﴾
📗 الطبراني الأوسط : 5/113؛ مجمع الزوائد : 10/192؛ البيهقي في السنن الكبرى : 10/208
ترجمہ:
"بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بدعت والے سے توبہ کو روک دیا ہے
جب تک کہ وہ اپنی بدعت کو ترک نہ کر دے۔”
وضاحت:
بدعت انسان کے دل کو حق سے اندھا کر دیتی ہے،
یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت کو نیکی سمجھنے لگتا ہے۔
اسی لیے توبہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتی
جب تک وہ بدعت چھوڑ کر سنت کی طرف واپس نہ آجائے۔
📍 اختتام:
تمام یہ احادیث اس حقیقت پر متفق ہیں کہ:
بدعت صرف ایک "نیا عمل” نہیں، بلکہ دین میں بگاڑ ہے۔
بدعتی پر لعنت، اس کے اعمال کی نامنظوری، اور توبہ کی رکاوٹ —
یہ سب اس کے انجام کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔
نجات صرف اور صرف سنتِ رسول ﷺ کی پیروی میں ہے۔
اللہ ہمیں بدعات سے محفوظ رکھے اور سنت پر قائم رکھے۔ 🤲
ہر درد مند کو کو رونا یہ میرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے 💧
صحابہ کرامؓ سنت سے محبت کرنے والے اور بدعت سے شدید نفرت کرنے والے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسی چیز کا درس دیا تھا۔
چنانچہ ان کے اقوال و آثار بدعت کے بطلان پر واضح دلیل ہیں۔
🟢 سیدنا ابوبکر صدیقؓ
علامہ ابن سعدؒ نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّمَا أَنَا مُتَّبِعٌ، وَلَسْتُ بِمُبْتَدِعٍ، فَإِنْ أَحْسَنْتُ فَأَعِينُونِي، وَإِنْ زُغْتُ فَقَوِّمُونِي.”
📘 الطبقات الكبرى لابن سعد : 3/136
ترجمہ:
"لوگو! میں سنت کا پیروکار ہوں، بدعتی نہیں۔
اگر میں درست کام کروں تو میری مدد کرو، اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو۔”
وضاحت:
ابوبکرؓ کا یہ قول بتاتا ہے کہ قیادت اور عبادت دونوں میں صرف سنت ہی معیار ہے،
نہ اپنی رائے، نہ نیا طریقہ — بلکہ صرف اتباعِ رسول ﷺ۔
🟢 سیدنا عمر فاروقؓ — بدعتیوں سے خبردار
سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں:
"إِيَّاكُمْ وَأَهْلَ الْبِدَعِ، فَإِنَّهُمْ أَعْدَاءُ السُّنَنِ، قَدْ أَعْيُوا عَلَى حِفْظِهَا، فَتَعَلَّمُوا الْبِدَعَ فَاتَّخَذُوهَا سُنَنًا.”
📗 سنن الدارمي : 1/47
ترجمہ:
"بدعتی لوگوں سے بچو، وہ سنت کے دشمن ہیں۔
جب ان سے احادیث یاد نہ رہیں تو اپنی مرضی سے باتیں گھڑنے لگے،
خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔”
وضاحت:
عمرؓ نے بدعت کو "سنت کی دشمن” کہا —
یعنی بدعت جتنی پھیلے گی، سنت اتنی مٹتی جائے گی۔
🟢 سیدنا عمر بن خطابؓ — بدعتی کی توبہ قبول نہیں
﴿إِنَّ لِكُلِّ صَاحِبِ ذَنْبٍ تَوْبَةً غَيْرَ أَصْحَابِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ، لَيْسَ لَهُمْ تَوْبَةٌ، أَنَا بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَهُمْ مِنِّي بُرَآءُ.﴾
📘 السنة لابن أبي عاصم بتحقيق الألباني، رقم: 22، 38
ترجمہ:
"ہر گناہ گار کے لیے توبہ ہے مگر اہلِ بدعت کے لیے نہیں۔
میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔”
وضاحت:
یہ عمرؓ کے سخت ترین اقوال میں سے ہے۔
بدعتی کے لیے توبہ اس وقت تک نہیں جب تک وہ بدعت چھوڑ کر سنت کی طرف نہ لوٹے۔
🟢 سیدنا علی المرتضیؓ — بدعتی پر لعنت
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ.”
📗 صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، باب تحريم الذبح لغير الله، رقم : 1978؛ مسند أحمد : 1/118
ترجمہ:
"اللہ کی لعنت ہو اُس شخص پر جس نے غیراللہ کے لیے ذبح کیا،
اور اُس پر بھی جس نے اپنے والد پر لعنت کی،
اور اُس پر جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی،
اور اُس پر جس نے زمین کی حدیں بدلی۔”
وضاحت:
بدعتی کی حمایت کرنا یہاں اُن اعمال میں شامل کیا گیا ہے جن پر اللہ کی لعنت نازل ہوتی ہے۔
🟢 سیدنا علی المرتضیؓ — مدینہ میں بدعت ایجاد کرنے والے کے بارے میں فرمایا:
﴿مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى فِيهَا مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.﴾
📘 صحیح بخاری، رقم : 3172؛ صحیح مسلم، رقم : 3327
ترجمہ:
"جو کوئی مدینہ میں نئی بات نکالے یا بدعتی کو پناہ دے،
اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے،
اس سے نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل۔”
وضاحت:
مدینہ منورہ میں بدعت ایجاد کرنا دین کے قلب پر حملہ ہے۔
علیؓ نے اسے لعنت کے قابل جرم قرار دیا۔
🟢 سیدہ عائشہ صدیقہؓ — بدعت مردود ہے
﴿مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ.﴾
📘 صحیح بخاری: 9/132؛ صحیح مسلم : 3/1344
"جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔”
اور دوسری روایت کے الفاظ:
﴿مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ.﴾
📗 صحیح مسلم: 3/1344
ترجمہ:
"جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ مردود ہے۔”
وضاحت:
یہ نبی ﷺ کا معیار ہے — دین صرف وہی ہے جو آپ ﷺ سے ثابت ہے،
اس کے سوا سب مردود۔
🟢 امام نوویؒ کی تشریح
"ھٰذِهِ الْحَدِيثُ قَاعِدَةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ قَوَاعِدِ الْإِسْلَامِ، وَهُوَ مِنْ جَوَامِعِ كَلِمِهِ ﷺ، وَهُوَ صَرِيحٌ فِي رَدِّ كُلِّ بِدْعَةٍ وَاخْتِرَاعٍ…”
📘 شرح صحيح مسلم للنووي : 12/16
ترجمہ:
"یہ حدیث اسلام کے عظیم اصولوں میں سے ہے،
اور نبی ﷺ کے جامع کلمات میں سے ایک ہے۔
یہ ہر بدعت اور خود ساختہ عمل کے رد میں صریح دلیل ہے۔”
وضاحت:
نوویؒ نے واضح کر دیا کہ اس حدیث کے تحت ہر قسم کی بدعت داخل ہے،
خواہ کوئی خود ایجاد کرے یا کسی کی ایجاد کی ہوئی چیز پر عمل کرے —
دونوں مردود ہیں۔
🟢 سیدنا عبد الله بن مسعودؓ — سنت ہی کافی ہے
❀ فرمایا:
﴿اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم .﴾
📘 سنن دارمی، رقم : 211
"اتباع کرو اور بدعت کا ارتکاب نہ کرو،
یقینا تمہیں سنت کافی ہے، لوگوں کی آراء کی ضرورت نہیں۔”
وضاحت:
ابن مسعودؓ نے بتایا کہ دین مکمل ہے،
اس میں کسی نئی چیز کی گنجائش نہیں —
جو کچھ رسول ﷺ چھوڑ گئے، وہی کافی ہے۔
🟢 عبدالله بن مسعودؓ کا دوسرا قول:
﴿اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم وكل بدعة ضلالة﴾
📘 مجمع الزوائد للهيثمى: 1/181؛ السنة للمروزی، رقم: 78
"سنت کی پیروی کرو اور بدعات نہ نکالو،
تحقیق تمہیں سنت ہی کافی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
وضاحت:
یہاں بدعت کو براہِ راست "ضلالت” یعنی گمراہی قرار دیا گیا —
چاہے نیت اچھی ہو یا ناپاک۔
🟢 علم حاصل کرو، بدعات سے بچو
﴿تعلموا العلم قبل أن يقبض ، وقبضه أن يذهب أهله، الا وإياكم التنطع والتعمق والبدع وعليكم بالعتيق .﴾
📗 سنن الدارمی 1/54؛ شرح اصول اعتقاد أهل السنة للالكائي 1/87
"کتاب وسنت کا علم سیکھو اس کے قبض کر لیے جانے سے پہلے،
اور اس کا قبض کیا جانا اہلِ علم کا چلے جانا ہے۔
خبردار! غلو، بحث و جدال اور بدعات سے بچو،
اور قدیم (یعنی سنت) راستے کو اختیار کرو۔”
وضاحت:
ابن مسعودؓ نے واضح کر دیا کہ دین کی سلامتی صرف "عِتیق” یعنی پرانے راستے — سنت — میں ہے۔
🟢 عبدالله بن مسعودؓ — نیا طریقہ گمراہی کا دروازہ
فرمایا:
"تم آج فطرت (اسلام) پر ہو، مگر تم خود بدعتیں ایجاد کرو گے،
اور لوگ تمہاری خاطر نئی بدعتیں گھڑیں گے۔
پس جب نیا عمل دیکھو تو پہلے راستے کو لازم پکڑو۔”
📘 السنة للمروزي، رقم: 8، ص: 57
وضاحت:
ابن مسعودؓ نے آئندہ آنے والی گمراہیوں کی پیشین گوئی فرمائی،
کہ دین میں نئی رسومات اور طریقے پھیلیں گے —
لہٰذا صرف پہلا راستہ (سنت) اختیار کرو۔
🟢 بدعتی حلقے اور ابن مسعودؓ کا ردّ عمل
📜 واقعہ روایت کرتے ہیں عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے:
"ہم فجر سے پہلے ابن مسعودؓ کے دروازے پر بیٹھے تھے۔
ابو موسیٰ اشعریؓ آئے اور کہا:
میں نے مسجد میں ایک عجیب منظر دیکھا —
لوگ حلقے بنا کر بیٹھے تھے،
ایک شخص کہتا: سو بار ‘اللہ اکبر’ کہو،
اور سب اکٹھے گنتے۔ پھر ‘لا الہ الا اللہ’، پھر ‘سبحان اللہ’۔
ابن مسعودؓ نے فرمایا:
’کاش تم اپنے گناہوں کو شمار کرتے، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہ ہوں گی۔
اے امتِ محمد! تمہاری ہلاکت کتنی جلد آگئی!
یہ صحابہ موجود ہیں، نبی ﷺ کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے،
اور تم نے دین میں نئی باتیں گھڑ لیں۔‘
پھر فرمایا:
’اللہ کی قسم! کیا تم وہ طریقہ اپنائے ہوئے ہو جو محمد ﷺ سے بہتر ہے؟
یا تم گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟‘
ان لوگوں نے کہا: ’ہم تو صرف خیر چاہتے ہیں۔‘
ابن مسعودؓ نے جواب دیا: ’کتنے خیر کے چاہنے والے ہیں جو خیر تک نہیں پہنچتے!‘
پھر فرمایا: ’رسول ﷺ نے فرمایا: ایک قوم قرآن پڑھے گی مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
اللہ کی قسم! شاید وہ تم ہی ہو۔‘
بعد میں عمرو بن سلمہ کہتے ہیں:
ہم نے انھیں نہروان کے دن خوارج کے ساتھ دیکھا،
وہ انہی بدعتی حلقوں کے لوگ تھے۔”
📘 سنن دارمی، حدیث رقم : 210؛ سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم : 2005
وضاحت:
یہ واقعہ بدعت کے عملی نقصان کی واضح مثال ہے —
عبادت کی نیت سے ایجاد کی گئی بدعت نے
انہیں خوارج جیسے باغی گروہ میں بدل دیا۔
🟢 ابن مسعودؓ و اُبیؓ بن کعبؓ کا قول:
﴿الاقتصاد فى السنة خير من الاجتهاد فى البدعة .﴾
📘 السنة للمروزي، حديث رقم : 76، 77
"سنت کے مطابق تھوڑا عمل کرنا بدعت پر زیادہ عمل کرنے سے بہتر ہے۔”
وضاحت:
دین میں معیار "زیادہ عمل” نہیں، بلکہ "سنت کے مطابق عمل” ہے۔
🟢 سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ — چھینک پر سنت کے مطابق کلمات
روایت ہے:
﴿أن رجلا عطس إلى جنب ابن عمر فقال: الحمد لله والسلام على رسول الله . قال ابن عمر وأنا أقول: الحمد لله والسلام على رسول الله، وليس هكذا ، علمنا رسول الله ﷺ علمنا أن نقول الحمد لله على كل حال .﴾
📗 سنن ترمذی، كتاب الأدب، رقم : 2738 — محدث البانی نے حسن کہا
ایک شخص نے چھینک کے بعد کہا:
"اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ”۔
سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا:
"میں بھی کہتا ہوں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ،
لیکن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا نہیں سکھایا۔
آپ ﷺ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ چھینک کے بعد صرف ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ کہا جائے۔”
وضاحت:
یہ بتاتا ہے کہ عبادت میں اپنی طرف سے اضافہ بھی بدعت ہے،
چاہے وہ بظاہر ذکرِ خیر ہی کیوں نہ ہو۔
🟢 عبداللہ بن عمرؓ — ہر بدعت گمراہی ہے
﴿كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة .﴾
📘 السنة للمروزی، رقم : 28؛ شرح أصول اعتقاد أهل السنة: 1/92؛ الإبانة: 1/92
"ہر بدعت گمراہی ہے، چاہے لوگ اسے اچھا سمجھیں۔”
وضاحت:
ابن عمرؓ نے بتایا کہ بدعت کے بارے میں لوگوں کی رائے بے معنی ہے،
جو دین میں نئی ہو، وہ گمراہی ہی ہے۔
🟢 عبداللہ بن عمرؓ — بدعتی سے بیزاری
﴿بلغني أنه قد أحدث فإن كان أحدث فلا تقرته مني السلام .﴾
📘 سنن الترمذي، كتاب القدر، رقم: 2152؛ سنن ابن ماجه، كتاب الفتن، رقم: 4071
"مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں شخص نے بدعت ایجاد کی ہے،
اگر یہ بات درست ہے تو میری طرف سے اسے سلام نہ کہنا۔”
وضاحت:
ابن عمرؓ نے بدعتی سے میل جول اور تعلقات منقطع کرنے کا حکم دیا،
تاکہ دین میں بدعت کو معاشرتی قبولیت نہ ملے۔
🟢 سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ
① فرمایا:
"لوگوں پر کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کر چکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ و پائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی۔”
📘 المعجم الکبیر للطبرانی: 10/319
وضاحت: بدعتوں کے بڑھنے کا لازمی نتیجہ سنتوں کا مٹنا ہے؛ اس لیے ہر نئی دینی رسومات سے بچنا ضروری ہے۔
② عثمان بن حاضرؒ کہتے ہیں: میں نے نصیحت چاہی تو ابن عباسؓ نے فرمایا:
"اللہ سے تقویٰ لازم پکڑو، استقامت اختیار کرو، اتباع کرو، بدعت سے دور رہو۔”
📘 سنن دارمی: 141
وضاحت: دین کی سیدھی راہ تین ستونوں پر ہے: تقویٰ، استقامت، اتباعِ سنت — اور بدعت سے دوری۔
③ آیت کی تفسیر میں فرمایا:
﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾ (آل عمران: 106)
"اہلِ سنت والجماعت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہلِ بدعت و افتراق کے چہرے سیاہ ہوں گے۔”
📘 اجتماع الجيوش الإسلامية لابن القيم: 2/39
وضاحت: حق والوں کی پہچان آخرت میں روشن چہروں سے ہوگی؛ بدعت و تفرقہ والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
④ فرمایا:
﴿إن أبغض الأمور إلى الله البدع .﴾
📘 السنن الكبرى للبيهقي: 3/316
وضاحت: بدعت اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہے؛ نیک نیتی بھی اسے مقبول نہیں بناتی۔
🟢 سیدنا حذیفہ بن یمانؓ
دو پتھروں کی مثال دے کر فرمایا:
"قَسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قریب ہے کہ بدعت کا ایسا غلبہ ہو کہ حق کی روشنی اتنی ہی رہ جائے جتنی ان دونوں پتھروں کے بیچ نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بدعت چھوڑ دی جائے تو لوگ کہیں گے کہ سنت چھوڑ دی گئی!”
📘 الاعتصام للشاطبي: 1/60، 80
وضاحت: جب بدعت رواج پاتی ہے تو لوگ اسی کو دین سمجھ لیتے ہیں اور سنت کو اجنبی کر دیتے ہیں۔
🟢 سیدنا معاذ بن جبلؓ
یزید بن عمیرہؒ بیان کرتے ہیں: معاذؓ مجلس میں فرماتے: "اللہ حکمت و عدل والا ہے اور شک کرنے والے ہلاک ہوئے”… پھر فرمایا:
"تمہارے بعد بہت فتنے آئیں گے… قرآن سب کے سامنے ہوگا… کچھ لوگ کہیں گے: ‘لوگ میری اتباع کیوں نہیں کرتے؟ میں نے قرآن پڑھا ہے’ — مگر وہ تب تک نہ مانیں گے جب تک کوئی دوسرا شخص ان کے لیے بدعت نہ گھڑے، تو وہ اسی کی پیروی کریں گے۔ تم اس بدعت سے بچتے رہو، یقیناً وہ گمراہی ہے۔
میں تمہیں ‘حکیم کے گمراہ’ سے ڈراتا ہوں؛ کبھی شیطان دانا آدمی کی زبان سے بھی گمراہی کہلوا دیتا ہے اور کبھی منافق حق بات کہہ دیتا ہے… دانا کے اس کلام سے بچو جس کے بارے میں کہا جائے: ‘یہ کیا ہے؟’… ممکن ہے وہ رجوع کرلے؛ حق روشن اور نورانی ہوتا ہے۔”
📘 سنن ابی داؤد، کتاب السنة، رقم: 4611؛ منهج سلف صالحين، ص 120–121
وضاحت: علم و شہرت والے بھی لغزش کھا سکتے ہیں؛ معیار شخصیت نہیں، سنت اور واضح حق ہے۔
🟢 سیدنا انسؓ
حدیثِ ثلاثہ:
تین آدمیوں نے کثرتِ عبادت (ہمیشہ تہجد، ہمیشہ روزہ، نکاح نہ کرنا) کا ارادہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
"میں تم میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں؛ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں؛ پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔”
📘 صحیح بخاری، کتاب النکاح، رقم: 5063
وضاحت: عبادت میں غلو اور سنت سے ہٹنا بدعت ہے؛ توازن اور اتباعِ سنت ہی دین ہے۔
🟢 سیدنا عبد اللہ بن مغفلؓ
"میں نے صحابہ میں کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کے نزدیک بدعت سے بڑھ کر کوئی چیز ناپسندیدہ ہو۔”
📘 السنن والمبتدعات، ص: 4
وضاحت: صحابہؓ کی نفرتِ بدعت اس کی قباحت پر فیصلہ کن حجت ہے۔
🟢 سیدنا عثمان بن ابی العاصؓ
ختنے کی دعوت پر نہ گئے اور فرمایا:
﴿إنا كنا لا نأتي الختان على عهد رسول الله ﷺ ولا ندعى له .﴾
📘 مسند أحمد: 1/217 — تصحیح: احمد شاکر
"ہم عہدِ رسول ﷺ میں ختنہ کے موقع پر دی گئی دعوت میں نہ جاتے تھے اور نہ دعوت دی جاتی تھی۔”
وضاحت: عبادت یا شعائر میں نئی سماجی رسومات گھڑنا درست نہیں؛ سیرتِ نبوی معیار ہے۔
🟢 سیدنا اُبیّ بن کعبؓ اور ابنِ مسعودؓ کا مشترک قول
﴿الاقتصاد فى السنة خير من الاجتهاد فى البدعة .﴾
📘 السنة للمروزی، رقم: 76، 77
"سنت کے مطابق تھوڑا عمل کرنا بدعت پر چلتے ہوئے زیادہ عمل کرنے سے بہتر ہے۔”
وضاحت: عمل کی قدر مطابقتِ سنت سے ہے، مقدار سے نہیں۔
🟢 جناب عمر بن عبدالعزیزؒ — سنت کو زندہ کرنا، بدعت کو مٹانا
① فرمایا:
"اللہ کی قسم! اگر میں سنت کو بلند نہ کروں اور بدعت کو ختم نہ کروں تو مجھے ایک لمحہ بھی دنیا پر زندہ رہنا اچھا نہیں لگتا۔”
📘 السنة للإمام المروزی، ص: 62، رقم: 92
وضاحت:
امیر المومنین عمر بن عبدالعزیزؒ کے نزدیک زندگی کی سب سے قیمتی خدمت یہی تھی کہ سنت کو زندہ اور بدعت کو ختم کیا جائے۔
② ایک خط میں نصیحت فرمائی:
"میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے دین پر قائم رہ، نبی ﷺ کی سنت کی پیروی کر،
اور ان چیزوں سے بچ جنہیں بعد والوں نے گھڑا۔
یاد رکھ! جب بھی کوئی بدعت آتی ہے، تو اس سے پہلے موجود سنت ختم ہو جاتی ہے۔
سنت وہی ہے جس پر وہ لوگ (صحابہؓ) چلے جو جانتے تھے کہ اس کے مقابل جو چیز ہے وہ گمراہی اور جہالت ہے۔
اپنے نفس کو اس چیز پر راضی کر جس پر صحابہ نے اپنے نفسوں کو راضی کیا۔
اگر ہدایت وہ ہے جس پر تم ہو تو کیا تم ان سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو گئے؟
اور اگر تم کہتے ہو یہ چیزیں ان کے بعد پیش آئیں تو تم نے وہی گھڑ لیا جو ان کے طریقے سے ہٹ کر ہے۔
تحقیق، جنہوں نے ان سے کمی کی وہ ہدایت پر نہ رہے،
اور جنہوں نے ان سے تجاوز کیا وہ غلو میں پڑ گئے۔
ہدایت وہی ہے جس پر وہ تھے، کیونکہ اللہ ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔”
📘 سنن ابوداؤد، كتاب السنة، رقم: 4612؛ منهج سلف صالحين، ص: 511–611
وضاحت:
عمر بن عبدالعزیزؒ نے واضح فرمایا کہ ہر نئی بدعت ایک سنت کو مٹا دیتی ہے،
اور نجات اسی میں ہے کہ انسان وہی راہ اختیار کرے جو صحابہ نے اپنائی۔
🟢 محمد بن سیرینؒ
"جس نے بدعت اختیار کی، وہ پھر سنت کی طرف نہیں لوٹ سکا۔”
📘 سنن الدارمي: 1/41
وضاحت:
بدعت انسان کے دل کو بدل دیتی ہے — پھر وہ حق سنت کی لذت محسوس نہیں کر پاتا۔
🟢 سعید بن جبیرؒ
"میرا بیٹا کسی فاسق چالاک شخص کی صحبت میں رہے جو صاحبِ سنت ہو،
یہ مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ کسی عبادت گزار بدعتی کی صحبت میں رہے۔”
📘 الابانة الصغرى لابن بطه: 133
وضاحت:
بدعتی کی عبادت بھی نقصان دہ ہے کیونکہ وہ سنت سے محروم ہے۔
فاسق اگر سنت پر ہو تو امید ہے کہ توبہ کر لے گا، مگر بدعتی کا رجوع مشکل ہوتا ہے۔
🟢 حسان بن عطیہؒ
﴿ما ابتدع قوم بدعة فى دينهم إلا نزع من سنتهم مثلها .﴾
📘 سنن الدارمي، رقم: 99
"جب بھی کوئی قوم دین میں بدعت ایجاد کرتی ہے، تو ان میں سے اس کے برابر ایک سنت اٹھالی جاتی ہے۔”
وضاحت:
بدعت کا ظہور دراصل سنت کے زوال کی نشانی ہے۔
جتنی بدعتیں بڑھیں گی، اتنی سنتیں ختم ہوں گی۔
🟢 ابو ادریس الخولانیؒ
"اگر میں دیکھوں کہ مسجد میں آگ لگی ہے جسے میں بجھا نہیں سکتا،
تو یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں مسجد میں کوئی بدعت دیکھوں جسے مٹا نہ سکوں۔”
📘 السنة للمروزي، رقم: 88
وضاحت:
بدعت آگ سے زیادہ خطرناک ہے،
کیونکہ آگ صرف دیواریں جلاتی ہے مگر بدعت ایمان کو جلا دیتی ہے۔
🟢 ابو قلابہؒ
"اہلِ بدعت کی صحبت اختیار نہ کرو،
اور نہ ان سے بحث کرو،
کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ تمہیں اپنی گمراہی میں مبتلا کر دیں یا تمہیں شک و شبہ میں ڈال دیں۔”
📘 سنن دارمی، المقدّمہ، باب اجتناب أهل الأهواء
اور فرمایا:
"بے شک بدعتی لوگ گمراہ ہیں،
اور میرا خیال ہے کہ وہ دوزخ میں جائیں گے۔”
📘 سنن الدارمي، رقم: 101
وضاحت:
بدعتیوں کے ساتھ میل جول انسان کے ایمان پر اثر انداز ہوتا ہے،
اسی لیے سلفِ صالحین نے ان سے دور رہنے کی تاکید کی۔
ائمہ کرام اور اہلِ علم نے بدعت کی شدید مذمت فرمائی ہے۔
ذیل کے اقوال و فتاویٰ اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ
دینِ اسلام میں بدعت کا کوئی مقام نہیں۔
🟢 امام مالک بن انسؒ — دین مکمل ہو چکا، بدعت کی کوئی گنجائش نہیں
❀ امام شاطبیؒ نقل کرتے ہیں کہ امام مالکؒ نے فرمایا:
"جو شخص اسلام میں کوئی بدعت متعارف کراتا ہے
اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے،
تو گویا اس کا عقیدہ یہ ہے کہ
محمد ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت کی (نعوذباللہ)۔”
اور پھر فرمایا کہ اگر دلیل چاہو تو اللہ تعالیٰ کا فرمان پڑھو:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
📖 (المائدة : 3)
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا،
اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی،
اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کیا۔”
📘 الاعتصام للشاطبي: 2/35
وضاحت:
امام مالکؒ نے واضح کیا کہ دین مکمل ہو چکا ہے؛
اس میں نئی بات لانا گویا رسول ﷺ کے کام پر اعتراض ہے۔
❀ مزید فرمایا:
"امت کے آخری لوگوں کی اصلاح
اسی طریقے سے ہو سکتی ہے
جس طریقے سے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔
جو چیز اُس وقت دین نہ تھی،
وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔”
📘 الشفا للقاضي عياض : 2/676
وضاحت:
امام مالکؒ نے "سنتِ سلف” کو ہی اصلاح کا واحد راستہ قرار دیا —
بدعت کے ذریعے دین سنوارنے کی ہر کوشش گمراہی ہے۔
🟢 امام شافعیؒ — اہلِ بدعت کے خلاف سخت تنبیہ
❀ امام شافعیؒ نے فرمایا:
"اہلِ کلام کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے
کہ کھجور کی شاخوں سے ان کی پٹائی کی جائے،
پھر انہیں اونٹ پر بٹھا کر بستیوں میں گھمایا جائے
اور اعلان کیا جائے:
دیکھو! یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کتاب اللہ
اور سنتِ رسول ﷺ کو چھوڑ کر علمِ کلام اختیار کیا۔”
📘 حلية الأولياء: 9/116
وضاحت:
امام شافعیؒ نے اہلِ کلام کو گمراہی کا سبب قرار دیا،
کیونکہ وہ عقل سے دین گھڑنے کی راہ کھولتے تھے۔
❀ ایک اور موقع پر فرمایا:
"امام لیث نے نرمی سے کام لیا،
میں اگر اہلِ بدعت کو ہوا میں اڑتے دیکھوں
تب بھی انہیں سچا نہ مانوں گا۔”
📘 تلبیس ابلیس لابن الجوزی، ص: 14؛
شرح اصول اعتقاد أهل السنة للالكائي: 1/145
وضاحت:
بدعتی چاہے کرامت دکھائے یا بلند مقام پر نظر آئے،
اس کی بات کبھی قابلِ اعتبار نہیں —
کیونکہ حق کرامت سے نہیں، سنت سے پہچانا جاتا ہے۔
🟢 امام احمد بن حنبلؒ — اہلِ سنت کا منشور
امام اہلِ سنت ابو عبداللہ احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک سنت کے اصول یہ ہیں:
① جس چیز پر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرامؓ تھے،
اسے مضبوطی سے تھامنا۔
② ان کی اقتداء کرنا۔
③ بدعات کو ترک کر دینا۔
④ یقین رکھنا کہ "ہر بدعت گمراہی ہے”۔
⑤ اہلِ بدعت سے بحث و مباحثہ چھوڑ دینا۔
⑥ بدعتیوں کی مجلسوں سے اجتناب کرنا۔
⑦ دین میں جھگڑوں اور بےجا مناظروں کو ترک کرنا۔
⑧ سنت دراصل رسول ﷺ کے آثار و افعال ہیں۔
⑨ سنت قرآن کی تفسیر ہے
اور قرآن کی شرح اسی سے ہوتی ہے۔
⑩ سنت میں قیاس نہیں ہوتا،
اور نہ اسے عقل یا خواہشات سے پرکھا جا سکتا ہے۔
⑪ جو ان لازمی سنتوں میں سے کسی کو رد کرے
یا اس پر ایمان نہ رکھے
وہ اہلِ سنت میں سے نہیں۔
📘 أصول السنة للإمام أحمد بن حنبل
وضاحت:
امام احمدؒ نے بدعت کے مقابل سنت کا مکمل منشور بیان کیا:
سنت ہی ایمان کی بنیاد ہے، اور بدعت اس کی ضد۔
🟢 امام ابو محمد حسن بن علی البربہاریؒ
❀ فرمایا:
﴿وهم أهل السنة والجماعة ، فمن لم يأخذ عنهم فقد ضل وابتدع ، وكل بدعة ضلالة ، والضلالة وأهلها فى النار .﴾
📘 منهج سلف صالحين، ص: 66
"اہلِ سنت والجماعت ہی حق پر ہیں،
جو ان سے دین نہیں لیتا وہ گمراہ ہوا اور بدعت گھڑ لی۔
ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اور گمراہ دونوں جہنم میں ہیں۔”
وضاحت:
امام بربہاریؒ نے صاف اعلان کیا کہ نجات صرف اہلِ سنت والجماعت کے راستے میں ہے،
اس سے ہٹنے والا خواہ نیک نظر آئے، حقیقت میں گمراہ ہے۔
❀ مزید فرمایا:
﴿واحذر صغار المحدثات من الأمور، فإن صغير البدع يعود حتى يصير كبيرا .﴾
📘 منهج سلف صالحين، ص: 112
"چھوٹی چھوٹی بدعتوں سے بھی بچو،
کیونکہ یہی چھوٹی بدعتیں بڑھتے بڑھتے بڑی ہو جاتی ہیں۔”
وضاحت:
بدعت کبھی اچانک نہیں پھیلتی؛ وہ چھوٹی رسم یا عادت سے شروع ہوتی ہے،
پھر وقت کے ساتھ دین کا حصہ بن جاتی ہے — اس لیے ابتدا ہی سے احتیاط ضروری ہے۔
🟢 حافظ ابن کثیرؒ
"اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ہر وہ قول اور عمل بدعت ہے جس کا ثبوت صحابہ سے نہیں۔
اگر اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو صحابہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے،
کیونکہ وہ خیر کے تمام پہلوؤں میں سبقت لینے والے تھے۔”
📘 تفسير ابن كثير: 4/56
وضاحت:
اگر کوئی نیک کام واقعی خیر ہوتا تو صحابہ اسے ضرور کرتے —
لہٰذا جو چیز انہوں نے نہ اپنائی، وہ "نیکی” نہیں بلکہ "بدعت” ہے۔
🟢 شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
﴿فعلامة لأهل البدعة الوقيعة فى أهل الأثر .﴾
📘 غنية الطالبين، ص: 175
"بدعتیوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہلِ حدیث (اہلِ اثر) کو گالیاں دیتے ہیں۔”
وضاحت:
بدعتی ہمیشہ ان لوگوں سے نفرت کرتے ہیں
جو سنت اور حدیث کو مضبوطی سے تھامے ہوتے ہیں،
کیونکہ یہی لوگ ان کے باطل نظریات کے دشمن ہوتے ہیں۔
🟢 شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ
"اہلِ بدعت کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ پر بھروسہ نہیں کرتے،
بلکہ ان کا اعتماد عقل، لغت اور کلامی فلسفے پر ہوتا ہے۔
وہ تفسیر بالماثور سے منہ موڑتے ہیں،
اور فلسفہ و کلام کی کتابوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہی طریقہ دراصل ملحدوں کا ہے جو قرآن و سنت سے روگردانی کرتے ہیں،
بلکہ ان کے نزدیک نصوص انبیاءؑ علم کا فائدہ نہیں دیتیں۔”
📘 منهج سلف صالحين، ص: 138
وضاحت:
ابن تیمیہؒ نے واضح فرمایا کہ بدعتی ہمیشہ عقل و فلسفہ کے پیچھے بھاگتے ہیں
اور وحی سے اعراض کرتے ہیں — یہی الحاد کی جڑ ہے۔
🟢 علامہ ابن قیمؒ
"شیطان کا ایک مکر یہ ہے کہ اس نے لوگوں کو
مذہبی لباس، مخصوص انداز، ایک شیخ یا مخصوص سلسلے کی پابندی میں ایسا باندھ دیا
کہ وہ اسے دینی فریضہ سمجھنے لگے۔
جو اس دائرے سے نکلتا ہے اسے خارج از دین قرار دیتے ہیں۔
صوفیہ اور بعض مقلدین نے بھی یہی حال بنا رکھا ہے،
کہ اپنے طریقے کو آسمانی حکم اور دوسروں کو گمراہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے شریعت و طریقت کے نام پر بہت سی موہوم رسومات کو دین بنا لیا ہے
جن کا کتاب و سنت سے کوئی تعلق نہیں۔
جو شخص رسول ﷺ کے طریقے کو ڈھونڈے،
تو اسے واضح فرق ملے گا کہ سنتِ رسول ﷺ اور اہلِ بدعت کی رسومات میں
زمین و آسمان، رات و دن کا فرق ہے۔”
📘 اغاثة اللهفان، ص: 561
وضاحت:
ابن قیمؒ نے بدعت کے خفیہ روپ کو بے نقاب کیا —
دینی نام پر پیدا ہونے والی نئی رسمیں حقیقت میں دین نہیں،
بلکہ شیطانی جال ہیں جو امت کو فرقوں میں بانٹ دیتے ہیں۔
🟢 امام شاطبیؒ
"یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہے
کہ نبی کریم ﷺ نے وفات سے قبل دین و دنیا کے تمام امور واضح فرما دیے۔
اہلِ سنت کا اس پر اجماع ہے۔
پس جو یہ گمان کرے کہ شریعت میں ابھی کچھ باقی ہے
جسے بعد والے پورا کر سکتے ہیں،
تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ شریعت ناقص تھی۔
اگر یہ لوگ واقعی مانتے کہ شریعت مکمل ہے،
تو بدعتیں ایجاد نہ کرتے۔
جو ایسا عقیدہ رکھتا ہے وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک چکا ہے۔”
📘 منهج سلف صالحين، ص: 87
وضاحت:
بدعت کا عقیدہ دراصل شریعت کی تکمیل کا انکار ہے،
اور ایسا عقیدہ رکھنے والا اللہ کی تکمیلِ دین کی آیت کو جھٹلاتا ہے۔
🟢 امام ابو محمد حسن بن علی البربہاریؒ
❀ فرمایا:
﴿وهم أهل السنة والجماعة ، فمن لم يأخذ عنهم فقد ضل وابتدع ، وكل بدعة ضلالة ، والضلالة وأهلها فى النار .﴾
📘 منهج سلف صالحين، ص: 66
"اہلِ سنت والجماعت ہی حق پر ہیں،
جو ان سے دین نہیں لیتا وہ گمراہ ہوا اور بدعت گھڑ لی۔
ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اور گمراہ دونوں جہنم میں ہیں۔”
وضاحت:
امام بربہاریؒ نے صاف اعلان کیا کہ نجات صرف اہلِ سنت والجماعت کے راستے میں ہے،
اس سے ہٹنے والا خواہ نیک نظر آئے، حقیقت میں گمراہ ہے۔
❀ مزید فرمایا:
﴿واحذر صغار المحدثات من الأمور، فإن صغير البدع يعود حتى يصير كبيرا .﴾
📘 منهج سلف صالحين، ص: 112
"چھوٹی چھوٹی بدعتوں سے بھی بچو،
کیونکہ یہی چھوٹی بدعتیں بڑھتے بڑھتے بڑی ہو جاتی ہیں۔”
وضاحت:
بدعت کبھی اچانک نہیں پھیلتی؛ وہ چھوٹی رسم یا عادت سے شروع ہوتی ہے،
پھر وقت کے ساتھ دین کا حصہ بن جاتی ہے — اس لیے ابتدا ہی سے احتیاط ضروری ہے۔
🟢 حافظ ابن کثیرؒ
"اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ہر وہ قول اور عمل بدعت ہے جس کا ثبوت صحابہ سے نہیں۔
اگر اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو صحابہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے،
کیونکہ وہ خیر کے تمام پہلوؤں میں سبقت لینے والے تھے۔”
📘 تفسير ابن كثير: 4/56
وضاحت:
اگر کوئی نیک کام واقعی خیر ہوتا تو صحابہ اسے ضرور کرتے —
لہٰذا جو چیز انہوں نے نہ اپنائی، وہ "نیکی” نہیں بلکہ "بدعت” ہے۔
🟢 شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
﴿فعلامة لأهل البدعة الوقيعة فى أهل الأثر .﴾
📘 غنية الطالبين، ص: 175
"بدعتیوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہلِ حدیث (اہلِ اثر) کو گالیاں دیتے ہیں۔”
وضاحت:
بدعتی ہمیشہ ان لوگوں سے نفرت کرتے ہیں
جو سنت اور حدیث کو مضبوطی سے تھامے ہوتے ہیں،
کیونکہ یہی لوگ ان کے باطل نظریات کے دشمن ہوتے ہیں۔
🟢 شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ
"اہلِ بدعت کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ پر بھروسہ نہیں کرتے،
بلکہ ان کا اعتماد عقل، لغت اور کلامی فلسفے پر ہوتا ہے۔
وہ تفسیر بالماثور سے منہ موڑتے ہیں،
اور فلسفہ و کلام کی کتابوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہی طریقہ دراصل ملحدوں کا ہے جو قرآن و سنت سے روگردانی کرتے ہیں،
بلکہ ان کے نزدیک نصوص انبیاءؑ علم کا فائدہ نہیں دیتیں۔”
📘 منهج سلف صالحين، ص: 138
وضاحت:
ابن تیمیہؒ نے واضح فرمایا کہ بدعتی ہمیشہ عقل و فلسفہ کے پیچھے بھاگتے ہیں
اور وحی سے اعراض کرتے ہیں — یہی الحاد کی جڑ ہے۔
🟢 علامہ ابن قیمؒ
"شیطان کا ایک مکر یہ ہے کہ اس نے لوگوں کو
مذہبی لباس، مخصوص انداز، ایک شیخ یا مخصوص سلسلے کی پابندی میں ایسا باندھ دیا
کہ وہ اسے دینی فریضہ سمجھنے لگے۔
جو اس دائرے سے نکلتا ہے اسے خارج از دین قرار دیتے ہیں۔
صوفیہ اور بعض مقلدین نے بھی یہی حال بنا رکھا ہے،
کہ اپنے طریقے کو آسمانی حکم اور دوسروں کو گمراہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے شریعت و طریقت کے نام پر بہت سی موہوم رسومات کو دین بنا لیا ہے
جن کا کتاب و سنت سے کوئی تعلق نہیں۔
جو شخص رسول ﷺ کے طریقے کو ڈھونڈے،
تو اسے واضح فرق ملے گا کہ سنتِ رسول ﷺ اور اہلِ بدعت کی رسومات میں
زمین و آسمان، رات و دن کا فرق ہے۔”
📘 اغاثة اللهفان، ص: 561
وضاحت:
ابن قیمؒ نے بدعت کے خفیہ روپ کو بے نقاب کیا —
دینی نام پر پیدا ہونے والی نئی رسمیں حقیقت میں دین نہیں،
بلکہ شیطانی جال ہیں جو امت کو فرقوں میں بانٹ دیتے ہیں۔
🟢 امام شاطبیؒ
"یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہے
کہ نبی کریم ﷺ نے وفات سے قبل دین و دنیا کے تمام امور واضح فرما دیے۔
اہلِ سنت کا اس پر اجماع ہے۔
پس جو یہ گمان کرے کہ شریعت میں ابھی کچھ باقی ہے
جسے بعد والے پورا کر سکتے ہیں،
تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ شریعت ناقص تھی۔
اگر یہ لوگ واقعی مانتے کہ شریعت مکمل ہے،
تو بدعتیں ایجاد نہ کرتے۔
جو ایسا عقیدہ رکھتا ہے وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک چکا ہے۔”
📘 منهج سلف صالحين، ص: 87
وضاحت:
بدعت کا عقیدہ دراصل شریعت کی تکمیل کا انکار ہے،
اور ایسا عقیدہ رکھنے والا اللہ کی تکمیلِ دین کی آیت کو جھٹلاتا ہے۔
🌿 بدعت کی تقسیم — ایک خطرناک شبہہ 🌿
آج کے دور میں بہت سے باطل کے داعی عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے
اپنے باطل نظریات کو حق کے لبادے میں پیش کرتے ہیں۔
یہ لوگ چند چکنی چپڑی باتوں اور گھڑے ہوئے شبہات کے ذریعے
لوگوں کے دلوں میں بدعت کی محبت اور سنت سے بیزاری پیدا کرتے ہیں۔
انہی خطرناک شبہات میں سے ایک "بدعت کی تقسیم” کا شبہ ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں 👇
"بدعت دو قسم کی ہے:
🔹 بدعة حسنة (اچھی بدعت)
🔹 بدعة سيئة (بری بدعت)”
پھر یہ حضرات بعض نصوص و دلائل پیش کرتے ہیں
جو بظاہر ان کے مؤقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں،
لیکن حقیقت میں وہ دلائل ان کے مدعا کے لیے درست نہیں ہوتے۔
📚 اب ان شاء اللہ ہم
اہلِ بدعت کے ان تمام شبہات کا ایک ایک کر کے تحقیقی جائزہ لیں گے
جنہیں وہ بدعت کے جواز کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں —
تاکہ واضح ہو جائے کہ حق صرف سنت میں ہے،
اور بدعت چاہے جس نام سے پکاری جائے، وہ گمراہی ہی ہے۔
🌿 حضرت عمرؓ کا فرمان: "نعمت البدعة هذه” — حقیقت یا مغالطہ؟ 🌿
اہلِ بدعت کا ایک مشہور استدلال سیدنا عمر بن خطابؓ کے اس قول سے لیا جاتا ہے:
"نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ”
"یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔”
ان کے نزدیک یہ جملہ "بدعتِ حسنہ” کے جواز کی صریح دلیل ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ استدلال علمی لحاظ سے نہایت کمزور ہے
اور قرآن، سنت اور فہمِ سلف کی روشنی میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔
🕋 تراویح بدعت نہیں، بلکہ سنت ہے
سیدنا عمرؓ نے یہ الفاظ اس وقت کہے
جب انہوں نے رمضان المبارک میں لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح میں جمع کیا۔
حالانکہ تراویح کوئی نئی ایجاد نہیں تھی —
بلکہ یہ سنتِ نبویؐ ہے۔
نبی کریم ﷺ نے رمضان کی ابتدائی راتوں میں
خود باجماعت تراویح پڑھائی تھی۔
📖 رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
«من قام مع الإمام حتى ينصرف كُتب له قيام ليلة»
📚 سنن الترمذي، كتاب الصوم، حديث: 806 — وصححه الألباني
📌 ترجمہ:
"جو شخص امام کے ساتھ تراویح پڑھے یہاں تک کہ امام سلام پھیر دے،
تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔”
اسی بنیاد پر امام احمد بن حنبلؒ (📘 مسائل الإمام أحمد رواية عبد الله: 1/422)
اور دیگر ائمہ نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کو افضل قرار دیا۔
🌙 سیدنا عمرؓ کا اقدام
روایت میں سیدنا عبدالرحمن بن عبدالقاریؓ فرماتے ہیں:
"میں ایک رات عمر بن خطابؓ کے ساتھ نکلا تو لوگ مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے۔
عمرؓ نے فرمایا: اگر میں ان سب کو ایک قاری پر جمع کر دوں تو بہتر ہوگا۔
پھر انہیں ابی بن کعبؓ پر جمع کر دیا۔”
📚 صحيح البخاري، كتاب صلاة التراويح، حديث: 2010؛ الموطأ لمالك: 1/114
اسی موقع پر سیدنا عمرؓ نے فرمایا:
"نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ”
"یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔”
✅ درحقیقت یہ "بدعتِ شرعی” نہیں بلکہ "بدعتِ لغوی” تھی
چونکہ باجماعت تراویح کا عمل خود نبی ﷺ سے صریح طور پر ثابت ہے،
لہٰذا سیدنا عمرؓ کا لفظ "بدعت” لغوی معنی میں تھا، شرعی معنی میں نہیں۔
یعنی:
انہوں نے کوئی نیا دین ایجاد نہیں کیا،
بلکہ سنتِ نبوی ﷺ کو دوبارہ زندہ کیا۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ عمل اگرچہ کچھ عرصہ ترک رہا،
اب اس کا احیاء (دوبارہ جاری کرنا) ایک اچھی "نئی بات” ہے —
یعنی لغوی معنی میں بدعت۔
📚 لغوی اور اصطلاحی فرق — سمجھنے کی بنیاد
قرآن و سنت میں بعض الفاظ لغوی (اصل زبان کے معنی) میں
اور بعض اصطلاحی (شرعی مفہوم) میں استعمال ہوتے ہیں۔
کسی آیت یا حدیث کے صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے
یہ فرق سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
➊ حدیث کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
🔹 لغوی معنی:
بات یا گفتگو۔
🔹 شرعی معنی:
نبی ﷺ کا قول، عمل یا تقریر۔
📌 نتیجہ:
لغوی اعتبار سے ہر بات "حدیث” کہی جا سکتی ہے،
لیکن شرعی اعتبار سے صرف وہ بات "حدیث” ہے
جو نبی ﷺ سے منسوب ہو۔
➋ بدعت کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
🔹 لغوی معنی:
نئی چیز، یا کسی مثال کے بغیر پیدا کی گئی چیز۔
جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾
"وہ (اللہ) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔”
لہٰذا لغوی اعتبار سے ہر نئی چیز —
جیسے ہوائی جہاز، موبائل، اسپیکر وغیرہ —
"بدعت” کہلا سکتی ہے کیونکہ وہ پہلے موجود نہیں تھیں۔
🔹 شرعی یا اصطلاحی معنی:
شریعت میں "بدعت” سے مراد وہ نیا دینی عمل ہے
"جو دین میں ایجاد کیا گیا ہو،
جس کی کوئی بنیاد کتاب و سنت میں نہ ہو،
اور جو نبی ﷺ، صحابہؓ اور تابعینؒ کے زمانے میں موجود نہ تھا۔”
یعنی ایسا کام جو عبادت یا ثواب کے ارادے سے دین میں شامل کیا جائے
حالانکہ اس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو۔
🕊 نبی ﷺ کا فرمان:
((خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَہُمْ))
📚 بخاری و مسلم
"سب سے بہترین زمانہ میرا ہے،
پھر اس کے بعد والا،
پھر اس کے بعد والا۔”
📍 ان تین خیرالقرون ادوار میں نہ اجتماعی قرآن خوانی تھی،
نہ مزار و قبروں پر چراغاں،
نہ ایصالِ ثواب کی محفلیں —
یہ سب بعد میں پیدا شدہ کام ہیں۔
لہٰذا ان اعمال کو لغوی نہیں بلکہ شرعی بدعتیں کہا جائے گا،
کیونکہ یہ دین میں نئی ایجادات ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں۔
⚖ نتیجہ اور خلاصہ
اہلِ بدعت کا یہ استدلال کہ
سیدنا عمرؓ کے قول سے "بدعتِ حسنہ” ثابت ہوتی ہے —
درحقیقت ایک مغالطہ ہے۔
1️⃣ نبی ﷺ کا فرمان "كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”
ہر بدعت پر حاکم اور فیصلہ کن ہے۔
2️⃣ تراویح بدعت نہیں، بلکہ سنت ہے؛
حضرت عمرؓ نے صرف اس کے اجتماعی احیاء کو "بدعت” کہا۔
3️⃣ حضرت عمرؓ کا لفظ "بدعت” یہاں لغوی معنوں میں ہے،
شرعی معنوں میں نہیں۔
📖 دین مکمل ہو چکا ہے:
﴿ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡكُمۡ نِعۡمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِینࣰا﴾
📚 (سورة المائدة: 3)
📌 ترجمہ:
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا،
تم پر اپنی نعمت پوری کر دی،
اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔”
💡 خلاصۂ کلام:
"نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ” کا تعلق لغوی بدعت سے ہے، نہ کہ دینی بدعت سے۔
تراویح سنتِ رسول ﷺ کی تجدید ہے، نئی بدعت نہیں۔
بدعت کو "حسنہ” اور "سیئہ” میں تقسیم کرنا
شریعت کے نصوص کے خلاف اور فہمِ سلف سے متصادم ہے۔
🌿 بدعتی حضرات کی بدعات کے جواز میں دوسری دلیل: حدیث "جس نے اسلام میں اچھی سنت جاری کی” 🌿
📖 حدیث:
"جس نے اسلام میں کوئی اچھی سنت جاری کی تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور ان لوگوں کا بھی اجر ہے جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے۔
اور جس نے اسلام میں کوئی بُری سنت جاری کی تو اس پر اس کا گناہ ہے اور ان سب کا گناہ ہے جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے۔”
📚 صحیح مسلم، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، حدیث: 1017
🧩 اہلِ بدعت کا استدلال:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں نئی چیز (بدعتِ حسنہ) ایجاد کرنا درست ہے کیونکہ نبی ﷺ نے "سنتِ حسنہ” کی تعریف فرمائی ہے۔
🕊 اس شبہہ کا ازالہ
بدعتی حضرات کبھی بھی اس حدیث کا مکمل متن پیش نہیں کرتے، کیوں کہ اگر پوری حدیث اور اس کا پس منظر سامنے آ جائے تو مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ نبی ﷺ نے "اچھی سنت” دراصل کس چیز کو کہا ہے۔
📜 حدیث کا مکمل متن اور پس منظر
حضرت جریر بن عبد اللہ البجلیؓ روایت کرتے ہیں:
جَاءَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلَيْهِمُ الصُّوفُ، فَرَأَى سُوءَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ، فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَأَبْطَئُوا عَنْهُ، حَتَّى رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، ثُمَّ تَتَابَعُوا، حَتَّى عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ.
📚 صحیح مسلم، حدیث: 1017
📘 ترجمہ:
"کچھ دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،
انہوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے اور فقر و محتاجی کی بدترین حالت میں تھے۔
آپ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی مگر وہ کچھ سست ہوگئے
یہاں تک کہ آپ کے چہرہ مبارک پر ناگواری ظاہر ہونے لگی۔
پھر ایک انصاری ایک تھیلی چاندی (درہم) کی لے آیا،
اس کے بعد دوسرا آیا، پھر ایک کے بعد ایک آنے لگے،
یہاں تک کہ آپ ﷺ کے چہرے پر خوشی ظاہر ہونے لگی۔
تب آپ ﷺ نے فرمایا:
‘جس نے اسلام میں کوئی اچھی سنت جاری کی اور لوگ اس پر عمل کرنے لگے،
تو اس کے لیے ان سب کا اجر ہوگا، اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
اور جس نے اسلام میں کوئی بری سنت جاری کی اور لوگ اس پر عمل کرنے لگے،
تو اس پر ان سب کا گناہ ہوگا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔’”
➊ موقع و محل کی وضاحت
یہ دعویٰ کہ اس حدیث سے بدعتِ حسنہ کا جواز ثابت ہوتا ہے،
درحقیقت فہم میں خطا ہے کیونکہ بدعتی حضرات نے حدیث کو اس کے اصل موقع و محل سے کاٹ کر پیش کیا ہے۔
اصل واقعہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فقیر صحابہ کی حالت دیکھی تو لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔
ایک انصاری صحابی نے سب سے پہلے صدقہ پیش کیا،
پھر دوسرے صحابہ نے ان کی پیروی کی۔
یہاں کسی نے "نئی بدعت” ایجاد نہیں کی،
بلکہ ایک مشروع عمل (صدقہ) کو زندہ کیا جو پہلے سے قرآن و سنت میں موجود تھا۔
اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً”
نہ کہ
"مَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةً حَسَنَةً”
🔹 "سنت” وہ ہے جو کتاب و سنت اور دلیل کے موافق ہو۔
🔹 "بدعت” وہ ہے جو کتاب و سنت سے ٹکرائے اور شریعت میں نئی چیز ہو۔
➋ بدعت کو حسنہ کہنا نصوص کے خلاف ہے
نبی ﷺ نے فرمایا:
((كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ))
📚 صحیح مسلم
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
اگر بدعتِ حسنہ درست ہو تو لازم آئے گا کہ "ہر سنت گمراہی ہے” —
یہ صریح تناقض اور نصوص کے خلاف بات ہے۔
➌ سنت کے خلاف جانے کا انجام
نبی ﷺ نے فرمایا:
((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))
📚 بخاری و مسلم
"جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ
دین میں کسی نئی سنت یا بدعت کی کوئی گنجائش نہیں،
بلکہ مقصد یہ ہے کہ نبی ﷺ کی سنت کو زندہ کیا جائے،
نہ کہ دین میں نئی راہیں نکالی جائیں۔
⚖ خلاصہ و نتیجہ
حدیث "مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً”
کا تعلق نیکی کے عمل کے احیاء سے ہے،
بدعت کے ایجاد سے نہیں۔
"سنت” وہ ہے جو نصوصِ شریعت کے موافق ہو۔
"بدعت” وہ ہے جو دین میں نئی اور خلافِ دلیل چیز ہو۔
نبی ﷺ کا فرمان "كل بدعة ضلالة”
بدعتِ حسنہ کے تصور کو جڑ سے کاٹ دیتا ہے۔
"سنتِ حسنہ” سے مراد بھولی ہوئی نیکی کو زندہ کرنا ہے،
نہ کہ نئی بدعت گھڑنا۔
🌿 بدعتِ حسنہ کی تیسری دلیل:
📖 “جو بات مسلمانوں کے نزدیک اچھی ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے…”
📜 اہلِ بدعت کا استدلال
اہلِ بدعت کا ایک اور مشہور استدلال
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے منقول قول پر ہے:
"ما رآه المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن، وما رآه المسلمون قبيحًا فهو عند الله قبيح.”
"جو بات مسلمانوں کے نزدیک اچھی ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے،
اور جو مسلمانوں کے نزدیک بری ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔”
📚 روایت احمد وغیرہ
بدعتی حضرات کہتے ہیں:
اگر مسلمان کسی چیز کو اچھا سمجھ لیں تو وہ دین میں قابلِ قبول ہے،
چاہے اس کی کوئی اصل کتاب و سنت میں موجود نہ ہو۔
⚖ ➊ یہ اثر مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے
یہ قول نبی کریم ﷺ سے صحیح ثابت نہیں،
بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا موقوف اثر ہے۔
لہٰذا اسے حدیثِ نبوی ﷺ کہہ کر بدعت کے جواز کی دلیل بنانا درست نہیں۔
📚 شیخ البانیؒ فرماتے ہیں:
"إن من عجائب الدنيا أن يحتج بعض الناس بهذا الحديث على أن في الدين بدعةً حسنةً،
وأن الدليل على حسنها اعتياد المسلمين لها!!
… وخفي عليهم أن هذا الحديث موقوف – أي على الصحابي –
فلا يجوز أن يحتج به في معارضة النصوص المرفوعة القاطعة
في أن كل بدعةٍ ضلالة.”
📘 السلسلة الضعيفة، رقم: 533
📗 ترجمہ:
"یہ دنیا کے عجائبات میں سے ہے کہ بعض لوگ اس اثر کو دین میں بدعتِ حسنہ کی دلیل بناتے ہیں،
حالانکہ یہ موقوف ہے (یعنی نبی ﷺ کا نہیں بلکہ صحابی کا قول ہے)۔
لہٰذا اسے نبی ﷺ کی اُن واضح احادیث کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا
جن میں یہ صراحت ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔”
📚 ➋ معنی کے اعتبار سے بھی استدلال باطل ہے
اگر کوئی اس اثر کو حجت مان بھی لے تو بھی اس سے بدعتِ حسنہ پر دلیل لینا غلط ہے۔
(الف)
یہ اثر اس حدیث کے خلاف ہوگا جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:
"ستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلها في النار إلا واحدة.”
📚 ترمذی، حدیث: 2641
"میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں ہوں گے سوائے ایک کے۔”
اگر واقعی ہر وہ چیز جو مسلمانوں کو اچھی لگے اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہو،
تو پھر امت کے فرقوں میں بٹنے کا مفہوم ہی باطل ہو جائے گا۔
(ب)
اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جو چیز کچھ لوگوں کے نزدیک اچھی ہو وہ عبادت کے طور پر قبول ہو جائے،
اور جو کسی کے نزدیک بری ہو وہ مردود ہو —
حالانکہ یہ سوچ نصوصِ شریعت کے سراسر خلاف ہے۔
📘 صحیح بات یہ ہے کہ یہ اثر اُن معاملات میں معتبر ہے
جہاں قرآن و سنت کی کوئی نص موجود نہ ہو اور صحابہ کا اجماع قائم ہو۔
🕋 ➌ اثر کا اصل مفہوم: اجماعِ صحابہ
اس قول کا پس منظر بتاتا ہے کہ
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ بات خلافتِ صدیق اکبرؓ کے موقع پر کہی تھی۔
ان کا مکمل قول یوں ہے:
"إن الله نظر في قلوب العباد، فوجد قلب محمد صلى الله عليه وسلم خير قلوب العباد فابتعثه برسالته،
ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد، فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد،
فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه،
فما رآه المسلمون حسنًا فهو عند الله حسن،
وما رآه المسلمون سيئًا فهو عند الله سيئ.”
📚 المستدرک للحاکم، 3/78
اور ایک روایت میں ہے:
"وقد رأى الصحابة جميعاً أن يستخلفوا أبا بكر.”
📘 ترجمہ:
"اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا،
سب سے بہتر دل محمد ﷺ کا پایا، انہیں اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا۔
پھر ان کے بعد سب سے بہتر دل صحابہ کے پائے،
اور انہیں آپ کے مددگار بنایا۔
چنانچہ جو بات مسلمانوں (یعنی صحابہ) کے نزدیک اچھی ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے،
اور جو ان کے نزدیک بری ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔
اور صحابہ نے سب نے اتفاق کیا کہ ابوبکر کو خلیفہ بنایا جائے۔”
📍 یہاں "المسلمون” سے مراد تمام مسلمان نہیں،
بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔
🧭 ➍ اہلِ علم یا معتبر عرف کی مراد
اگر بالفرض اس اثر کو عام مسلمانوں پر بھی محمول کر لیا جائے
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ
جن معاملات میں شریعت نے کوئی واضح حکم نہیں دیا،
ان میں عرفِ عام (معاشرتی روایت) کو معیار بنایا جائے۔
جیسے فقہاء کا اصول ہے:
"العرف محكم”
"عرف کو شرعی اعتبار حاصل ہے۔”
لیکن یہ قاعدہ صرف دنیاوی معاملات میں ہے،
عبادات اور دین میں نہیں۔
🕯 ➎ ابن مسعودؓ خود بدعت کے سخت مخالف تھے
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے خود فرمایا:
"اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم، عليكم بالأمر العتيق.”
📚 الإبانة الكبرى لابن بطة (174)؛ الإسناد صحيح
"اتباع کرو، بدعت مت ایجاد کرو،
تمہارے لیے وہی کافی ہے،
تم پر لازم ہے کہ قدیم راستہ (سنت) کو لازم پکڑو۔”
پس جس صحابی نے خود بدعت سے سختی سے روکا،
اس کے قول کو بدعتِ حسنہ کے جواز پر دلیل بنانا صریح تحریف ہے۔
⚖ خلاصہ و نتیجہ
"ما رآه المسلمون حسنًا…”
نبی ﷺ کا فرمان نہیں، بلکہ حضرت ابن مسعودؓ کا موقوف اثر ہے۔
اس کا تعلق اجماعِ صحابہ سے ہے،
نہ کہ ہر زمانے کے مسلمانوں کی رائے سے۔
اس سے دین یا عبادات میں نئی بدعت کے جواز پر استدلال درست نہیں۔
ابن مسعودؓ خود بدعت سے سختی سے منع کرتے تھے،
لہٰذا ان کا یہ قول بدعت کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔
🌿 بدعتِ حسنہ کے جواز میں پیش کردہ چوتھی دلیل: "جس نے ہمارے دین میں نئی چیز ایجاد کی” 🌿
اہلِ بدعت عوام کو دھوکہ دینے کے لیے یہ استدلال کرتے ہیں کہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، وہ مردود ہے۔”
(صحیح بخاری، حدیث 2697)
یہ حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حدیث "ہر بدعت گمراہی ہے” کی تخصیص ہے۔
یعنی اگر نبی ﷺ فرماتے:
"جو کوئی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے، وہ مردود ہے”
تو یہ عموم ہوتا،
مگر چونکہ آپ ﷺ نے فرمایا "جو ایسی چیز ایجاد کرے جو دین میں سے نہیں”
لہٰذا ان کے نزدیک دین میں نئی چیزیں دو قسم کی ہیں:
1️⃣ جو دین کے خلاف ہو → وہ مردود اور "بدعتِ ضلالہ”۔
2️⃣ جو دین کے مطابق ہو → وہ "بدعتِ حسنہ” یعنی اچھی بدعت۔
⚖ اہلِ سنت کا جواب و وضاحت
اہلِ سنت والجماعت کے اصول کے مطابق
احادیث کی ایک روایت دوسری کی شرح و وضاحت ہوتی ہے،
نہ کہ اس کی تخصیص یا مخالفت۔
یہی قاعدہ اس شبہے کو باطل قرار دیتا ہے۔
🔹 ➊ حدیث کی دوسری روایت (صحیح مسلم 1718)
النص:
«من عمل عملاً ليس عليه أمرنا؛ فهو رد»
📘 صحیح مسلم، حدیث: 1718
ترجمہ:
"جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا طریقہ (امر) نہ ہو، وہ مردود ہے۔”
📍 نکات:
یہ روایت وضاحت کرتی ہے کہ ہر وہ عمل جو نبی ﷺ کے دین، طریقے یا منہج پر نہ ہو، مردود ہے۔
اس میں صرف "اصلِ عمل” ہی نہیں، بلکہ طریقہ، کیفیت، ہیئت، اور انداز سب شامل ہیں۔
🔹 ➋ فہمِ سلف (سمجھِ صحابہ و تابعین)
سلف صالحین کے نزدیک "بدعت” وہی ہے
جو بظاہر دینی رنگ رکھتی ہو، مگر نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو۔
وہ ان اعمال کو بھی بدعت کہتے تھے
جن کی اصل عبادت میں موجود ہو لیکن
طریقہ یا صورت نئی وضع کی گئی ہو۔
📌 مثالیں:
کسی خاص وقت یا جگہ کو ذکر یا دعا کے لیے لازم کر دینا۔
جماعتی انداز میں ایسی عبادت کرنا جو نبی ﷺ سے منقول نہ ہو۔
🕋 صحابہؓ و تابعین ایسے اعمال کو بدعت کہتے اور رد کرتے تھے،
حالانکہ ان کی اصل عبادت مشروع تھی۔
🔹 ➌ لغوی و نحوی پہلو
حدیث کے الفاظ:
﴿لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا﴾
یعنی "جو عمل ہمارے طریقے پر نہیں۔”
یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ:
کوئی بھی نیا انداز، نئی کیفیت یا نئی شکل اگر نبی ﷺ کے طریقے سے ثابت نہیں،
تو وہ بدعتِ مردود ہے —
خواہ بظاہر اچھی لگے یا دینی رنگ رکھتی ہو۔
🌿 خلاصہ و نتیجہ
اہلِ بدعت کی یہ تاویل کہ
بدعت دو قسم کی ہے — بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ —
یہ تاویل قرآن، سنت اور فہمِ سلف تینوں کے خلاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان بالکل عام اور فیصلہ کن ہے 👇
النص:
«كل بدعة ضلالة»
📘 سنن النسائي، حدیث: 1578
ترجمہ:
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
🩶 ان الفاظ میں کوئی استثناء یا تخصیص نہیں۔
یہ عموم پر دلالت کرتے ہیں کہ دین میں ہر نیا کام گمراہی ہے،
چاہے وہ بظاہر "اچھی” کیوں نہ لگے۔
📖 قرآنِ مجید کی تصدیق:
﴿ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ﴾
📘 (المائدہ: 3)
ترجمہ:
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔”
🌿 بدعتِ حسنہ کے جواز پر پانچویں دلیل — صحابہؓ کے اجتہادی اعمال کا شبہ 🌿
❓ بدعتیوں کا شبہہ
بدعت کے قائل بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:
"نبی ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے کئی اجتہادی اعمال کو اقرار (یعنی خاموش منظوری) فرمایا،
حالانکہ وہ پہلے سے شریعت میں مقرر نہ تھے۔
لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دین میں “بدعتِ حسنہ” کی گنجائش ہے۔”
💬 ان کا استدلال
یہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بعض صحابہ کے ایسے اجتہادات کو تسلیم کیا جو پہلے دین میں مقرر نہیں تھے، مثلاً 👇
1️⃣ عمرو بن عاصؓ نے جنابت کے باوجود سردی کے موسم میں تیمم سے نماز پڑھائی — نبی ﷺ نے اقرار فرمایا۔
2️⃣ ایک صحابی ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھتے تھے — نبی ﷺ نے ان کے عمل کو درست کہا۔
3️⃣ ایک صحابی نے سورہ فاتحہ سے دم کیا — آپ ﷺ نے اسے جائز قرار دیا۔
4️⃣ بلالؓ ہر وضو کے بعد نفل نماز پڑھتے تھے — نبی ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی۔
5️⃣ ایک صحابی نے چھینک کے بعد نیا ذکر کہا — نبی ﷺ نے اقرار کیا۔
6️⃣ خبیبؓ نے قتل سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں — آپ ﷺ نے ان کے عمل کو درست کہا۔
پھر وہ کہتے ہیں:
"پس معلوم ہوا کہ نئی عبادات یا اذکار اگر اچھی نیت سے ہوں تو ‘بدعتِ حسنہ’ کہلائیں گی۔”
⚖ اہلِ سنت والجماعت کا جواب
🔹 ➊ وحی کے زمانے کا اقرار اور بعد کا فرق
نبی ﷺ کے زمانے میں اگر صحابہ کوئی اجتہادی عمل کرتے تو وحی نازل ہوتی
اور اسی لمحے ان کا عمل قبول یا رد کر دیا جاتا۔
📘 اگر عمل درست ہوتا → نبی ﷺ خاموش رہتے یا تعریف فرماتے۔
📕 اگر غلط ہوتا → نبی ﷺ فوراً اصلاح فرما دیتے۔
لیکن 👇
📌 نبی ﷺ کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
لہٰذا بعد کے کسی اجتہادی عمل کو "اقرارِ نبوی ﷺ” کہنا سراسر غلط اور گمراہ کن ہے۔
🔹 ➋ نبی ﷺ نے کئی اجتہادات کی اصلاح بھی فرمائی
اگر ہر اجتہاد “بدعتِ حسنہ” ہوتا،
تو نبی ﷺ ان کو رد نہ فرماتے۔
کچھ مثالیں دیکھئے 👇
✿ دعا میں الفاظ کی تبدیلی — براءؓ بن عازب:
براءؓ نے دعا میں کہا:
«وَبِرَسُولِكَ»
تو نبی ﷺ نے فرمایا:
«وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ»
📗 صحیح بخاری، حدیث: 247
👉 صرف ایک لفظ بدلنے پر اصلاح کی، تاکہ سنت کی عین پیروی ہو۔
✿ عثمان بن مظعونؓ کا نکاح چھوڑنا:
انہوں نے رہبانیت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔
نبی ﷺ نے منع فرمایا۔
📗 صحیح بخاری، حدیث: 5063
✿ تین صحابہ کا زیادہ عبادت کا عزم:
کسی نے کہا: میں ہمیشہ قیام کروں گا،
کسی نے کہا: ہمیشہ روزہ رکھوں گا،
کسی نے کہا: کبھی شادی نہیں کروں گا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
«فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»
📘 صحیح بخاری (5063)، صحیح مسلم (1401)
📍 نتیجہ:
نبی ﷺ صرف وحی کے مطابق اعمال کو تسلیم کرتے تھے،
جو وحی کے مخالف ہوتے، ان کی فوراً اصلاح فرماتے تھے۔
🔹 ➌ صحابہ کے اجتہادات سنت کیوں بنے؟
جو اجتہادات نبی ﷺ نے تسلیم فرمائے،
وہ وحی کے اقرار سے سنت بن گئے، بدعت نہیں رہے۔
📖 امام قسطلانیؒ فرماتے ہیں:
«وإنما صار فعل خبيب سنةً، لأنه فعل ذلك في حياة الشارع واستحسنه.»
📘 إرشاد الساري (5/165)
ترجمہ:
"خبیبؓ کا عمل سنت اس لیے بن گیا کہ یہ نبی ﷺ کی زندگی میں ہوا
اور آپ ﷺ نے اسے پسند فرمایا۔”
📌 اس لئے وہ عمل "سنت” بن گیا — "بدعت” نہیں۔
🔹 ➍ اقرارِ نبوی کا دروازہ وفات کے بعد بند
📚 امام ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
«فكل من أحدث شيئاً ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه، فهو ضلالة والدين بريء منه.»
📘 جامع العلوم والحكم، ص 252
ترجمہ:
"جو کوئی دین میں نئی چیز داخل کرے
اور اس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو،
وہ بدعت و گمراہی ہے، اور دین اس سے بری ہے۔”
📍 نبی ﷺ کی وفات کے بعد وحی ختم ہو چکی ہے،
لہٰذا اب کسی کے نئے عمل کو "اقرارِ نبوی” حاصل نہیں ہو سکتا۔
🌸 خلاصہ
نبی ﷺ کے زمانے میں صحابہ کے اجتہادات وحی کے ذریعے پرکھے جاتے تھے۔
جو عمل درست تھا وہ دین کا حصہ بن گیا (سنت)،
جو غلط تھا اسے رد کر دیا گیا۔
📌 نبی ﷺ کی وفات کے بعد
وحی کا دروازہ بند ہے،
لہٰذا اب جو نئی عبادت یا عمل ایجاد کیا جائے
وہ صرف اور صرف بدعت کہلائے گا۔
💬 نتیجہ
یہ کہنا کہ "چونکہ نبی ﷺ نے بعض نئے اعمال کو قبول کیا،
اس لیے آج بھی نئی عبادات ایجاد کی جا سکتی ہیں” —
یہ قیاس باطل ہے۔
📖 نبی ﷺ کا واضح فرمان فیصلہ کن ہے 👇
النص:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
📘 صحیح مسلم، حدیث: 1718
ترجمہ:
"جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں،
وہ مردود ہے۔”
🌿 بدعتِ حسنہ کے جواز پر چھٹی دلیل
❓ کیا نبی ﷺ کا کسی عمل کو چھوڑ دینا (ترک کرنا) دلیلِ حرمت ہے؟
⚖ بدعتیوں کا شبہہ
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں 👇
“نبی ﷺ کا کسی چیز کو نہ کرنا (ترک) اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عمل حرام ہے،
جب تک اس کی حرمت پر کوئی صریح دلیل نہ ہو۔
لہٰذا ہم نئی بدعات کو صرف اس بنیاد پر رد نہیں کر سکتے
کہ نبی ﷺ نے وہ عمل نہیں کیا۔”
📌 ان کا دعویٰ یہ ہے:
"جو عمل نبی ﷺ نے نہیں کیا، وہ ممکن ہے جائز ہو —
اس لیے نئی عبادات یا اذکار ایجاد کرنا ‘بدعتِ حسنہ’ ہے۔”
💬 اہلِ سنت والجماعت کا جواب
🔹 ➊ دین کی تکمیل کا اعلان
اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا:
﴿ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡكُمۡ نِعۡمَتِی﴾
📘 (المائدہ: 3)
ترجمہ:
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا،
اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔”
📍 جب اللہ نے دین مکمل فرما دیا،
تو اس کے بعد کوئی نئی عبادت یا عمل ایجاد کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
🔹 ➋ نبی ﷺ کا ترک (چھوڑ دینا) بھی سنت ہے
عبادت دو اقسام کی سنتوں پر مبنی ہے 👇
1️⃣ سنتِ فعلیہ: جو نبی ﷺ نے خود کی۔
2️⃣ سنتِ ترکیہ: جسے نبی ﷺ نے جان بوجھ کر چھوڑا۔
📌 جیسے:
نبی ﷺ نے عید کی نماز کے لیے اذان نہیں دی، حالانکہ اذان ذکر ہے۔
جنازے کی نماز کے لیے بھی اذان نہیں دی۔
➡ اس کا مطلب ہے کہ ان مواقع پر اذان دینا بدعت ہے۔
📚 امام ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
«فأما ما اتفق السلف على تركه فلا يجوز العمل به؛ لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا يعمل به.»
📘 جامع العلوم والحكم (ص 233)
ترجمہ:
"جس چیز کو سلف نے بالاتفاق چھوڑ دیا،
اس پر عمل کرنا جائز نہیں،
کیونکہ انہوں نے علم و بصیرت کے ساتھ اسے چھوڑا تھا۔”
🔹 ➌ نبی ﷺ کا واضح فرمان
النص:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
📘 صحیح مسلم، حدیث: 1718
ترجمہ:
"جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں، وہ مردود ہے۔”
📍 یعنی دین صرف وہ ہے جو نبی ﷺ کے طریقے پر ہو —
جو چیز نبی ﷺ کے دین میں شامل نہیں، وہ مردود اور ناقابلِ قبول ہے۔
🔹 ➍ عملی مثالیں
📍 نماز کے بعد اجتماعی دعا:
نبی ﷺ نے کبھی نہیں کی، حالانکہ دعا افضل عبادت ہے۔
👉 اس کا اجتماعی انداز دین میں شامل کرنا بدعت ہے۔
📍 عید یا جنازے کے لیے اذان دینا:
نبی ﷺ نے کبھی نہیں دی —
لہٰذا ایسی اذان کو عبادت کا حصہ بنانا بدعت ہے۔
🔹 ➎ علما کی تصریحات
📚 امام ابن القیمؒ فرماتے ہیں:
«ومن هاهنا يعلم أن القول باستحباب ذلك خلاف السنة؛ فإن تركه سنة كما أن فعله سنة.»
📘 إعلام الموقعين (2/281)
ترجمہ:
"یہاں سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کو مستحب کہنا سنت کے خلاف ہے،
کیونکہ نبی ﷺ کا کسی چیز کو چھوڑ دینا بھی سنت ہے،
جیسے کسی چیز کو کرنا سنت ہے۔”
📌 یعنی نبی ﷺ کا عمل بھی دلیل ہے، اور نبی ﷺ کا ترک بھی دلیل ہے۔
🌸 خلاصۂ کلام
نبی ﷺ کا چھوڑ دینا (ترک کرنا) بھی سنت ہے۔
جو عبادت آپ ﷺ نے قصداً نہیں کی، اسے دین میں شامل کرنا بدعت ہے۔
دین مکمل ہو چکا، اب نئی عبادات ایجاد کرنا شریعت سازی ہے۔
صحابہؓ اور سلف نے اسی اصول پر بدعات سے سختی سے روکا۔
🌿 بدعتِ حسنہ کے جواز پر ساتویں دلیل
❓ نیکی کے عام دلائل سے بدعتِ حسنہ کا استدلال
⚖ بدعتیوں کا شبہہ
بدعتی حضرات یہ شبہ پیش کرتے ہیں 👇
"چونکہ قرآن و حدیث میں نیکی کرنے، خیر کے کام بڑھانے
اور نیت پر اجر ملنے کا ذکر ہے،
اس لئے ہم دین میں نئی نئی عبادات ایجاد کر سکتے ہیں،
اور یہ ‘بدعتِ حسنہ’ کے زُمرے میں آئیں گی۔”
🔹 ان کے پیش کردہ دلائل
یہ لوگ عام نصوص پیش کرتے ہیں، جیسے 👇
📖
﴿وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
(الحج: 77)
"نیک کام کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔”
📖
﴿وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ﴾
(آل عمران: 133)
"اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑو۔”
📜
«إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ»
(صحیح بخاری، حدیث: 1)
"اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔”
اور کہتے ہیں 👇
"چونکہ یہ آیات و احادیث ہر نیک عمل پر ابھارتی ہیں،
لہٰذا نئی بدعات بھی نیکی شمار ہوں گی۔”
💬 اہلِ سنت والجماعت کا جواب
🔹 ➊ نصوصِ عامہ کو سلف کے فہم سے سمجھنا ضروری ہے
📚 امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:
عربی:
«لو كان دليلاً عليه؛ لم يعزب عن فهم الصحابة والتابعين ثم يفهمه هؤلاء… فما عمل به المتأخرون من هذا القسم مخالف لإجماع الأولين، وكل من خالف الإجماع فهو مخطئ.»
📘 الاعتصام (2/655)
ترجمہ:
"اگر یہ عام دلائل بدعت کے جواز پر دلالت کرتے،
تو صحابہ و تابعین کے فہم سے یہ بات چھپی نہ رہتی۔
بعد والوں کا ایسا عمل دراصل پہلے والوں کے اجماع کے خلاف ہے،
اور اجماع کے خلاف کرنے والا خطاکار ہے۔”
📌 مطلب:
اگر قرآن و سنت کی عام نصوص سے بدعت کا جواز نکلتا
تو سب سے پہلے صحابہ کرامؓ اسے سمجھتے اور عمل کرتے،
مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
🔹 ➋ صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کے سامنے
ایک شخص نے چھینک کے بعد کہا:
"الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَالصَّلَاةُ عَلٰى رَسُولِ اللّٰهِ”
تو ابن عمرؓ نے فوراً فرمایا:
"میں بھی الحمد لله والصلاة على رسول الله کہتا ہوں،
لیکن نبی ﷺ نے ہمیں ایسا نہیں سکھایا۔”
📘 الترمذي، حدیث: 2738
📍 نوٹ:
یہاں ابن عمرؓ نے قرآن کی عام آیت
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ﴾ (الأحزاب: 56)
کے باوجود یہ نیا طریقہ رد کر دیا،
کیونکہ یہ نبی ﷺ کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق نہیں تھا۔
🔹 ➌ نبی ﷺ کا واضح اصول
النص:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
📘 صحیح مسلم، حدیث: 1718
ترجمہ:
"جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا طریقہ نہ ہو، وہ مردود ہے۔”
📌 یعنی:
نیکی کی نیت سے بھی اگر ایسا عمل کیا جائے
جو نبی ﷺ کے طریقے پر نہ ہو —
تو وہ قابلِ قبول نہیں بلکہ رد ہے۔
🔹 ➍ بدعت کو نیکی سمجھنے کا نقصان
اگر عام نصوص کی بنیاد پر
ہر نئی چیز کو نیکی مان لیا جائے،
تو ہر شخص اپنی پسند کی عبادت ایجاد کرے گا۔
📌 مگر دین کا اصول یہ ہے:
عبادات "توقیفی” ہیں،
یعنی جو نبی ﷺ نے سکھائی، بس وہی عبادت ہے۔
اس سے ہٹنا بدعت ہے۔
🔹 ➎ سلفِ صالحین کی ہدایت
📚 امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:
«اصبر نفسك على السنة، وقف حيث وقف القوم، وقل بما قالوا، وكف عما كفوا عنه، واسلك سبيل سلفك الصالح، فإنه يسعك ما وسعهم.»
📘 الإبانة الكبرى لابن بطہ: 1/305
ترجمہ:
"سنت پر اپنے آپ کو مضبوط رکھو،
جہاں صحابہ رکے وہاں رک جاؤ،
جو انہوں نے کہا وہی کہو،
جس سے رکے وہ چھوڑ دو،
اپنے سلف صالحین کے راستے پر چلو،
تمہارے لیے وہی کافی ہے جو ان کے لیے کافی تھا۔”
📌 مطلب یہ کہ نیکی صرف وہی ہے
جو نبی ﷺ اور صحابہؓ نے نیکی قرار دی۔
🌸 خلاصۂ کلام
قرآن و حدیث کی عام نصوص (جیسے "نیکی کرو”، "خیر میں سبقت لو”) سے نئی عبادات کا جواز نہیں نکلتا۔
اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرامؓ سب سے پہلے نئی بدعات ایجاد کرتے،
لیکن انہوں نے ہمیشہ بدعت سے منع کیا۔
نبی ﷺ نے اصول بیان فرما دیا:
جو عمل دین کے طریقے پر نہ ہو، وہ مردود ہے۔
📖
﴿كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ﴾
(سنن النسائي، حدیث: 1578)
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
🌿 بدعتِ حسنہ کے جواز پر آٹھویں دلیل
📣 سیدنا عثمانؓ کی جمعہ کی دوسری اذان — کیا یہ بدعتِ حسنہ تھی؟
⚖ بدعتیوں کا شبہہ
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں 👇
"سیدنا عثمان بن عفانؓ نے جمعہ کے دن دوسری اذان شروع کروائی،
اور چونکہ یہ نبی ﷺ کے زمانے میں نہیں تھی،
اس لیے یہ ایک بدعتِ حسنہ ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعت دو قسم کی ہے: اچھی اور بری۔”
💬 اہلِ سنت والجماعت کا مدلل جواب
🔹 ➊ نبی ﷺ کا فرمان ہر ایک کے قول پر مقدم ہے
سب سے پہلے یہ اصول سمجھ لینا چاہیے:
کوئی بھی بات، چاہے کسی بڑے صحابیؓ یا امام کی ہو،
وہ نبی ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں حجت نہیں ہو سکتی۔
📖 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
📘 صحیح مسلم (867)، سنن النسائي (1578)
ترجمہ:
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
اور ایک اور فرمان میں فرمایا:
«عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّينَ مِن بَعْدِي، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ»
📘 سنن ابی داود (4607)، ترمذی (2676)
ترجمہ:
"تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو،
اور اسے دانتوں سے مضبوطی سے تھام لو۔”
📍 پس خلفائے راشدین جو بھی کریں،
وہ نبی ﷺ کی سنت کے عین مطابق اور امت کی مصلحت میں ہوتا ہے،
نہ کہ اس کے خلاف۔
🔹 ➋ حضرت عثمانؓ نے “اذان ایجاد” نہیں کی، صرف “جگہ بدلی”
📚 سیدنا سائب بن یزیدؓ روایت کرتے ہیں:
«كانَ النِّداءُ يومَ الجُمُعةِ أوَّلُه إذا جلسَ الإمامُ على المنبرِ على عهدِ النَّبيِّ ﷺ وأبي بكرٍ وعمرَ رضيَ اللَّهُ عنهما، فلما كانَ عثمانُ رضيَ اللَّهُ عنهُ وكثُرَ النَّاسُ زادَ النداءَ الثالثَ على الزَّوراءِ.»
📘 صحیح بخاری، کتاب الجمعہ (حدیث: 912)
ترجمہ:
"نبی ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے زمانے میں جمعہ کا اعلان
اسی وقت ہوتا جب امام منبر پر بیٹھتا۔
پھر جب عثمانؓ کا زمانہ آیا اور لوگ زیادہ ہو گئے،
تو آپؓ نے بازار (الزوراء) میں ایک اعلان مزید کروایا۔”
📍 مطلب یہ کہ عثمانؓ نے نئی عبادت نہیں بنائی،
بلکہ صرف اعلان کی جگہ بدل دی تاکہ دور والے لوگ بھی نماز کے لیے تیار ہو جائیں۔
🔹 ➌ یہ کام “مصلحتِ عامہ” کے تحت تھا، نہ کہ عبادت میں اضافہ
مدینہ منورہ بڑھ چکا تھا،
لوگ بازاروں اور اطراف میں پھیل گئے تھے۔
لہٰذا حضرت عثمانؓ نے محض انتظامی ضرورت کے تحت
ایک اضافی اعلان کروایا تاکہ سب کو وقت پر اطلاع ملے۔
📚 امام قرطبی نے الماوردي کا قول نقل کیا:
«فأما الأذان الأول فمُحْدَث، فعله عثمان ليتأهّب الناس لحضور الخطبة عند اتساع المدينة وكثرة أهلها.»
📘 تفسیر القرطبی (تحت آیات الجمعہ)
ترجمہ:
"پہلا اعلان نیا تھا جو عثمانؓ نے اس لیے شروع کیا
کہ شہر بڑا ہو گیا تھا اور آبادی زیادہ ہو چکی تھی،
تاکہ لوگ خطبے کے لیے تیار ہو جائیں۔”
📌 یہ “مصلحتِ مرسلہ” تھی —
یعنی شریعت کے مقاصد کے مطابق ایک انتظامی ضرورت،
نہ کہ عبادت میں اضافہ۔
🔹 ➍ علما کی تصریحات: یہ بدعت “لغوی” تھی، “شرعی” نہیں
📘 امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
«البدعة على قسمين: شرعية… ولغوية؛ كقول عمر: نعمت البدعة هذه.»
تفسير ابن كثير (1/271)
ترجمہ:
"بدعت دو قسم کی ہے:
1️⃣ شرعی (یعنی دین میں نیا اضافہ)
2️⃣ لغوی (یعنی عام معنی میں نئی چیز)،
جیسے عمرؓ نے فرمایا: ‘یہ اچھی بدعت ہے’۔”
📘 امام ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
«وأما ما وقع في كلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلك في البدع اللغوية لا الشرعية.»
جامع العلوم والحكم، ص 252
ترجمہ:
"سلف کے کلام میں جہاں کچھ بدعات کو اچھا کہا گیا،
وہ شرعی نہیں بلکہ لغوی بدعت مراد ہوتی ہے۔”
📘 شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
«وأما قول عمر: نعمت البدعة هذه… فلا تصلح معارضة الحديث بقول الصاحب.»
مجموع الفتاویٰ (22/234)
ترجمہ:
"عمرؓ کا قول ‘یہ اچھی بدعت ہے’
نبی ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں دلیل نہیں بن سکتا۔”
📍 اسی طرح حضرت عثمانؓ کا یہ عمل “بدعتِ لغوی” تھا —
یعنی انتظامی نیا طریقہ،
نہ کہ دینی بدعت۔
🔹 ➎ یہی اصول دیگر مشابہ اعتراضات پر بھی لاگو ہوتا ہے
جیسے 👇
قرآنِ کریم پر اعراب (زیر، زبر، پیش) لگانا
قرآن کو ایک جلد میں جمع کرنا
احادیث کی کتابت کا آغاز
📍 یہ سب دین میں “اضافے” نہیں،
بلکہ دین کی حفاظت اور انتظامی سہولت کے لیے تھے۔
ان کی اصل خیرالقرون میں موجود ہے،
اس لیے یہ شرعی بدعت نہیں کہلاتے۔
🌿 بدعتِ حسنہ کے جواز پر نویں دلیل
📘 امام شافعیؒ کے نزدیک بدعت کی تقسیم: محموده اور مذمومه
❓ سوال
"امام شافعیؒ نے جب بدعت کو محمودہ (اچھی) اور مذمومہ (بری) میں تقسیم کیا تو ان کا کیا مطلب تھا؟
اور ان کے نزدیک ‘بدعت’ کا مفہوم کیا ہے؟”
💬 تفصیلی جواب و مدلل وضاحت
🟢 اوّل: امام شافعیؒ کا اصل قول
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
«الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ:
بِدْعَةٌ مَحْمُودَةٌ، وَبِدْعَةٌ مَذْمُومَةٌ،
فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ فَهُوَ مَحْمُودٌ،
وَمَا خَالَفَ السُّنَّةَ فَهُوَ مَذْمُومٌ،
وَاحْتَجَّ بِقَوْلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ.»
📘 الحلية لأبي نعيم (9/113)
ترجمہ:
"بدعت دو قسم کی ہے: ایک محمود (قابلِ تعریف) اور دوسری مذموم (قابلِ مذمت)۔
جو سنت کے موافق ہو وہ محمود ہے،
اور جو سنت کے مخالف ہو وہ مذموم ہے۔
اور امام شافعیؒ نے حضرت عمرؓ کے قول ‘نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ’ سے استدلال کیا۔”
🟢 دوم: امام شافعیؒ کی وضاحت — بدعت لغوی اور شرعی کی بنیاد
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
«المحدثات من الأمور ضربان:
أَحَدُهُمَا: مَا أُحْدِثَ يُخَالِفُ كِتَابًا أَوْ سُنَّةً أَوْ أَثَرًا أَوْ إِجْمَاعًا، فَهِيَ الْبِدْعَةُ الضَّلَالَةُ.
وَالثَّانِيَةُ: مَا أُحْدِثَ مِنَ الْخَيْرِ لَا خِلَافَ فِيهِ لِوَاحِدٍ مِنْ هَذَا، فَهِيَ مُحْدَثَةٌ غَيْرُ مَذْمُومَةٍ.
وَقَدْ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ.»
📘 مناقب الشافعي للبيهقي (1/469)
ترجمہ:
"نئی چیزیں دو طرح کی ہیں:
1️⃣ جو قرآن، سنت، اثر یا اجماع کے خلاف ہو — وہ بدعتِ ضلالت ہے۔
2️⃣ جو خیر پر مبنی ہو اور ان کے مخالف نہ ہو — وہ نئی ہے مگر مذموم نہیں۔
حضرت عمرؓ کا قول ‘نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ’ اسی دوسری قسم میں داخل ہے۔”
📌 یعنی: امام شافعیؒ بدعت کی تقسیم “لغوی” معنی میں کر رہے ہیں،
نہ کہ شرعی معنی میں۔
⚖ ائمہ و شارحین کی مدلل تشریحات
🟣 1. امام ابو شامة المقدسيؒ (ت 665ھ)
«ثمَّ الْحَوَادِثُ منقسمةٌ إلى بدعٍ مستحسنةٍ، والى بدعٍ مستقبحةٍ،
قال الإمام الشافعي رضي الله عنه: المحدثاتُ من الأمور ضربان،
أحدهما ما أحدث يخالف كتابًا أو سنةً أو أثرًا أو إجماعًا، فهذه البدعة الضلالة،
والثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحدٍ من هذا، وهذه محدثةٌ غيرُ مذمومةٍ،
واحتجَّ بقول عمر رضي الله عنه في قيام رمضان: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ.»
📘 الباعث على إنكار البدع والحوادث (ص: 22)
ترجمہ:
"نئی پیدا ہونے والی چیزیں دو طرح کی ہیں: پسندیدہ اور ناپسندیدہ۔
امام شافعیؒ نے فرمایا کہ جو چیز قرآن، سنت، اثر یا اجماع کے خلاف ہو وہ بدعتِ ضلالہ ہے،
اور جو خیر میں ہو اور ان کے خلاف نہ ہو وہ محدثہ غیر مذمومہ ہے۔
عمرؓ کے قول ‘نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ’ سے بھی یہی مراد ہے۔”
🟣 2. امام ابن رجب الحنبليؒ (ت 795ھ)
«وأما ما وقع في كلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلك في البدع اللغوية،
لا الشرعية، وذلك كقول عمر رضي الله عنه في قيام رمضان: نعمت البدعة هذه.»
📘 جامع العلوم والحكم (2/252)
ترجمہ:
"سلف کے کلام میں جو بعض بدعتوں کے استحسان کے الفاظ ملتے ہیں،
وہ بدعتِ لغوی کے بارے میں ہیں،
نہ کہ بدعتِ شرعی کے —
جیسا کہ عمرؓ کا قول ‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے’۔”
📌 وضاحت:
امام ابن رجبؒ نے امام شافعیؒ کی بات کی مکمل تائید کی —
کہ “بدعتِ محمودہ” صرف لغوی معنی میں ہے،
شرعی بدعت ہر حال میں مردود ہے۔
🟣 3. حافظ ابن حجر العسقلانيؒ (ت 852ھ)
«فالبدعة في عرف الشرع مذمومة، بخلاف اللغة؛ فإن كل شيء أحدث على غير مثالٍ يسمى بدعة،
سواء كان محمودًا أو مذمومًا،
فإن كانت مما يندرج تحت مستحسنٍ في الشرع فهي محمودة،
وإن كانت مما يندرج تحت مستقبحٍ في الشرع فهي مذمومة.»
📘 فتح الباري (13/253)
ترجمہ:
"شرعی اصطلاح میں بدعت ہمیشہ مذموم ہے،
مگر لغوی معنی میں ہر نئی چیز بدعت کہلاتی ہے،
خواہ اچھی ہو یا بری۔
اگر وہ شریعت میں کسی مستحسن اصل کے تحت آتی ہو تو محمود ہے،
اور اگر کسی قبیح اصل کے تحت ہو تو مذموم ہے۔”
📌 یعنی: امام شافعیؒ کا قول شرعی بدعت کے بارے میں نہیں،
بلکہ لغوی بدعت کے اعتبار سے ہے۔
🟣 4. امام النوويؒ (ت 676ھ)
«البدعة خمسة أقسام: واجبة، ومندوبة، ومحرمة، ومكروهة، ومباحة،
والطريق في ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة،
فإن دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة،
وإن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة،
وهكذا في الباقي.»
📘 شرح صحيح مسلم للنووي (6/154)
ترجمہ:
"بدعت کی پانچ قسمیں ہیں: واجب، مندوب، حرام، مکروہ، اور مباح۔
اس کی بنیاد یہ ہے کہ بدعت کو شریعت کے اصول پر پرکھا جائے؛
اگر وہ واجب کے اصول میں داخل ہو تو واجب ہے،
اور اگر حرام کے اصول میں داخل ہو تو حرام ہے، وغیرہ۔”
📍 نوٹ: امام نوویؒ کی یہ تقسیم لغوی بدعت کے لحاظ سے ہے،
کیونکہ ان کے نزدیک شرعی بدعت تو ہر حال میں مردود ہے۔
🟣 5. شیخ الاسلام ابن تيميةؒ (ت 728ھ)
«قول عمر رضي الله عنه: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ،
لا يصلح معارضة الحديث بقول الصحابي،
بل البدعة هنا في اللغة، لا في الشرع؛
فإن قيام رمضان جماعة سنةٌ سنها رسول الله ﷺ.»
📘 مجموع الفتاوى (22/234)
ترجمہ:
"عمرؓ کا قول ‘یہ اچھی بدعت ہے’
نبی ﷺ کی حدیث ‘کل بدعة ضلالة’ کے مقابلے میں دلیل نہیں۔
یہاں بدعت کا مطلب لغوی ہے، شرعی نہیں؛
کیونکہ رمضان میں جماعت کے ساتھ قیام نبی ﷺ کی سنت ہے۔”
🟣 6. امام ابو موسى المدينيؒ
«قيام رمضان جماعةً في حق التسمية: سنة غير بدعة.»
📘 المجموع المغيث (1/137)
ترجمہ:
"رمضان میں قیام (تراویح) کو جماعت سے ادا کرنا حقیقت میں سنت ہے، بدعت نہیں۔”
🟣 7. امام ابن القيمؒ
«البدعة ما كان في الدين مما لم يشرعه الله ورسوله،
وأما ما كان في الدنيا فليس ببدعةٍ شرعاً وإن سُمي بدعةً لغة.»
📘 إغاثة اللهفان (1/125)
ترجمہ:
"بدعت وہ ہے جو دین میں ایجاد کی جائے اور جسے اللہ و رسول ﷺ نے مشروع نہ کیا ہو،
اور جو دنیاوی یا انتظامی امور میں ہو، وہ شرعاً بدعت نہیں،
اگرچہ لغتاً بدعت کہلائے۔”
🌸 خلاصۂ کلام
1️⃣ امام شافعیؒ کی تقسیم بدعت لغوی کے لحاظ سے ہے، شرعی نہیں۔
2️⃣ بدعت لغوی: ہر نئی چیز جو کسی اصلِ شرعی کے تحت آ جائے (مثلاً تراویح کی جماعت)۔
3️⃣ بدعت شرعی: دین میں نئی عبادت یا عقیدہ، جس کی کوئی اصل نہ ہو — اور یہ ہمیشہ گمراہی ہے۔
🌿 بدعتِ حسنہ کے جواز پر دسویں دلیل
📚 امام عز بن عبدالسلام کا موقف اور اہلِ علم کا ردّ
⚖ امام عز بن عبدالسلامؒ کا موقف
امام عز بن عبدالسلام (المتوفى 660ھ) — جنہیں سلطان العلماء کہا جاتا ہے — نے اپنی مشہور کتاب
📗 قواعد الأحكام في مصالح الأنام میں بدعت کو شرعی احکام کی پانچ اقسام میں تقسیم کیا۔
«البدعة تنقسم إلى واجبة، ومحرمة، ومندوبة، ومكروهة، ومباحة.»
📘 قواعد الأحكام (2/172)
ترجمہ:
"بدعت پانچ اقسام پر مشتمل ہے:
واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح۔”
🔹 ان کی مثالیں
بدعة واجبة:
قرآنِ مجید کو ایک مصحف میں جمع کرنا تاکہ امت اس سے محروم نہ ہو۔
بدعة مندوبة:
مدارس کی تعمیر، کتابوں کی تصنیف، دینی تعلیم کے انتظامات۔
بدعة مباحة:
نئے گھروں یا کشتیوں کی تیاری، تنظیمی کام۔
بدعة مكروهة:
مساجد کو ضرورت سے زیادہ سجانا۔
بدعة محرمة:
اہلِ بدعت کی عبادات یا مشرکانہ رسومات۔
📍 امام عز بن عبدالسلام کے نزدیک “بدعت” کا مفہوم صرف نئی چیز ہے جس کی نظیر پہلے نہ ہو،
اور اس کو وہ شریعت کے پانچ احکام میں تقسیم کرتے ہیں۔
💬 اہلِ علم کا مدلل ردّ
🟥 1. امام شاطبیؒ کا ردّ (790ھ)
امام شاطبیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب الاعتصام میں اس تقسیم کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا:
«إنّ هذا التقسيم أمرٌ مخترعٌ لا يدلّ عليه دليلٌ شرعي،
بل هو في نفسه متدافعٌ؛ لأنّ حقيقة البدعة أن لا يدلّ عليها دليلٌ شرعي،
لا من نصوص الشرع، ولا من قواعده،
إذ لو كان هنالك ما يدلّ من الشرع على وجوبٍ أو ندبٍ أو إباحةٍ لما كان ثمّ بدعة،
ولكان العمل داخلاً في عموم الأعمال المأمور بها أو المخيّر فيها.»
📘 الاعتصام (1/188–220)
ترجمہ:
"یہ تقسیم خود ایک نئی بدعت ہے جس پر کوئی شرعی دلیل نہیں۔
بلکہ یہ اپنے اندر ہی تضاد رکھتی ہے،
کیونکہ بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ اس پر کوئی شرعی دلیل نہ ہو —
نہ نص میں، نہ قواعدِ شرع میں۔
اگر کسی عمل پر شریعت میں وجوب، ندب یا اباحت کی کوئی دلیل ہو
تو وہ بدعت نہیں بلکہ شریعت کے عام احکام میں داخل ہے۔”
📌 امام شاطبیؒ کا خلاصہ:
اگر کسی عمل کے لیے دلیل شرعی موجود ہے → وہ سنت یا مصلحت ہے۔
اگر کوئی دلیل نہیں → وہ بدعتِ ضلالہ ہے۔
🟥 2. شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (728ھ)
«المحافظة على عموم قول النبي ﷺ: (كل بدعة ضلالة) متعين،
وأنه يجب العمل بعمومه،
وأن من أخذ يصنف البدع إلى حسنٍ وقبيحٍ،
فقد أخطأ،
فما سُمّي بدعةً وثبت حسنه بأدلة الشرع،
فإما أن يقال: ليس ببدعةٍ في الدين،
وإن كان يسمى بدعةً في اللغة،
كما قال عمر: نعمت البدعة هذه.»
📘 مجموع الفتاوى (20/163)
ترجمہ:
"نبی ﷺ کے اس عموم پر قائم رہنا واجب ہے کہ ‘ہر بدعت گمراہی ہے’۔
جو لوگ بدعت کو حسنہ و قبیحہ میں تقسیم کرتے ہیں، وہ خطا پر ہیں۔
جو عمل شریعت کی دلیل سے ثابت ہو،
وہ دین میں بدعت نہیں، اگرچہ لغت میں بدعت کہلائے،
جیسا کہ عمرؓ نے فرمایا: ‘یہ اچھی بدعت ہے’۔”
📌 نتیجہ:
بدعتِ شرعی ہمیشہ مذموم ہے؛
اگر کسی عمل کی شرعی اصل موجود ہے،
تو وہ لغوی بدعت ہے، شرعی نہیں۔
🟥 3. امام ابن رجب الحنبليؒ (795ھ)
«كلّ من أحدث شيئًا ونسبه إلى الدين،
ولم يكن له أصلٌ من الدين يرجع إليه،
فهو ضلالة، والدين منه بريء.»
📘 جامع العلوم والحكم (2/128)
ترجمہ:
"جو شخص دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے
اور اس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو،
وہ گمراہی ہے، اور دین اس سے بری ہے۔”
📌 یعنی اگر کوئی عمل شرعی اصول سے ماخوذ نہ ہو تو وہ بدعت ہے،
اور اس کو “نیک نیت” یا “مصلحت” کے نام سے جائز نہیں کہا جا سکتا۔
🟥 4. امام ابن كثير الشافعيؒ (774ھ)
«البدعة على قسمين:
تارةً تكون بدعةً شرعيةً… وتارةً تكون بدعةً لغويةً،
كقول عمر رضي الله عنه: نعمت البدعة هذه.»
📘 تفسير ابن كثير (1/162)
ترجمہ:
"بدعت دو قسم کی ہے:
ایک شرعی بدعت — جو مذموم ہے،
اور دوسری لغوی بدعت — جیسے عمرؓ کا قول: ‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے’۔”
📍 وضاحت:
ابن کثیرؒ کے نزدیک “بدعتِ لغوی” وہ ہے جو دین کی اصل کے موافق ہو،
لیکن “بدعتِ شرعی” ہمیشہ گمراہی ہے۔
🟥 5. حافظ ابن حجر العسقلانيؒ (852ھ)
«ما كان له أصلٌ يدلّ عليه الشرع فليس ببدعةٍ،
فالبدعة في عرف الشرع مذمومة،
بخلاف اللغة؛ فإن كلّ شيءٍ أحدث على غير مثالٍ يسمّى بدعةً،
سواء كان محمودًا أو مذمومًا.»
📘 فتح الباري (13/253)
ترجمہ:
"جس چیز کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ بدعت نہیں۔
شرعی عرف میں بدعت ہمیشہ مذموم ہے،
البتہ لغت میں ہر نئی چیز بدعت کہلاتی ہے،
خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔”
📌 یعنی:
امام عز بن عبدالسلام کی تقسیم لغوی معنی میں تو ممکن ہے،
لیکن شرعی لحاظ سے بدعت کبھی “واجب یا مندوب” نہیں ہو سکتی۔
🕋 اہم نکاتِ جمعی و خلاصۂ تحقیق
1️⃣ امام عز بن عبدالسلامؒ نے بدعت کی تقسیم لغوی معنی میں کی تھی،
جس پر بعد کے ائمہ نے شرعی لحاظ سے نقد کیا۔
2️⃣ امام شاطبیؒ نے وضاحت کی کہ یہ تقسیم خود ایک بدعت فکریہ ہے —
کیونکہ بدعت وہ عمل ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو۔
3️⃣ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے فرمایا:
بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم
نبی ﷺ کے عمومی فرمان “كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ” کے خلاف ہے۔
4️⃣ ائمہ ابن رجب، ابن کثیر، ابن حجرؒ وغیرہ نے واضح کیا کہ:
جو عمل سنت کی اصل پر مبنی ہو → بدعت نہیں (بلکہ لغوی جدّت ہے)
جو عمل سنت کے خلاف ہو → شرعی بدعت اور گمراہی ہے۔
🌸 نتیجۂ کلام
📘 امام عز بن عبدالسلامؒ کی تقسیم لغوی یا فنی معنی میں درست ہو سکتی ہے،
لیکن شرعی معنی میں نہیں۔
📍 کیونکہ:
اگر کسی عمل کی شریعت میں اصل موجود ہے → وہ بدعت نہیں۔
اگر کسی عمل کی شریعت میں کوئی اصل نہیں → وہ بدعت و ضلالت ہے۔
📖 نبی ﷺ کا حتمی اصول:
«كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
📘 صحیح مسلم (867)
ترجمہ:
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
🌿 بدعتِ حسنہ کے رد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا طرزِ عمل
اسلام مکمل اور جامع دین ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد ﷺ کے ذریعے بندوں تک پہنچایا اور قرآن و سنت کے ذریعے محفوظ فرمایا۔ اس میں نہ کمی کی گنجائش ہے نہ اضافہ کی۔ جو چیز عبادت یا ذکر کے طور پر نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو، اسے دین کا حصہ بنانا بدعت ہے، چاہے وہ بظاہر نیکی لگے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ مشہور واقعہ اسی اصول کو واضح کرتا ہے۔
📜 روایت
سند: سنن الدارمی (حدیث: 210)
عن عمرو بن يحيى، عن أبيه قال:
كنا نجلس على باب عبد الله بن مسعود قبل صلاة الغداة، فإذا خرج مشينا معه إلى المسجد، فجاءنا أبو موسى الأشعري فقال: رأيت في المسجد قوماً حلقاً جلوساً، في أيديهم حصى، يقول رجل: كبروا مائة، فيكبرون مائة، يقول: هللوا مائة، فيهللون مائة، يقول: سبحوا مائة، فيسبحون مائة.
فقال ابن مسعود: ماذا قلتَ لهم؟
قال: ما قلت لهم شيئاً حتى أرى رأيك.
فقال ابن مسعود: أفلا أمرتهم أن يعدّوا سيئاتهم وضمنتَ لهم أن لا يضيع من حسناتهم شيء؟ ويحكم يا أمة محمد! ما أسرع هلكتكم! هؤلاء أصحاب نبيكم متوافرون، وهذه ثيابه لم تبلَ، وآنيته لم تُكسر، والذي نفسي بيده! إنكم لعلى ملة هي أهدى من ملة محمد، أو مفتتحو باب ضلالة؟
قالوا: والله يا أبا عبد الرحمن! ما أردنا إلا الخير.
قال: وكم من مريدٍ للخير لن يصيبه! إن رسول الله ﷺ حدثنا أن قوماً يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم، وايم الله! ما أدري، لعل أكثرهم منكم.
قال عمرو بن سلمة:
فرأينا عامة أولئك الحِلَق يطاعنوننا يوم النهروان مع الخوارج.
💬 ترجمہ
حضرت عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
ہم فجر سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے، جب وہ مسجد کے لیے نکلتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے۔ ایک دن حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ آئے اور کہا: “میں نے ابھی مسجد میں ایک ایسا منظر دیکھا جو مجھے ناپسند لگا، مگر ظاہراً وہ خیر ہی معلوم ہوتا ہے۔”
حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا: “کیا دیکھا؟”
ابوموسیٰؓ نے کہا: “میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقوں میں بیٹھے دیکھا۔ ہر حلقے میں ایک آدمی تھا اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں تھیں۔ وہ شخص کہتا: ‘سو بار اللہ اکبر کہو’، تو سب اکٹھے کہتے؛ پھر کہتا: ‘سو بار لا إله إلا الله’، تو سب کہتے؛ پھر کہتا: ‘سو بار سبحان الله’، تو سب تسبیح کرتے۔”
ابن مسعودؓ نے فرمایا: “کیا تم نے انہیں روکا نہیں؟”
ابوموسیٰؓ نے کہا: “میں نے کچھ نہیں کہا، آپ کا فیصلہ دیکھنا چاہا۔”
پھر حضرت ابن مسعودؓ ان کے ساتھ ان حلقوں تک پہنچے۔ فرمایا:
“یہ کیا کر رہے ہو؟”
انہوں نے کہا: “اے ابا عبدالرحمن! ہم کنکریوں سے تسبیحات گنتے ہیں، تکبیر، تہلیل اور تسبیح کرتے ہیں۔”
ابن مسعودؓ نے فرمایا:
“اپنے گناہ گنو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ اے امتِ محمد ﷺ! تمہاری ہلاکت کتنی جلد آگئی! تمہارے درمیان ابھی نبی ﷺ کے صحابہ موجود ہیں، آپ کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے، برتن بھی نہیں ٹوٹے، اور تم یا تو محمد ﷺ سے زیادہ ہدایت والے دین پر ہو، یا گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو!”
وہ کہنے لگے: “اے ابا عبدالرحمن! ہم نے تو صرف خیر کا ارادہ کیا تھا۔”
ابن مسعودؓ نے فرمایا:
“کتنے ہی لوگ خیر کا ارادہ کرتے ہیں مگر وہ اسے پاتے نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبر دی تھی کہ ایک قوم قرآن پڑھے گی مگر وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا، شاید ان میں سے اکثر تم ہی ہو!”
راوی عمرو بن سلمہ کہتے ہیں:
“بعد میں ہم نے انہی لوگوں کو دیکھا کہ وہ نہروان کے دن خوارج کے ساتھ ہمارے خلاف جنگ کر رہے تھے۔”
📚 روایت کی صحت
✔ تمام رواۃ ثقہ ہیں۔ امام یحییٰ بن معین، ابن سعد، عجلی اور ابن حبان نے ان کی توثیق کی ہے۔
✔ علامہ البانیؒ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
📘 السلسلۃ الصحیحۃ (حدیث: 2005)
✔ متعدد دیگر شواہد سے بھی یہ واقعہ ثابت ہے۔
📖 استدلال و فہم
1️⃣ یہ عمل بظاہر ذکرِ الٰہی پر مشتمل تھا، لیکن حضرت ابن مسعودؓ نے اسے بدعت قرار دیا کیونکہ یہ نبی ﷺ کے طریقے پر نہیں تھا۔
2️⃣ ان لوگوں نے الفاظ وہی استعمال کیے جو سنت سے ہیں، مگر انہوں نے نیا انداز اختیار کیا—حلقوں میں بیٹھ کر اجتماعی ذکر، گنتی کا تعین، ایک شخص کی قیادت۔
3️⃣ ابن مسعودؓ نے فرمایا:
“تم یا تو محمد ﷺ سے زیادہ ہدایت والے دین پر ہو، یا گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو!”
یہ جملہ اس بات کا فیصلہ کن ردّ ہے کہ دین میں نیا طریقہ—even اگر ذکر ہو—گمراہی ہے۔
4️⃣ ان کا یہ کہنا “ہم نے تو خیر کا ارادہ کیا” نیت کے معیار پر مبنی تھا، مگر ابن مسعودؓ نے فرمایا:
“کتنے ہی لوگ خیر کا ارادہ کرتے ہیں مگر اسے پاتے نہیں۔”
یعنی اچھی نیت سنت کی مخالفت کو نیکی نہیں بنا سکتی۔
5️⃣ راوی کے قول “ہم نے انہی کو خوارج کے ساتھ دیکھا” سے ظاہر ہے کہ بدعت کا آغاز چھوٹا ہوتا ہے مگر انجام گمراہی و فتنہ پر۔
📌 نتیجہ
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا طرزِ عمل واضح کرتا ہے کہ:
نیکی کی نیت کے باوجود جو عمل نبی ﷺ سے ثابت نہیں، وہ بدعت ہے۔
عبادات و اذکار میں سنت کے طریقے سے ہٹ کر کوئی نئی ہیئت بنانا ضلالت ہے۔
صحابہ کرامؓ نے بدعتِ حسنہ کے نظریے کو عملاً رد کیا۔
دین میں نجات کا راستہ صرف اتباعِ سنت ہے، نہ کہ خودساختہ طریقے۔
قال ابن مسعود رضي الله عنه:
«اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كُفيتم، وكل بدعةٍ ضلالة.»
📘 سنن الدارمي (رقم: 211)
“اتباع کرو، بدعتیں نہ نکالو؛ تمہیں سنت ہی کافی ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
🌿 بدعتِ حسنہ کے رد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا طرزِ عمل
اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے۔
اس کے تمام اصول، عبادات اور اخلاقی تعلیمات رسول اللہ ﷺ نے واضح فرما دیں۔
دین میں کمی، زیادتی یا اپنی طرف سے اضافہ — خواہ نیکی کے ارادے سے ہو —
اللہ کے نزدیک مردود عمل ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے عمل سے اسی حقیقت کو واضح کیا۔
سنن ترمذی کی درج ذیل روایت اس مسئلے میں نہایت اہم دلیل ہے۔
📜 روایت
عربی متن:
حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا زياد بن الربيع، حدثنا حضرمي مولى آل الجارود، عن نافع،
أن رجلاً عطس إلى جنب ابن عمر، فقال:
الحمد لله والسلام على رسول الله،
فقال ابن عمر:
وأنا أقول الحمد لله والسلام على رسول الله،
وليس هكذا علمنا رسول الله ﷺ،
علمنا أن نقول:
الحمد لله على كل حال.
📘 سنن الترمذي (حديث: 2738)
وقال الألباني: حديث حسن.
💬 ترجمہ
حضرت نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا،
اسے چھینک آئی تو اس نے کہا:
"الحمد لله والسلام على رسول الله”۔
حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا:
“میں بھی یہی الفاظ کہہ سکتا ہوں،
لیکن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس طرح نہیں سکھایا،
بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
‘الحمد لله على كل حال’
یعنی ہر حال میں اللہ کا شکر۔”
📚 سنن الترمذي: 2738
📖 وضاحت
درود و سلام پڑھنا بلاشبہ نیکی ہے، لیکن شریعت نے ہر موقع کے لیے الگ اذکار مقرر کیے ہیں۔
چھینک کے بعد شکر کے کلمات کا طریقہ نبی ﷺ نے خود سکھایا۔
اس موقع پر درود شامل کرنا بظاہر نیکی ہے،
مگر چونکہ یہ نبی ﷺ کے سکھائے ہوئے طریقے سے زائد ہے،
اس لیے یہ عمل مردود ہے۔
حضرت ابن عمرؓ نے اس اضافہ کو روک کر بتا دیا
کہ دینی معاملات میں اپنی طرف سے کچھ بڑھانا درست نہیں —
چاہے وہ عمل بذاتِ خود کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔
⚖ بدعتِ حسنہ کے نظریے کا رد
بریلوی مکتبِ فکر کے اصول کے مطابق،
اگر کسی عبادت یا ذکر میں بظاہر نیک چیز کا اضافہ کیا جائے
تو اسے "بدعتِ حسنہ” کہا جاتا ہے۔
لیکن اگر یہ اصول صحیح ہوتا،
تو حضرت ابن عمرؓ اس شخص کو کبھی نہ روکتے —
کیونکہ درود و سلام پڑھنا خود نیکی ہے۔
مگر صحابیِ رسولؓ نے فرمایا:
“رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ طریقہ نہیں سکھایا۔”
یعنی نبی ﷺ کی تعلیمات پر اضافہ کرنا درست نہیں۔
یہ طرزِ عمل واضح دلیل ہے کہ:
عبادات اور اذکار میں بظاہر نیک اضافہ بھی بدعت ہے۔
اور بدعت کو ترک کرنا واجب ہے۔
💡 نتیجہ
دین مکمل ہے؛ اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا منع ہے۔
سنت میں جو الفاظ اور طریقہ مقرر ہے، صرف وہی قابلِ قبول ہیں۔
بظاہر نیک نظر آنے والا اضافہ بھی بدعت ہے۔
صحابہ کرامؓ نے “بدعتِ حسنہ” کا تصور عملاً ردّ کیا۔
📖 نبی ﷺ نے فرمایا:
«من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردّ»
"جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں، وہ مردود ہے۔”
(صحیح مسلم: 1718)
رفع سبابہ یعنی پورے تشہد میں اُنگلی سے اشارہ
📘 رفع سبابہ یعنی پورے تشہد میں اُنگلی سے اشارہ کرنے پر 25 صحیح احادیث
1️⃣
عن عبدالله بن الزبير رضى الله عنهما قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قعد فى الصلواة وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى، ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى واشار باصبعه
🔹(صحیح مسلم 1192، نووی: باب صفة الجلوس في الصلوة وكيفية وضع اليدين على الفخذين، ابوداؤد 988، وفيه: وأرانا عبدالواحد واشار بالسبابة)
حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں قعدہ (تشہد) فرماتے تو بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کو داہنی ران پر رکھتے اور انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے۔
2️⃣
عن عبدالله بن الزبير رضى الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، ويده اليسرى على فخذه اليسرى، واشار باصبعه السبابة، ووضع ابهامه على اصبعه الوسطى، ويلقم كفه اليسرى ركبته
🔹(صحیح مسلم 1193)
حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعائے تشہد کے لیے قعدہ فرماتے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنی ران پر، اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے، اور انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے، اور اپنا انگوٹھا بیچ والی انگلی پر رکھتے، اور بائیں ہتھیلی کو بایاں گھٹنہ پکڑاتے۔
3️⃣
عن عبدالله بن الزبير رضى الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا جلس فى الثنتين او الاربع يضع يديه على ركبتيه، ثم اشار باصبعه
🔹(سنن نسائی 1166، صحیح)
عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعت پر، یا چار رکعت پر بیٹھتے (قعدہ تشہد فرماتے) تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور اپنی انگشت (شہادت) سے اشارہ فرماتے۔
4️⃣
عن عبدالله بن الزبير رضى الله عنه كان اذا قعد فى التشهد وضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى، واشار بالسبابة، لايجاوز بصره اشارته
🔹(سنن النسائی 1275، سنن ابو داؤد 990، حسن صحیح)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں قعدہ فرماتے تو اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے، اور (داہنے ہاتھ کی) انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے اور اپنی نگاہ اپنے اشارہ سے ہٹاتے نہیں۔
5️⃣
أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ , : قُلْتُ : لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي ؟ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَوَصَفَ , قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى , وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً , ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا
🔹(سنن النسائی 1269، و سنده صحيح صحيح ابن خزيمه 714 منتقي ابن الجارود 208 اور صحيح ابن حبان الاحسان: 1857)
´وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے ( اپنے جی میں ) کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کیسے پڑھتے ہیں ؟ تو میں نے دیکھا ، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کی ، اور کہا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں پیر بچھایا ، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا ، اور اپنی دائیں کہنی کے سرے کو اپنی دائیں ران پر کیا ، پھر اپنی انگلیوں میں سے دو کو سمیٹا ، اور ( باقی انگلیوں میں سے دو سے ) حلقہ بنایا ، پھر اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اسے ہلا رہے تھے ، اس کے ذریعہ دعا مانگ رہے تھے ۔
6️⃣
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , أَنَّهُ : ” رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ ذِرَاعَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ , وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ يَدْعُو بِهَا ” .
🔹(سنن نسائي / كتاب السهو / حدیث: 1265، صحیح)
1️⃣2️⃣
عن وائل بن حجر قال أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأيته اذا جلس فى الركعتين اضجع اليسرى ونصب اليمنى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ونصب اصبعه للدعاء، ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى
🔹(سنن نسائی 1159، صحیح)
1️⃣3️⃣
عن وائل بن حجر قال قلت لأنظرن الى صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي فافترش رجله اليسرى ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى وحد مرفقه الايمن على فخذه اليمنى، وقبض ثنتين وحلق ورأيته يقول هكذا واشار بالسبابة من اليمنى، وحلق الابهام والوسطى
🔹(سنن نسائی 1265، سنن ابوداؤد 957، 726 بطریق بشر بن المفضل عن عاصم بن كليب عن ابيه عن وائل بن حجر، نیز ابو داؤد 727 بطریق زائدة عن عاصم بن کلیب باسنادہ ومعناه، صحیح)
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ آپ قعدہ تشہد میں بیٹھے تو بایاں پاؤں بچھایا، اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا، اور (داہنے ہاتھ کی) دو انگلیوں کو بند کر دیا (یعنی چھنگلی اور اس کے پاس والی انگلی)، اور انگوٹھے اور بیچ والی انگلی سے حلقہ (دائرہ) بنایا، اور انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔
1️⃣4️⃣
عن وائل بن حجر أنه رأى النبى صلى الله عليه وسلم جلس فى الصلوة فافترش رجله اليسرى ووضع ذراعيه على فخذيه واشار بالسبابة يدعو بها
🔹(سنن النسائی 1264، صحیح)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں قعدہ تشہد کے لیے بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھا دیا، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی دونوں رانوں پر رکھا، اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا، دعا کرتے ہوئے۔
1️⃣5️⃣
عن وائل بن حجر قال رأيت النبى صلى الله عليه وسلم قد حلق الابهام والوسطى ورفع التى تليها يدعو بها فى التشهد
🔹(سنن ابن ماجہ 912، صحیح)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے انگوٹھے اور بیچ والی انگلی سے حلقہ (دائرہ) بنایا، اور ان دونوں سے ملی انگلی (یعنی انگشت شہادت) کو اٹھایا (اشارہ کیا) تشہد میں دعا کرتے ہوئے۔
1️⃣6️⃣
عن وائل بن حجر قال قلت لأنظرن الى صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلى؟ فنظرت اليه فوصف قال ثم قعد وافترش رجله اليسرى ووضع كفه اليسرى على فخذه وركبته اليسرى وجعل حد مرفقه الايمن على فخذه اليمنى، ثم قبض ثنتين من اصابعه وحلق حلقة، ثم رفع اصبعه فرأيته يحركها يدعو بها
🔹(سنن نسائی 981 و 1268، صحیح)
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کیسے پڑھتے ہیں۔
چنانچہ میں نے دیکھا آپ نے قعدہ (تشہد) کیا تو اپنا بایاں پاؤں بچھا دیا، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور اپنے بائیں گھٹنہ پر رکھا، اور داہنے ہاتھ کی کہنی داہنی ران پر رکھی، پھر داہنے ہاتھ کی انگلیوں میں سے دو انگلیاں (چھنگلی اور اس کے پربار والی انگلی) بند کر لیں اور (انگوٹھا اور بیچ والی انگلی سے) دائرہ بنایا، پھر انگشت شہادت کو اٹھایا؛ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا انگشت شہادت کو حرکت دیتے ہوئے، اس سے دعا کرتے ہوئے۔
1️⃣7️⃣
اجتمع ابوحميد الساعدي و ابواسيد و سهل بن سعد و محمد بن مسلمة رضي الله عنهم فذكروا صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ابو حميد أنا اعلمكم بصلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما جلس يعني للتشهد فافترش رجله اليسرى واقبل بصدره اليمنى على قبلته، ووضع كفه اليمنى على ركبته اليمنى، وكفه اليسرى على ركبته اليسرى واشار باصبعه, يعني السبابة
🔹(جامع ترمذی 293، سنن ابوداؤد 734، صحیح)
حضرت ابوحمید ساعدی، حضرت ابواسید، حضرت سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم ایک مجلس میں جمع تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا تو ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں میں تم سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔
(پھر مطالبہ پر عملِ نبوی کی کیفیت بیان فرمائی اور اس میں قعدہ تشہد کی کیفیت ذکر کی)
کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے لئے بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا، دائیں پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ موڑ دیا، داہنی ہتھیلی کو دائیں گھٹنے پر رکھا، بائیں ہتھیلی کو بائیں گھٹنے پر رکھا، اور انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔
1️⃣8️⃣
عن ابي هريرة رضى الله عنه أن رجلا كان يدعو باصبعيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد، أحد
🔹(سنن النسائي 1272، جامع ترمذی 3557، صحیح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص (قعدہ تشہد میں) دعا کرتے ہوئے دو انگلیوں سے اشارہ کر رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایک انگلی سے، ایک انگلی سے۔”
1️⃣9️⃣
عن سعد رضى الله عنه قال مر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا ادعو باصابعي، فقال: أحد، أحد
🔹(سنن النسائی 1273، صحیح)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور میں (نماز کے اندر قعدہ تشہد میں) اپنی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے دعا کر رہا تھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایک انگلی سے، ایک انگلی سے۔”
🟦 نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ
2️⃣0️⃣
عن نمير الخزاعي رضى الله عنه قال رأيت النبى صلى الله عليه وسلم واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا اصبعه السبابة وقد احناها شيئا وهو يدعو
🔹(سنن ابوداؤد 991، سنن النسائی 1274، قال العلامة الألباني: منكر بزيادة الإحناء وبغيرها صحيح)
حضرت نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اپنی داہنی ران پر رکھا ہوا تھا، اور (تشہد میں) دعا کرتے ہوئے اپنی انگشت شہادت کو اٹھایا ہوا تھا، اور اسے تھوڑا سا جھکایا ہوا تھا۔
🌿 وضاحت:
اس حدیث میں الفاظ "وقد احناها شيئا” (کہ انگشت اشارہ کو تھوڑا جھکائے ہوئے تھے) — یہ سند صحیح سے ثابت نہیں۔
باقی پوری حدیث صحیح ہے۔
2️⃣1️⃣
عن نمير الخزاعي رضى الله عنه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى فى الصلوة واشار باصبعه
🔹(سنن النسائی 1271، سنن ابن ماجه 911، صحیح)
حضرت نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے داہنے ہاتھ کو اپنی داہنی ران پر رکھے ہوئے تھے، اور اپنی انگشت (شہادت) سے اشارہ فرمایا۔
2️⃣2️⃣
عن خفاف بن ايماء الغفاري رضى الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا جلس فى آخر صلوته يشير باصبعه السبابة، وكان المشركون يقولون يسحر بها، وكذبوا ولكنه التوحيد
🔹رواہ الطبرانی
🔹وقال الهيثمي: رجاله ثقات
📘 (مجمع الزوائد 140/2)
2️⃣3️⃣
وفي رواية عنه قال: انما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع ذلك يوحد بها ربه عزوجل
🔹(مسند احمد، الفتح الربانی جلد 4 ص 12/716)
حضرت خفاف بن ایما غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخر صلوٰة میں (یعنی تشہد میں) قعدہ فرماتے تو اپنی انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے۔
مشرکین کہتے تھے: "آپ اس سے جادو کرتے ہیں۔”
جھوٹ کہا ان مشرکین نے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے توحیدِ الٰہی یعنی اپنے رب عزوجل کی وحدانیت کا اظہار و اعلان فرماتے تھے۔
2️⃣4️⃣
عن ابن عباس رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هكذا الاخلاص يشير باصبعه التى تلي الابهام
🔹(سنن کبری بیہقی جلد 2 ص 132)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہ ہے اخلاص” — اور انگوٹھے کے بغل والی انگلی (یعنی انگشت شہادت) سے اشارہ فرمایا۔
2️⃣5️⃣
عن عبدالرحمن بن ابزى رضى الله عنه قال كان النبى صلى الله عليه وسلم يقول فى صلوته هكذا، واشار باصبعه السبابة
🔹رواہ الطبرانی فی الکبیر
🔹قال الهيثمي في مجمع الزوائد 140/2: لم يروه عنه غير منصور بن المعتمر
🔹قلت: هو مؤثر من رجال الصحة
حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اس طرح کرتے تھے، اور پھر انہوں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
🌿 مزید اقوالِ ائمہ:
علامہ عابد سندھی رحمہ اللہ نے طوالع الانوار شرح در مختار میں لکھا ہے کہ تشہد میں انگلی اٹھانے سے متعلق ستائیس اٹھائیس صحابہ سے روایات مروی ہیں۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے رسالہ تزئين العبارة بتحسين الاشارة میں یہی لکھا ہے۔
🔹(فتاویٰ نذیریہ جلد 1 ص 506)
📘 پورے تشہد میں شہادت کی اُنگلی کو حرکت دینا بھی مسنون عمل ہے
جیسا کہ ہم نے 25 صحیح احادیث پیش کیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پورے تشھد میں شہادت والی اُنگلی اُٹھانا، اس کے ساتھ اشارہ کرنا اور نظریں اسی پر مرکوذ رکھنا نبیﷺ کی سنت ہے، اس طرح دوران تشہد اُنگلی کو حرکت دینا بھی ایک مسنون عمل ہے۔
🟦 حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث
ثُمَّ رَفَعَ اُصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُوْ بِهَا
🔹[نسائي 1269]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایا پھر اسے حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔“
مولوی سلام اللہ حنفی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں:
وِفِيْهِ تَحْرِيْكُهَا دَائِمًا اِذَا الدُّعَاءُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ
”اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا چاہیے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے۔“
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَفِيْهِ دَلِيْلٌ عَلٰي اَنَّ السُّنَّةَ اَنْ يَّسْتَمِرَّ فِي الْاِشَارَةِ وَفِيْ تَحْرِيْكِهَا اِلَي السَّلَامِ
🔹[صفة صلاة النبى ص 158]
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے۔“
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھانے یا "اشہد اللہ” پر اٹھانے کی کوئی دلیل؟
اس بارے میں صحیح احادیث میں کوئی دلیل موجود نہیں۔
بلکہ یہ عمل مذکورہ صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟥 عدمِ تحریک والی روایت — مکمل تحقیقی وضاحت
سنن ابی داؤد [رقم: 989] میں ہے:
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو انگلی سے اشارہ کرتے اور اسے حرکت نہ دیتے تھے۔
یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ:
1️⃣ اس کی سند میں محمد بن عجلان ہے — اور وہ مدلس راوی ہے۔
2️⃣ وہ عن سے روایت کرتا ہے، سماع کی کوئی صراحت نہیں۔
3️⃣ اصولِ حدیث کے مطابق:
”صحیحین کے علاوہ کسی روایت میں اگر مدلس راوی ‘عن’ سے روایت کرے، اور سماع کی تصریح نہ کرے تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔“
🔹[تقریب التہذیب: ت 6136، ص 553]
🔹[مقدمہ ابن الصلاح: ص 60]
🔹[فتاویٰ رضویہ: جلد 5، ص 245]
مزید یہ کہ:
چار ثقہ راویوں نے عامر بن عبداللہ سے یہی روایت بیان کی ہے
لیکن کسی ایک میں ’’لا یحرکها‘‘ کے الفاظ نہیں
لہٰذا یہ الفاظ شاذ ہیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی محمد بن عجلان کے طریق سے یہی روایت ذکر کی ہے — وہاں بھی "لا یحرکها” نہیں ہے۔
دوسری طرف وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو:
ابن ملقن
ابن قیم
امام نووی
علامہ البانی
سب نے صحیح قرار دیا ہے۔
لہٰذا تحریک والی روایت ہی راجح اور معتبر ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 اشارہ والی احادیث، تحریک والی احادیث کے خلاف نہیں
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث:
فَاَشَارَ اِلَيْهِمْ اَنِ اجْلِسُوْا
🔹[بخاري 688]
”آپ ﷺ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔“
یہ اشارہ حرکت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
لہٰذا اشارہ والی احادیث، تحریک والی احادیث کی تائید کرتی ہیں، مخالفت نہیں۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث
لَهِيَ اَشَدُّ عَلَي الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيْدِ
🔹[صفة صلاة النبى ص159]
”یہ انگلی شیطان کے لیے لوہے سے بھی سخت ہے۔“
اس میں نہ حرکت کی نفی ہے، نہ اثبات —
لہٰذا اسے ’’عدمِ تحریک‘‘ کی دلیل بنانا غلط ہے۔
اگر کوئی اسے دونوں عمل کے جواز پر محمول کرے تو علامہ صنعانی نے سبل السلام میں اسی کو راجح کہا ہے۔
لیکن تحقیق کے مطابق حرکت زیادہ قوی ہے کیونکہ:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے پوری نماز کا تفصیلی بیان کیا
خاص اہتمام سے تشہد کے اعمال ذکر کیے
اور حرکت کا صریح بیان بھی انہی کے پاس ہے
لہٰذا ان کی روایت کو ترجیح حاصل ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 مزید تفصیل کے لیے
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی کتاب:
"تمام المنة”
کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے، جس میں اس مسئلے کی مکمل تحقیق موجود ہے۔
🟦 مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی کا اعتراف
مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی سلام تک انگلی سے اشارہ کرنے کے قائل تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ:
"ترمذی کی کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے بعد فلاں دعا پڑھی اور اس میں سبابہ شہادت کی انگلی سے اشارہ فرما رہے تھے، اور ظاہر ہے کہ دعا قریب سلام کے پڑھی جاتی ہے، پس ثابت ہو گیا کہ آخر تک اس کا باقی رکھنا حدیث میں منقول ہے۔”
🔹[تذکرۃ الرشید، صفحہ 164، باب تفقه وافتاء، مکتبہ دارالکتاب دیوبند]
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 امام نافع رحمہ اللہ کا بیان — انگلی کا اشارہ شیطان پر لوہے سے سخت
امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد کے لیے نماز میں بیٹھتے تو:
ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے
انگلی سے اشارہ کرتے
اور نظر انگلی پر رکھتے
پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَهِي أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيدِ
(یعنی انگشتِ شہادت کا یہ اشارہ شیطان کے لیے لوہے کی چوٹ، اس کی تلوار یا چھری سے زیادہ سخت ہے)
🔹[مسند احمد 2000 / مشکوٰۃ: کتاب الصلاۃ، حدیث 179 / سندہ حسن]
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟥 غلط اعتراض: "اگر ایک بار نشانہ بنا دیا جائے تو کافی ہے”
بعض لوگ کہتے ہیں:
"شیطان پر بار بار حملے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک وار ہی کافی تھا!”
یہ بات سنت کو مٹانے والی، اور شیطان کی دوستی کرنے والی بات ہے۔
ایسے لوگ سنت کے مقابلے میں اپنی عقل کو فوقیت دیتے ہیں۔
ان کے ہاں نماز کی کوئی وقعت نہیں۔
اللہ ہمیں ہدایت دے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 خلاصہ کلام (فقہی نتیجہ)
✔ تشہد میں بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھا جائے۔
✔ دایاں ہاتھ بند کر کے دائیں ران پر رکھا جائے۔
✔ دو کنارے کی انگلیاں بند ہوں۔
✔ درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنایا جائے۔
✔ شہادت کی انگلی کو ہلکا سا خم دے کر اٹھایا جائے۔
✔ اور پورے تشہد میں سلسلہ وار حرکت دی جائے — جیسے کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟥 تنبیہ بلیغ
بریلویوں، دیوبندیوں اور حنفیوں کے ہاں جو انگلی اٹھانے کا طریقہ رائج ہے،
وہ سند صحیح سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں۔
اگر کسی کے پاس کوئی صحیح سند ہو تو پیش کرے — "منہ مانگا انعام” دیا جائے گا۔
مگر شرط ہے کہ سند صحیح ہو۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 ایک گزارش — "سند مانگنے” پر گالی دینا جہالت ہے
بعض لوگ جب کسی مسئلے میں سند مانگی جائے تو فوراً گالی دینے لگتے ہیں۔
مثلاً کہتے ہیں:
"اپنے باپ کی سند لاؤ!” — یہ بے حیائی، جہالت، اور فرار ہے۔
سند مانگنا کوئی نئی بات نہیں، بلکہ قرآن، حدیث، صحابہ، تابعین، ائمہ — سب اسی اصول پر چلتے ہیں۔
📖 قرآن کریم
قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ ﴿١٠﴾
(ہلاک ہو گئے بے سند باتیں گھڑنے والے)
🔹[الذاریات: 10]
📖 حدیثِ نبوی
كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع
🔹[مقدمہ صحیح مسلم]
(آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا پھرے)
📖 امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ
إن هذا الحديث دين فانظروا عمن تأخذوه
🔹[الجرح والتعديل لابن أبی حاتم 2/15]
(یہ حدیث دین ہے، دیکھو دین کس سے لے رہے ہو)
📖 امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ
الإسناد من الدين، ولولا الإسناد قال من شاء ما شاء
🔹[مقدمہ صحیح مسلم]
(سند دین ہے، اگر سند نہ ہوتی تو ہر آدمی جو چاہتا کہہ دیتا)
📌 لہٰذا:
سند مانگنے پر غصہ نہیں کرنا چاہیے —
حق سامنے آجائے تو رجوع کرنا چاہیے۔
اللہ ہمیں حق کے آگے جھکنے کی توفیق دے۔ آمین۔
عید الاضحی، حج اور عشرۂ ذوالحجہ
────────────────────
🕋 عَشرۂ ذُوالْحِجَّہ کی فضیلت 🕋
────────────────────
🌟 سال کے بارہ مہینوں میں ذُوالْحِجَّہ کے ابتدائی دس دن وہ عظیم ایام ہیں جنہیں کتاب و سنت میں بےپناہ فضیلت حاصل ہے۔
📖 اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
وَالفَجْرِ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ…
[سورہ الفجر: 1-3]
🔹 جمہور مفسرین کے نزدیک "لَيَالٍ عَشْرٍ” سے مراد ذُوالْحِجَّہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔
📌 اللہ کا ان راتوں کی قسم کھانا ہی ان کی فضیلت کے لیے کافی ہے!
🌺 صحیح بخاری میں حدیث ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
❝اللہ کو ان دس دنوں میں نیک عمل اتنا محبوب ہے جتنا کسی اور دن میں نہیں❞
صحابہؓ نے عرض کیا:
یارسول اللہ! جہاد بھی نہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
❝جہاد بھی نہیں، سوائے اس شخص کے جو جان و مال کے ساتھ نکلا اور کچھ واپس نہ آیا❞
[ 969 :صحیح بخاری]
📌 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عَشرۂ ذُوالْحِجَّہ کے نیک اعمال، عام دنوں کے بڑے بڑے اعمال سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔
📚 بعض علماء نے فرمایا:
👉 دن کے اعتبار سے ذُوالْحِجَّہ کے ابتدائی دس ایام افضل ہیں (یوم عرفہ کی وجہ سے)
👉 راتوں کے اعتبار سے رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں افضل ہیں (شبِ قدر کی وجہ سے)
[مرعاة المفاتيح: 2/357]
🔹 یہ بھی اس عشرہ کی خصوصیت ہے کہ:
نماز، روزہ، حج، عمرہ، قربانی — جیسی عظیم عبادات ایک ساتھ اسی عشرہ میں جمع ہوتی ہیں۔
🌿 لہٰذا…!
ان مبارک دنوں میں ان عبادات کا خاص اہتمام کریں:
📍 نماز
📍 روزہ
📍 تلاوتِ قرآن
📍 ذکر و اذکار، تسبیح، تہلیل، تکبیر و تحمید
📍 صدقہ و خیرات
📌 ان ایام میں نیکیوں کا وزن بہت بھاری ہے، اس موقع کو غنیمت جانیں!
📚 حوالہ:
[مرعاة المفاتيح: 2/357]
──────────────
📤 شیئر کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں!
━━━━━━━━━━━
📿 عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی کرنے والوں کے لیے اہم ہدایت
━━━━━━━━━━━
🔸 جو قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، ان کے لیے عشرۂ ذی الحجہ شروع ہونے کے بعد جسم کے کسی بھی حصے کے بال کاٹنے یا ناخن ترشوانے کی ممانعت ہے۔
📖 صحیح مسلم کی روایت میں فرمایا گیا:
"جب ذی الحجہ کا چاند نظر آ جائے اور کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔”
(صحیح مسلم: 5117)
📌 اس حدیث کی روشنی میں:
▪️ بال یا ناخن کاٹنا حرام ہے۔
▪️ امام احمد، اسحاق، داود ظاہری اور بعض شوافع کے نزدیک یہی راجح ہے۔
▪️ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ مباح ہے۔
━━━━━━━━━━━
📿 جو قربانی نہ کر سکے ان کے لیے کیا حکم ہے؟
━━━━━━━━━━━
❇️ جن کے پاس استطاعت نہیں، ان پر یہ حکم لاگو نہیں ہوتا۔
البتہ سنن ابی داؤد میں اشارہ ملتا ہے کہ اگر کوئی قربانی نہ کر سکے تو:
✂️ اپنے بال اور ناخن کاٹ لے
🧼 صفائی کرے
تو اللہ کے ہاں اسے مکمل قربانی کا ثواب حاصل ہو گا۔
(سنن ابی داؤد: 2789)
📚 علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا،
لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور بعض دیگر محدثین کے نزدیک یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔
📌 مکمل حوالہ جات اور دلائل کے لیے مکمل مضمون پڑھیں:
👇👇👇
https://tohed.com/afe162
━━━━━━━━━━━
🤲 اللہ ہمیں صحیح علم، اخلاص اور سنت کی پیروی کی توفیق دے۔ آمین
🟫 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
🕋 عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل اور تکبیرات کا مشروع ہونا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تہلیل: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه»
تکبیر: «اللّٰهُ أَكْبَر»
تحمید: «الْحَمْدُ لِلّٰهِ»
یہ اذکار عشرۂ ذوالحجہ کے خاص اعمال میں سے ہیں، جن کا صریح ذکر احادیث میں ملتا ہے۔
📖 اصل دلیل (حدیث ابنِ عمرؓ)
عربی:
«ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر، فَأَكْثِرُوا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد»
حوالہ: مسند احمد (صحیح)، رقم 5446
ترجمہ:
“اللہ کے نزدیک (ذوالحجہ کے) دس دنوں سے زیادہ عظیم اور ان دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب کوئی عمل نہیں؛ لہٰذا ان ایام میں کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کہا کرو۔”
فقہی نکتہ: اس حدیث کی بنیاد پر علماء نے واضح کیا کہ ابتداے ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ (ایامِ تشریق کے آخر) تک ہر وقت — زمان و مکان کی قید کے بغیر — تکبیر/تہلیل/تحمید مشروع و مستحب ہیں۔
🕯️ صحابہؓ کا عمل (بخاری کی روایت)
عربی:
«أن أبا هريرة وابن عمر رضي الله عنهما كانا يخرجان إلى السوق في أيام العشر، فيكبران ويكبر الناس بتكبيرهما»
حوالہ: صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل في أیام التشریق
ترجمہ:
“ابوہریرہؓ اور ابن عمرؓ عشرۂ ذوالحجہ میں بازار جاتے، بلند آواز سے تکبیر کہتے، اور لوگوں کی تکبیروں سے ماحول گونج اٹھتا۔”
🧭 ائمہ کے آثار/تصریحات
امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ: «وكان مشايخنا يقولون بالتكبير في أيام العشر كلّها»
حوالہ: مرعاة المفاتیح 2/357علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ:
“تکبیرات شروعِ ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ تک مشروع و مستحب ہیں؛ صرف نمازوں کے بعد یا مردوں/شہریوں تک محدود سمجھنا درست نہیں — یہ ایام ہر مسلمان کے لیے ہر جگہ عام ہیں۔”
حوالہ: مرعاة المفاتیح 2/357
🕯️ کلماتِ تکبیر (احادیث و آثار سے ثابت)
«اللّٰهُ أَكْبَر، اللّٰهُ أَكْبَر، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه، وَاللّٰهُ أَكْبَر، اللّٰهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْد»
سند: صحیح
حوالہ: مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث 5646«اللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللّٰهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اللّٰهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْد»
سند: صحیح
حوالہ: مصنف ابن أبی شیبہ 5645، الأوسط للطبرانی 4/301، السنن الکبری للبیہقی 3/314–315«اللّٰهُ أَكْبَر، اللّٰهُ أَكْبَر، اللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا»
سند: صحیح
حوالہ: السنن الکبری للبیہقی 3/316، فضائل الأوقات ص 424، رقم 227
حافظ ابن حجرؒ: “الفاظِ تکبیر میں سب سے زیادہ صحیح و معتبر یہی الفاظ ہیں۔”
حوالہ: فتح الباری 2/462
نوٹ: یہ صیغے صحابہ و تابعین کے آثار سے ثابت ہیں؛ صحیح مرفوع حدیث میں الفاظِ تکبیر متعین نہیں۔
✅ عشرہ زوالحجہ میں کرنے کے کام:
کثرت سے: تہلیل، تکبیر، تحمید
نمازوں کی پابندی + نوافل/تلاوت
روزہ (بالخصوص 9 ذوالحجہ/عرفہ — مقیم، غیر حاجی)
صدقہ و خیرات، صلہ رحمی
قربانی کی نیت ہو تو بال/ناخن نہ کاٹنا (مسلم 5117)
🤲 اللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الذَّاكِرِينَ فِي هَذِهِ الأَيَّامِ الْمُبَارَكَةِ، وَتَقَبَّلْ مِنَّا يَا كَرِيمُ.
📿 عشرۂ ذوالحجہ کے روزے اور یومِ عرفہ کی فضیلت 📿
━━━━━━━━━━━━━━━
🌙 ذوالحجہ کے ابتدائی 9 دنوں کے روزے:
ازواجِ مطہرات میں سے ایک سے روایت ہے:
«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ…»
📗 [صحیح سنن ابی داود: حدیث 2437]
یعنی رسول اللہ ﷺ ذوالحجہ کے نو دنوں، یوم عاشوراء، اور ہر مہینہ میں تین دن کے روزے رکھتے تھے۔
📌 اس حدیث سے ذوالحجہ کے ابتدائی 9 دنوں میں نفلی روزوں کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔
🤔 اعتراض اور اس کا جواب:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
«مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ قَطُّ»
📘 [صحیح مسلم: حدیث 2789]
🔸 ترجمہ: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو عشرہ (ذوالحجہ) میں کبھی روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔”
علماء کے جوابات:
1️⃣ حضرت عائشہؓ نے یہ بات اپنے علم کے مطابق کہی۔
2️⃣ ممکن ہے بیماری یا سفر کی وجہ سے نبی ﷺ نے روزہ نہ رکھا ہو۔
3️⃣ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض اوقات آپ ﷺ کسی عمل کو امت پر فرضیت کے خوف سے چھوڑ دیتے تھے۔
📚 تفصیل کے لیے رجوع کریں:
▫️ فتح الباری: جلد 2، صفحہ 559، حدیث 969
▫️ شرح النووی علی صحیح مسلم: جلد 8، صفحہ 312، حدیث 2781
━━━━━━━━━━━━━━━
🕋 یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت:
━━━━━━━━━━━━━━━
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ: يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ»
📕 [صحیح مسلم: حدیث 1162]
🔸 ترجمہ: رسول اللہ ﷺ سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔”
🔹 غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ مستحب ہے۔
🔹 حجاج کے لیے بہتر ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں تاکہ عرفات میں مکمل طاقت کے ساتھ دعا و ذکر میں مشغول رہیں۔
━━━━━━━━━━━━━━━
📅 یومِ عرفہ کا روزہ کب رکھا جائے؟
━━━━━━━━━━━━━━━
یوم عرفہ = 9 ذوالحجہ
یعنی جس دن حجاج میدان عرفہ میں وقوف کرتے ہیں۔
🔍 دو موقف:
1️⃣ ہر ملک کی مقامی رؤیت کے مطابق 9 ذوالحجہ کو روزہ رکھا جائے۔
📌 دلیل: حدیث «تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ» (سنن ابی داود 2437)
2️⃣ وہ دن منتخب کیا جائے جب حجاج عرفات میں وقوف کر رہے ہوں، یعنی سعودی رؤیت کی بنیاد پر۔
📌 دلیل: حدیث «صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ» (صحیح مسلم 1162)
🔸 بعض علماء کا موقف ہے کہ برصغیر کے حساب سے جب 9 ذی الحجہ ہوتی ہے، تو سعودی عرب میں 10 یا 11 ہو چکی ہوتی ہے، جو یوم عرفہ نہیں ہوتا۔
📌 دونوں موقف کے دلائل موجود ہیں، جس پر جس کو اطمینان ہو، وہ عمل کر سکتا ہے۔
⭐ میرا ذاتی رجحان پہلے موقف کی طرف ہے (مقامی رؤیت کے مطابق 9 ذی الحجہ کو روزہ رکھا جائے)
کیونکہ:
▪️ دین میں سہولت اور آسانی ہے
▪️ پہلے لوگ وقوف عرفہ کی صحیح تاریخ جاننے سے قاصر تھے
▪️ ایسی مشقت دین میں مطلوب نہیں – تکلیف مالا یطاق
🔖 واللہ أعلم بالصواب
────────────────────
📌 کیا ہر عیب قربانی کے لیے رکاوٹ ہے؟
────────────────────
قربانی ایک اہم شرعی فریضہ ہے جس کے لیے شریعت نے واضح ہدایات دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے وہ عیوب بھی بیان کر دیے ہیں جو قربانی کی قبولیت میں مانع ہیں۔
❖ ہر عیب قربانی کو نامنظور نہیں کرتا، بلکہ صرف مخصوص بڑے عیوب کو رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔
اگر ہر قسم کا عیب قربانی کے لیے مانع ہوتا تو اس کا واضح حکم دیا جاتا۔
✨ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ چند بڑے عیوب کے سوا باقی کسی عیب کو قربانی کے لیے رکاوٹ نہیں سمجھا گیا۔
════════════════════
🔸 قربانی کے عیوب 🔸
════════════════════
قربانی کے جانور کا دوندا ہونا ضروری ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں مذکور ہے:
📗 صحیح مسلم:
❝ ضَحُّوا بِالثَّنِيَّةِ مِنَ الْمَعْزِ. ❞
➤ "قربانی کا جانور دوندا ہونا چاہیے۔”
(صحیح مسلم: ١٩٦٣)
اس کے علاوہ، قربانی کے جانور کو درج ذیل عیوب سے پاک ہونا چاہیے:
📜 سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
❝ أَرْبَعٌ لاَ تُجْزِئُ فِي الأَضَاحِيِّ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلَعُهَا، وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لاَ تُنْقِي. ❞
➤ "چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں:
1️⃣ ایسا کانا جانور جس کا کانا پن واضح ہو۔
2️⃣ ایسا بیمار جانور جس کی بیماری نمایاں ہو۔
3️⃣ ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔
4️⃣ ایسا لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔”
(📚 مسند الإمام أحمد: 4/84، سنن أبو داود: 2802، سنن الترمذی: 1497، سنن النسائی: 4374، سنن ابن ماجہ: 314)
────────────────────
🔍 مزید تفصیل:
────────────────────
📜 سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے جانور کی آنکھوں اور کانوں کو بغور دیکھنے کا حکم دیا۔
(📚 سنن الترمذی: 1503، سنن النسائی: 4381، سنن ابن ماجہ: 3143)
📜 سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مزید بیان ہے:
❝ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُضَحَّى بِمَقْطُوعِ الأُذُنِ وَالْقَرْنِ. ❞
➤ "نبی اکرم ﷺ نے کٹے ہوئے کان اور ٹوٹے سینگ والے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔”
(📚 سنن أبو داود: 2805، سنن الترمذی: 1503، سنن النسائی: 4382، سنن ابن ماجہ: 3145)
════════════════════
🟢 خصی جانور کی قربانی
════════════════════
نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے مخصوص عیوب بیان کیے ہیں، اور خصی جانور ان میں شامل نہیں ہے۔ اس کے بارے میں محدثین اور فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا، خصی جانور کی قربانی کو جائز سمجھا گیا ہے۔
📚 علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
❝ اس بارے میں کوئی اختلاف ہمارے علم میں نہیں آیا۔ ❞
(المغنی: 3/476، 9/442)
📚 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے:
❝ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ❞
(📘 مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ بروایۃ إسحاق بن منصور الکوسج: 368/2)
════════════════════
❓ کیا صرف خصی ہونا ہی عیب ہے؟
════════════════════
کئی اور ایسے عیوب ہیں جو عموماً جانور میں پائے جاتے ہیں، مگر انہیں قربانی کے لیے رکاوٹ نہیں سمجھا جاتا، جیسے:
▪️ جانور کا قد چھوٹا ہونا۔
▪️ جانور کا رنگ بھدا ہونا، جس سے اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔
▪️ مادہ جانور کا حاملہ نہ ہونا۔
یہ تمام عیوب اس لیے قربانی میں مانع نہیں بنتے کیونکہ شریعت نے انہیں قربانی کے عیوب میں شامل نہیں کیا ہے۔
✨ اسی طرح خصی جانور کو بھی عیب نہیں سمجھا جاتا۔
════════════════════
📌 خلاصہ
════════════════════
➤ صرف چند مخصوص بڑے عیوب ہی قربانی کے جانور کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔
➤ خصی جانور اور دیگر چھوٹے عیوب قربانی کو نامنظور نہیں کرتے، جب تک کہ شریعت نے انہیں واضح طور پر بیان نہ کیا ہو۔
عن زياد بن جبير رضي الله عنه قال:
"رأيت ابن عمر أتى على رجل قد أناخ بدنته، فنحرها، فقال: ابعثها قياماً مقيّدة، سنّة محمد ﷺ”
(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب نحر الابل مقيدة، ح: 1713)
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب نحر البدن قیاماً مقيدة، ح: 1320)
📚 ترجمہ:
زیاد بن جبیرؒ فرماتے ہیں:
"میں نے سیدنا ابن عمرؓ کو دیکھا کہ وہ ایک شخص کے پاس آئے جس نے اونٹ کو بٹھا کر قربان کیا، تو آپؓ نے فرمایا: اونٹ کو کھڑا کر کے اس کے پاؤں باندھ کر قربانی کرو، یہی سنتِ محمد ﷺ ہے۔”
📌 شرح حدیث:
اونٹ کو قربانی کے وقت کھڑا رکھ کر بائیں پاؤں کو باندھ دینا سنت نبوی ﷺ اور عمل صحابہ ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ تھا۔
🗣 شرح المفردات:
🔸 أناح: عرب میں اونٹ کو بٹھانے کی مخصوص آواز۔
🔸 فعل: ماضی، واحد مذکر، باب افعال۔
👤 راوی الحدیث:
زیاد بن جبیرؒ ثقہ تابعی تھے، اور آپ کے والد بھی جلیل القدر تابعی تھے۔ تعلق قبیلہ بنو ثقیف سے تھا۔
────────────────────
📌 اونٹ اور گائے کتنے افراد کی طرف سے کفایت کرتے ہیں؟
────────────────────
📖 حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"أمرنا رسول الله ﷺ أن نشترك فى الإبل والبقر كل سبعة منا فى بدنة”
"رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں (ایسے) شریک ہوں کہ ہر سات افراد ایک اونٹ یا گائے میں شریک ہوں۔”
(مسلم: 1318، کتاب الحج: باب الاشتراك فى الهدى)
📖 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"فذبحنا بقرة عن سبعة، والبعير عن عشرة”
"ہم نے گائے سات آدمیوں کی طرف سے اور اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا۔”
(صحیح ابن ماجہ: 2536، کتاب الأضحیٰ: باب لمن لم تجزئ البدنة والبقرة)
📌 وضاحت:
ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں —
🔹 اگر قربانی حج یا عمرہ کے موقع پر بطور ہدی ہو، تو اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے کفایت کرتے ہیں۔
🔹 اور اگر صرف عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی ہو تو اونٹ دس افراد کی طرف سے کفایت کر سکتا ہے، جیسا کہ ابن عباسؓ کی حدیث سے واضح ہے۔
──────────────
📚 سنت کے مطابق قربانی کا علم حاصل کیجیے اور دوسروں تک پہنچائیے 🕌
━━━━━━━━━━ ❀ ━━━━━━━━━━
📜 اشعار (منیٰ میں قربانی سے پہلے اونٹ کو داہنی جانب زخم دینا)
✦ سنتِ نبوی ﷺ، اور اس پر سلف صالحین کا عمل ✦
━━━━━━━━━━ ❀ ━━━━━━━━━━
ہدی (منیٰ میں قربانی) کےلیے اونٹ کو داہنی جانب جو زخم لگایا جاتا تھا، اسے ‘‘ اشعار’’ کہتے ہیں۔ یہ نبی اکرمﷺ کی سنت مبارکہ ہے، جیسا کہ:
❀ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
صلّی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم بذی الحلیفۃ، ثمّ دعا بناقتہ، فأشعرھا فی صفحۃ سنامھا الأیمن، وسلت الدّم، وقلّدھا نعلین، ثمّ رکب راحتلہ، فلمّا استوت بہ علی البیداء أھلّ بالحجّ۔
‘‘ رسول اللہﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ مقام پر ادا کی، پھر اپنی اونٹنی منگوائی، اس کی کوہان کی دائیں جانب اشعار کیا اور خون کو آس پاس لگا دیا اور اس کے گلے میں دو جوتے لٹکا دئیے، پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ جب وہ سواری آپﷺ کو لے کر بیداء پر چڑھ گئی تو آپﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔’’
(صحیح مسلم: ۱۲۴۳)
امام ترمذیؒ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
والعمل علی ھذا عند أھل العلم من أصحاب النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم و غیرھم، یرون الإشعار، وھو قول الثّوریّ والشّافعیّ و أحمد وإسحاق۔
‘‘ اسی پر نبی اکرمﷺ کے صحابہ اور دوسرے اہل علم کا عمل ہے، وہ اشعار کو جائز سمجھتے ہیں۔ امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔’’
(سنن الترمذی، تحت حدیث: ۹۰۶)
❀ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
فتلت قلائد بُدن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم بیدی، ثمّ أشعرھا وقلّدھا۔
‘‘ میں نے رسول اللہﷺ کی قربانی کے اونٹوں کے قلا دے اپنے ہاتھ سے بٹے، پھر آپﷺ نے ان کو اشعار کیا اور قلادے پہنائے۔’’
(صحیح البخاری: ۱۶۹۶، صحیح مسلم: ۳۶۲/۱۳۲۱)
واضح رہے کہ امام ابو حنیفہ اشعار، جو کہ نبی اکرمﷺ کی سنت ہے، کومثلہ کہتے ہیں، یعنی امام صاحب اسے جائز نہیں سمجھتے۔ بعض الناس نے امام صاحب کے قول کی یہ تاویل کی ہےکہ جب لوگوں نے اشعار میں مبالغہ کیا تو اس وقت امام صاحب نے مثلہ کہا ہے۔
لیکن یہ تاویل سراسر باطل ہے، کیونکہ اس پرکوئی دلیل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے اس مسئلہ میں امام صاحب کا خوب ردّ کیا ہے۔ ائمہ دین، محدثین کرام اور علمائے عظامؒ کے اقوال ملاحظہ ہوں:
📚 ائمہ کرام کے اقوال
❀ حافظ نوویؒ (۶۴۱۔۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:
و قال أبو حنیفۃ: الإشعار بدعۃ، لأنّہ یخالف الٔاحادیث الصحیۃ المشھور فی الإشعار، وأمّا قولہ: إنّہ مثلۃ، فلیس کذلک، بل ھذا کالفصد والحجامۃ والکّی والوسم۔
‘‘ امام ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ اشعار بدعت ہے، کیونکہ یہ مثلہ ہے۔ ان کا یہ قول اشعار کے بارے میں بہت سی صحیح اور مشہور احادیث کے خلاف ہے۔ رہا ان کا اشعار کو مثلہ کہنا تو یہ درست نہیں، کیونکہ اشعار ایسے ہی ہے، جیسے فصد، سنگی، داغ دینا اور نشان لگانا ہوتاہے۔’’
(شرح صحیح مسلم للنووی: ۴۰۷/۱)
❀ امام وکیع بن جراحؒ (م ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں:
لا تنظروا إلی قول أھل الرّأی فی ھذا، فإنّ الإشعار سنّۃ، وقولھم بدعۃ۔
‘‘ تم اس بارے میں اہل الرائے (ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب) کے قول کو نہ دیکھو۔ اشعار سنت ہے، جبکہ (اس کو بدعت کہنے پر مبنی) ان کا قول خود بدعت ہے۔’’
(سنن الترمذی، تحت حدیث: ۹۰۶،وسندہٗ صحیحٌ)
❀ ابوالسائب بن جنادہ کہتے ہیں:
کنا عند و کیع، فقال لرجل عندہ ممن ینظر فی الرأی: أشعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ویقول أبو حنیفۃ: ھو مثلۃ، قال الرجل: فإنہ قد روی عن إبراھیم النخعی أنہ قال الإشعار مثلۃ، قال فرأیت وکیعا غضب غضبا شدیدا، وقال: أقول لک قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و تقول: قال إبراھیم، ما أحقک بأن تجس ثم لا تخرج حتی تنزع عن قولک ھذا۔
‘‘ ہم امام وکیعؒ کے پاس تھے۔ انہوں نے اپنے پاس بیھٹے ہوئے ایک آدمی، جو کہ رائے میں دلچسپی رکھتا تھا، سے فرمایا، اللہ کے رسولﷺ نے اشعار کیا ہے، امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے! آدمی کہنے لگا، ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے اشعار کو مثلہ کہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام وکیعؒ سخت غصہ میں آ گئے اور فرمانے لگے، میں تجھے رسول اللہﷺ کی حدیث سناتا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی اس طرح کہتے ہیں۔ میں تجھے اس قابل سمجھتا ہوں کہ تجھے قید کر لیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے، جب تک تو اپنے اس قول سے باز نہ آ جائے۔’’
(سنن الترمذی، تحت حدیث: ۹۰۶، وسندہٗ صحیحٌ)
قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ اہل سنت کے بہت بڑے امام وکیعؒ کس قدر اتباع سنت کے جذبہ سے سرشار ہیں؟ حدیث رسول کے خلاف کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ حدیث کے خلاف رائے پیش کرنے والوں پر شدید غصے کا اظہار فرما رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر مسلمان کو ایسا ہی جذبہ و صادقہ نصیب فرمائے۔ آمین
❀ امام ابن خزیمہؒ (م ۳۱۱ھ) حدیث ابن عباس پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
باب إشعار البُدن فی شقّ السّنام الأیمن، وسلت الدّم عنھا، ضدّقول من زعم أنّ إشعار البُدن مثلۃ، فسمّی سنّۃ النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم مثلۃ بجھلہ۔
‘‘ قربانی کے اونٹوں کی کوہان کی دائیں جانب اشعار کرنے اور خون کو لتھڑنے کا بیان، اس شخص کے ردّ میں جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اونٹوں کو اشعار کرنا مثلہ ہے، اس نے اپنی جہالت کی وجہ سے نبی اکرمﷺ کی سنت کا نام مثلہ رکھ دیا ہے۔’’
(صحیح ابن خزیمۃ: ۱۵۳/۴، ح: ۲۵۷۵)
❀ امام ابن عبدالبرؒ (م ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
و ھذا الحکم لا دلیل علیہ إلّا التّوھّم والظّنّ، ولا تترک السّنن بالظّنون۔
‘‘ (امام ابو حنیفہ کے) اس فیصلے پر کوئی دلیل نہیں، سوائے توہم پرستی اور ظن وتخمین کے، جبکہ سنتوں کو ظن و تخمین کی وجہ سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔’’
(الاستذکار لابن عبدالبر: ۲۶۴/۴)
❀ علامہ ابن حزمؒ (م ۴۵۶ھ) اس بارے میں لکھتے ہیں:
فقال أبو حنیفۃ: أکرہ الإشعار، وھومثلۃ، قال علیّ: ھذا طامّۃ من طوام العالم أن یکون مثلۃ شیء فعلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، أف لکل عقل یتعقب حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویلزمہ أن تکون الحجامۃ، وفتح العرق مثلہ، فیمنع من ذلک، وأن یکون القصاص من قطع الأنف، و قلع الأسنان، وجدع الاذنین مثلۃ، و أن یکون قطع السارق و المحارب مثلۃ، والرجم للزانی المحصن مثلۃ، والصلب للمحارب مثلۃ، إنما المثلۃ فعل من بلغ نفسہ مبلغ انتقاد فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فھذا ھو الذی مثل بنفسہ، والإشعار کان فی حجۃ الوداع والنھی عن المثلۃ کان قبل قیام ذلک بأعوام، فصح أنہ لیس مثلۃ، وھذہ قولۃ لا یعلم لابی حنیفۃ فیھا متقدم من السلف، ولا موافق من فقھاء أھل عصرہ إلا من ابتلاہ اللہ بتقلیدہ، و نعوذ باللہ من البلاء۔
‘‘ امام ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ میں اشعار کو مکروہ سمجھتا ہوں، یہ تو مثلہ ہے، لیکن یہ کسی عالم کی ہفوات میں سے ہے کہ جس کام کو رسول اللہﷺ نے کیا ہے، اسے وہ مثلہ قرار دے۔ ہر اس شخص پر افسوس ہے، جو رسول اللہﷺ کے فیصلے پر گرفت کرتا ہے۔ ایسی عقل پر یہ لازم آتا ہے کہ اس کے نزدیک سنگی لگوانا، فصد کھولنا وغیرہ بھی مثلہ ہو اور وہ اس سے بھی رک جائے، نیز اس کے نزدیک ناک کاٹنے، دانت اکھیڑنے، کان کاٹنے وغیرہ کا قصاص لینا بھی مثلہ ہو اور چوری اور فسادی آدمی کا ہاتھ کاٹنا بھی مثلہ ہو، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا بھی مثلہ ہو، زمین میں فساد کرنے والے کو سولی دینا بھی مثلہ ہو۔ دراصل مثلہ تو اس نے کیا ہے، جس نے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے فعل مبارک پر تنقید تک پہنچا دیا ہے، یہ وہ شخص ہے، جس نے اپنے نفس کا مثلہ کیا ہے۔ حالانکہ اشعار حجۃ الوداع میں کیا گیا تھا اور مثلہ سے ممانعت اس سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی۔ ثابت ہو کہ یہ مثلہ نہیں۔
یہ امام ابو حنیفہ کا ایسا قول ہے، جس میں ان کا کوئی سلف نہیں، نہ ہی ان کے ہم زمانہ فقہائے کرام میں سے کسی نے ان کی موافقت کی ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالی نے ان کی تقلید کی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ ہم فتنہ (تقلید) سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتے ہیں۔’’
(المحلی لابن حزم: ۱۱۲-۱۱۱/۷)
🕋 دورانِ حج یوم النحر یعنی 10 ذوالحجہ کے چار اعمال میں ترتیب واجب نہیں 🌟
📜 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
{ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ . فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ . فَقَالَ: رَجُلٌ لَمْ أَشْعُرْ ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ . اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ . وَجَاءَ آخَرُ ، فَقَالَ: لَمْ أَشْعُرْ ، فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ . فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إلَّا قَالَ: افْعَلْ وَلَا حَرَجَ }
سنن ابو داود حدیث نمبر: 2014
📖 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں کھڑے ہوئے تو لوگ آپ ﷺ سے سوال کرنے لگے:
👤 ایک شخص نے کہا:
“مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نے قربانی سے پہلے ہی سر منڈوا دیا۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
”اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔”
👤 پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا:
“مجھے پتہ نہیں چلا اور میں نے رمی سے پہلے قربانی کر دی۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
”اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں ہے۔”
📌 اس دن آپ ﷺ سے کسی بھی چیز کے آگے پیچھے ہو جانے کے بارے میں جو بھی سوال کیا گیا،
آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ:
”کوئی حرج نہیں ہے، اب کر لو۔”
📚 شرح المفردات:
🔹 لم أشعر:
مجھے پتہ نہ تھا، معلوم نہ تھا، شعور نہ تھا۔
/ واحد مذکر و مؤنث متکلم، فعل مضارع منفی معلوم، باب نَصَرَ يَنْصُرُ۔
🔹 لا حرج:
کوئی حرج نہیں ہے، کوئی گناہ نہیں ہے۔
📘 شرح الحديث:
📝 ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ:
🕋 یوم النحر کے چار اعمال یہ ہیں:
1️⃣ رمی جمار
2️⃣ قربانی کرنا
3️⃣ سر منڈوانا یا بال چھوٹے کرنا
4️⃣ طواف افاضہ کرنا
🌟 یہی مشروع ترتیب ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
📖 [شرح عمدة الأحكام لابن دقيق العيد: 77/3]
✨ افضل یہی ہے کہ ہر رکن بالترتیب ادا کیا جائے
لیکن اگر لاعلمی میں ترتیب درست نہ رہے تو:
❌ کوئی گناہ نہیں
❌ نہ ہی اسے دوبارہ کرنے کی ضرورت ہے
📌 جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔
🌟 ذبح کے وقت بہنے والا خون بالاتقاق حرام ہے، اس کے علاوہ حلال جانور کے تمام اعضاء و اجزا ء حلال ہیں،
لیکن حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک حلال جانور میں سات اجزاء حرام ہیں۔
🔹 ابنِ عابدین حنفی لکھتے ہیں :
📚 المكروه تحريما من الشاة سيع : الفرض، والخصية، الخدة، والدم المسفوح، المرارة، والمثانة، والمذاكبر۔
✍️ ”شاة (بکری، بکرے، بھیڑ اور دبنے) میں یہ سات چیزیں مکروہ تحریمی ہیں : فرج (پیشاب کی جگہ)، کپورے، غدود، ذبح کے وقت بہنے والا خون، پتہ، مثانہ اور نر کا آلہ تناسل۔“
📘 [العفودالدرية لابن عابدين : 56]
🔹 جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
✍️ ”سات چیزیں حلال جانور کی کھانی منع ہیں : ذکر، فرج مادہ، مثانہ، غدود، حرام مغز جو پشت کے مہرہ میں ہوتا ہے، خصیہ، پتہ یعنی مرارہ جو کلیجہ میں تلخ پانی کا ظرف ہے۔”
📘 [تذكرة الرشيد : 174/1]
🔹 جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
✍️ ”حلال جانور کے بعض اعضاء حرام ہیں، جیسے خون، پتہ، فرج، خصیہ وغیرہ۔”
📘 [تفسير نور العرفان از نعيمي : ص 547]
🔹 یہی بات احمد رضا خان بریلوی صاحب نے بھی کہی ہے۔
📘 [فتاوي رضويه : 234/20]
📜 اب ان کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ:
🔹 دلیل نمبر: ➊
📖 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
❝
كان رسول الله ﷺ يكره من الشاة سبعا :
➊ المرارة ➋ المثانة ➌ الحياء ➍ الذكر ➎ الأنثيين ➏ الغدة ➐ الدم
❞
📘 [المعجم الاوسط للطبراني : 9480]
🛑 تبصرہ:
❌ اس کی سند موضوع (من گھڑت) ہے، کیونکہ:
یعقوب بن اسحاق کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
◈ ابن الملقن: "ضعفه الجمهور” 📘 [البدر المنير : 3/227]
عبد الرحمن بن زید بن اسلم متروک راوی ہے۔
◈ حافظ ہیثمی: "الأكثر على تضعيفه” 📘 [مجمع الزوائد : 2/20]
🔹 دلیل نمبر: ➋
📖 مجاہد بن جبر تابعی کہتے ہیں:
❝
كان رسول الله ﷺ يكره من الشاة سبعا :
➊ الدم ➋ الحياء ➌ الأنثيين ➍ الغدة ➎ الذكر ➏ المثانة ➐ المرارة
❞
📘 [مصنف عبدالرزاق : 4/55، ح 8771، السنن الكبري للبيهقي : 7/10]
🛑 تبصرہ:
مرسل روایت ہے = ضعیف
راوی واصل بن ابی جمیل ضعیف ہے
◈ یحییٰ بن معین: "لا شيء” 📘 [الجرح والتعديل : 9/30]
◈ دارقطنی: "ضعيف” 📘 [السنن : 3/76]
◈ ابن الجوزی، ابن شاہین: ضعفاء میں ذکر کیا
◈ ابن القطان: "واصل لم تثبت عدالته” 📘 [التقدير : 2/200]
❗ ابن عباس سے منسوب روایت بھی موضوع ہے
→ راوی: عبر بن موسی الوجہیی متروک الحدیث
📘 [السنن الكبرى للبيهقي : 70]
✅ خلاصہ تحقیق:
🔻 حلال جانور میں صرف دمِ مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والا خون) حرام ہے۔
باقی تمام اجزاء حلال ہیں۔
❌ سات اجزاء کو حرام کہنا بے بنیاد اور ضعیف روایات پر مبنی ہے۔
📎 اضافی فائدہ: اوجھڑی اور گردے کا مسئلہ
🟤 اوجھڑی:
◈ عبد الحئی لکھنوی حنفی: "اوجھڑی مکروہ ہے” 📘 [فتاوی عبدالحئی : 7/397]
◈ احمد رضا خان بریلوی: "اوجھڑی مکروہ ہے” 📘 [ملفوظات : ص 35]
🟤 گردہ:
◈ رشید احمد گنگوہی: "بعض روایات میں گردہ کی کراہت ہے” 📘 [تذكرة الرشيد : 1/147]
🔍 سوال: کیا اس پر کوئی صحیح دلیل ہے؟ ❓
→ جواب: ❌ نہیں!
⚖️ امام ابو حنیفہ سے منسوب قول؟
🟡 احمد رضا خان بریلوی نقل کرتے ہیں:
"خون تو بحکم قرآن حرام ہے، باقی چیزیں میں مکروہ سمجھتا ہوں”
📘 [فتاويٰ رضويه : 20/234]
🛑 چیلنج: اس قول کو باسند صحیح امام ابو حنیفہ سے ثابت کریں۔
ورنہ یہ جھوٹ اور افتراء ہے۔
🟢 الحاصل:
💠 حلال جانور میں ذبح کے وقت بہنے والے خون کے علاوہ
کوئی بھی عضو یا جزو حرام یا مکروہ نہیں ❗
🕋 ﴿ قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا ﴾
📖 [الأنعام: 145]
🌟 ایک قربانی پورے گھر کے لیئے کافی ہے 🌟
📜 احناف کے علاوہ تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ایک قربانی ایک گھرانے کے تمام افراد کی طرف سے بطور سنت کفایہ، کافی ہوگی، جیسے کہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا:
> ❝رسول اللہ ﷺ کے دور میں عید قربان پر قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟❞
تو انہوں نے کہا:
"ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا، وہ خود بھی اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے، حتی کہ لوگ اس عمل پر فخر کرنے لگے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا جو آپ کو نظر آرہا ہے”
📘 (ترمذی: 1505) ➤ اور اسے حسن صحیح کہا ہے۔
📚 تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
> ✨ "يہ حديث اس كى صريح نص اور دليل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھروالوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد زيادہ ہى ہو، اور حق بھى يہى ہے۔”
📖 حافظ ابن قيم رحمہ اللہ "زاد المعاد” ميں كہتے ہيں:
> 🌿 "اور نبى كريم ﷺ كے طريقہ اور سنت ميں يہ بھى شامل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو۔”
📕 امام شوكانى "نيل الاوطار” ميں لكھتے ہيں:
> 🕋 "حق يہى ہے كہ ايك بكرى ايك گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد سو يا اس سے زيادہ ہى كيوں نہ ہو، جيسا كہ سنت سے اس كا فيصلہ ہو چكا ہے۔”
🔚 (انتهى مختصرا)
👳♂️ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
> 🕊 "ثواب ميں شراكت كى كوئى حصر نہيں ہے، ديكھيں نبى كريم ﷺ نے سارى امت كى جانب سے قربانى كى، اور ايك شخص اپنى اور اپنے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كرتا ہے چاہے ان كى تعداد ايك سو ہى كيوں نہ ہو۔”
📖 ديكھيں: الشرح الممتع (5 / 275)
🧾 سعودی عرب کی مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
> ❓ ايك خاندان بائيس افراد پر مشتمل ہے، اور آمدنى ايك ہى ہے، اور خرچ بھى ايك، اور وہ سب قربانى بھى ايك ہى كرتے ہيں، مجھے علم نہيں كہ آيا ان كے ليے يہ ايك قربانى كافى ہے يا كہ انہيں دو قربانياں كرنا ہونگى؟
📘 كميٹى كا جواب تھا:
> ✅ "اگر تو خاندان بڑا ہے اور اس كے افراد زيادہ ہيں اور وہ ايك ہى گھر ميں سكونت پذير ہوں تو ان سب كى جانب سے ايك ہى قربانى كافى ہے، اور اگر وہ ايك سے زيادہ كريں تو يہ افضل ہے۔”
📚 ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء (11 / 408)
──────────────────
🕋 فضائل طواف بیت اللہ 🕋
──────────────────
🌟 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
❝ جو شخص بیت اللہ کا طواف کرے اور دو رکعت نماز پڑھے،
تو اسے غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ ❞
📘 (ابن ماجه : ٢٩٥٦، وسندہ حسن)
🌿 نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
❝ جس نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے،
تو اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اس کے گناہ معاف فرماتا ہے،
ہر قدم پر نیکی لکھتا ہے،
اور ہر قدم پر اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔ ❞
📘 (الترمذی : ٩٥٩، وسندہ حسن)
🤲 اللہ ہمیں بیت اللہ کے بار بار دیدار اور طواف کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین
──────────────────
📌 شیئر کریں، ثوابِ جاریہ بنائیں
──────────────────
╔════◇🌙◇════╗
📌 مرحومین کی طرف سے قربانی کا حکم
╚════◇🌙◇════╝
❓ سوال:
کیا والدین یا دیگر مرحومین کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے؟
جیسے کہ مشہور ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک قربانی اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے کیا کرتے تھے؟
📚 جواب از شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ:
میت کی طرف سے قربانی کرنے کے جواز پر جو روایت پیش کی جاتی ہے، وہ روایت ابو الحسناء نامی راوی کے مجہول ہونے کی بنا پر ضعیف ہے۔
◈ تاہم، صدقہ کے بارے میں جو عمومی دلائل احادیث و آثار میں موجود ہیں، ان کی روشنی میں میت کی طرف سے قربانی جائز ہے۔
◈ ایسی صورت میں قربانی کا سارا گوشت صدقہ کر دینا چاہیے۔
📖 شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا قول:
“أحب إلي أن يتصدق عنه ولا يضحى عنه، وإن ضحى فلا يأكل منها شيئاً ويتصدق بها كلها”
میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے اور قربانی نہ کی جائے، تاہم اگر کوئی قربانی کرے تو اس میں سے کچھ بھی نہ کھائے بلکہ سارا گوشت صدقہ کر دے۔
📘 (سنن ترمذی، ابواب الأضاحی، باب ما جاء في الأضحية عن الميت، حدیث: 1495)
╔════◇🌙◇════╗
📌 اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
╚════◇🌙◇════╝
📌 دلیل نمبر ۱: حدیثِ جابر بن سمرہؓ
عن جابر بن سمرۃ:
أن رجلاً سأل رسول اللہ ﷺ: أأتوضأ من لحوم الغنم؟
قال: "ان شئت فتوضا، وان شئت فلا توضا”
قال: أتوضأ من لحوم الإبل؟
قال: "نعم، فتوضأ من لحوم الإبل”
قال: أصلی فی مرابض الغنم؟
قال: "نعم”
قال: أصلی فی مبارك الإبل؟
قال: "لا”
ترجمہ:
سیدنا جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
کیا میں بکری کے گوشت سے وضو کروں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر چاہو تو وضو کر لو اور اگر نہ چاہو تو نہ کرو”
اس نے عرض کیا: کیا میں اونٹ کے گوشت سے وضو کروں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں، اونٹ کے گوشت سے وضو کرو”
عرض کی: کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں”
عرض کی: کیا میں اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لوں؟
فرمایا: "نہیں”
(صحیح مسلم: حدیث ۳۶۰)
📌 دلیل نمبر ۲: حدیثِ براء بن عازبؓ
عن البراء بن عازب:
سئل رسول اللہ ﷺ عن الوضوء من لحوم الإبل،
فقال: "توضؤوا منها”
وسئل عن الوضوء من لحوم الغنم،
فقال: "لا توضؤوا منها”
ترجمہ:
سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اونٹ کے گوشت سے وضو کے بارے میں پوچھا گیا،
تو فرمایا: "اس سے وضو کرو”,
اور جب بکری کے گوشت کے متعلق پوچھا گیا،
تو فرمایا: "اس سے وضو نہ کرو”.
(سنن ترمذی: ۸۱، سنن ابی داود: ۱۸۴، ابن ماجہ: ۴۸۴ — سند صحیح)
📌 دلیل نمبر ۳: اثرِ جابر بن سمرہؓ
عن جابر بن سمرۃ:
كنا نتوضأ من لحوم الإبل، ولا نتوضأ من لحوم الغنم.
ترجمہ:
ہم صحابہ کرام اونٹ کے گوشت سے وضو کرتے تھے لیکن بکری کے گوشت سے وضو نہیں کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۱/۴۶، حدیث ۵۱۷ — سند صحیح)
📚 ائمہ و محدثین کی آراء
🔹 ۱. امام ترمذیؒ (۲۰۰–۲۷۹ھ):
باب ما جاء في الوضوء من لحوم الإبل
یہ باب اونٹ کے گوشت سے وضو کے بارے میں روایات پر مشتمل ہے۔
”یہی قول امام احمدؒ اور امام اسحاقؒ کا بھی ہے۔”
🔹 ۲. امام احمد بن حنبلؒ و امام اسحاقؒ:
ان دونوں کا بھی یہی مؤقف ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
🔹 ۳. امام ابوداودؒ (۲۰۲–۲۷۵ھ):
باب: الوضوء من لحوم الإبل
(سنن ابی داود: ۱۸۴)
🔹 ۴. امام ابن ماجہؒ (۲۰۹–۲۷۳ھ):
باب: ما جاء في الوضوء من لحوم الإبل
(سنن ابن ماجہ: ۴۹۴)
🔹 ۵. امام ابن خزیمہؒ (۲۲۳–۳۱۱ھ):
باب: الأمر بالوضوء من أكل لحوم الإبل
(صحیح ابن خزیمہ: ۱/۲۱، حدیث ۳۱)
🔹 ۶. امام ابن حبانؒ (م ۳۰۴ھ):
ذکر الأمر بالوضوء من أكل لحم الجزور
(صحیح ابن حبان: ۳/۴۳۱، حدیث ۱۱۵۴)
🔹 ۷. حافظ ابن حزمؒ (م ۴۵۶ھ):
”اونٹ کا گوشت، چاہے کچا ہو یا پکا، اگر علم ہو کہ یہ اونٹ کا ہے تو وضو توڑ دیتا ہے۔”
(المحلّی: ۱/۲۴۱)
🔹 ۸. امام بیہقیؒ (م ۴۵۸ھ):
باب: التوضی من لحوم الإبل
(السنن الکبری: ۱/۱۵۹)
”اس جیسے کمزور دلائل کی وجہ سے صحیح احادیث کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔”
(السنن الکبری: ۱/۱۵۸–۱۵۹)
🔹 ۹. امام ابن المنذرؒ (م ۳۱۸ھ):
”اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو واجب ہے، کیونکہ دونوں حدیثیں صحیح اور مضبوط سند کی حامل ہیں۔”
(الاوسط: ۱/۱۳۸)
🔹 ۱۰. حافظ نوویؒ:
”یہی مذہب (کہ اونٹ کا گوشت وضو توڑ دیتا ہے) دلیل کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے۔”
(شرح صحیح مسلم: ۱/۱۸۵)
🕋✨ احرام میں کعب (ankle-bone) کو کھلا رکھنا ضروری ہے، نہ کہ پوری پاؤں کی پشت ✨🕋
🌙 1. لغوی تحقیق
╭─⊱ تعریفِ کعب ⊰─╮
❈ «ٱلْكَعبانِ العِظْمانِ النَّاتِئانِ عِندَ مَفْصِلِ السّاقِ وَالْقَدَمِ»
“کعب وہ دو اُبھری ہڈیاں ہیں جو ساق اور قدم کے جوڑ پر ہیں۔” (لسان العرب)
╰──────────────────────────╯
اصمعی کا ردّ ☪️
«وَأَنْكَرَ الأَصمعيُّ قَوْلَ الناس: إِنَّهُ في ظَهْرِ القَدَمِ» (لسان العرب)
🔹 لغوی طور پر کعب صرف ٹخنے کی ابھری ہڈی ہے، پشتِ قدم نہیں۔
📜 2. حدیثی دلائل
حدیثِ ابن عمرؓ 🕌
«لا يَلْبَسُ المُحْرِمُ… ولا الخِفَافَ إلّا أحدٌ لا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ، ثُمَّ لْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ» (بخاری 1543؛ مسلم 1177)
“محرم موزے نہ پہنے… ہاں جسے نعلین نہ ملیں وہ موزے پہن لے، پھر انہیں دو ٹخنوں سے نیچے کاٹ دے۔”
🔸 فقہی نکتہ: رسول ﷺ نے صرف کعبین کھلے رکھنے کا حکم دیا؛ اگر پوری مِشطِ قدم کھولنا شرط ہوتا تو اسی مقام پر واضح فرما دیتے۔
📚 3. اقوالِ متقدّمین
╭───────────❂───────────╮
أبو عبید قاسم بن سلّام (م 224ھ)
عربی متن: «ٱلكعبُ الَّذِي في أَصْلِ القَدَمِ مُنْتَهى السّاقِ إلَيْهِ»
ترجمہ: “کعب وہ جگہ ہے جو قدم کی جڑ پر واقع ہے جہاں ساق آ کر ختم ہوتی ہے۔”
حوالہ: (غریب الحدیث، ج 3، ص 185)
ابن عبد البرّ (م 463ھ)
عربی متن: «ٱلكعبانِ العِظْمانِ النَّاتِئانِ عَنِ الجَنْبَيْنِ»
ترجمہ: “کعب وہ دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو پاؤں کے پہلوؤں پر نمایاں ہوتی ہیں۔”
حوالہ: (التمهید، ج 13، ص 65)
امام نووی (م 676ھ)
عربی متن:
«اتفق العلماءُ على أن المرادَ بالكعبين العِظْمانِ النَّاتِئان بين الساقِ والقدم»
ترجمہ: “علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کعبین سے مراد وہ دو اُبھری ہڈیاں ہیں جو ساق اور قدم کے بیچ میں ہیں۔”
حوالہ: (شرح صحیح مسلم، ج 8، ص 196)
ابن قدامہ (م 620ھ)
عربی متن:
«والكعابُ المشهورةُ هي الَّتِي ذَكَرْنَاها»
ترجمہ: “مشہور و معروف کعبین وہی ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے (یعنی ٹخنے کی اُبھری ہڈیاں)۔”
حوالہ: (المغنی، ج 3، ص 208)
╰───────────❂───────────╯
🏛️ 4. اقوالِ متأخّرین
حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ)
عربی متن: «هذا ضعيفٌ، لا يُعرَفُ عند أهل اللُّغة أن الكعبَ هو ظهرُ القدم»
ترجمہ: “یہ قول ضعیف ہے؛ لغت کے ماہرین کے نزدیک کعب کو پاؤں کی پشت کہنا نا معلوم ہے۔”
حوالہ: (فتح الباری، ج 3، ص 307)
اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء (سعودیہ)
عربی متن: «لا يلزم أن يكون ظهرُ القدم مكشوفًا؛ إنما الواجب كشفُ الكعبين في النعلين»
ترجمہ: “احرام کے جوتے میں پاؤں کی پشت کا کھلا ہونا ضروری نہیں؛ لازم صرف یہ ہے کہ کعبین کھلے ہوں۔”
حوالہ: (فتاوى اللجنة الدائمة، ج 11، ص 183)
شیخ محمد بن صالح العثیمین (م 1421ھ)
عربی متن: «المقصود أن تكون النعلان تحت الكعبين، وأما ظهرُ القدم فليس بشرطٍ في الإحرام»
ترجمہ: “مقصود یہ ہے کہ نعلین کعبین سے نیچے ہوں، رہا پاؤں کا اوپری حصہ تو احرام میں اس کا کھلا ہونا شرط نہیں۔”
حوالہ: (الشرح الممتع، ج 7، ص 161)
🟢 5. حنفیہ کے استدلال کا جائزہ
بعض متاخر احناف نے لغت غریب سے ہٹ کر “کعب = پشتِ قدم” مانا، لیکن
لغت کے تمام مصادر اس کی تردید کرتے ہیں۔
حدیثِ ابن عمرؓ میں «أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ» موجود ہے؛ اگر زیادہ کھلا رکھنا مقصود ہوتا تو الفاظ ظَهرِ القَدَم آتے۔
امام نووی نے اسے “اجماع کے خلاف شاذ قول” قرار دیا۔
🌟 6. خلاصہ و نتیجہ
╭═══════════════════╮
🟠 لغت: کعب فقط دونوں ٹخنے ہیں۔
🟠 حدیث: نعل کاٹنے کی حد ٹخنوں سے نیچے؛ مِشطِ قدم کھولنے کا ذکر نہیں۔
🟠 فقہ: جمہور کا فتویٰ—چپل/سینڈل جو ٹخنے کھلے رکھے ✔️ جائز ہے؛ پشتِ قدم کا کھلا ہونا ❌ لازمی نہیں۔
╰═══════════════════╯
✨ لہٰذا “احرام میں پاؤں کی اوپری ہڈی بھی لازماً کھلی رہے” کہنا بلا دلیل ہے۔ صحیح موقف یہی ہے کہ صرف دونوں ٹخنے ظاہر ہوں۔
واللّٰه أعلم بالصواب.
🌙 منی میں نماز قصر کا بیان 🕋
🕌 حج کے دوران منی میں نماز قصر پڑھی جائے گی۔ امام بخاریؒ نے اس پر ایک مستقل باب قائم کیا ہے، اور بطورِ استدلال درج ذیل احادیث ذکر فرمائی ہیں:
📖 حدیث 1
«عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قا ل صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين ، وأبي بكر وعمر، ومع عثمان صدرا من إمارته ثم أتمها»
📚 [بخاری: 1082]
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ، ابو بکر اور عمرؓ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت (یعنی چار رکعت والی نمازوں میں) قصر پڑھی۔ سیدنا عثمانؓ کے ساتھ بھی ان کے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی تھیں، لیکن بعد میں آپؓ نے پوری پڑھنا شروع کیں۔
📖 حدیث 2
«أنبأنا أبو إسحاق، قال سمعت حارثة بن وهب، قال صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم آمنا ما كان بمنى ركعتين»
📚 [بخاری: 1083]
ہمیں ابو اسحاقؒ نے خبر دی، انہوں نے حارثہؓ سے سنا، اور انہوں نے وہبؓ سے کہ آپ نے فرمایا:
نبی کریم ﷺ نے منیٰ میں امن کی حالت میں ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تھی۔
📖 حدیث 3
«عن عبد الرحمن بن يزيد، يقول صلى بنا عثمان بن عفان ـ رضى الله عنه ـ بمنى أربع ركعات، فقيل ذلك لعبد الله بن مسعود ـ رضى الله عنه ـ فاسترجع ثم قال صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، وصليت مع أبي بكر ـ رضى الله عنه ـ بمنى ركعتين، وصليت مع عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ بمنى ركعتين، فليت حظي من أربع ركعات ركعتان متقبلتان»
📚 [بخاری: 1084]
عبدالرحمن بن یزیدؓ سے مروی ہے، وہ کہتے تھے کہ ہمیں عثمان بن عفانؓ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تھی، لیکن جب اس کا ذکر عبداللہ بن مسعودؓ سے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
🔁 انا للہ وانا الیہ راجعون
پھر کہنے لگے:
میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی ہے، ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں، اور عمر بن خطابؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں۔
🌟 کاش میرے حصے میں ان چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہوتیں۔
📌 نتیجہ:
مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ دورانِ حج منیٰ میں نماز قصر (یعنی دو رکعت) پڑھی جائے گی، حتیٰ کہ اگر حالتِ امن بھی ہو۔
🤲 اللہ ہمیں سنت کے مطابق عبادات کی توفیق دے، آمین۔
عید الاضحی کے دن تکبیرات کہنا سنت ہے، جیسا کہ قرآن، حدیث اور صحابہ کرام کے آثار سے ثابت ہے۔
➊ قرآن مجید سے دلیل
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
(سورۃ البقرۃ: 185)
(اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔)
یہ آیت عید کی تکبیرات کے مشروع ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس دن اللہ کی بڑائی بیان کریں۔
➋ حدیث مبارکہ سے دلیل
رسول اللہ ﷺ کے عید کے دن تکبیرات بلند کرنے کا عمل احادیث میں ثابت ہے:
➊ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"أن رسول الله ﷺ كان يخرج يوم الفطر والأضحى رافعًا صوته بالتكبير.”
(رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن نکلتے تو بلند آواز میں تکبیرات کہتے۔)
(المعجم الكبير للطبراني: 11367، صحیح السند)
➋ حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما يكبر يوم الفطر حتى يأتي المصلى ويكبر حتى يأتي الإمام.”
(عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن مسلسل تکبیرات پڑھتے رہتے یہاں تک کہ وہ عیدگاہ پہنچ جاتے اور امام کے آنے تک تکبیرات جاری رکھتے۔)
(سنن الدارقطني: 171، صحیح)
➌ صحابہ کرام کا عمل
◈ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"كبروا، فإنها سنة.”
(تکبیرات کہو، کیونکہ یہ سنت ہے۔)
(مصنف ابن أبي شيبة: 5633)
◈ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"كبروا الله في أيام العيد.”
(عید کے دنوں میں اللہ کی تکبیرات کہو۔)
(السنن الكبرى للبيهقي: 6237)
◈ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تکبیر کے یہ الفاظ منقول ہیں:
"اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.”
(مصنف ابن أبي شيبة: 5635، سند صحیح)
◈ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ایک اور صیغہ مروی ہے:
"اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.”
(السنن الكبرى للبيهقي: 6236)
➍ تکبیرات کے مکمل الفاظ (مسنون صیغے)
عید کی تکبیرات مختلف الفاظ میں ثابت ہیں، جن میں سب سے مشہور اور مستند یہ ہیں:
(1) حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا صیغہ:
"اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.”
(مصنف ابن أبي شيبة: 5635)
(2) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا صیغہ:
"اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.”
(السنن الكبرى للبيهقي: 6236)
(3) عام طور پر پڑھی جانے والی تکبیرات:
"اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.”
➎ تکبیرات کا وقت
◈ عید الفطر: چاند نظر آنے کے بعد سے لے کر نمازِ عید تک مسلسل پڑھنا مستحب ہے۔
◈ عید الاضحی: 9 ذو الحجہ (یوم عرفہ) کی فجر سے لے کر 13 ذو الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے کہنا واجب ہے (یہ تکبیراتِ تشریق ہیں)۔
نتیجہ
عید کی تکبیرات قرآن و حدیث اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ سنت کے مطابق بلند آواز میں تکبیرات پڑھیں اور عید کے دن اللہ کی کبریائی کو بلند کریں، تاکہ ہماری خوشیاں بھی عبادت میں شمار ہوں اور شیطان حسرت میں مبتلا ہو۔
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ!
────────────────────────
🌙 یومِ عرفہ کا روزہ – دو سال کے گناہوں کی معافی 🌙
────────────────────────
📜 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔”
(صحیح مسلم: 1162، سنن ابی داود: 2425، سنن النسائی: 2384، سنن ابن ماجہ: 1730)
📚 حدیث: حسن صحیح
📅 یومِ عرفہ 9 ذوالحجہ کو کہا جاتا ہے،
جب حجاج کرام میدان عرفات میں وقوف، ذکر و دعا میں مشغول ہوتے ہیں۔
🔹 ان کے لیے اس دن روزہ رکھنا مستحب نہیں ہے۔
🔹 البتہ غیر حاجیوں کے لیے یہ روزہ بڑی فضیلت کا باعث ہے۔
✨ اس دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
اللّٰہ ہمیں اس دن کی قدر کرنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ 🤲🏼
📜 حدیث:
"ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبداً من النار من يوم عرفة، وإنه ليدنو، ثم يباهي بهم الملائكة، فيقول: ما أراد هؤلاء؟”
📖 ترجمہ:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے زیادہ بندوں کو آزاد فرماتے ہوں، جتنا عرفہ کے دن۔ بے شک وہ (اللہ) قریب آتا ہے، پھر فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ان بندوں کا ارادہ کیا ہے؟”
📝 حوالہ جات:
صحیح مسلم (1348)
سنن النسائی (3014)
ابن ماجہ، الدارقطنی، البیہقی، ابن عساکر
سلسلہ احادیث صحیحہ از علامہ البانی: 2551
📌 اہم نکتہ: یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ یوم عرفہ اللہ کے قرب کا خاص دن ہے۔ اس دن کی عبادت، دعا، اور توبہ بہت ہی عظیم اجر کا باعث بنتی ہے۔ بندے اگر اخلاص سے رجوع کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ سے نجات عطا فرماتا ہے۔
🤲 اس دن میں ہمیں زیادہ سے زیادہ:
روزہ رکھنا
توبہ و استغفار کرنا
دعاؤں کا اہتمام کرنا
ذکر و تسبیح میں مشغول رہنا چاہیے۔
📅 یاد رکھیں: یوم عرفہ 9 ذوالحجہ کو ہوتا ہے، اور حاجی و غیر حاجی دونوں کے لیے اس دن کی عبادات کا بے حد اجر ہے۔
━━━━━━━━━━ 🌙 ✦ ✦ 🌙 ━━━━━━━━━━
📘 قربانی کے جانور کی عمر – تحقیقی خلاصہ
━━━━━━━━━━ 🌙 ✦ ✦ 🌙 ━━━━━━━━━━
🔖 قربانی کے صحیح احکام کو سمجھنے کے لیے جانور کی کم از کم عمر کا جاننا ضروری ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ:
❝ لا تذبحوا إلا مسنةً إلا أن یعسر علیکم، فتذبحوا جذعةً من الضأن ❞
(صحیح مسلم)
🔸 ترجمہ:
"قربانی میں صرف مسنہ (بالغ، ثنیہ) جانور ذبح کرو، تاہم اگر میسر نہ ہو تو بھیڑ (ضأن) کا جزعہ (ایک سالہ) جائز ہے۔”
📌 اس سے اصولی بات سامنے آتی ہے:
➠ مسنہ جانور قربانی کے لیے لازم ہے
➠ بھیڑ کے جزعہ کی مخصوص رعایت دی گئی
🔷 ➊ بھیڑ (ضأن) کا جزعہ – عمر و تعریف
📚 جمہور کا موقف:
جزعہ ضأن وہ ہے جو ایک سال مکمل کر چکا ہو۔
❖ فمن الضأن ما أكمل السنة وهو قول الجمهور
(فتح الباری، پ 23، ص 329)
❖ الجزع من الضأن ما له سنة تامة… هذا هو الأشهر عن أهل اللغة
(نیل الاوطار، ج 5، ص 202)
❖ ومن الضأن ما تمت له سنة
(تحفۃ الاحوزی، ج 2، ص 55)
📌 نتیجہ:
جمہور محدثین و فقہاء کے مطابق جزعہ ضأن = ایک سال مکمل کرنے والا بھیڑ کا بچہ
📚 احناف و بعض حنابلہ کا موقف:
6 ماہ کی بھیڑ بھی قربانی کے لیے جائز ہے۔
❖ والجزع من الضأن ما تمت له ستة أشهر في مذهب الفقهاء
(ہدایہ، ج 4، ص 34)
❖ نصف سنة وهو قول الحنفية وحنابلة
(فتح الباری، پ 23، ص 329)
🔸 تاہم جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ قول راجح نہیں۔
🔷 ➋ بکری (معز) کا جزعہ – عمر و حکم
📖 حدیثِ ابو بردہ بن نیارؓ:
انہوں نے عید سے قبل قربانی کی اور فرمایا کہ میرے پاس موٹی تازہ جزعہ بکری ہے:
❝ اذبحها ولا تصلح لغیرک ❞
(بخاری، مسلم)
📌 تشریح:
➠ یہ اجازت صرف ابو بردہؓ کے لیے تھی
➠ عام مسلمانوں کے لیے جزعہ معز (ایک سالہ بکری) قربانی میں جائز نہیں
📚 اقوالِ ائمہ:
❖ الجذع من المعز لا يجزي عن أحد…
(عون المعبود، ج 3، ص 54)
❖ وهذا متفقٌ عليه
(نیل الاوطار، ج 5، ص 202)
📘 لغوی تعریف:
❖ الجزع من البقر والمعز ما دخل في السنة الثانية
(تحفۃ الاحوزی، ج 2، ص 355)
🔸 نتیجہ:
بکری کا جزعہ = ایک سال مکمل کر کے دوسرے میں داخل ہونے والا جانور
➠ عام حکم میں یہ قربانی کے لیے کافی نہیں
🔷 ➌ گائے (بقر) کا جزعہ – عمر و حکم
❖ الجزع من المعز والبقر ما دخل في السنة الثانية
(تحفۃ الاحوزی، ج 2، ص 355)
📌 نتیجہ:
گائے کا جزعہ وہ ہے جو ایک سال مکمل کر چکا ہو
➠ لیکن قربانی میں گائے کا جزعہ جائز نہیں
➠ صرف مسنہ (ثنیہ) گائے قربانی میں درست ہے
🔷 ➍ اونٹ (ابل) کا جزعہ – عمر و حکم
❖ الجزع من الإبل ما دخل في الخامسة
(فتح الباری، پ 23، ص 324)
📌 یعنی:
➠ اونٹ کا جزعہ = چار سال مکمل کر کے پانچویں میں داخل
➠ مگر قربانی کے لیے جائز نہیں
➠ صرف ثنیہ اونٹ (چھٹے سال والا) درست ہے
🔷 ➎ مسنہ (ثنیہ) کی تعریف و پہچان
📖 رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
❝ لا تذبحوا إلا مسنة ❞
(صحیح مسلم)
📚 تشریحات:
❖ المسنة هي الثنية من کل شيء، والثنية أكبر من الجزعة بسنة
(نووی، ج 2، ص 155)
❖ المسن الثني الذي يلقي سنَّه… في السنة الثالثة، وفي الإبل السادسة
(فتح الباری، پ 23، ص 328)
🔸 یعنی:
"مسنہ” وہ ہے جس کے سامنے کے دودھ کے دانت گر چکے ہوں اور نئے دانت آ گئے ہوں۔
📌 جانوروں کے ثنیہ (مسنہ) ہونے کی عمر:
جانور کم از کم عمر (ثنیہ)
اونٹ: 5 سال مکمل + چھٹے میں داخل
گائے: 2 سال مکمل + تیسرے میں داخل
بکری: 2 سال مکمل + تیسرے میں داخل
بھیڑ: 2 سال مکمل (ثنیہ)، لیکن 1 سالہ جزعہ بھی جائز
🔷 ➏ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا عمل
❖ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہمیشہ ثنیہ جانور قربان کرتے، خواہ بھیڑ ہی کیوں نہ ہو۔
(مصفیٰ، ج 1، ص 181؛ زرقانی، ج 3، ص 223)
🔸 یعنی:
سنت پر عمل اور احتیاط کا اعلیٰ نمونہ قائم کیا۔
🔷 ➐ خلاصۂ بحث:
✅ عام قاعدہ: صرف مسنہ (ثنیہ) جانور ہی قربانی کے لیے جائز ہے
✅ استثناء: صرف بھیڑ (ضأن) کا ایک سالہ جزعہ
🚫 گائے، بکری، اونٹ کا جزعہ قربانی میں جائز نہیں
📌 دانت کا بدل جانا ثنیہ ہونے کی علامت
📝 علاقائی فرق کی صورت میں دانت کا معیار معتبر ہو گا
🔷 ➑ اختتامی بات
🕋 قربانی عبادت ہے
🔎 اس میں علم، احتیاط، اور اتباعِ سنت ضروری ہے
⚠️ بے دلیل رائے یا جذباتی فتوے سے اجتناب کریں
📘 محدثین و فقہاء کی تصریحات ہی اصل رہنمائی ہیں۔
❖ وَ اللهُ أَعلَمُ بِالصَّوابِ ❖
━━━━━━━━━━ 🔗 ━━━━━━━━━━
📎 مکمل مضمون اور حوالہ جات پڑھنے کے لیے:
👉 https://tohed.com/0f4fd7
━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━
┏━❀•••✧❁✧•••❀━┓
🌙 قربانی میں شریک تمام افراد کا
صحیح العقیدہ اور موحّد ہونا لازم
┗━❀•••✧❁✧•••❀━┛
🕋 ایامِ اضحیٰ میں قربانی کا معیار:
صحیح قربانی وہ ہے جو:
📌 خالص توحید
📌 پاکیزہ کمائی
📌 اور سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق ہو۔
اس تفصیلی مضمون میں تین بنیادی سوالات کے تحقیقی جوابات شامل ہیں:
━━━━━━━━━━━━━━
❓ سوال نمبر 1:
گائے یا اونٹ میں شریک تمام افراد کا موحّد مسلمان ہونا شرط ہے؟
✅ جی ہاں!
📍 تمام حصے دار صحیح العقیدہ مسلمان ہوں۔
📍 غیر مسلم، بدعتی یا بے نماز شخص کی شرکت سے پوری قربانی باطل ہو جاتی ہے۔
📚 یہ موقف حافظ عبدالقادر روپڑیؒ کا ہے (فتویٰ: تنظیم اہل حدیث، 21 دسمبر 1973ء) اور ائمۂ حدیث نے اسے قبول کیا ہے۔
📝 نیت کی وحدت بھی شرط ہے:
تمام افراد کی نیت صرف "قربانی” ہو۔
❌ عقیقہ، نذر یا صدقہ وغیرہ کی نیت شامل نہ ہو۔
📖 حدیث:
«وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى»
ترجمہ: "اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔”
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، حدیث 1)
🔢 حصص کی تعداد:
▫️ گائے میں سات
▫️ اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں
بشرطیکہ اوپر کی دونوں شرائط پوری ہوں۔
━━━━━━━━━━━━━━
❓ سوال نمبر 2:
اگر پہلے سے خریدا ہوا جانور دبلا ہو تو بہتر جانور لینا جائز ہے؟
✅ جی ہاں!
📍 اگر جانور شرعی معیار پر پورا اترتا ہو (یعنی لاغر ہو لیکن عیب دار نہ ہو) تو وہ قربانی کے لیے کافی ہے۔
📍 البتہ صاحبِ حیثیت شخص ثواب کی نیت سے بہتر جانور لینا چاہے تو یہ جائز اور مستحب ہے۔
📚 حدیث:
عن ابن عمر رضي الله عنهما:
«فِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الإِبِلِ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَابْنَةُ لَبُونٍ…»
ترجمہ: "پچیس اونٹوں پر زکوٰۃ میں بنتِ مخاض ہے، اگر وہ میسر نہ ہو تو ابنۃ لبون (یعنی بڑی عمر والی اونٹنی) دی جا سکتی ہے۔”
(صحیح البخاری، کتاب الزکاة، حدیث 1454)
📖 امام ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:
«وَإِنْ بَاعَ الْهَدْيَ وَاشْتَرَى خَيْرًا مِنْهُ جَازَ»
ترجمہ: "اگر کوئی قربانی کا (کم تر) جانور بیچ کر اس سے بہتر جانور خریدے تو یہ جائز ہے۔”
(المغنی، ج 8، ص 638)
━━━━━━━━━━━━━━
❓ سوال نمبر 3:
حدیث کے لفظ «مسنّة» کا صحیح مفہوم کیا ہے؟
🔍 لغوی تحقیق:
«مسنّة» (نون مشدد) مادّہ س ن ن سے ہے،
معنی: "دو دانت والا جانور”
یہ «مسنّن» کا مؤنث ہے، اور اس کا تعلق دانت (سِنّ) سے ہے، نہ کہ سال (سنة) سے۔
📚 حدیث:
عن جابر رضي الله عنه:
«لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ»
ترجمہ: "دو دانت والا (مسنّہ) جانور ہی ذبح کرو، اگر تم پر مشکل ہو جائے تو جذعہ دنبہ (چھوٹا مگر مکمل دانت والا) ذبح کر لو۔”
(صحیح مسلم، کتاب الأضاحی، حدیث 1963)
✳️ فقہی تطبیق:
▫️ بکری، گائے اور اونٹ — ان سب میں اگر دو مستقل دانت نکل آئیں تو وہ "مسنّہ” ہے۔
▫️ عمر کا تخمینہ اجتہادی سہولت ہے، اصل معیار دانت ہی ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━
📖 قربانی اور تقویٰ کی بنیاد:
اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْمُتَّقِينَ﴾
(المائدہ: 27)
ترجمہ: "اللہ صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔”
📚 حدیث:
عن أبي هريرة رضي الله عنه:
«إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ، لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا»
ترجمہ: "بے شک اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک (مال و عمل) ہی قبول فرماتا ہے۔”
(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، حدیث 1015)
⚠️ اگر ایک شریک کا مال حرام ہو تو پوری قربانی کی روح فوت ہو جاتی ہے، کیونکہ قبولیت کا قانون اجتماعی عمل پر یکساں نافذ ہوتا ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━
🧾 جامع نتیجہ:
✔️ تمام شریک مسلمان، موحّد، نمازی اور حلال کمائی والے ہوں
❌ اگر ایک بھی خلافِ شرع شریک ہو تو پوری قربانی ناقابلِ قبول ہو جاتی ہے۔
✔️ شرعاً لاغر مگر صحت مند جانور بدلنا ضروری نہیں
✅ لیکن افضل یہ ہے کہ بہتر جانور لیا جائے، نیت ثواب ہو۔
✔️ حدیث میں لفظ «مسنّة» سے مراد دو دانت والا جانور ہے؛
📌 عمر کا اندازہ اجتہادی سہولت ہے، نص کا بدل نہیں۔
🤲 وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب
اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا نِيَّةً خَالِصَةً، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا عَلَى سُنَّةِ رَسُولِكَ ﷺ
آمین یا رب العالمین! 🤲
━━━━━━━━━━━━━━
📤 اس پیغام کو ثوابِ جاریہ سمجھ کر آگے ضرور پھیلائیں۔
🕌 عیدُالاضحیٰ کے گوشت کی تقسیم – قرآن، حدیث اور آثارِ صحابہ سے رہنمائی 🕌
────────────────────────────
📖 1) قرآنی اصول
• ﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ﴾ – سورۂ حج 22:28
“اس (قربانی) کا گوشت خود بھی کھاؤ اور محتاج مفلس کو کھلاؤ۔”
• ﴿فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾ – سورۂ حج 22:36
“خود کھاؤ اور اُس کو بھی دو جو سوال نہ کرے اور اسے بھی جو مانگ لے۔”
👉 مقدار متعین نہیں، صرف کھانا + کھلانا لازم۔
────────────────────────────
📜 2) حدیث نبوی ﷺ
«إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ؛ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا»
“میں نے (گزشتہ سال) تمہیں ضرورت مندوں کی آمد کے سبب روکا تھا؛ اب تم کھاؤ، ذخیرہ بھی رکھو اور صدقہ بھی کرو.”
صحیح مسلم 1971
👉 تین کام بتائے گئے؛ تین برابر حصے مقرر نہیں کیے گئے۔
────────────────────────────
🗝️ 3) آثارِ صحابہؓ
• عبداللہ بن عباسؓ
«يُطْعِمُ أَهْلَ بَيْتِهِ الثُّلُثَ، وَفُقَرَاءَ جِيرَانِهِ الثُّلُثَ، وَيَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثِ»
“وہ ایک تہائی گھر والوں کو، ایک تہائی فقیر پڑوسیوں کو دیتے اور ایک تہائی صدقہ کرتے تھے۔”
(أبو موسى الأصفہانی، الوظائف)
• عبداللہ بن عمرؓ
«الضَّحَايَا ثُلُثٌ لَكَ، وَثُلُثٌ لِأَهْلِكَ، وَثُلُثٌ لِلْمَسَاكِينِ»
“قربانی کا ایک تہائی تمہارے لیے، ایک تہائی گھر والوں کے لیے، اور ایک تہائی مساکین کے لیے ہے۔”
(ابن قدامہ، المغنی 9/488)
👉 یہ تقسیم مستحب ہے، فرض نہیں۔
────────────────────────────
⚖️ 4) فقہی خلاصہ
حنفیہ و حنابلہ: تین ⅓ حصے کرنا مستحب۔
شافعیہ: آدھا خود + آدھا صدقہ کافی۔
معاصر فتویٰ (ابن بازؒ، اسلام ویب): اصل شرط یہ ہے کہ فقراء کو معقول حصہ ملے؛ برابری لازمی نہیں۔
────────────────────────────
📝 5) عملی ترتیب (سہل اور مسنون)
1️⃣ کم از کم: کچھ خود کھاؤ، کچھ صدقہ دو۔
2️⃣ افضل:
• تقریباً ⅓ صدقہ (غرباء/مساکین)
• ⅓ ہدیہ (رشتہ دار/پڑوسی/دوست)
• ⅓ گھر والے
(ضرورت ہو تو فقراء کا حصہ بڑھا دو۔)
3️⃣ گوشت محفوظ (فریز) کرنا جائز؛ تین دن کی پرانی ممانعت منسوخ ہو چکی۔
4️⃣ قصّاب کی اُجرت گوشت یا چمڑے سے نہیں؛ نقد الگ دو۔
────────────────────────────
✨ خلاصۂ کلام
“صدقہ مقدم، رشتہ دار بعد میں، باقی خود کیلئے۔”
تین حصے کرنا سنتِ صحابہؓ ہے، لیکن فرض نہیں۔ اصل مقصد محتاجوں کو حصہ پہنچانا اور ﷲ کی رضا حاصل کرنا ہے۔
اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّا وَمِنْكُم۔
━━━━━━━━━━━
📌 تکبیراتِ عیدین
━━━━━━━━━━━
🌙 نبی کریم ﷺ کا فرمان:
عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں پہلی رکعت میں سات (۷) تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ (۵) تکبیریں کہنا مسنون ہے، اور دونوں رکعتوں میں تکبیروں کے بعد قراءت کی جائے۔
📚 سنن ابی داود: ۱/۱۷۰، حدیث: ۱۱۵۱
🟢 اس حدیث کو امام احمد، علی بن المدینی، امام بخاری وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
📖 الخصیص الحبیر: ۲/۸۴، نیل المقصود: حدیث ۱۵۱
━━━━━━━━━━━
📍 چند فوائد:
━━━━━━━━━━━
➖ عید کی نماز میں ۱۲ تکبیریں مسنون ہیں (۷ + ۵)
➖ یہ عمل صحابہ کرام جیسے ابو ہریرہؓ، ابن عباسؓ، ابن عمرؓ سے بھی ثابت ہے۔
➖ رفع یدین کا ثبوت بھی موجود ہے:
"آپ ﷺ ہر تکبیر پر رفع یدین کرتے تھے۔”
📚 مسند احمد: حدیث ۶۱۷۵
➖ امام بیہقی اور ابن المنذر نے بھی رفع یدین کو سنت قرار دیا ہے۔
➖ ہر تکبیر پر ۱۰ نیکیاں ملتی ہیں، یعنی ۱۲ تکبیریں = ۱۲۰ نیکیاں!
📚 معجم الکبیر، مجمع الزوائد
💠 سجدہ تلاوت کی تکبیر پر بھی رفع یدین کا ثبوت ہے
➖ امام احمد رحمہ اللہ بھی ایسا کرتے تھے۔
📖 کتاب المسائل: جلد ۱، ص ۴۸۱
📌 مکمل تفصیل و حوالہ جات کے لیے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
👇👇
https://tohed.com/5cfa07
━━━━━━━━━━━
📤 اسے دوسروں تک ضرور پہنچائیں تاکہ سنت زندہ ہو 💬
━━━━━━━━━━━
❓ سوال:
تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین کرنا چاہیے یا نہیں؟
(سائل: محمد بن ذکی، ریاض، سعودی عرب)
🟢 جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✅ تکبیراتِ عیدین کے وقت رفع یدین کرنا مسنون ہے، کیونکہ یہ عمل صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
📖 حدیث:
"كان يرفع يديه في كل تكبيرة كبيرها قبل الركوع”
(یعنی: نبی کریم ﷺ ہر تکبیر کے ساتھ اپنے ہاتھ بلند کرتے تھے، خاص طور پر رکوع سے پہلے والی بڑی تکبیریں۔)
🔹 حوالہ جات:
• سنن ابی داود: 722
• مسند احمد: 2/133-134
🔍 فہمِ محدثین:
امام بیہقی اور ابن المنذر رحمہما اللہ نے اس حدیث کو تکبیراتِ عیدین پر منطبق کیا ہے۔
📌 نتیجہ:
تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین سنت ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔
📌 والله أعلم بالصواب
━━━━━━━━━━━
📖 عورتیں اور عیدین کی نماز
━━━━━━━━━━━
عن أم عطية رضي الله عنها قالت:
أمرنا رسولُ الله ﷺ أن نُخرجهن في الفطر والأضحى: العواتق، والحيّض، وذوات الخدور… ويشهدن الخير ودعوة المسلمين.
(صحیح مسلم، حدیث: 2056)
🟢 ترجمہ:
حضرت اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر ہم دوشیزہ، حائضہ اور پردہ نشین خواتین کو باہر نکالیں۔
🔹 حائضہ خواتین نماز سے علیحدہ رہیں، لیکن خیر و برکت اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔
میں نے عرض کی: اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کی بہن اسے اپنی چادر کا ایک حصہ پہنا دے۔“
━━━━━━━━━━━
📌 اہم نکات:
━━━━━━━━━━━
➖ خواتین کو عید کے اجتماع میں شرکت کی ترغیب
➖ پردہ کا اہتمام برقرار رکھتے ہوئے دینی شرکت
➖ باہمی مدد، تعاون اور اسلامی اخوت کا سبق
➖ حائضہ عورتیں نماز نہیں پڑھتیں، لیکن دعاؤں اور خیر کے مواقع میں شریک رہتی ہیں
📚 ماخذ: صحیح مسلم، حدیث: 2056
━━━━━━━━━━━
🤝 دینی اجتماعات میں شرکت کا جذبہ پیدا کریں اور سنت کو زندہ کریں!
━━━━━━━━━━━
━━━━━━━━━━━━━━━
📌 یوم عرفہ کی طرح، یوم النحر اور 12 ذوالحجہ کے خطبات بھی مسنون ہیں
━━━━━━━━━━━━━━━
🕌 امام حج کے لیے مستحب ہے کہ وہ یوم النحر کو خطبہ دے
➊ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
❝ خطبنا النبى صلى الله عليه وسلم يوم النحر ❞
🌿 ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یوم النحر (10 ذوالحجہ) کو خطبہ دیا ۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
👂 لوگو! معلوم ہے کہ یہ کون سا دن ہے؟
ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے…
پھر فرمایا:
❓ کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟
ہم بولے: ہاں ضرور ایسا ہی ہے۔
پھر پوچھا:
📅 یہ مہینہ کون سا ہے؟
ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
پھر فرمایا:
❓ کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟
ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں!
پھر پوچھا:
🏙️ یہ شہر کون سا ہے؟
ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔
پھر فرمایا:
❓ کیا یہ حرمت کا شہر نہیں ہے؟
ہم نے عرض کیا: ضرور ہے۔
📢 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت، اس مہینے اور اس شہر میں ہے تا آنکہ تم اپنے رب سے جا ملو……“
📚 [بخاري: 1741 ، مسلم: 1679]
➋ حضرت ہرماس بن زیاد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عید الاضحٰی کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عضباء اونٹنی پر خطبہ دیتے دیکھا۔
📚 [حسن: صحیح ابو داود: 1721 ، احمد: 12 – 213 ، ابو داود: 1954]
🌙 ایامِ تشریق کے دوران بھی خطبہ دیا گیا
➊ ابو نجیح بنو بکر کے دو آدمیوں سے روایت:
❝ رأينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يبخـطـب بين أوسط أيام التشريق ❞
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایام تشریق کے درمیانی دن (12 ذوالحجہ) میں خطبہ دیتے دیکھا۔
📚 [صحیح ابو داود: 1720 ، 1952]
➋ ابو نضرہ کی روایت:
📢 ”اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کے ساتھ۔ کیا میں نے تبلیغ کر دی؟“
👥 صحابہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کر دی ہے۔
📚 [أحمد: 411/5]
📌 یہ احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایامِ تشریق کے درمیانی دن میں بھی منٰی میں خطبہ مسنون ہے۔
📖 [نيل الأوطار: 441/3 ، الأم: 327/2 ، شرح المهذب: 226/8 ، المغنى: 319/5 … الخ]
📍 معلوم ہوا کہ دوران حج تین خطبے مشروع ہیں:
➊ عرفہ کے دن (9 ذوالحجہ)
➋ نحر کے دن (10 ذوالحجہ)
➌ ایام تشریق کے وسط میں (12 ذوالحجہ)
عمرہ کا مکمل طریقہ
📘 عمرہ کے فضائل و احکام سے پہلے — عقیدۂ توحید کی بنیادی شرط
عمرہ کے فضائل و احکام پر بات کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ چاہے عمرہ ہو، نماز ہو یا کوئی بھی عبادت — اس کے لیے عقیدۂ توحید بنیادی شرط ہے۔
اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی:
غوث الاعظم (سب سے بڑا فریادرس)
گنج بخش (خزانے دینے والا)
بگڑیاں بنانے والا
اولاد دینے والا
ہو سکتا ہے، تو یہ صریح شرک ہے۔
ایسا شخص اگر اربوں نیک اعمال بھی کرے تو وہ برباد ہو جاتے ہیں — الا یہ کہ وہ سچے دل سے توبہ کرے اور عقیدۂ توحید کو اپنائے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 قرآن میں بیان — اگر انبیاء بھی شرک کرتے تو اعمال برباد
قرآن مجید میں 17 انبیاء علیہم السلام کا ذکر خیر کرنے کے بعد فرمایا:
وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
(سورۃ الانعام 84–88)
ترجمہ:
"اگر بالفرض یہ حضرات بھی شرک کرتے تو ان کے سارے اعمال برباد کر دیے جاتے۔”
یوں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ شرک وہ جرم ہے جو نیکیوں کو جڑ سے کاٹ دیتا ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی یہی اصول
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب، رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:
لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
(سورۃ الزمر 65)
ترجمہ:
"اگر آپ ﷺ (بالفرض) شرک کرتے تو آپ کے اعمال برباد ہو جاتے اور آپ نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاتے۔”
یہ آیت بتاتی ہے کہ شرک کے مقابلے میں کوئی رتبہ، کوئی مقام، کوئی قربت بھی فائدہ نہیں دیتی — اعمال تب ہی باقی رہتے ہیں جب توحید پر قائم رہیں۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 حج و عمرہ کا بلانا — صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے
یہ جان لینا بھی بہت ضروری ہے کہ عمرہ ہو یا حج — اس کا بلانا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
وہی:
فیصلہ کرتا ہے
توفیق دیتا ہے
راستے بناتا ہے
اور بندے کو اپنے گھر بلاتا ہے
لہٰذا یہ کہنا:
❌ "بگڑی بناو مکی مدنی، در پر بلاو مکی مدنی”
❌ "مجھے در پر پھر بلانا مدنی مدینے والے”
یہ سب عقیدۂ توحید کے منافی ہے۔
⚠️ اللہ کے سوا کوئی بھی ہستی:
ہماری پکار سننے پر قادر نہیں
دعا قبول کرنے پر قادر نہیں
ہمارے نصیب، حج، عمرہ یا تقدیر پر کوئی اختیار نہیں رکھتی
فوت شدہ ہستیوں کا تو بالکل کوئی اختیار نہیں
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 حج و عمرہ کی اصل پہلی شرط — خالص توحید
اگر آپ حج یا عمرہ پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ شرکیہ عقائد سے مکمل رجوع کریں۔
✔ خالص توحید کو اپنائیں
✔ عبادت کا حق صرف اللہ کے لیے مانیں
✔ دعا، مدد، فریاد، رزق، اولاد — سب کا تعلق صرف اللہ کے ساتھ رکھیں
تاکہ آپ کی عبادت:
مقبول ہو
خالص ہو
اور آپ کے لیے نجات اور اجر کا باعث بنے
اللہ ہمیں خالص توحید پر زندہ رکھے اور اسی پر دنیا سے رخصت فرمائے۔ آمین۔
📘 عمرہ کی فضیلت
ارشادِ باری تعالیٰ:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ
”اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو۔“
🔹[2-البقرة: 192]
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 عمرہ گناہوں کا کفارہ ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ
”ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے، اور حجِ مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔“
🔹[صحیح بخاری 1773 / مسلم 1349]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1773/
https://tohed.com/hadith/muslim/1349/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 عمرہ فقیری اور گناہوں کا خاتمہ کرتا ہے
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ
”پے در پے حج و عمرہ کرتے رہو، کیونکہ حج و عمرہ فقر اور گناہوں کو ایسے مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔“
🔹[ترمذی 810 — شیخ البانی: حسن صحیح]
https://tohed.com/hadith/tirmidhi/810/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 رمضان کا عمرہ — حج کے برابر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً، أَوْ حَجَّةً مَعِي
”رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔“
🔹[صحیح بخاری 1863]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1863/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 عمرہ کی شرائط
اکثر علماء کے نزدیک فقط عمرہ بذاتِ خود فرض یا واجب نہیں— مستحب ہے۔
لیکن جب احرام باندھ لیا جائے تو پھر اسے حج کی طرح پورا کرنا فرض ہو جاتا ہے۔
اہم شرائط:
➊ مسلمان ہونا
➋ عاقل ہونا
➌ بالغ ہونا
➍ راستہ پر امن ہو
➎ استطاعت —
• سفر کے اخراجات
• اہل و عیال کی ضروریات
➏ عورت کے ساتھ شوہر یا محرم ہو
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 قبولیت کی شرائط
➊ ایمان (موحد ہو، شرک نہ ہو)
➋ اخلاص (نیت اللہ کی رضا)
➌ سنت کے مطابق عمل (طریقہ مسنون)
➍ رزقِ حلال (اللہ پاکیزہ چیز قبول کرتا ہے)
➎ عورت کے لیے محرم کا ہونا
➏ عدت والی عورت حج و عمرہ پر نہ جائے
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 عمرہ کے ارکان
➊ میقات سے احرام باندھنا
➋ بیت اللہ کا طواف
➌ حجرِ اسود کا بوسہ
➍ مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز
➎ زمزم پینا
➏ صفا و مروہ کی سعی
➐ سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 مسنون عمرہ — تفصیل کے ساتھ صحیح احادیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
① گھر سے نکلتے وقت کی مسنون دعا
بسم الله توكلت على الله، لا حول ولا قوة إلا بالله
”میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر (سفر شروع کرتا ہوں) میرا اس پر اعتماد ہے، گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی بھی وہی توفیق دیتا ہے۔“
🔹[أبوداود، الأدب 5095 — صحیح عند الالبانی]
https://tohed.com/hadith/abu-dawud/5095/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
② سواری پر بیٹھنے کی دعا
جب گھر سے ایئرپورٹ یا میقات کی طرف گاڑی میں سوار ہوں تو:
بسم اللہ پڑھیں، پھر یہ دعا پڑھیں:
اللٰه اكبر، اللٰه اكبر، اللٰه اكبر،
سبحان الذى سخر لنا هذا، وما كنا له مقرنين،
وإنا إلى ربنا لمنقلبون،
اللٰهم إنا نسالك فى سفرنا هذا البر والتقوى، ومن العمل ما ترضى،
اللٰهم هون علينا سفرنا هذا، واطو عنا بعده،
اللٰهم انت الصاحب فى السفر، والخليفة فى الاهل،
اللٰهم إني اعوذ بك من وعثاء السفر، وكآبة المنظر، وسوء المنقلب فى المال والاهل
ترجمہ:
"اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے تابع کر دیا، حالانکہ ہم اس پر قابو نہیں پا سکتے تھے، اور ہم اپنے رب کی طرف ہی لوٹنے والے ہیں۔
اے اللہ! ہم اس سفر میں تجھ سے نیکی، پرہیزگاری اور تیری رضا والے عمل کا سوال کرتے ہیں۔
اے اللہ! ہمارے لیے یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دوری کو لپیٹ دے۔
اے اللہ! سفر میں تو ہی ہمارا ساتھی ہے، اور گھروں میں تو ہی نگہبان ہے۔
اے اللہ! میں سفر کی تکلیف، بدلتے مناظر کی پریشانی، اور مال و اہل کو بُری حالت میں دیکھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔”
🔹[مسلم الحج 1342]
https://tohed.com/hadith/muslim/1342/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 ایئرپورٹ یا گھر پر احرام
✔ گھر سے
✔ یا ایئرپورٹ پر
غسل کر کے احرام باندھ لیں۔
عمرہ کی نیت میقات پر کریں، اور احرام کی تمام شرائط بھی میقات سے ہی شروع ہوں گی۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 اگلے حصے میں ان شاء اللہ احرام سے متعلق مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کیے جائیں گے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 احرام باندھنے کے مسائل — صحیح احادیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➊ احرام سے پہلے سنت کے مطابق غسل کریں
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ …
"تَجَرَّدَ لِإِهْلَالِهِ وَاغْتَسَلَ”
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لیے اپنے کپڑے اتارے اور غسل کیا۔“
🔹[صحیح ترمذی: 830]
https://tohed.com/hadith/tirmidhi/830/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➋ احرام سے پہلے تیل لگانا اور کنگھی کرنا
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفَارِقِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ مُحْرِمٌ”
”گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں جبکہ آپ محرم تھے۔“
🔹[بخاری 1538 — باب: احرام باندھنے کے وقت خوشبو لگانا اور احرام کے ارادہ کے وقت کیا پہننا چاہئے اور کنگھا کرے اور تیل لگائے۔]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1538/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➌ احرام سے پہلے مرد کا خوشبو لگانا مسنون ہے — خواتین نہیں لگائیں گی
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لِإِحْرَامِهِ …”
”میں رسول اللہ ﷺ کو احرام کے لیے خوشبو لگایا کرتی تھی۔“
🔹[صحیح بخاری 1539]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1539/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➍ حیض و نفاس والی عورت بھی غسل کرکے احرام باندھے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نبی ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اسماء بنت عمیس، کو جب انہیں نفاس شروع ہو گی،ا حکم دیں:
"أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ”
”وہ غسل کرے اور احرام باندھ لے۔“
🔹[صحیح مسلم 1210]
https://tohed.com/hadith/muslim/1210/
https://islamqa.info/ur/answers/49992
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➎ مردوں کا احرام
احرام کی دو صاف چادریں ہوں (سفید بہتر)
ایک چادر تہبند، دوسری اوڑھنے کے لیے
سر اور چہرہ کھلا
جوتا کوئی بھی ہو سکتا ہے، مگر ٹخنے ننگے ہوں
🔹[بخاری 134، مسلم 1177]
https://tohed.com/hadith/muslim/1177/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➏ عورت کا احرام — اس کا معمول کا لباس
عورت کے لیے:
اس کا عام سادہ لباس ہی احرام ہے
رنگ کی کوئی پابندی نہیں
بڑی موٹی چادر لے
غیر مردوں کا سامنا ہو تو چہرے کو چادر سے ڈھانپے
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"جب مرد قریب آتے تو ہم چادر کو چہرے پر ڈال لیتیں اور جب گزر جاتے تو اٹھا لیتیں”
🔹[صحیح بخاری 1838]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1838/
📌 مزید تفصیل:
عورت کا احرام صحیح احادیث کی روشنی میں
🔗 https://tohed.com/183be8
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 حالتِ احرام میں ممنوع چیزیں — صحیح احادیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➊ قمیص، جبہ، شلوار، پگڑی، ٹوپی، موزے، جرابیں اور بنیان پہننا منع ہے
نبی ﷺ نے محرم (احرام والے) کے لیے یہ کپڑے پہننے سے منع فرمایا۔
🔹[صحیح بخاری، الحج 1542]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1542/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➋ احرام باندھنے کے بعد خوشبو لگانا منع ہے
محرم خوشبو نہیں لگا سکتا، خواہ کپڑوں میں ہو یا جسم پر۔
🔹[صحیح بخاری، الحج 1542]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1542/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➌ احرام میں دستانے پہننا جائز نہیں
نبی ﷺ نے محرم کے لیے دستانے پہننے سے بھی منع فرمایا۔
🔹[صحیح بخاری، الحج 1542]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1542/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➍ نکاح اور منگنی کرنا منع ہے
احرام کی حالت میں:
نکاح کرنا
نکاح کروانا
تجویز / منگنی کرنا
— سب منع ہیں۔
🔹[صحیح مسلم، الحج 1409]
https://tohed.com/hadith/muslim/1409/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➎ جھگڑا، شہوانی گفتگو، بوس و کنار، شکار، درخت/گھاس کاٹنا منع ہے
سورۃ البقرہ آیت 197 میں احرام اور حدودِ حرم کے آداب بیان کیے گئے:
❗ جھگڑا نہیں
❗ شہوانی گفتگو نہیں
❗ بیوی سے بوس و کنار نہیں
❗ شکار کرنا یا بھگانا نہیں
❗ درخت یا گھاس کاٹنا منع ہے
✔ البتہ اذخر گھاس کی اجازت ہے۔
🔹[صحیح بخاری، الحج 1833]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1833/
https://tohed.com/tafsir/2/197/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➏ عورت احرام میں نقاب (چہرے پر باندھنے والا پردہ) نہیں باندھے گی
عورت کا چہرے سے چپکا ہوا عربی نقاب ممنوع ہے،
لیکن غیر مرد سے پردہ کرنا ضروری ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مرد قریب آتے:
”ہم چادر کو چہرے پر ڈال لیتیں، اور جب گزر جاتے تو ہٹا لیتیں۔“
🔹[صحیح بخاری 1838]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1838/
📌 مزید تفصیل:
عورت کا احرام صحیح احادیث کی روشنی میں
🔗 https://tohed.com/183be8
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🕋✨ احرام میں کعب (ankle-bone) کو کھلا رکھنا ضروری ہے، نہ کہ پوری پاؤں کی پشت ✨🕋
🌙 1. لغوی تحقیق
╭─⊱ تعریفِ کعب ⊰─╮
❈ «ٱلْكَعبانِ العِظْمانِ النَّاتِئانِ عِندَ مَفْصِلِ السّاقِ وَالْقَدَمِ»
“کعب وہ دو اُبھری ہڈیاں ہیں جو ساق اور قدم کے جوڑ پر ہیں۔” (لسان العرب)
╰──────────────────────────╯
اصمعی کا ردّ ☪️
«وَأَنْكَرَ الأَصمعيُّ قَوْلَ الناس: إِنَّهُ في ظَهْرِ القَدَمِ» (لسان العرب)
🔹 لغوی طور پر کعب صرف ٹخنے کی ابھری ہڈی ہے، پشتِ قدم نہیں۔
📜 2. حدیثی دلائل
حدیثِ ابن عمرؓ 🕌
«لا يَلْبَسُ المُحْرِمُ… ولا الخِفَافَ إلّا أحدٌ لا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ، ثُمَّ لْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ» (بخاری 1543؛ مسلم 1177)
“محرم موزے نہ پہنے… ہاں جسے نعلین نہ ملیں وہ موزے پہن لے، پھر انہیں دو ٹخنوں سے نیچے کاٹ دے۔”
🔸 فقہی نکتہ: رسول ﷺ نے صرف کعبین کھلے رکھنے کا حکم دیا؛ اگر پوری مِشطِ قدم کھولنا شرط ہوتا تو اسی مقام پر واضح فرما دیتے۔
📚 3. اقوالِ متقدّمین
╭───────────❂───────────╮
أبو عبید قاسم بن سلّام (م 224ھ)
عربی متن: «ٱلكعبُ الَّذِي في أَصْلِ القَدَمِ مُنْتَهى السّاقِ إلَيْهِ»
ترجمہ: “کعب وہ جگہ ہے جو قدم کی جڑ پر واقع ہے جہاں ساق آ کر ختم ہوتی ہے۔”
حوالہ: (غریب الحدیث، ج 3، ص 185)
ابن عبد البرّ (م 463ھ)
عربی متن: «ٱلكعبانِ العِظْمانِ النَّاتِئانِ عَنِ الجَنْبَيْنِ»
ترجمہ: “کعب وہ دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو پاؤں کے پہلوؤں پر نمایاں ہوتی ہیں۔”
حوالہ: (التمهید، ج 13، ص 65)
امام نووی (م 676ھ)
عربی متن:
«اتفق العلماءُ على أن المرادَ بالكعبين العِظْمانِ النَّاتِئان بين الساقِ والقدم»
ترجمہ: “علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کعبین سے مراد وہ دو اُبھری ہڈیاں ہیں جو ساق اور قدم کے بیچ میں ہیں۔”
حوالہ: (شرح صحیح مسلم، ج 8، ص 196)
ابن قدامہ (م 620ھ)
عربی متن:
«والكعابُ المشهورةُ هي الَّتِي ذَكَرْنَاها»
ترجمہ: “مشہور و معروف کعبین وہی ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے (یعنی ٹخنے کی اُبھری ہڈیاں)۔”
حوالہ: (المغنی، ج 3، ص 208)
╰───────────❂───────────╯
🏛️ 4. اقوالِ متأخّرین
حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ)
عربی متن: «هذا ضعيفٌ، لا يُعرَفُ عند أهل اللُّغة أن الكعبَ هو ظهرُ القدم»
ترجمہ: “یہ قول ضعیف ہے؛ لغت کے ماہرین کے نزدیک کعب کو پاؤں کی پشت کہنا نا معلوم ہے۔”
حوالہ: (فتح الباری، ج 3، ص 307)
اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء (سعودیہ)
عربی متن: «لا يلزم أن يكون ظهرُ القدم مكشوفًا؛ إنما الواجب كشفُ الكعبين في النعلين»
ترجمہ: “احرام کے جوتے میں پاؤں کی پشت کا کھلا ہونا ضروری نہیں؛ لازم صرف یہ ہے کہ کعبین کھلے ہوں۔”
حوالہ: (فتاوى اللجنة الدائمة، ج 11، ص 183)
شیخ محمد بن صالح العثیمین (م 1421ھ)
عربی متن: «المقصود أن تكون النعلان تحت الكعبين، وأما ظهرُ القدم فليس بشرطٍ في الإحرام»
ترجمہ: “مقصود یہ ہے کہ نعلین کعبین سے نیچے ہوں، رہا پاؤں کا اوپری حصہ تو احرام میں اس کا کھلا ہونا شرط نہیں۔”
حوالہ: (الشرح الممتع، ج 7، ص 161)
🟢 5. حنفیہ کے استدلال کا جائزہ
بعض متاخر احناف نے لغت غریب سے ہٹ کر “کعب = پشتِ قدم” مانا، لیکن
لغت کے تمام مصادر اس کی تردید کرتے ہیں۔
حدیثِ ابن عمرؓ میں «أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ» موجود ہے؛ اگر زیادہ کھلا رکھنا مقصود ہوتا تو الفاظ ظَهرِ القَدَم آتے۔
امام نووی نے اسے “اجماع کے خلاف شاذ قول” قرار دیا۔
🌟 6. خلاصہ و نتیجہ
╭═══════════════════╮
🟠 لغت: کعب فقط دونوں ٹخنے ہیں۔
🟠 حدیث: نعل کاٹنے کی حد ٹخنوں سے نیچے؛ مِشطِ قدم کھولنے کا ذکر نہیں۔
🟠 فقہ: جمہور کا فتویٰ—چپل/سینڈل جو ٹخنے کھلے رکھے ✔️ جائز ہے؛ پشتِ قدم کا کھلا ہونا ❌ لازمی نہیں۔
╰═══════════════════╯
✨ لہٰذا “احرام میں پاؤں کی اوپری ہڈی بھی لازماً کھلی رہے” کہنا بلا دلیل ہے۔ صحیح موقف یہی ہے کہ صرف دونوں ٹخنے ظاہر ہوں۔
واللّٰه أعلم بالصواب.
📘 جہاز پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھ لیں
بِسْمِ اللَّـهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
”اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“
🔹[ہود: 41]
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 میقات کا مختصر تعارف
رسول اللہ ﷺ نے مختلف سمتوں اور راستوں سے آنے والوں کے لیے پانچ میقات مقرر فرمائے:
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➊ ذوالحلیفہ (مدینہ والوں کا میقات)
• مدینہ منورہ سے مکہ جاتے ہوئے تقریباً 9 کلومیٹر پر واقع
• تمام میقاتوں میں سب سے زیادہ دور
• آج کل اسے بئر علی اور مسجد میقات کہا جاتا ہے
• وادیِ عقیق میں واقع ہے
✔ مدینہ کے رہنے والوں اور اس راستے سے آنے والوں کا میقات
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➋ رابغ (اہلِ شام، مصر، مغرب کا میقات)
• شام، مصر اور مغرب سے آنے والوں کا میقات
• سمندری یا فضائی راستے سے آنے والے کئی حجاج اس راستے سے گزرتے ہیں
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➌ قرن المنازل (اہلِ نجد کا میقات)
• نجد والوں اور اس راستے سے آنے والوں کا میقات
• آج کل اسے "السيل الكبير” کہا جاتا ہے
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➍ یلملم (اہلِ یمن، پاکستان، بھارت اور مشرقی ممالک کا میقات)
• اسے سعدیہ بھی کہا جاتا ہے
• تہامہ کے پہاڑوں میں سے ایک بلند پہاڑ (سمندر سے 2000 فٹ بلند)
• مکہ مکرمہ سے صرف 54 کلومیٹر فاصلہ
✔ پاکستان، ہندوستان، چین، یمن اور ان سب لوگوں کا میقات جو اس کے محاذات سے گزریں
📌 مکہ سے سب سے قریبی میقات
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➎ ذاتِ عرق (عراق، ایران اور شمال مشرق کے آنے والوں کا میقات)
• عراق اور ایران سے براستہ بغداد آنے والوں کا میقات
• آج کل اسے "الضَريبَة” کہتے ہیں
📘 میقات کے احکام — احادیث کے حوالہ جات
نبی ﷺ نے مختلف اطراف سے آنے والوں کے لیے پانچ میقات مقرر فرمائے،
اور اس کا ذکر صحیح احادیث میں موجود ہے:
🔹[صحیح بخاری 1524]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1524/
🔹[صحیح مسلم 1181]
https://tohed.com/hadith/muslim/1181/
📘 مسنون تلبیہ
✈️ جدہ پہنچنے سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے جب میقات کا اعلان ہو تو نیت یوں کریں:
اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ عُمْرَةً
”اے اللہ! میں عمرہ کے لیے حاضر ہوں۔“
🔹[ترمذی 821]
https://tohed.com/hadith/tirmidhi/821/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 تلبیہ مسلسل پڑھنا
نیت کرنے کے بعد، بیت اللہ پہنچنے تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہیں:
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ
لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ
إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ
لَا شَرِيكَ لَكَ
ترجمہ:
”اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں،
حمد تیرے لیے ہے، نعمت تیرے لیے ہے، بادشاہی تیری ہے،
اور تیرے ساتھ کوئی شریک نہیں۔“
🔹[صحیح بخاری، الحج 1549]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1549/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 نشیب و فراز کی دعا (سفر کے دوران)
➤ جب سواری اوپر چڑھے تو کہیں: الله اکبر
➤ جب نیچے اُترے تو کہیں: سبحان الله
یہ نبی ﷺ کی سنت ہے۔
🔹[صحیح بخاری 2993]
https://tohed.com/hadith/bukhari/2993/
🔹[صحیح بخاری 2995]
https://tohed.com/hadith/bukhari/2995/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 جدہ پہنچ کر پڑھنے کی دعا
ثناء سفر جہاں قیام کریں، اور جب آپ اپنے ہوٹل یا رہائش پر پہنچیں، یہ دعا پڑھیں:
اعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق
”میں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ساتھ اس کی مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔“
🔹[صحیح مسلم 2708]
https://tohed.com/hadith/muslim/2708/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 نوٹ: دخولِ مکہ سے پہلے غسل کرنا مسنون ہے
اگر ممکن ہو تو مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کریں۔ یہ نبی ﷺ کی سنت ہے۔
🔹[صحیح بخاری 1553]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1553/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 مسجد حرام میں داخل ہونے کی دعا
مسجد الحرام میں داخل ہوتے وقت کوئی الگ دعا مخصوص نہیں ہے۔
آپ وہی دعا پڑھیں جو عام مساجد میں داخل ہوتے وقت پڑھتے ہیں:
اللهم افتح لي أبواب رحمتك
”اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔“
🔹[صحیح مسلم 713]
https://tohed.com/hadith/muslim/713/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 حج اور عمرہ کرنے والوں کی ہر دعا قبول ہوتی ہے
عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ خانۂ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا ہو قبول ہوتی ہے—
لیکن یہ بات صحیح دلیل سے ثابت نہیں۔
صحیح بات یہ ہے کہ بیت اللہ میں مانگی ہوئی ہر دعا قبول ہوتی ہے،
کعبہ پر پہلی نظر والی تخصیص ثابت نہیں ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
الغازي فى سبيل الله والحاج والمعتمر وفد الله، دعاهم فاجابوه وسالوه فاعطاهم
”اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حاجی اور عمرہ کرنے والا اللہ کے مہمان ہیں۔
اللہ نے انہیں بلایا انہوں نے اس کو قبول کیا، پھر انہوں نے اللہ سے مانگا تو اللہ نے ان کو عطا کر دیا۔“
🔹[صحيح الترغيب والترهيب 1108 / ابن ماجه 2893 — حسن]
https://tohed.com/hadith/ibn-majah/2893/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 مسنون طواف — قرآن و حدیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📖 قرآن مجید سے دلیل
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
”پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں، اور اس قدیم گھر (بیت اللہ) کا خوب طواف کریں۔“
🔹[الحج:29]
https://tohed.com/tafsir/22/29/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📖 طواف کا عظیم ثواب
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعتیں پڑھیں، اسے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔“
🔹[سنن ابن ماجہ 2956 — صحیح]
https://tohed.com/hadith/ibn-majah/2956/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 مسنون طریقۂ طواف
➊ پہلے طواف میں دایاں کندھا ننگا رکھیں
یہ عمل اضطباع کہلاتا ہے۔
طواف مکمل ہوتے ہی کندھا ڈھانپ لیں۔
➋ طواف کی ابتداء
حجرِ اسود پر بوسہ دیں
یا
اسے ہاتھ سے چھوئیں
یا
اگر ممکن نہ ہو تو ہاتھ کا اشارہ کریں۔
📌 ان تینوں صورتوں کا ثواب برابر ہے۔
➌ سات چکر مکمل کریں
• ہر چکر حجر اسود سے شروع ہو اور وہیں ختم ہو۔
➍ ہجوم میں دھکم پیل کرنا حرام ہے
حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے کسی کو دھکا دینا، نقصان پہنچانا یا تکلیف دینا حرام ہے۔
🔹[ابن ماجہ 2954]
https://tohed.com/hadith/ibn-majah/2954/
🔹[ترمذی 859]
https://tohed.com/hadith/tirmidhi/859/
🔹[ابو داود 1883]
https://tohed.com/hadith/abu-dawud/1883/
شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان روایات کو حسن کہا ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 ہر چکر میں حجرِ اسود کے پاس پڑھنے کی دعا
بِسْمِ اللهِ، اللهُ أَكْبَر
”اللہ کے نام سے، جو بہت بڑا ہے۔“
🔹[مسند احمد 4628]
https://tohed.com/hadith/musnad-ahmad/4628/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 حجرِ اسود — جنت کا پتھر
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”حجرِ اسود جنتی پتھر ہے۔ پہلے یہ سفید تھا، پھر لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔ جو اس کا بوسہ لے گا، قیامت کے دن یہ پتھر اس کے ایمان کی گواہی دے گا۔“
🔹[سنن ابن ماجہ 2944 — صحیح]
https://tohed.com/hadith/ibn-majah/2944/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 رمل کا حکم (مردوں کے لیے)
پہلے تین چکروں میں رمل کریں
(قدرے تیز چال)
اور باقی چار چکروں میں عام انداز سے چلیں۔
📌 خواتین رمل نہیں کریں گی۔
🔹[صحیح مسلم 1264]
https://tohed.com/hadith/muslim/1264/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 رکنِ یمانی کا استلام
نبی ﷺ نے فرمایا:
”رکن یمانی اور حجر اسود کو چھونا گناہوں کو گرا دیتا ہے۔“
🔹[ترمذی 959 — صحیح]
https://tohed.com/hadith/tirmidhi/959/
🔹[نسائی 2922 — صحیح]
https://tohed.com/hadith/nasai/2922/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 رکنِ یمانی پر مسنون عمل
✔ اگر ممکن ہو تو صرف ہاتھ لگائیں
❌ بوسہ نہیں دینا
❌ اشارہ کرنا بھی مسنون نہیں
❌ ہاتھ کو چوم کر اشارہ کرنا بھی بدعت ہے
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 رکنِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان کی دعاء
اس مقام پر ہر چکر میں بکثرت یہ دعا پڑھیں:
رَبَّنَا آتِنَا فِى الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں اچھائی عطا کر،
اور آخرت میں بھی اچھائی عطا کر،
اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“
🔹[ابوداؤد، المناسک 1892]
https://tohed.com/hadith/abu-dawud/1892/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 طواف کے متعلق چند اہم مسائل
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➊ دورانِ طواف کیا پڑھیں؟
طواف میں کوئی بھی مسنون دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں
لیکن ہر چکر کے لیے الگ دعا سنت سے ثابت نہیں
طواف میں بہتر یہ ہے کہ:
✔ ذکرِ الٰہی
✔ تسبیح
✔ تحمید
✔ تکبیر
✔ تہلیل
✔ درود شریف
✔ اور تلاوتِ قرآن
سے مشغول رہیں۔
🔹[ابو داؤد 1888 — صحیح]
https://tohed.com/hadith/abu-dawud/1888/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➋ مریض یا معذور شخص کے لیے ویل چیئر پر طواف کرنا جائز ہے
حرم میں ویل چیئر (سائیکل ریڑھی) دستیاب ہوتی ہے۔
مریض، معذور یا طاقت نہ رکھنے والا شخص اس پر طواف کر سکتا ہے۔
🔹[صحیح بخاری 1612]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1612/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➌ طواف کے لیے وضو شرط ہے
نبی ﷺ نے فرمایا:
"طواف نماز کی مانند ہے”
لہٰذا طواف بغیر وضو صحیح نہیں۔
🔹[ترمذی 960 — صحیح]
https://tohed.com/hadith/tirmidhi/960/
✔ اسی لیے اگر دورانِ طواف وضو ٹوٹ جائے
تو دوبارہ وضو کریں اور طواف وہیں سے جاری رکھیں جہاں چھوڑا تھا۔
🔹[صحیح بخاری 214]
https://tohed.com/hadith/bukhari/214/
🔹[سنن نسائی 31/2]
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➍ دورانِ طواف نماز آجائے یا شرعی مجبوری ہو؟
اگر:
نماز ہو جائے
جماعت کھڑی ہو جائے
کوئی شرعی عذر آجائے
تو طواف چھوڑ کر نماز پڑھیں،
پھر اسی مقام سے طواف دوبارہ شروع کریں جہاں سے رکا تھا۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➎ حیض والی خواتین طواف نہیں کر سکتیں
حیض کی حالت میں عورت کو طواف کی اجازت نہیں۔
🔹[صحیح بخاری 1650]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1650/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➏ ہر چکر حطیم کے اوپر سے ہو
طواف کے ساتوں چکر حطیم کے باہر سے ہوں۔
حطیم کے اندر سے گزر کر طواف کرنا صحیح نہیں۔
🔹[صحیح بخاری 1586]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1586/
🔹[صحیح مسلم 1333]
https://tohed.com/hadith/muslim/1333/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➐ چکروں کی گنتی میں شک ہو جائے؟
اگر طواف کے چکروں میں شک ہو تو اصول یہ ہے:
✔ کم گنتی کو بنیاد بنا کر
✔ طواف دوبارہ مکمل کریں
🔹[مسند الشہاب — حدیث 645]
https://tohed.com/hadith/musnad-shihab/645/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
➑ طواف مکمل ہوتے ہی کندھا ڈھانپ لیں
پہلے طواف میں اضطباع (دایاں کندھا کھولنا) ہوتا ہے۔
طواف ختم ہوتے ہی کندھا فوراً ڈھانپ لیں۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
──────────────────
🕋 فضائل طواف بیت اللہ 🕋
──────────────────
🌟 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
❝ جو شخص بیت اللہ کا طواف کرے اور دو رکعت نماز پڑھے،
تو اسے غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ ❞
📘 (ابن ماجه : ٢٩٥٦، وسندہ حسن)
🌿 نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
❝ جس نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے،
تو اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اس کے گناہ معاف فرماتا ہے،
ہر قدم پر نیکی لکھتا ہے،
اور ہر قدم پر اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔ ❞
📘 (الترمذی : ٩٥٩، وسندہ حسن)
🤲 اللہ ہمیں بیت اللہ کے بار بار دیدار اور طواف کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین
──────────────────
📌 شیئر کریں، ثوابِ جاریہ بنائیں
──────────────────
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 مقامِ ابراہیم — طواف کے بعد کے مسنون اعمال
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📖 مقامِ ابراہیم پر تلاوت
طواف مکمل کرنے کے بعد مقامِ ابراہیم پر یہ آیت تلاوت کریں:
وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى
”اور مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لو۔“
🔹[البقرۃ: 125]
🔹[صحیح بخاری 4483]
https://tohed.com/hadith/bukhari/4483/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 دو رکعت نمازِ طواف
طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھیں۔
اگر وہاں جگہ نہ ملے تو مسجد الحرام میں کہیں بھی ادا کر سکتے ہیں۔
🔹[صحیح مسلم 1218]
https://tohed.com/hadith/muslim/1218/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 حرم میں زوال نہیں ہوتا
حرم میں ہر وقت نماز ادا کی جا سکتی ہے—
زوال کا حکم یہاں لاگو نہیں ہوتا۔
🔹[سنن ابن ماجہ 1254 — صحیح]
https://tohed.com/hadith/ibn-majah/1254/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 دو رکعت میں مسنون قراءت
سنت یہ ہے کہ:
پہلی رکعت → سورۃ الکافرون
دوسری رکعت → سورۃ الاخلاص
🔹[ترمذی 869]
https://tohed.com/hadith/tirmidhi/869/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 آب زمزم پینا اور سر پر ڈالنا
طواف کی دو رکعتوں کے بعد:
✔ خوب زمزم پیئیں
✔ اور اپنے سر پر بھی ڈالیں (سنت ہے)
🔹[مسند احمد — فتح الربانی 12/72 • حدیث 4388]
https://tohed.com/hadith/fath-al-rabbani/4388/
📌 آبِ زمزم پیتے وقت دعا کا حکم
آب زمزم کے لیے کوئی خاص دعا نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔
البتہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس مقصد کے لیے آبِ زمزم پیا جائے، وہ پورا ہو جاتا ہے۔”
🔹[صحیح ابن ماجہ 3062]
https://tohed.com/hadith/ibn-majah/3062/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 دوبارہ حجر اسود کا استلام
سعی پر جانے سے پہلے پھر سے حجرِ اسود کا استلام کریں اگر ممکن ہو۔
🔹[صحیح مسلم — الحج 1218]
https://tohed.com/hadith/muslim/1218/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 صفا اور مروہ کی سعی — قرآن و حدیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📖 سعی کی فرضیت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"كُتِبَ عَلَيْكُمُ السَّعْيُ فَاسْعَوْا”
”تم پر سعی فرض کر دی گئی ہے، لہٰذا سعی کرو۔“
🔹[صحیح ابن خزیمہ 2765]
https://tohed.com/hadith/ibn-khuzaimah/2765/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 صفا سے سعی کی ابتداء
صفا پر چڑھتے وقت یہ پڑھیں:
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ، أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ
”صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں، میں اسی پہاڑی سے شروع کرتا ہوں جس کا نام اللہ نے پہلے لیا۔“
🔹[صحیح مسلم 1218]
https://tohed.com/hadith/muslim/1218/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 صفا پر مسنون اذکار و دعائیں
صفا پر قبلہ رخ ہو کر:
✔ دونوں ہاتھ بلند کریں
✔ تین بار "اللہ اکبر” کہیں
✔ پھر یہ دعا پڑھیں:
لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير
لا إله إلا الله وحده، أنجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده
ترجمہ:
”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔
بادشاہی اسی کی ہے، حمد اسی کے لئے ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی، اور اس نے اکیلے نے دشمن لشکروں کو شکست دی۔“
🔹[صحیح مسلم 1218]
https://tohed.com/hadith/muslim/1218/
📌 نوٹ: صفا پر کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا کر مزید اپنی حاجات کی دعائیں کریں۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 صفا سے مروہ کی طرف سعی
✔ صفا سے مروہ جاتے ہوئے دائیں طرف والے راستے پر چلیں۔
✔ سبز نشانات (گرین لائٹس / ٹیوبوں) کے درمیان مرد حضرات ہلکی دوڑ لگائیں۔
✔ خواتین دوڑ نہیں لگائیں گی۔
🔹[صحیح ابن خزیمہ 2770]
https://tohed.com/hadith/ibn-khuzaimah/2770/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 خواتین کے لیے رمل (دوڑ) نہیں
اس بارے میں کئی صحابہ و تابعین کے اقوال موجود ہیں — سب اس بات پر متفق ہیں کہ عورتوں پر طواف اور سعی میں رمل نہیں۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:
"تم پر نہ بیت اللہ کے طواف میں رمل ہے اور نہ صفا و مروہ کی سعی میں۔”
🔹[مصنف ابن ابی شیبہ 13405]
https://tohed.com/hadith/musannaf-ibn-abi-shaybah/13405/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما:
"عورتوں پر نہ طواف میں رمل ہے، نہ صفا مروہ کے درمیان۔”
🔹[مصنف ابن ابی شیبہ 13406]
https://tohed.com/hadith/musannaf-ibn-abi-shaybah/13406/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما:
"عورتوں پر رمل نہیں۔”
🔹[مصنف ابن ابی شیبہ 13407]
https://tohed.com/hadith/musannaf-ibn-abi-shaybah/13407/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 حضرت عطاء رحمہ اللہ:
"عورتوں پر طواف اور سعی میں رمل نہیں۔”
🔹[مصنف ابن ابی شیبہ 13408]
https://tohed.com/hadith/musannaf-ibn-abi-shaybah/13408/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 حضرت حسن بصری اور حضرت عطاء دونوں فرماتے ہیں:
"عورتوں پر نہ طواف میں رمل ہے، نہ سعی میں۔”
🔹[مصنف ابن ابی شیبہ 13409]
https://tohed.com/hadith/musannaf-ibn-abi-shaybah/13409/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
#Umrah
📘 دورانِ سعی کی دعا
صفا سے اتر کر مروہ کی طرف جاتے ہوئے یہ دعا پڑھیں:
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ، وَأَنْتَ الأَعَزُّ الأَكْرَمُ
”اے میرے رب! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، اور تو ہی عزت والا، بزرگی والا ہے۔“
🔹[ابن أبی شیبہ — ما یقول الرجل في المسعى، احادیث 16281 تا 16289]
https://tohed.com/hadith/chapter/1441/sub/44910/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 سعی میں ذکر و اذکار کا اہتمام
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"صفا اور مروہ کے درمیان سعی اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے۔”
🔹[صحیح ابن خزیمہ 2738]
https://tohed.com/hadith/ibn-khuzaimah/2738/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 مروہ پر پہنچ کر کیا کریں؟
✔ وہی دعائیں اور اذکار پڑھیں جو صفا پر کیے تھے۔
✔ پھر دوبارہ صفا کی طرف روانہ ہوں، اسی طرح پورے سات چکر مکمل کریں۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 صفا مروہ کے چند اہم مسائل
➊ صفا → مروہ = ایک چکر
مروہ → صفا = دوسرا چکر
اس طرح ساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔
➋ سعی کے لیے وضو شرط نہیں
البتہ باؤضو سعی کرنا افضل ہے۔
➌ معذور، بیمار یا کمزور شخص سعی ویل چیئر پر کر سکتا ہے۔
➍ طواف کے بعد اگر سعی میں کچھ دیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔
➎ اگر چکروں میں شک ہو جائے تو بنیاد یقین پر رکھیں گے (یعنی کم گنتی)۔
➏ سعی کے دوران کندھا ڈھانپ کر رکھیں
(اضطباع صرف طواف میں ہوتا ہے، سعی میں نہیں)
➐ بوڑھے، بیمار اور کمزور دوڑ نہ لگا سکیں تو کوئی حرج نہیں۔
🔹[صحیح ابن خزیمہ 2770]
https://tohed.com/hadith/ibn-khuzaimah/2770/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 حجامت (حلق یا تقصیر)
✔ سعی کا آخری چکر مروہ پر ختم ہونے کے بعد:
مرد بال منڈوائیں (حلق) — یہ افضل ہے
یا بال کٹوا لیں (تقصیر) — جائز ہے
خواتین اپنے کچھ بال خود کاٹیں
(ان کے لیے حلق جائز نہیں)
🔹[صحیح بخاری 1727]
https://tohed.com/hadith/bukhari/1727/
🔹[سنن ابوداؤد 1979]
https://tohed.com/hadith/abu-dawud/1979/
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🎉 بس! عمرہ مکمل ہو گیا۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
#Umrah
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
📘 عمرہ کا مختصر طریقہ
عمرہ کا کوئی خاص وقت یا مہینہ مقرر نہیں۔
جب چاہیں، جس وقت چاہیں — حج کے ساتھ بھی، علیحدہ بھی — عمرہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━━━━
🟦 عمرہ کا مختصر طریقہ:
➊ میقات سے احرام باندھیں
(احرام گھر یا ایئرپورٹ سے باندھ سکتے ہیں، نیت میقات سے کریں)
➋ بیت اللہ کا طواف کریں
* پہلے طواف میں دایاں کندھا ننگا رکھیں (اضطباع)
* طواف مکمل ہوتے ہی کندھا ڈھانپ لیں
➌ طواف کی ابتداء
* حجر اسود کو بوسہ دیں
* یا ہاتھ سے چھوئیں
* یا ہاتھ کا اشارہ کریں (استلام)
➍ سات چکر مکمل کریں
* ہر چکر حجر اسود سے شروع اور وہیں ختم
* پہلے تین چکر میں رمل (قدرے تیز چال)
* باقی چار چکر عام چال
* ہر چکر میں رکنِ یمانی کو اگر ممکن ہو تو ہاتھ سے چھوئیں (بوسہ نہیں)
➎ رکنِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان دعا
یہ دعا پڑھیں (تمام مقام پر جائز دعائیں آگے تفصیل میں):
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
➏ دو رکعت نمازِ طواف
* مقامِ ابراہیم پر
* پہلی رکعت: سورۃ کافرون
* دوسری رکعت: سورۃ اخلاص
➐ آبِ زمزم پئیں
* دو رکعت کے بعد
* جہاں چاہیں زمزم پی لیں
* پھر دوبارہ حجر اسود کا استلام کریں
➑ صفا و مروہ کی سعی
* صفا سے مروہ = ایک چکر
* مروہ سے صفا = دوسرا چکر
* اسی طرح سات چکر
* سعی میں کندھا ڈھانپا رکھیں
* صفا و مروہ پر مسنون دعائیں پڑھیں
* ساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا
➒ حجامت (حلق یا تقصیر)
* مرد: بال منڈوائیں یا کٹوالیں (منڈوانا افضل)
* خواتین: اپنے کچھ بال خود کاٹ لیں (حلق جائز نہیں)
✔ اس کے بعد احرام کھول دیں — عمرہ مکمل۔
والدین اور اولاد کے حقوق، بچے کی پیدائش سے وفات تک کے مسائل
🌴 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الْـحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن 🌴
🍃 وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی أَشْرَفِ الْمُرْسَلِیْن 🍃
───────────────
والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا
───────────────
❀ ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾
“اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔”
(الإسراء 17:23)
❀ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا﴾
“اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف اٹھا کر پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا۔”
(الأحقاف 46:15)
❀ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ﴾
“اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ (اچھا سلوک کرنے کی) نصیحت کی ہے… میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔”
(لقمان 31:14)
❀ ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾
“اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو گے۔”
(البقرة 2:83)
❀ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا﴾
“اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی۔”
(العنكبوت 29:8)
❀ ﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾
“اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔”
(النساء 4:36)
───────────────
🌸 اللہ ہمیں اپنے والدین کے ساتھ بہترین سلوک کی توفیق عطا فرمائے 🌸
───────────────
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
کافر ماں باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا
❶ 🕋 عن أسماء بنت أبى بكر قالت أتتني أمي راغبة فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم فسألت النبى أصلها قال نعم وفي رواية قدمت أمي وهى مشركة
💠 ” اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئی اور وہ مشرکہ تھی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اس سے حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس سے صلہ رحمی کر، اچھا سلوک کر۔“
📘 (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب صلة الوالد المشرك: 5978)
──────────────────
سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار
❷ 🕋 عن أبى هريرة قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله من أحق بحسن صحابتي قال أمك قال ثم من قال أمك قال ثم من قال أمك قال ثم من قال ثم أبوك
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ پوچھنے لگا: اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ کس کا حق ہے کہ میں اس کے ساتھ حسن سلوک کروں۔ آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا کہ پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا: پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: پھر تیرے باپ کا۔“
📘 (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من أحق بحسن الصحبة: 5971؛ صحيح مسلم، کتاب البر والصلة: 6501)
──────────────────
❸ 🕋 عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قال قلت يا رسول الله من أبر قال أمك ثم أمك ثم أمك ثم أباك
💠 ” ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں کس سے نیکی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنے باپ سے۔“
📘 ([حسن] ابوداود، باب فی برالوالدین: 5139)
──────────────────
❹ 🕋 عن المقدام بن معديكرب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله يوصيكم بأمهاتكم ثلاثا إن الله يوصيكم بآبائكم
💠 ” مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک تمہیں وصیت کرتے ہیں یہ کہ تم اپنی ماؤں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔ (پھر فرمایا) کہ اللہ پاک تمہیں وصیت کرتے ہیں یہ کہ تم اپنے باپوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“
📘 ([صحيح] ابن ماجه، ابواب الادب، باب بر الوالدين: 3661)
──────────────────
سب سے پسندیدہ عمل
❺ 🕋 عن عبد الله قال سألت النبى صلى الله عليه وسلم أى العمل أحب إلى الله قال الصلاة على وقتها قال ثم أى قال ثم بر الوالدين قال ثم أى قال الجهاد فى سبيل الله
💠 ” عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کونسا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ پھر انہوں نے پوچھا: پھر کونسا؟ آپ نے فرمایا: ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔ پھر انہوں نے پوچھا: پھر کونسا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“
📘 (صحيح البخاري، كتاب الادب، باب قوله ووصينا الانسان بوالديه: 5970)
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں ہے
❻ 🕋 عن عبد الله بن عمرو عن النبى صلى الله عليه وسلم قال رضى الرب فى رضى الوالد وسخط الرب فى سخط الوالد
💠 ” عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔“
📘 ([صحيح] الترمذي، ابواب البر والصلة ، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين: 1899، ابن حبان ج 1 حدیث: 328؛ المستدرك: 7331)
🩵 (نوٹ) اس حدیث میں والد سے مراد ماں باپ دونوں ہیں۔
⋆ المراد بالوالد الجنس او اذا كان حكم الوالد هذا فحكم الوالدة اقوى وبالاعتبار اولى
💡 فائدہ: اگر کسی انسان پر اس کے والدین راضی ہیں تو سمجھو اس کا اللہ اس پر راضی ہے اور اگر اس پر اس کے والدین ناراض ہیں تو سمجھو اس کا اللہ بھی اس پر ناراض ہے۔ اس رضا و غضب سے مراد اسلام کے تابع رضا و غضب ہے۔
📗 (تحفة الاحوذی)
──────────────────
❼ 🕋 عن عبد الرحمن بن عوف قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال الله تعالى أنا الرحمن وهى الرحم شققت لها من اسمي من وصلها وصلته ومن قطعها بتته
💠 ” عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں مہربان ہوں اور یہ قرابت داری ہے میں نے اپنے نام سے اس کا نام کاٹ کر دیا ہے جو اسے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔“
📘 ([صحیح] ابوداود، كتاب الزكاة، باب في صلة الرحم: 1694)
💡 فائدہ: یعنی جو رشتہ داری کو ملائے گا، جوڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کا تعلق اپنے ساتھ جوڑ لیں گے۔ اور جو رشتہ داری کو ختم کرے، اسے توڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کا تعلق اپنے ساتھ سے توڑ دیں گے۔ اور عام رشتہ داروں میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کا حق والدین کا ہے۔
──────────────────
والدین جنت کا بہترین دروازہ ہیں
❽ 🕋 عن أبى الدرداء قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الوالد أوسط أبواب الجنة فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه
💠 ” ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: والدین جنت کا بہترین دروازہ ہیں یہ تیری مرضی ہے کہ تو اس دروازے کو ضائع کرے یعنی ان کو ناراض کر کے یا اس کی حفاظت کرے ان کی خدمت کر کے ان کو خوش کر کے۔“
📘 ([صحيح] ترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين: 1900، ابن ماجه، کتاب الطلاق، باب الرجل يامره ابوه بطلاق امرأته: 2089)
💡 فائدہ: اس حدیث کے مطابق ماں باپ جنت کا سب سے بہترین دروازہ ہیں یعنی جنت میں جانے کے لیے سب سے اچھا عمل والدین کی خدمت، ان کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔
──────────────────
❾ 🕋 عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم دخلت الجنة فسمعت فيها قراءة فقلت من هذا قالوا حارثة بن النعمان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كذلكم البر كذلكم البر وكان أبر الناس بأمه
💠 ” عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا میں نے قرآن پڑھنے کی آواز سنی۔ میں نے کہا: یہ کون ہے؟ فرشتوں نے کہا: یہ حارثہ بن نعمان ہے۔ نیکی کرنے کا ثواب اسی طرح ہے۔ نیکی کرنے کا ثواب اسی طرح ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ سب سے بڑھ کر سلوک کیا کرتا تھا۔“
📘 (مستدرك حاكم 7247؛ قال الحافظ فى التلخيص على شرط البخاري ومسلم. وقال الألباني: هذا سند صحيح على شرط الشيخين. وقد اخرجه ابن وهب فى الجامع 22 واللفظ له والحاكم 208/3 والحميدي 136/1 / 285 وابو يعلى 399/7 عن سفيان عنه وصححه الحاكم على شرطهما ووافقه الذهبي؛ سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 2 ص 582 رقم 913)
🩵 (فائدہ) اسی وجہ سے یعنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وجہ سے وہ قرآن زمین پر پڑھتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پڑھنے کی آواز جنت میں سنی۔
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
جنت والدین کے قدموں کے نیچے ہے
❿ 🕋 عن معاوية بن جاهمة أن جاهمة جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أردت أن أغزو وقد جئت أستشيرك فقال هل لك من أم قال نعم قال فالزمها فإن الجنة عند رجليها
💠 ” معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ میرے باپ جاہمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ (یعنی زندہ ہے) اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اس کو لازم پکڑ یعنی اس کی خدمت کر بے شک جنت اس کے پاؤں کے پاس ہے۔“
📘 (حسن صحيح النسائي، كتاب الجهاد، باب الرخصة في التخلف لمن له والدة: 3104)
──────────────────
⓫ 🕋 عن جاهمة قال أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أستشيره فى الجهاد فقال النبى صلى الله عليه وسلم ألك والدان قلت نعم قال الزمهما فإن الجنة تحت أرجلھما
💠 ” جاہمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد کرنے کا مشورہ طلب کرنے آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تیرے والدین ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: انہیں لازم پکڑ کیونکہ جنت ان دونوں کے پاؤں تلے ہے۔“
📘 ([صحيح] معجم الكبير للطبراني جلد 2 ص 289 رقم 2202؛ وقال فى المجمع 8/138؛ رواه الطبراني فى الاوسط ورجاله ثقات)
💡 فائدہ: والدین کے قدموں کے نیچے جنت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری سے اللہ انسان کو جنت عطا فرما دیتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید بیوی کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور وہ بیوی کو خوش رکھنے کے لیے سب کو ناراض کر دیتے ہیں حتی کہ ماں باپ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ والدین کے حقوق بیوی سے مقدم ہیں۔
──────────────────
والدین اولاد کے حق میں مستجاب الدعاء ہیں اور نفل نماز پر والدین کی اطاعت مقدم ہے
⓬ 🕋 عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن دعوة المظلوم ودعوة المسافر ودعوة الوالد على ولده
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دعائیں مستجاب (قبول کی جانے والی) ہیں ان کے مستجاب اور قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (1) مظلوم کی دعا (2) مسافر کی دعا (3) والدین کی اولاد کے حق میں دعا۔“
📘 (حسن الترمذى، ابواب البر والصلة، باب ما جاء في دعاء الوالدين: 1905؛ ابن ماجه، أبواب الدعاء، باب دعوة الوالد ودعوة المظلوم: 3862)
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
نفل عبادت پر والدین کی اطاعت مقدم ہے
⑬ 🕋 عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لم يتكلم فى المهد إلا ثلاثة عيسى ابن مريم وصاحب جريج وكان جريج رجلا عابدا فاتخذ صومعة فكان فيها فأتته أمه وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل علىٰ صلاته فانصرفت فلما كان من الغد أتته وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل علىٰ صلاته فانصرفت فلما كان من الغد أتته وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل علىٰ صلاته فقالت اللهم لا تمته حتىٰ ينظر إلىٰ وجوه المومسات فتذاكر بنو إسرائيل جريجا وعبادته وكانت امرأة بغي يتمثل بحسنها فقالت إن شئتم لأفتننه لكم قال فتعرضت له فلم يلتفت إليها فأتت راعيا كان يأوي إلىٰ صومعته فأمكنته من نفسها فوقع عليها فحملت فلما ولدت قالت هو من جريج فأتوه فاستنزلوه وهدموا صومعته وجعلوا يضربونه فقال ما شأنكم قالوا زنيت بهذه البغي فولدت منك فقال أين الصبي فجاءوا به فقال دعوني حتىٰ أصلي فصلىٰ فلما انصرف أتى الصبي فطعن فى بطنه وقال يا غلام من أبوك قال فلان الراعي قال فأقبلوا علىٰ جريج يقبلونه ويتمسحون به وقالوا نبني لك صومعتك من ذهب قال لا أعيدوها كما كانت من طين ففعلوا وبينا صبي يرضع من أمه فمر رجل راكب علىٰ دابة فارهة وشارة حسنة فقالت أمه اللهم اجعل ابني مثل هذا فترك الثدي وأقبل إليه فنظر إليه فقال اللهم لا تجعلني مثله ثم أقبل علىٰ ثديه فجعل يرتضع قال فكأني أنظر إلىٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحكي ارتضاعه بإصبعه السبابة فى فيه فجعل يمصها قال ومروا بجارية وهم يضربونها ويقولون زنيت سرقت وهى تقول حسبي الله ونعم الوكيل فقالت أمه اللهم لا تجعل ابني مثلها فترك الرضاع ونظر إليها فقال اللهم اجعلني مثلها
💠 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کوئی لڑکا جھولے میں نہیں بولا مگر تین لڑکے ایک تو عیسی علیہ السلام دوسرے جریج کے ساتھی اور جریج کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایک عابد شخص تھا سو اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اس میں رہتا تھا۔
اس کی ماں آئی وہ نماز پڑھ رہا تھا ماں نے پکارا: او جریج! پس اس نے کہا: اے رب میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں آخر وہ نماز میں ہی رہا۔ اس کی ماں چلی گئی پھر جب دوسرا دن ہوا پھر آئی اور پکارا: او جریج! پس اس نے کہا: اے رب میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں آخر وہ نماز میں ہی رہا۔ اس کی ماں چلی گئی پھر جب تیسرا دن ہوا پھر آئی اور پکارا او جریج! پس اس نے کہا: اے رب میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں آخر وہ نماز میں ہی رہا۔ اس کی ماں بولی: یا اللہ! اس کو مت مار جب تک بد کار عورتوں کا منہ نہ دیکھے (بددعا کی)۔
پھر بنی اسرائیل نے جریج اور اس کی عبادت کا چرچہ شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بد کار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے لوگ مثال دیتے تھے وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو فتنہ میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس آئی جو جریج کے عبادت خانہ کے قریب ٹھہرا کرتا تھا۔ اور اجازت دی (اس عورت نے) اس چرواہے کو اپنے ساتھ صحبت کرنے کی اس چرواہے نے صحبت کی پس وہ بدکار عورت حاملہ ہو گئی جب اس نے بچہ جنا تو بولی یہ بچہ جریج کا ہے۔ (جھوٹ بولا) لوگ یہ سن کر جریج کے پاس آئے اور اس کو عبادت خانہ سے اتارا اور عبادت خانہ گرا دیا اور اس کو مارنے لگے (دیکھئے ماں کی بددعا کیسے لگی)۔
وہ بولا کیا ہوا ہے تمہیں؟ انہوں نے کہا تم نے اس بد کار عورت سے زنا کیا ہے اس نے تجھ سے ایک بچہ بھی جنا ہے۔ جریج نے کہا: وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس بچہ کو لائے۔ جریج نے کہا: ذرا مجھ کو چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور بچے کے پاس آیا اور اس کے پیٹ کو ٹھونسا دیا اور کہا: اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا فلاں چرواہا۔ یہ سن کر لوگ دوڑے جریج کی طرف اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے تیرا عبادت خانہ ہم سونے سے بنا دیتے ہیں۔ وہ بولا مٹی سے بنا دو جیسے پہلے تھا۔
ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی تو اس کے قریب سے ایک سوار گزرا جس نے بہت اچھی پوشاک پہن رکھی تھی۔ اس عورت نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس شخص جیسا کر دے۔ تو بچہ ماں کی چھاتی چھوڑ کر اس سوار کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ! تو مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ پھر مڑکر ماں کی چھاتی سے دودھ پینے لگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری نظروں میں اس وقت بھی وہ منظر پھر رہا ہے وہ کہ کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی چوس کر دکھائی تھی۔
اس کے بعد اس کے پاس سے لوگ ایک لونڈی کو لے کر گزرے تو اس عورت نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس لونڈی جیسا نہ بنانا۔ یہ سن کر پھر بچے نے اپنی ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور کہنے لگا: اے اللہ! مجھے اس جیسا بنا دے۔ اس کی ماں نے پوچھا: کیوں، تو ایسا کیوں بنا چاہتا ہے؟ بچہ کہنے لگا کہ وہ سوار ایک ظالم شخص تھا جب کہ اس لونڈی کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی ہے زنا کیا ہے حالانکہ اس نے ایسا نہیں کیا۔“
📘 (مسلم، کتاب البر والصلة، باب تقديم بر الوالدين على التطوع بالصلوة وغيرها: 6509)
💡 فائدہ: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ماں کی دعا اولاد کے حق میں یا بددعا اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتے، قبول فرما لیتے ہیں، اور والدین کی بد دعا اولاد کو بھی نہیں چھوڑتی۔
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کی اطاعت دنیاوی مشکلات کا مداوا ہے
⑭ 🕋 عن ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بينما ثلاثة نفر يتمشون أخذهم المطر فأووا إلىٰ غار فى جبل فانحطت علىٰ فم غارهم صخرة من الجبل فسدت عليهم فقال بعضهم لبعض انظروا أعمالا عملتموها لله صالحة فادعوا الله بها لعله يفرجها فقال أحدهم اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي امرأة ولي صغار كنت أرعى عليهم فإذا رحت عليهم فحلبت بدأت بوالدي أسقيهما قبل بني وإنه نأىٰ بي الشجر فما أتيت حتىٰ أمسيت فوجدتهما قد ناما فحلبت كما كنت أحلب فجئت بالقدح فقمت عند رءوسهما أكره أن أوقظهما من نومهما وأكره أن أسقي الصغار قبلهما والصغار يتضاغون عند قدمي فلم يزل ذلك دأبي ودأبهم حتىٰ طلع الفجر فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرىٰ منها السماء ففرج الله لهم فرجة حتىٰ رأوا منها السماء وقال الثاني اللهم إنه كانت لي ابنة عم أحبها كأشد ما يحب الرجال النساء فطلبت إليها نفسها فأبت حتىٰ آتيها بمائة دينار فسعيت حتىٰ جمعت مائة دينار فأتيتها بها فلما قدرت بين رجليها قالت يا عبد الله اتق الله ولا تفتح الخاتم إلا بحقه فقمت عنها اللهم إن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها فرجة ففرج لهم وقال الآخر اللهم إني كنت استأجرت أجيرا بفرق من أرز فلما قضىٰ عمله قال أعطني حقي فعرضت عليه حقه فرغب عنه فلم أزل أزرعه له حتىٰ جمعت منه بقرا وراعيها فجاءني فقال اتق الله ولا تظلمني فأعطني حقي فقلت اذهب إلىٰ تلك البقر وراعيها فخذها فقال اتق الله ولا تستهزئ بي فقلت إني لا أستهزئ بك خذ تلك البقر وراعيها فأخذها فذهب بها فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي ففرج الله عنهم
💠 ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے تین اشخاص راستے میں جارہے تھے اتنے میں بارش شروع ہوئی وہ پہاڑ کی ایک غار میں گھس گئے۔ اتفاقاً پہاڑ کا ایک پتھر غار کے منہ پہ آ گرا منہ بند ہو گیا۔
اب کیا کریں؟ آپس میں صلاح کرنے لگے بھائی ایسا کرو کہ تم لوگوں نے جو نیک اعمال خالص اللہ کے لیے کئے ہیں ان کے ذریعے سے دعا مانگو شاید اللہ مشکل آسان کر دے تم کو نجات دلوائے۔
پھر ایک شخص ان تینوں میں یوں کہنے لگا یا اللہ! تو جانتا ہے میرے ماں باپ دونوں بوڑھے تھے اور میرے بچے بھی چھوٹے چھوٹے موجود تھے۔ ان کی پرورش کے لیے جانوروں کو چرایا کرتا تھا جب شام کو گھر آتا تو دودھ دوہتا تو سب سے پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا پھر اپنے بچوں کو۔ ایک دن ایسا ہوا جانور دور دراز ایک درخت چرنے کے لیے چلے گئے اور مجھ کو دیر ہوگئی میں شام تک نہیں آیا۔ (جب گھر پہنچا )دیکھا تو میرے والدین سو گئے ہیں۔
میں نے عادت کے مطابق دودھ دوہا اور صبح تک دودھ لیے ان کے سرہانے کھڑا رہا مجھے یہ اچھا نہیں معلوم ہوا کہ ان کو نیند سے جگاؤں اور نہ میں نے اس کو پسند کیا کہ پہلے بچوں کو دودھ دوں۔ گورات بھر بچے میرے پاؤں کے پاس چلاتے رہے۔ دودھ مانگتے رہے (مگر میں نے نہ دینا تھا نہ دیا )صبح تک یہی حال رہا اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام خالص تیری رضا کے لیے کیا تھا تو اس پتھر کو اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھیں تو اللہ تعالی نے اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ آسمان دیکھنے لگے۔
پھر دوسرے شخص نے دعا مانگی: اے اللہ! تجھے معلوم ہے کہ میں اپنی چچا زاد بہنوں میں سے ایک لڑکی سے شدید محبت کرتا تھا اتنی شدید محبت جتنی مرد عورت سے کر سکتا ہے۔ اس لڑکی نے کہا: تو مجھے اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک سو 100 دینار ادا نہ کرے۔ میں نے سو دینار حاصل کرنے کے لیے کوشش کی اور جمع کر لیے لیکن جب میں اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا (زنا کا ارادہ کیا) تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور نا جائز طریقے سے مہر نہ توڑ۔ یہ سن کر میں اٹھ گیا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے اللہ! جیسا کہ تو جانتا ہے یہ کام میں نے تیری رضا کی خاطر کیا تو ہمارا راستہ کھول دے۔ چنانچہ ان کے لیے دو تہائی راستہ کھل گیا۔ تیسرے نے کہا: اے اللہ! جیسا کہ تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور کو ایک فرق مونجی کے عوض ملازم رکھا تھا اور جب( کام کے بعد) اسے اُجرت دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا اور میں نے وہ مونجی زمین میں بو دی اور (اس کی آمدنی اتنی ہوئی کہ) میں نے اس سے گائیں اور چرواہا خرید لیا۔ وہ مزدور آیا اور کہنے لگا۔ اے اللہ کے بندے مجھے میرا حق ادا کر دے۔ میں نے اس سے کہا: جاؤ وہ گائیں اور ان کا چرواہا لے لو، وہ سب تمہارا ہے۔ وہ کہنے لگا: کیا تم مجھے سے مذاق کر رہے ہو؟ میں نے کہا: میں تم سے مذاق نہیں کر رہا بلکہ وہ سب ہے ہی تمہارا۔ اے اللہ جیسا کہ تو جانتا ہے، اگر یہ سب میں نے تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو ہمارا راستہ کھول دے اور ہماری مشکل آسان کر دے۔ چنانچہ ان کا راستہ کھل گیا اور ان کی مصیبت ٹل گئی۔
📘 (البخاري، كتاب الادب، باب اجابة دعاء من بر والديه: 5974)
💡 فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت سے اللہ دنیا کی مشکلات اور پریشانیوں سے بھی نجات دے دیتے ہیں۔
──────────────────
والدین کی اطاعت گناہوں کا کفارہ ہے
⑮ 🕋 عن ابن عمر أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أصبت ذنبا عظيما فهل لي توبة قال هل لك من أم قال لا قال هل لك من خالة قال نعم قال فبرها
💠 ” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول! میں نے ایک بڑا گناہ کیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ ایک روایت میں ہے کیا تیرے والدین ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تیری خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ نیک سلوک کر۔“
📘 (صحيح الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء في بر الخالة: 1904)
──────────────────
⑯ 🕋 عن ابن عمر قال أتى النبى رجل فقال يا رسول الله إني أذنبت ذنبا كبيرا فهل لي من توبة قال ألك والدان قال لا قال فلك خالة قال نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فبرها إذا
💠 ” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے بہت سے گناہ کیے ہیں۔ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیرے والدین ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تیری خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تب تو اس کے ساتھ نیک سلوک کر۔“
📘 (مستدرك حاكم الرقم 7261)
💡 فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت سے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے، اللہ تعالیٰ کبیرہ گناہوں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں۔
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کی اطاعت گناہوں کا کفارہ ہے
⑮ 🕋 عن ابن عمر أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أصبت ذنبا عظيما فهل لي توبة قال هل لك من أم قال لا قال هل لك من خالة قال نعم قال فبرها
💠 ” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول! میں نے ایک بڑا گناہ کیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ ایک روایت میں ہے کیا تیرے والدین ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تیری خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ نیک سلوک کر۔“
📘 (صحيح الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء في بر الخالة: 1904)
──────────────────
⑯ 🕋 عن ابن عمر قال أتى النبى رجل فقال يا رسول الله إني أذنبت ذنبا كبيرا فهل لي من توبة قال ألك والدان قال لا قال فلك خالة قال نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فبرها إذا
💠 ” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے بہت سے گناہ کیے ہیں۔ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیرے والدین ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تیری خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تب تو اس کے ساتھ نیک سلوک کر۔“
📘 (مستدرك حاكم الرقم 7261)
💡 فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت سے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے، اللہ تعالیٰ کبیرہ گناہوں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں۔
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کی اطاعت سے رزق میں فراخی
⑰ 🕋 عن أنس بن مالك قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سره أن يبسط له فى رزقه أو ينسأ له فى أثره فليصل رحمه
💠 ” انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ اچھا لگے کہ اس کی روزی بڑھے یا اس کا اثر (یعنی عمر) دراز ہو تو اپنے ناتے کو ملائے۔“
📘 (مسلم، كتاب البر والصلة، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها: 6523)
💡 فائدہ: انسان کے سب رشتوں ناتوں سے بہترین اور قریب ترین رشتہ والدین کا رشتہ ہے تو معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے اللہ انسان کا اثر دراز فرمادیتے ہیں اور رزق میں فراخی فرمادیتے ہیں۔
──────────────────
⑱ 🕋 عن أبى هريرة عن النبى قال تعلموا من أنسابكم ما تصلون به أرحامكم فإن صلة الرحم محبة فى الأهل مثراة فى المال منسأة فى الأثر
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے نسبوں سے اتنا سیکھو جس کے ساتھ تم اپنے ناتوں کو ملاؤ کیونکہ ناتوں کو ملانا اہل خانہ میں محبت کا، مال میں کثرت کا اور اثر (یعنی عمر) میں وسعت کا سبب ہے۔“
📘 (صحيح الترمذى، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في تعليم النسب: 1979)
──────────────────
والدین کی اجازت سے جہاد کرے
⑲ 🕋 عن عبد الله بن عمرو قال جاء رجل إلى رسول الله فاستأذنه فى الجهاد فقال أحيا والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
💠 ” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا: تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان دونوں میں جہاد کرے (یعنی ان کی خدمت کر) اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اپنے ماں باپ کے پاس جا اور ان کی اچھی طرح خدمت کر۔“
📘 (البخاري، كتاب الجهاد، باب الجهاد باذن الابرين: 3004)
💡 فائدہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری جلد 2 ص 883 میں پہلے یہ باب قائم کیا ہے
"باب لا يجاهد إلا بإذن الوالدين”
کہ آدمی نہ جہاد کرے مگر والدین کی اجازت سے۔
پھر یہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما والی حدیث ذکر کی ہے یعنی امام بخاری اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کر رہے ہیں کہ آدمی والدین کی اجازت کے بغیر جہاد نہ کرے۔
──────────────────
⑳ 🕋 عن عبد الله بن عمرو قال أتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني جئت أريد الجهاد معك أبتغي وجه الله والدار الآخرة ولقد أتيت وإن والدي ليبكيان قال فارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
💠 ” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے کہا: میں اللہ کی رضا اور اخروی گھر طلب کرتے ہوئے آپ کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور میں اس حال میں آیا ہوں کہ میرے والدین رو رہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ان کی طرف لوٹ جا، انہیں ہنسا جیسے انہیں رلایا ہے۔“
📘 (صحيح ابن ماجه، كتاب الجهاد، باب الرجل يغزو وله أبوان: 2782؛ ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الرجل يغزو وابواه كارمان. واللفظ له: 2028)
──────────────────
㉑ 🕋 أن رجلا هاجر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن فقال هل لك أحد باليمن قال أبواي قال أذنا لك قال لا قال فارجع إليهما فاستأذنهما فإن أذنا لك فجاهد وإلا فبرهما
💠 ” ایک آدمی یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لایا۔ آپ نے فرمایا: کیا یمن میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہے؟ اس نے کہا: میرے والدین ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارے والدین نے تجھے اجازت دی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس ہو جا اور اپنے والدین سے اجازت لے، اگر ماں باپ تجھے اجازت دیں تو جہاد کر، وگرنہ والدین کے ساتھ نیکی کر۔“
📘 (ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الرجل يغزو وابواه کارهان: 2530)
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
اولاد کا مال والدین کا مال ہے
㉒ 🕋 عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن لي مالا وولدا وإن والدي يحتاج مالي قال أنت ومالك لوالدك إن أولادكم من أطيب كسبكم فكلوا من كسب أولادكم
💠 ” صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، میرے پاس مال ہے اور میرا والد میرے مال کا محتاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔ تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی سے ہے تم اپنی اولاد کی کمائی کھاؤ۔“
📘 ([حسن] ابوداود، كتاب البيوع، باب في الرجل يأكل من مال ولده: 3530)
💡 فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کا مال والدین کا ہے۔ جب والدین کو ضرورت پڑ جائے اولاد کے مال کی تو والدین کو حق ہے کہ وہ جتنا چاہیں لے سکتے ہیں۔ ہاں! والدین کو بھی چاہیے کہ ظلم و زیادتی سے بچیں اور اولاد کے درمیان انصاف کریں۔ آج کل معاشرہ اس کے برعکس ہے کہ مرد حضرات جو کماتے ہیں وہ سارے کا سارا بیوی کی جیب میں اور بیوی صاحبہ (ماشاء اللہ) اپنے خاوند کے والدین سے پوچھتی ہے کہ پانچ دس روپے چاہیے؟
بھائیو! یہ بات کتنی شرم کی ہے۔ ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور والدین کو بیوی پر ترجیح دینی چاہیے۔
──────────────────
والدین کے حکم سے بیوی کو طلاق دینا
㉓ 🕋 عن عبد الله بن عمر قال كانت تحتي امرأة وكنت أحبها وكان عمر يكرهها فقال لي طلقها فأبيت فأتى عمر النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال النبى صلى الله عليه وسلم طلقها
💠 ” عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس کو چاہتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ (میرے باپ) اس کو برا جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا: تو اسے طلاق دے دے۔ میں نہ مانا۔ وہ (عمر رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کے سامنے یہ بات عرض کی تو آپ نے (مجھے) فرمایا: اس عورت کو طلاق دے دو۔“
📘 ([صحيح] أبو داود، كتاب الادب، باب في بر الوالدين: 5138)
──────────────────
㉔ 🕋 عن أبى الدرداء قال إن رجلا أتاه فقال إن لي امرأة وإن أمي تأمرني بطلاقها فقال أبو الدرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الوالد أوسط أبواب الجنة فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه
💠 ” ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: میری ایک بیوی ہے اور میری ماں مجھے اسے طلاق دینے کا حکم دیتی ہے۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے سنا تھا کہ والد جنت کا بہترین دروازہ ہے۔ اگر تو چاہے تو (ان کی خدمت کر کے) اس دروازے کی حفاظت کر لے یا ان کی نافرمانی کر کے اسے ضائع کر لے۔“
📘 (صحيح الترمذى، كتاب ابواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين: 1900)
🩵 نوٹ: والد سے مراد: ماں باپ ہیں۔ كما تقدم
💡 مطلب: ابودرداء رضی اللہ عنہ کا مقصد حدیث سنانے کا یہ تھا کہ ماں کی بات مان اور بیوی کو طلاق دے دے۔
💡 فائدہ: اگر ایک آدمی کے والدین اس کی بیوی سے خوش نہیں ہیں، ناراض ہیں، اس سے تنگ ہیں اور وہ اپنے بیٹے کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے، تو بیٹے پر فرض ہے کہ والدین کا حکم مان کر بیوی کو طلاق دے بشرطیکہ واقعی اس کا قصور اور غلطی ہو۔
اور اگر اس کا قصور اور غلطی نہ ہو اور والدین اس کو شریعت کے خلاف حکم دیتے ہیں، کہتے ہیں رفع الیدین نہ کیا کر، دربار پر جایا کر، غیر اللہ کے نام پر گیارہویں دلوایا کر وغیرہ،
اور اگر وہ عورت ان بدعات کو نہیں مانتی تو پھر ایسی صورت میں والدین کی بات مان کر بیوی کو طلاق نہیں دینی چاہیے۔
──────────────────
والدین کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے
㉕ 🕋 عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يجزي ولد والدا إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق پورا نہیں کر سکتا مگر کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے تو اسے خرید کر آزاد کر دے۔“
📘 (صحيح مسلم، کتاب العتق، باب فضل عتق الوالد: 3799؛ الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في حق الوالدين: 1906)
💡 فائدہ: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان ساری عمر والدین کی خدمت کرتا رہے، ان کی اطاعت کرتا رہے، ان کے آگے "اف” تک نہ کہے، اپنی کمر پر اٹھا کر والدین کو حج کروائے، پھر بھی والدین کا پورا حق ادا نہیں کر سکتا۔
ہاں، والدین کے حق ادا کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ والدین کو غلام لونڈی کی صورت میں پائے اور ان کو خرید کر آزاد کر دے۔
──────────────────
والدین کے دوستوں سے صلہ رحمی
㉖ 🕋 عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أبر البر صلة المرء أهل ود ابيه بعد ان يولي
💠 ” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکیوں میں سے بڑی نیکی، آدمی کا اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کرنا ہے۔“
📘 (صحیح ابوداود، کتاب الادب، باب في بر الوالدين: 5143)
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کے لیے دعا
نیک بخت اولاد کی سعادت مندی یہ ہے کہ ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرے کیونکہ اس کی تعلیم قرآن و حدیث میں دی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لیے دعا کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ تم اس طرح دعا کیا کرو:
❀ ﴿رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾
💠 ” اے میرے رب! جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم کر۔“
📘 (الإسراء 17:24)
❀ ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ﴾
💠 ” اے رب ہمارے! مجھے، میرے ماں باپ اور مومنوں کو جس دن عملوں کا حساب ہونے لگے، بخش دے۔“
📘 (إبراهيم 14:41)
──────────────────
㉗ 🕋 عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال القنطار اثنا عشر ألف أوقية كل أوقية خير مما بين السماء والأرض وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرجل لترفع درجته فى الجنة فيقول أنىٰ هذا فيقال باستغفار ولدك لك
💠 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”خزانہ بارہ ہزار اوقیہ کا ہے، ہر اوقیہ آسمان و زمین کے درمیان کی ہر چیز سے بہتر ہے۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جنت میں شخص کا درجہ بڑھایا جاتا ہے تو وہ پوچھتا ہے یہ کیوں ہوا ہے؟ تو اسے بتایا جاتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے بخشش طلب کی ہے۔“
📘 ([حسن] ابن ماجه، كتاب الادب، باب بر الوالدين: 3660)
💡 بعض علما کا اسے ضعیف قرار دینا درست نہیں۔
──────────────────
کافر اور مشرک والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ممنوع ہے
جو والدین مشرک فوت ہو جائیں ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا گناہ ہے اور ممنوع ہے۔
❀ ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾
💠 ” نبی اور اہل ایمان والوں کے لیے درست نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے بخشش طلب کریں، اگر چہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔“
📘 (التوبة 9:113)
──────────────────
بے نماز والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ممنوع ہے
جو والدین بے نماز ہیں اور وہ اسی حالت میں مر جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرنا ممنوع ہے، اس لیے کہ بے نماز مشرک ہے اور مشرک کے لیے بخشش کی دعا کرنا ممنوع ہے۔ كما تقدم
──────────────────
بے نماز کافر اور مشرک ہے
❀ ﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ﴾
💠 ” اگر وہ توبہ کر لیں، نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔“
📘 (التوبة 9:11)
💡 فائدہ: اس آیت سے ثابت ہوا کہ دینی بھائی بننے کے لیے نماز کی ادائیگی شرط ہے، جو نماز نہیں پڑھتا وہ دینی بھائی نہیں ہے یعنی غیر مسلم ہے۔
──────────────────
㉘ 🕋 إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة
💠 ” بے شک مسلمان آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔“
📘 (صحيح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلوة: 246)
──────────────────
㉙ 🕋 قال النبى صلى الله عليه وسلم ليس بين العبد والشرك إلا ترك الصلاة فإذا تركها فقد أشرك
💠 ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے اور شرک کے درمیان صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے، تو جب اس نے نماز چھوڑ دی تو اس نے شرک کیا۔“
📘 (ابن ماجه، ابواب المساجد والجماعات، باب ما جاء فيمن ترك الصلوة: 1080)
💡 سند ضعیف لضعف يزيد بن ابان الرقاشي، مگر معنی حدیث صحیح ہے کیونکہ پچھلی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔
──────────────────
㉚ 🕋 فمن تركها متعمدا فقد خرج من الملة
💠 ” جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی پس تحقیق وہ ملت (یعنی دین) سے خارج ہو گیا۔“
📘 ([حسن] الترغيب، الرقم: 797)
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کی نافرمانی حرام ہے
㉛ 🕋 عن المغيرة بن شعبة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات
💠 ” مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں کی نافرمانی اور ستانا حرام قرار دیا ہے۔“
📘 (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدين من الكبائر: 5974)
──────────────────
㉜ 🕋 عن معاذ بن جبل قال أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت أو حرقت ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك
💠 ” معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس کلمات کی وصیت کی۔ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، اگر چہ تجھے قتل کر دیا جائے یا تجھے جلا دیا جائے، اور اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرنا اگر چہ وہ دونوں تجھے حکم دیں کہ تو اپنے اہل اور مال سے نکل جائے۔“
📘 (صحيح الترغيب والترهيب، باب الترهيب من عقوق الوالدين: 2516)
──────────────────
والدین کی نافرمانی بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے
㉝ 🕋 عن عبد الرحمن بن أبى بكرة عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا أنبئكم بأكبر الكبائر قال ثلاثا قالوا بلى يا رسول الله قال الإشراك بالله وعقوق الوالدين
💠 ” ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے جو بڑے گناہ ہیں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! بتلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“
📘 (صحيح البخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدين من الكبائر: 5976)
──────────────────
㉞ 🕋 عن أبى أمامة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة لا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا عاق ومنان ومكذب بالقدر
💠 ” ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی تین آدمیوں کی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہیں فرماتے: والدین کا نافرمان، احسان جتلانے والا، اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
📘 (كتاب السنة لابن أبي عاصم الرقم 323؛ قال الالبانی حسن والله اعلم)
──────────────────
والدین کو جھڑکنا اور ڈانٹنا حرام ہے
❀ ﴿فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا﴾
💠 ” پس ماں باپ کے لیے اف تک نہ کہو، ہوں تک نہ کرنا، اور نہ انہیں ڈانٹو جھڑکو۔“
📘 (الإسراء 17:23)
💡 فائدہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر والدین بڑھاپے کی وجہ سے کوئی ایسی بات کریں جو تمہیں ناپسند ہو تو پھر بھی تم نے "اف” تک نہیں کہنا۔ یعنی والدین کے سامنے ایسی بات نہیں کرنی جس سے انہیں تکلیف یا پریشانی ہو۔
ان بھائیوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے جو والدین کو جھڑکتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، وگرنہ دنیا اور آخرت میں ذلت ان کا مقدر بن جائے گی۔
──────────────────
والدین کو پریشان کرنا جائز نہیں ہے
㉟ 🕋 عن عبد الله بن عمرو قال جاء رجل إلى رسول الله فقال جئت أبايعك علىٰ الهجرة وتركت أبوي يبكيان قال ارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
💠 ” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا: میں آپ سے ہجرت کرنے پر بیعت کرنے آیا ہوں اور اپنے والدین روتے ہوئے چھوڑ آیا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا: تو ان کی طرف لوٹ جا، انہیں ہنسا جیسے انہیں رلایا ہے۔“
📘 ([صحیح] ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الرجل يغزو وابواه کارهان: 2528)
💡 فائدہ: ہجرت بہت اونچا اور افضل عمل ہے، اتنا عظیم عمل ہے کہ ہجرت سے اللہ کریم انسان کی سابقہ زندگی کے تمام (صغیرہ و کبیرہ) گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔
اتنا عظیم عمل ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی اجازت کے بغیر ہجرت کی بھی اجازت نہیں فرمائی۔
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کے نافرمان کی ناک خاک آلود ہو
㊱ 🕋 عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال رغم أنفه ثم رغم أنفه ثم رغم أنفه قيل من يا رسول الله قال من أدرك أبويه عند الكبر أحدهما أو كليهما فلم يدخل الجنة
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی رسوا ہو) جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں نہ جائے۔“
📘 (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب رغم من ادرك ابويه او احدهما عند الكبير فلم يدخل الجنة: 6510)
💡 فائدہ: محترم بھائیو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اس بدبخت کے لیے بددعا فرما رہے ہیں جو والدین کی خدمت کر کے جنت حاصل نہیں کرتا۔
سوچئے! جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بددعا فرمائیں، وہ دنیا و آخرت میں کیسے عزت پاسکتا ہے، کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
──────────────────
والدین کے نافرمان پر اللہ کی پھٹکار
㊲ 🕋 عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رقي المنبر فقال آمين آمين آمين فقيل له يا رسول الله ما كنت تصنع هذا فقال قال لي جبريل رغم أنف عبد أدرك رمضان فانسلخ منه لم يغفر له فقلت آمين ثم قال رغم أنف عبد أدرك والديه أو أحدهما فلم يدخله الجنة فقلت آمين ثم قال رغم أنف عبد ذكرت عنده فلم يصل عليك فقلت آمين
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو فرمایا: آمین آمین آمین۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسے کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے مجھے کہا، اللہ اس آدمی کا ناک خاک آلود کرے یا اس پر اللہ کی پھٹکار ہو۔“
📘 (ابن خزيمة، باب فضائل شهر رمضان العبادة في رمضان: 1888)
⋆ جس نے رمضان کا ماہ پایا اور بخشا نہ گیا، تو میں نے کہا: آمین۔
⋆ پھر جبرئیل نے فرمایا: اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو یا اس پر پھٹکار ہو جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو پایا (پھر ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔ تو میں نے کہا: آمین۔
⋆ پھر جبرئیل نے فرمایا: اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو یا اس پر پھٹکار ہو جس شخص کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے۔ تو میں نے کہا: آمین۔
💡 فائدہ: بھائیو! والدین کے نافرمان پر سید الملائکہ جبرئیل علیہ السلام بددعا فرما رہے ہیں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہہ رہے ہیں۔
──────────────────
والدین کا نافرمان لعنتی ہے
㊳ 🕋 عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من ذبح لغير الله ملعون من عق والديه
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص لعنتی ہے جس نے لوط علیہ السلام کی قوم کا عمل کیا — آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی — اور فرمایا: وہ شخص لعنتی ہے جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا اور وہ شخص بھی لعنتی ہے جس نے والدین کی نافرمانی کی۔“
📘 (الترغيب والترهيب، باب الترهيب من عقوق الوالدين؛ قال الألبانی حسن والله أعلم: 2515)
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کو برا بھلا کہنے والا ملعون ہے
㊴ 🕋 عن أبى الطفيل عامر بن وائلة قال كنت عند على بن أبى طالب فأتاه رجل فقال ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يسر إليك قال فغضب وقال ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يسر إلى شيئا يكتمه الناس غير أنه قد حدثني بكلمات أربع قال فقال ما هن يا أمير المؤمنين قال قال لعن الله من لعن والده لعن الله من ذبح لغير الله لعن الله من آوى محدثا لعن الله من غير منار الأرض
💠 ” ابوطفیل عامر بن وائلہ بیان کرتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ایک آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس راز کی کیا بات کرتے تھے؟ وہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ غصہ ہوئے اور فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کچھ بھی راز کی بات نہیں کرتے تھے کہ جسے لوگوں سے چھپاتے ہوں سوائے اس کے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار کلمے بتائے۔ راوی کہتے ہیں: اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ کونسے ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اپنے ماں باپ پر اللہ کی لعنت بھیجی (یعنی ان کو لعنتی کہا)، اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا، اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے بدعتی کو جگہ دی۔ اور اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے زمین کے نشانات کو تبدیل کیا۔“
📘 (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب تحريم الذبح لغير الله تعالى ولعن فاعله: 5124)
──────────────────
㊵ 🕋 عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من أكبر الكبائر أن يلعن الرجل والديه قيل يا رسول الله وكيف يلعن الرجل والديه قال يسب الرجل أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه
💠 ” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو لعنتی کہے۔ پوچھا گیا کیا آدمی اپنے والدین کو لعنتی کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ آدمی دوسرے آدمی کے والد کو گالی دیتا ہے تو (جواباً) وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، یہ اُس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو (جواباً) وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔“
📘 (البخاری، کتاب الادب، باب لا يسب الرجل والديه: 5973)
──────────────────
㊶ 🕋 عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من الكبائر أن يشتم الرجل والديه قالوا يا رسول الله وهل يشتم الرجل والديه قال نعم يسب أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه
💠 ” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے والدین کو برا بھلا کہے — کبیرہ گناہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آدمی اپنے والدین کو برا بھلا کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ کسی آدمی کے باپ کو برا بھلا کہتا ہے، تو (جواباً) وہ اس کے باپ کو برا بھلا کہتا ہے، یہ اُس کی ماں کو برا بھلا کہتا ہے تو (جواباً) وہ اس کی ماں کو برا بھلا کہتا ہے۔“
📘 (صحيح الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ماجاء في عقوق الوالدين: 1902)
💡 فائدہ: معلوم ہوا کہ جو کسی کے والدین کو گالی دیتا ہے اور وہ جواباً اس کے والدین کو گالی دیتا ہے تو پہلے شخص نے گویا اپنے والدین کو گالی دی۔
──────────────────
والدین کا نافرمان جہنمی ہے
㊷ 🕋 عن عبد الله بن عمرو عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لا يدخل الجنة منان ولا عاق ولا مدمن خمر
💠 ” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں نہیں داخل ہوگا بہت زیادہ احسان جتلانے والا، ماں باپ کا نافرمان، اور ہمیشہ شراب پینے والا۔“
📘 (صحيح سنن النسائى، كتاب الاشربة، باب الرواية في المدمنين في الخمر: 5672)
──────────────────
㊸ 🕋 عن عمرو بن مرة الجهني قال جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وصليت الخمس وأديت زكاة مالي وصمت رمضان فقال النبى صلى الله عليه وسلم من مات علىٰ هذا كان مع النبيين والصديقين والشهداء يوم القيامة هكذا ونصب إصبعيه ما لم يعق والديه
💠 ” عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، میں پانچ نمازیں پڑھتا ہوں، اپنے مال کی زکوٰۃ دیتا ہوں، اور رمضان کے روزے رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حالت پر مر جائے وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین (انتہائی سچے) اور شہداء کے ساتھ اس طرح ہوگا“ — اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کو کھڑا کیا — ”جب کہ اس نے والدین کی نافرمانی نہ کی ہوگی۔“
📘 (الترغيب والترهيب، باب الترهيب من عقوق الوالدين؛ قال الألباني صحيح والله أعلم: 2515)
💡 فائدہ: آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ توحید و رسالت کا اقرار کرنے والا، نماز پڑھنے والا، زکوٰۃ دینے والا اور روزے رکھنے والا قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ والدین کا نافرمان نہ ہو۔
اگر وہ تمام نیک اعمال کے باوجود والدین کا نافرمان ہے تو وہ ان بلند درجوں کا مستحق نہیں ہوگا۔
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کے نافرمان جنت میں داخل نہیں ہوں گے
㊹ 🕋 عن جبير بن مطعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا يدخل الجنة قاطع رحم
💠 ” جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہ داری کو توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“
📘 (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها: 6521)
💡 فائدہ: عام رشتے داروں سے قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جا سکتا، تو والدین سے قطع رحمی کرنے والا جنت میں کیسے جا سکتا ہے جن کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا سب سے زیادہ حکم ہے۔
──────────────────
قیامت کے دن اللہ والدین کے نافرمان کو نہیں دیکھے گا
㊺ 🕋 عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة العاق لوالديه والمرأة المترجلة والديوث وثلاثة لا يدخلون الجنة العاق لوالديه والمدمن علىٰ الخمر والمنان بما أعطى
💠 ” عبد الله رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تین آدمیوں کی طرف اللہ تعالیٰ نہیں دیکھے گا:
● والدین کا نافرمان
● مردوں کی مشابہت کرنے والی عورت
● دیّوث (بے غیرت مرد)
تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے:
● اپنے والدین کا نافرمان
● ہمیشہ شراب پینے والا
● اور دیئے ہوئے پر احسان جتانے والا۔“
📘 ([صحيح] النسائی، کتاب الزكوة، باب المنان بما اعطى: 2562)
──────────────────
والدین کے نافرمان کو دنیا میں سزا
㊻ 🕋 عن أبى بكرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من ذنب أجدر أن يعجل الله تعالى لصاحبه العقوبة فى الدنيا مع ما يدخر له فى الآخرة من البغي وقطيعة الرحم
💠 ” ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو جلد دنیا میں اس کا عذاب دے اور آخرت میں بھی اس کے عذاب کو اس کے لیے جمع رکھے (مگر دو گناہ اس لائق ہیں): بغاوت کرنا اور رشتوں ناتوں کو توڑنا۔“
📘 ([صحيح] أبو داود، كتاب الادب، باب في النهي عن البغي: 4902)
💡 فائدہ: انسان کے سب رشتوں ناتوں سے بہترین اور قریب ترین رشتہ والدین کا رشتہ ہے، تو جو والدین سے رشتہ نہیں جوڑے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا میں جلد از جلد اسے کسی پریشانی یا مصیبت میں مبتلا کر دے گا اور آخرت میں بھی اسے عذاب دے گا۔
──────────────────
والدین کے نافرمان پر دنیاوی عذاب کی مثال
㊼ 🕋 عن العوام بن حوشب قال نزلت مرة حيا وإلىٰ جانب ذلك الحي مقبرة فلما كان بعد العصر انشق منها قبر فخرج رجل رأسه رأس حمار وجسده جسد إنسان فنهق ثلاث نهقات ثم انطبق عليه القبر فإذا عجوز تغزل شعرا أو صوفا فقالت امرأة ترىٰ تلك العجوز قلت ما لها قالت تلك أم هذا قلت وما كان قصته قالت كان يشرب الخمر فإذا راح تقول له أمه يا بني اتق الله إلىٰ متىٰ تشرب هذه الخمر فيقول لها إنك تنهقين كما ينهق الحمار قالت فمات بعد العصر قالت فهو ينشق عنه القبر بعد العصر كل يوم فينهق ثلاث نهقات ثم ينطبق عليه القبر
💠 ” عوام بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ایک قبیلے میں اترا اور اس قبیلے کے قریب ایک قبرستان تھا۔ نمازِ عصر کے بعد قبرستان میں سے ایک قبر پھٹی، اس سے ایک ایسا انسان نکلا جس کا سر گدھے کا اور جسم انسان کا تھا۔ وہ گدھے کی طرح تین دفعہ رینکا، پھر قبر اس پر بند ہو گئی۔
اچانک وہاں ایک بڑھیا اون یا بال کات رہی تھی۔ عوام بن حوشب فرماتے ہیں: ایک عورت نے کہا کہ اس عورت کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: اسے کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا: یہ بڑھیا (قبر سے نکلنے والے) اُس انسان کی ماں ہے۔ میں نے کہا: اس کا کیا قصہ ہے؟ اس نے کہا: یہ شراب پیتا تھا۔ جب شام کو گھر آتا تو اس کی ماں اسے کہتی: اے بیٹے! اللہ سے ڈر، کب تک شراب پیتا رہے گا؟ وہ (جواباً) کہتا: تو گدھے کی طرح رینکتی رہتی ہے۔
عورت نے کہا: یہ عصر کے بعد فوت ہوا اور اب ہر روز عصر کے بعد اس کی قبر پھٹتی ہے، وہ گدھے کی طرح تین بار رینکتا ہے، پھر قبر بند ہو جاتی ہے۔“
📘 (الترغيب والترهيب، باب الترهيب من عقوق الوالدين؛ قال الالباني حسن والله أعلم: 2017)
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 ماں باپ سے حسن سلوک پر 52 صحیح احادیث 🌿
╚══════════════════╝
والدین کی اطاعت شریعت کے خلاف میں نہیں کی جائے گی
❀ ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾
💠 ” اگر والدین کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا، لیکن دنیا کے معاملات میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔“
📘 (لقمان 31:15)
📖 شانِ نزول:
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے بارے میں قرآن مجید کی کئی آیتیں نازل ہوئیں۔ ان میں سے ایک یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب میری ماں نے قسم کھائی کہ وہ مجھ سے کبھی بات نہیں کرے گی جب تک میں اسلام نہ چھوڑ دوں۔ نہ کھائے گی، نہ پیئے گی۔ وہ کہنے لگی: “اللہ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے، میں تیری ماں ہوں، میں تجھے حکم دیتی ہوں کہ دین اسلام چھوڑ دے۔”
تین دن وہ اسی حالت میں رہی، کچھ نہ کھایا نہ پیا، یہاں تک کہ غش آ گیا۔ پھر اس کے بھائی عمار نے پانی پلایا۔ (پانی پی کر) وہ سعد کو بددعا دینے لگی۔ اس موقع پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ …﴾
📘 (مسلم، کتاب الفضائل، باب في فضل سعد بن ابی وقاص: 6238)
──────────────────
㊽ 🕋 عن على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا طاعة فى معصية الله إنما الطاعة فى المعروف
💠 ” علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت صرف اچھے کاموں میں ہے۔“
📘 (مسلم، كتاب الامارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية: 4765)
──────────────────
㊾ 🕋 عن النواس بن سمعان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق
💠 ” نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔“
📘 ([صحيح] شرح السنة: 2455)
──────────────────
㊿ 🕋 عن على قال بعث النبى صلى الله عليه وسلم سرية فاستعمل عليهم رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه فغضب عليهم فقال أليس أمركم النبى صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني قالوا بلى قال قد عزمت عليكم لما جمعتم لي حطبا وأوقدتم نارا ثم دخلتم فيها فجمعوا حطبا فأوقدوا فلما هموا بالدخول فجعل بعضهم ينظر إلىٰ بعض فقال قوم إنما تبعنا النبى صلى الله عليه وسلم فرارا من النار أفندخلها فبينما هم كذلك خمدت النار وسكن غضبه فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال لو دخلوها ما خرجوا منها أبدا إنما الطاعة فى المعروف
💠 ” حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ روانہ فرمایا اور اس کا امیر ایک انصاری کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کرنا۔ وہ شخص ان سے ناراض ہو گیا اور کہنے لگا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ میری اطاعت کرو؟ سب نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑیاں جمع کرو، آگ جلاؤ اور اس میں داخل ہو جاؤ۔
انہوں نے لکڑیاں جمع کیں، آگ جلائی، مگر جب داخل ہونے لگے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہا: ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آگ سے بچنے کے لیے قبول کی تھی، کیا اب اسی میں کود جائیں؟ اتنے میں آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔
یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ آگ میں داخل ہو جاتے تو کبھی نہ نکلتے، اور ہمیشہ جہنم میں رہتے۔ اطاعت صرف جائز امور میں ہے۔“
📘 (البخاري، كتاب المغازي، باب سرية عبدالله بن حذافة: 4340)
──────────────────
(51) 🕋 عن عبد الله عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة
💠 ” عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مسلم شخص پر سننا اور اطاعت کرنا ان چیزوں میں لازم ہے جنہیں وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، جب تک اسے نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔ جب نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے نہ اطاعت۔“
📘 ([صحیح] ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الطاعة: 2626)
💡 فائدہ: قرآن و احادیث سے ثابت ہوا کہ شریعت کی مخالفت میں والدین کی بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ بلکہ دنیا کے کسی شخص — خواہ وہ والدین ہوں، امیر، استاد یا کوئی اور — کی بات شریعت کے خلاف نہیں مانی جائے گی۔
📿 فتفكر وتدبر وكن من الصالحين العاملين
──────────────────
قیامت کے دن اولاد کو باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟
📖 صحیح بات یہی ہے کہ باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں باب باندھا ہے:
”باب ما يُدعى الناس بآبائهم“ (لوگوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا)
اور اس کے تحت یہ حدیث بیان کی:
(52) 🕋 عن ابن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إن الغادر يرفع له لواء يوم القيامة يقال هذه غدر فلان بن فلان
💠 ” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن دھوکے باز کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا، کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی دھوکہ بازی ہے۔“
📘 (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب ما يدعى الناس بآبائهم: 6177)
💡 فائدہ: باقی جن روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو ماں کے نام سے پکارا جائے گا وہ ضعیف ہیں۔
──────────────────
🌿 اختتامی پیغام:
اے اللہ! ہمیں اپنے والدین کے حقوق پہچاننے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے، ان کے لیے دعا کرنے اور ان کی خدمت کو عبادت سمجھنے کی توفیق عطا فرما۔
اور ہمیں ان نافرمانوں میں شامل نہ فرما جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بددعا فرمائی۔
آمین یا رب العالمین 🤲
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 ولادت کے بعد بچے کو میٹھی چیز کی گھٹی دینا — صحیح احادیث کی روشنی میں 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن عائشة
أن رسول الله كان يؤتى بالصبيان فيبرك عليهم ويحبكهم
💠 ” عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا، آپ ان کے لیے برکت کی دعا کرتے اور انہیں گھٹی دیتے تھے۔“
📘 (مسلم، كتاب الآداب، باب استحباب تحنيك المولود عند ولادته: 5619)
──────────────────
◈ عن أسماء بنت أبي بكر
فأتيت المدينة فنزلت بقباء فولدته بقباء ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضعه فى حجره ثم دعا بتمرة فمضعها ثم تفل فى فيه فكان أول شيء دخل جوفه ريق رسول الله ثم حنكه بالتمرة ثم دعا له وبرك عليه
💠 ” اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: میں مدینہ آئی تو قبا میں ٹھہری، اور قبا ہی میں بچے کو جنم دیا۔ پھر میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی، آپ نے اسے اپنی گود میں رکھا، کھجور منگوائی، چبائی، اور اس کے منہ میں لعاب داخل کیا۔ تو سب سے پہلی چیز جو اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب تھا۔ پھر آپ نے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی۔“
📘 (مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنيك المولود: 5617)
──────────────────
◈ عن أبي موسى
قال: ولد لي غلام فأتيت به النبى صلى الله عليه وسلم فسماه إبراهيم فحنكه بتمرة ودعا له بالبركة
💠 ” ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجور کے ساتھ گھٹی دی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی۔“
📘 (البخاري، كتاب العقيقة، باب تسمية المولود غداة يولد: 5467؛ مسلم، كتاب الآداب، باب استحباب تحنيك المولود عند ولادته: 5615)
──────────────────
◈ عن أنس بن مالك
قال لي أبو طلحة احفظه حتى تأتي به النبى صلى الله عليه وسلم فأتى به النبى صلى الله عليه وسلم وأرسلت معه بتمرات فأخذه النبى فقال: أمعه شيء؟ قالوا: نعم تمرات. فأخذها النبى فمضعها ثم أخذ من فيه فجعلها فى في الصبي وحنكه به وسماه عبد الله
💠 ” انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بچے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ۔ میں بچہ لے گیا، کچھ کھجوریں بھی بھیجی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کے ساتھ کوئی چیز ہے؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں، کچھ کھجوریں ہیں۔ آپ نے کھجور کو چبایا، بچے کے منہ میں رکھا اور اسے اس سے گھٹی دی، پھر اس کا نام عبد اللہ رکھا۔“
📘 (البخاري، كتاب العقيقة، باب تسمية المولود غداة يولد: 5470)
──────────────────
💡 فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے کہ نوزائیدہ بچے کو میٹھی چیز (خصوصاً کھجور) سے گھٹی دینا مستحب عمل ہے۔
اگر کھجور میسر نہ ہو تو کسی اور میٹھی چیز سے بھی گھٹی دینا جائز ہے۔
یہ عمل نبی ﷺ کی سنت کے مطابق برکت، صحت اور خیر و سعادت کی دعا کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب — سنتِ نبوی ﷺ پر عمل کی توفیق نصیب ہو
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچے کی پیدائش کے وقت کان میں اذان و اقامت کہنا 🌿
╚══════════════════╝
📖 سوال:
کیا رسول اللہ ﷺ سے بچے کی پیدائش کے وقت کان میں اذان و اقامت کہنا ثابت ہے؟
💠 جواب:
صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بچے کی پیدائش کے وقت نہ اذان کہنا ثابت ہے اور نہ ہی اقامت کہنا ثابت ہے۔
اس سلسلے میں تین روایات پیش کی جاتی ہیں، لیکن تینوں ناقابلِ حجت ہیں:
──────────────────
➊ پہلی روایت
ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں اذان دی۔
📘 (ترمذی، ابوداؤد وغیرہ)
❌ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں راوی عاصم بن عبید اللہ ضعیف ہے۔
📚 (التلخيص الحبير رقم 1985 – تقريب رقم 3065)
──────────────────
➋ دوسری روایت
حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
“جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے ام الصبیان (یعنی بیماری) کی تکلیف نہیں ہوگی۔”
❌ یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔
اس میں تین کمزور راوی ہیں:
1️⃣ مروان بن سالم الغفاری — منكر الحديث، كذاب، متروك الحديث
📚 (تهذيب التهذيب ج 5 ص 385؛ تقريب 6570)
2️⃣ یحییٰ بن العلاء — كذاب، متروك الحديث، رمي بالوضع
📚 (تهذيب ج 6 ص 162؛ تقريب 7618)
3️⃣ طلحہ العقیلی — مجہول
📚 (تقريب التهذيب رقم 3029)
لہٰذا یہ روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔
──────────────────
➌ تیسری روایت
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی۔
📘 (رواه البيهقي في شعب الإيمان)
❌ یہ روایت بھی موضوع ہے کیونکہ اس میں راوی محمد بن یونس الکریمی ہے،
جس کے بارے میں محدثین کے اقوال:
امام ابن عدی: ”اس پر روایات گھڑنے کی تہمت ہے۔“
امام ابن حبان: ”اس نے ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔“
امام موسیٰ بن ہارون اور قاسم المطرزنی نے بھی اس کی تکذیب کی ہے۔
📚 (میزان الاعتدال رقم 37816؛ تهذيب رقم 6678)
──────────────────
💠 بعض علماء کی رائے:
شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
“سنت کے اعتبار سے بچے کے کان میں اذان یا اقامت کہنا مشروع و مسنون نہیں، کیونکہ تمام روایات ضعیف یا موضوع ہیں۔”
البتہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ:
“اس پر امت کا عمل رہا ہے۔”
اسی بنیاد پر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“یہ عمل امت کے تواترِ عملی سے ثابت ہے، اس لیے اسے جائز کہا جا سکتا ہے، مگر مسنون نہیں۔”
🔹 یعنی اذان کہنا جائز تو ہے مگر سنت نہیں،
اور اقامت والی روایت تو موضوع (من گھڑت) ہے۔
──────────────────
🌿 نتیجہ:
اذان دینا: صحیح سند سے ثابت نہیں، مگر امت کے عملی تواتر کی بنیاد پر جائز ہے۔
اقامت کہنا: باطل اور موضوع روایت پر مبنی ہے، لہٰذا ثابت نہیں۔
سنتِ نبوی ﷺ: صرف تحنیک (میٹھی چیز کی گھٹی دینا) ثابت ہے، نہ کہ اذان یا اقامت۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 عقیقہ کرنا فرض ہے 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن سلمان بن عامر
قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول:
مع الغلام عقيقة فاهريقوا عنه دما وآميطوا عنه الأذى
💠 ” سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے: ہر پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، پس اس بچے کی طرف سے خون بہا دو (یعنی جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو۔“
📘 (صحيح البخاري، كتاب العقيقة، باب اماطة الأذى عن الصبي في العقيقة: 5472)
──────────────────
◈ عن عائشة
قالت: أمرنا رسول الله ﷺ أن نعق عن الغلام شاتين وعن الجارية شاة
💠 ” عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کا عقیقہ کریں۔“
📘 (صحیح ابن ماجه، ابواب الذبائح، باب العقيقة: 3163)
💡 فائدہ: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لڑکا ہو یا لڑکی، ہر ایک کا عقیقہ مشروع و لازم ہے، جیسا کہ نبی ﷺ کے حکم سے ثابت ہے۔
──────────────────
◈ عن سمرة
قال: قال رسول الله ﷺ:
الغلام مرتهن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع ويسمى ويحلق رأسه
💠 ” سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر منڈھایا جائے۔“
📘 (صحيح الترمذی، ابواب الاضاحي، باب ما جاء في العقيقة: 1522؛ ابن ماجه، ابواب الذبائح، باب العقيقة: 3165)
──────────────────
◈ عن أم كرز
قالت: سمعت رسول الله ﷺ يقول:
عن الغلام شاتان مكافتتان وعن الجارية شاة
💠 ” ام کرز رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کی جائے۔“
📘 (صحيح ابن ماجه، ابواب الذبائح، باب العقيقة: 3163؛ الترمذي، أبواب الاضاحی، باب ما جاء في العقيقة: 5113)
──────────────────
◈ عن أبى بريدة
قال: كنا فى الجاهلية إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاة ولطخ رأسه بدمها فلما جاء الله بالإسلام كنا نذبح شاة ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران
💠 ” ابو بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جاہلیت کے دور میں جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ اس کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اس کے سر پر اس بکری کا خون لگاتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت سے نوازا تو ہم ایک بکری ذبح کرتے، اس کا سر منڈھاتے اور اس کے سر پر زعفران لگاتے۔“
📘 (صحیح ابوداود، كتاب الضحايا، باب في العقيقة: 2843)
──────────────────
💡 فائدہ:
ان تمام احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ عقیقہ ساتویں دن کرنا سنتِ مؤکدہ بلکہ والدین پر لازم و واجب کے درجے میں ہے۔
اگر ساتویں دن عقیقہ کی استطاعت نہ ہو تو جب بھی مالی وسعت ہو، والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ کریں، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
“بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے۔”
📘 (الترمذی: 1522)
یعنی جب تک والدین اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ نہیں کرتے، وہ ایک طرح سے دَین (قرض) کی حیثیت رکھتا ہے۔
جس طرح کوئی شخص قرض ادا کیے بغیر آزاد نہیں ہوتا، اسی طرح اولاد کا عقیقہ بھی ادا کیا جانا چاہیے۔
اگر کسی کے پاس ساتویں دن استطاعت تھی لیکن کسی وجہ سے تاخیر ہو گئی تو بعد میں بھی عقیقہ ادائیگی لازم ہے کیونکہ یہ والدین پر قرض ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 میت کی طرف سے عقیقہ 🌿
╚══════════════════╝
اگر بچہ پیدا ہونے کے سات روز گزر جانے کے بعد فوت ہوا ہے تو پھر بھی باپ پر اس کا عقیقہ کرنا ضروری ہے۔
لیکن اگر بچہ ساتواں دن آنے سے پہلے فوت ہو جائے،
تو پھر عقیقہ فرض نہیں،
کیونکہ حدیث کے الفاظ یوم السابع (یعنی ساتویں روز) کے ہیں —
اور جب اس پر ساتواں دن آیا ہی نہیں تو اس کا عقیقہ واجب نہیں ہوتا۔
──────────────────
جب بھی عقیقہ کیا جائے تو “عقیقہ” ہی ہوگا، عام صدقہ نہیں۔
◈ عن سمرة
قال: قال رسول الله ﷺ:
الغلام مرتهن بعقيقته
💠 ” سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے۔“
📘 (صحيح الترمذی، ابواب الاضاحي، باب ما جاء في العقيقة: 1522؛ ابن ماجه، ابواب الذبائح، باب العقيقة: 3165)
──────────────────
◈ عن أنس رضي الله عنه:
أن النبى صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد ما جاءته النبوة
💠 ” انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ خود کیا۔“
📘 ([حسن] الطبراني الأوسط الرقم 1994؛ مصنف عبدالرزاق، كتاب العقيقة، باب وجوب العقيقة: 7990)
💡 فائدہ: غور فرمائیں — نبی ﷺ نے چالیس سال کے بعد اپنا عقیقہ کیا،
پھر بھی اس پر “صدقہ” نہیں بلکہ “عقیقہ” کا لفظ ہی استعمال ہوا۔
لہٰذا جب بھی یہ عمل کیا جائے، اسے عقیقہ ہی کہا جائے گا، صدقہ نہیں۔
──────────────────
لڑکے کی طرف سے دو بکریاں، لڑکی کی طرف سے ایک بکری
◈ عن أم كرز
أنها سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة فقال:
عن الغلام شاتان، وعن الجارية شاة، لا يضر كم اذكرانا كن أم إناثا
💠 ” ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
لڑکے کے عقیقے میں دو بکریاں اور لڑکی کے عقیقے میں ایک بکری۔
نر یا مادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
📘 (صحيح الترمذی، ابواب الاضاحي، باب ما جاء في العقيقة: 1513؛ ابوداود، كتاب الضحايا، باب في العقيقة: 2835)
💡 فائدہ:
افضل یہی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں عقیقہ کی جائیں۔
تاہم بوقتِ ضرورت ایک بکری بھی کفایت کر جائے گی۔
📘 دلیل:
رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک مینڈھا عقیقہ کیا۔
(ابوداؤد، الرقم: 2841)
جبکہ جس روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے دو دو مینڈھے کیے، وہ ضعیف ہے،
کیونکہ اس میں راوی قتادہ مدلس ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
💡 قربانی کی طرح “اونٹ میں دس حصے” یا “گائے میں سات حصے” والا حساب عقیقے میں نہیں چلے گا۔
عقیقہ صرف بھیڑ یا بکری سے کیا جائے گا کیونکہ احادیث میں صرف انہی کا ذکر آیا ہے۔
نیز عقیقے کے جانور کا دوندا (عمر کی شرط) ہونا ضروری نہیں ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
─────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچے کے بال منڈوانے کے بعد سر پر خوشبو لگانا — احادیث کی روشنی میں 🌿
╚══════════════════╝
اسلام نے جاہلیت کی رسومات کو ختم کر کے ان کی جگہ پاکیزہ اور بابرکت سنتیں عطا فرمائیں۔
اسی طرح بچے کے سر پر خون لگانے کی جاہلی رسم کے بجائے خوشبو لگانے کی سنت عطا کی گئی۔
──────────────────
◈ عن أبى بريدة رضي الله عنه
قال: كنا فى الجاهلية إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاة ولطخ رأسه بدمها فلما جاء الله بالإسلام كنا نذبح شاة ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران
💠 ” ابو بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جاہلیت کے دور میں جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ اس کے لیے ایک بکری ذبح کرتا اور اس کے سر پر بکری کا خون لگاتا۔
جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت دی تو ہم ایک بکری ذبح کرتے، بچے کا سر منڈھاتے اور اس پر زعفران لگاتے۔“
📘 ([صحيح] ابوداود، كتاب الضحايا، باب في العقيقة: 2843؛ السنن الكبرى للبيهقي الرقم: 19288)
──────────────────
◈ عن عائشة رضي الله عنها
قالت: كانوا فى الجاهلية إذا عقوا عن الصبي خضبوا قطنة بدم العقيقة فإذا حلقوا رأس الصبي وضعوه على رأسه، فقال النبي ﷺ:
اجعلوا مكان الدم خُلُوقًا
💠 ” عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جاہلیت میں لوگ جب بچے کا عقیقہ کرتے تو عقیقے کے خون میں روئی بھگو کر بچے کے سر پر لگاتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم خون کی جگہ خوشبو لگاؤ۔“
📘 ([صحيح] صححه ابن السكن كما في التلخيص رقم: 1983؛ ابن حبان رقم: 5284، باب العقيقة؛ السنن الكبرى للبيهقي رقم: 19289)
──────────────────
💡 فائدہ:
نبی کریم ﷺ نے خون لگانے کی رسم کو ختم کر کے زعفران یا خوشبو لگانے کا حکم دیا۔
یہ عمل تحنیک، عقیقہ، اور حلقِ رأس کے بعد مکمل سنت کے طور پر کیا جاتا ہے۔
خوشبو لگانے سے مقصد بچے کے سر کو پاکیزگی، خوشبو اور برکت دینا ہے، نہ کہ کوئی رسم یا بدعت۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچے کا اچھا نام رکھنا اور برا نام بدلنا — صحیح احادیث کی روشنی میں 🌿
╚══════════════════╝
اسلام میں نام کی بڑی اہمیت ہے۔
نبی کریم ﷺ نے صرف نام رکھنے کی تاکید نہیں فرمائی بلکہ برے اور ناپسندیدہ نام بدلنے کو بھی سنت قرار دیا۔
──────────────────
◈ عن ابن عمر رضي الله عنهما
أن ابنة لعمر كانت يقال لها: عاصية، فسماها رسول الله ﷺ جميلة
💠 ” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام بدل کر جمیلہ (خوبصورت) رکھا۔“
📘 (صحيح مسلم، كتاب الأدب، باب استحباب تغيير الاسم القبيح إلى حسن: 5604)
──────────────────
◈ عن سهل بن سعد رضي الله عنه
قال: قال النبي ﷺ لرجلٍ ما اسمك؟ قال: حَزْنٌ، قال: أنت سَهْلٌ
💠 ” رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: میرا نام حَزْن (سخت زمین) ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تم سَہْل (نرم و ہموار) ہو۔“
📘 (صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب اسم الحزن)
──────────────────
◈ عن رجلٍ قال:
سمع النبى ﷺ يسمون رجلا منهم عبد الحجر، فقال النبي ﷺ: ما اسمك؟ قال: عبد الحجر، قال: لا، أنت عبد الله
💠 ” نبی کریم ﷺ نے سنا کہ لوگ اپنے میں سے ایک شخص کو عبد الحجر (پتھر کا بندہ) کہتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: عبد الحجر۔
آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تم عبد اللہ ہو۔“
📘 (صحيح الأدب المفرد، رقم: 811)
──────────────────
◈ عن سمرة بن جندب رضي الله عنه
قال رسول الله ﷺ:
لا تسم غلامك رباحا، ولا يسارا، ولا أفلح، ولا نافعا
💠 ” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے غلام کا نام رباح، یسار، افلح یا نافع نہ رکھو۔“
📘 (صحيح مسلم، كتاب الآداب، باب كراهية التسمية بالأسماء القبيحة: 5600)
──────────────────
◈ عن ابن عباس رضي الله عنهما
قال: كانت جويرية اسمها برة، فحوّل رسول الله ﷺ اسمها جويرية، وكان يكره أن يقال خرج من عند برة
💠 ” ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جویریہ رضی اللہ عنہا کا نام برة (نیکو کار) تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام جویریہ رکھا، کیونکہ آپ ﷺ ناپسند کرتے تھے کہ لوگ کہیں کہ آپ ‘برة’ (نیکی) کے پاس سے نکلے ہیں۔“
📘 (صحيح مسلم، كتاب الأدب، باب استحباب تغيير الاسم: 5606)
──────────────────
◈ عن أسامة بن أخدري رضي الله عنه
أن رجلا يقال له أصرم، فقال رسول الله ﷺ: ما اسمك؟ قال: أنا أصرم، قال: بل أنت زرعة
💠 ” اسامہ بن اخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص جس کا نام اصرَم تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: اصرم۔
آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تمہارا نام زرعہ ہے۔“
📘 (صحيح أبوداود، كتاب الأدب، باب في تغيير الاسم القبيح: 4954)
──────────────────
◈ عن عائشة رضي الله عنها
قالت: كان النبى ﷺ يغير الاسم القبيح
💠 ” عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ برے نام بدل دیتے تھے۔“
📘 (صحيح الترمذی، كتاب الأدب، باب ما جاء في تغيير الأسماء: 2839)
──────────────────
💡 فائدہ:
والدین پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کے لیے نیک، با معنی اور شرعی لحاظ سے درست نام رکھیں۔
جو نام شریعت کے منافی یا بُرے معنی رکھتا ہو، جیسے “عبدالنبی”، “عبدالرسول” یا کفریہ مفہوم والے نام — ان سے پرہیز کیا جائے۔
اگر پہلے سے ایسا نام رکھا گیا ہو تو اسے تبدیل کرنا سنتِ نبوی ﷺ ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ نام 🌿
╚══════════════════╝
──────────────────
اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ نام
◈ عن ابن عمر رضي الله عنهما
قال رسول الله ﷺ:
أحب الأسماء إلى الله عز وجل عبد الله وعبد الرحمن
💠 ” عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔“
📘 (صحيح أبوداود، كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء: 4949)
💡 فائدہ:
اللہ تعالیٰ کو وہ نام پسند ہیں جن میں عبودیت (بندگی) کا اظہار ہو۔
لہٰذا ایسے نام جو “عبد” سے شروع ہوں، جیسے:
عبدالرحیم، عبدالغفور، عبدالعزیز — یہ سب پسندیدہ ناموں میں شامل ہیں۔
──────────────────
اللہ کے ہاں سب سے بدترین اور برا نام “شہنشاہ” ہے
◈ عن أبى هريرة رضي الله عنه
قال: قال رسول الله ﷺ:
أخنى الأسماء يوم القيامة عند الله رجل تسمى ملك الأملاك
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین اور برا نام اس شخص کا ہوگا جس نے اپنا نام شہنشاہ (ملك الأملاك) رکھا۔“
📘 (صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب أبغض الأسماء إلى الله تعالى: 6205)
──────────────────
◈ وفي رواية مسلم:
أغيط رجل على الله يوم القيامة وأخبته وأغيظه عليه رجل كان يسمى ملك الأملاك، لا ملك إلا الله
💠 ” قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب، بدترین اور مبغوض شخص وہ ہوگا جس نے اپنا نام شہنشاہ (ملك الأملاك) رکھا، حالانکہ اللہ کے سوا کوئی شہنشاہ نہیں ہے۔“
📘 (صحيح مسلم، كتاب الأدب، باب تحريم التسمى ملك الأملاك وملك الملوك: 5611)
💡 فائدہ:
ایسے القابات جو اللہ کی شان میں شریک ہوں — جیسے شہنشاہ، سلطانِ عالم، ربّ العالمین وغیرہ —
ان کا استعمال حرام ہے۔
عام لوگ مذاق یا بڑائی کے اظہار میں کہتے ہیں: “فلاں بڑا شہنشاہ ہے” —
ایسے الفاظ سے اجتناب ضروری ہے،
کیونکہ اللہ کے سوا کوئی شہنشاہ نہیں۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچے کا ختنہ کرائیں — احادیث کی روشنی میں 🌿
╚══════════════════╝
اسلام میں ختنہ (Circumcision) صفائی، طہارت اور فطرتِ انسانی کا حصہ ہے۔
یہ عمل نبیوں اور رسولوں کی سنت رہا ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اسے فطری عادات میں شامل فرمایا۔
──────────────────
◈ عن أبى هريرة رضي الله عنه
قال: سمعت النبى ﷺ يقول:
الفطرة خمس: الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط
💠 ” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا کہ پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں:
➊ ختنہ کرانا
➋ زیر ناف صفائی (لوہا استعمال کرنا)
➌ مونچھیں کاٹنا
➍ ناخن تراشنا
➎ بغل کے بال اکھیڑنا“
📘 (صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار: 5891)
💡 فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ختنہ فطرتِ اسلامیہ کا حصہ ہے۔
نبی ﷺ نے اس کو فطرت کی بنیادی علامتوں میں شمار کیا۔
بعض ضعیف روایات میں “ساتویں دن ختنہ” کا ذکر ہے، مگر وہ صحیح سند سے ثابت نہیں۔
──────────────────
ختنہ کرانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے
◈ قال رسول الله ﷺ:
اختتن إبراهيم وهو ابن ثمانين سنة بالقدوم
💠 ” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے اپنا ختنہ بسولے کے ساتھ کیا جب ان کی عمر اسی (80) سال تھی۔“
📘 (صحيح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب قوله تعالى: واتخذ الله إبراهيم خليلا : 3356)
💡 فائدہ:
ختنہ تمام انبیائے کرام کی سنت رہا ہے، اور یہ عمل پاکیزگی، طہارت اور اطاعتِ الٰہی کی علامت ہے۔
──────────────────
صفائی کے دیگر اعمال کی زیادہ سے زیادہ مدت
◈ عن أنس بن مالك رضي الله عنه
قال:
وقت لنا رسول الله ﷺ في قص الشارب وتقليم الأظفار وحلق العانة ونتف الإبط أن لا نترك أكثر من أربعين يوماً
💠 ” انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مونچھیں کاٹنے، ناخن تراشنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال صاف کرنے میں وقت مقرر کیا کہ انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑا جائے۔“
📘 (صحيح النسائي، كتاب ذكر الفطرة، باب التوقيت في ذلك: 14)
💡 فائدہ:
ان صفائی کے اعمال کو چالیس دن سے زیادہ مؤخر کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔
ان کاموں میں سستی نہ کی جائے؛ یہ اسلام کی صفائی، طہارت اور نظم و ضبط کی تعلیمات میں سے ہیں۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 مائیں بچوں کو دودھ پلائیں — قرآن کی روشنی میں 🌿
╚══════════════════╝
❀ ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ﴾
💠 ”مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں۔“
📘 (البقرة 2:233)
• اللہ تعالیٰ نے ماں کو حکم دیا کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے۔
• ماں کا دودھ بچے کے لیے فطری رزق اور بہترین غذائیت ہے۔
──────────────────
ماں کے علاوہ کسی اور عورت کا دودھ پلانا بھی جائز ہے
❀ ﴿وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ﴾
💠 ”اگر تم چاہو کہ اپنی اولاد کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلواؤ تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔“
📘 (البقرة 2:233)
• ضرورت یا مجبوری کے تحت دوسری عورت سے دودھ پلوانا جائز ہے۔
• ایسی صورت میں رضاعت کی محرمیت ثابت ہو جاتی ہے۔
──────────────────
دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے
❀ ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾
💠 ”اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔“
📘 (البقرة 2:233)
• قرآن کریم نے رضاعت کی مدت 2 سال (24 مہینے) بیان فرمائی ہے۔
• جو ماں پوری مدت دودھ پلانا چاہے، یہ اس کے لیے افضل ہے۔
──────────────────
بعض علماء نے 2.5 سال (30 مہینے) کا قول بیان کیا ہے
❀ ﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾
💠 ”اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔“
📘 (الأحقاف 46:15)
• بعض علماء نے اس آیت سے 2.5 سال رضاعت کا قول کیا ہے، لیکن یہ استدلال درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ:
آیت میں حمل + رضاعت دونوں کی مشترکہ مدت 30 مہینے بتائی گئی ہے۔
صرف رضاعت کی مدت اس آیت میں بیان نہیں۔
البقرة 2:233 صاف الفاظ میں رضاعت = 2 سال بیان کرتی ہے۔
• لہٰذا درست حکم یہ بنتا ہے:
کل مدت = 30 مہینے
رضاعت = 24 مہینے
باقی مدت = 6 مہینے = کم از کم حمل کی مدت
• یہی مفہوم قرآن کی تین آیات سے مکمل ہوتا ہے:
البقرة 2:233
لقمان 14
الأحقاف 15
──────────────────
خلاصہ
دودھ پلانے کی مدت: 2 سال (24 مہینے)
30 مہینے = حمل + رضاعت دونوں
کم از کم حمل: 6 مہینے
دودھ پلانا ماں کا حق بھی ہے اور بچے کا بہترین حق بھی
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 دودھ پلانے کی مدت سے پہلے بھی دودھ چھڑانا جائز ہے 🌿
╚══════════════════╝
❀ ﴿فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا﴾
💠 ”پس اگر والدین باہمی رضامندی اور مشورے سے قبل از وقت دودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں بھی ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔“
📘 (البقرة 2:233)
فائدہ:
• اگر ماں اور باپ دونوں کے مشورے سے بچہ 2 سال سے پہلے دودھ چھوڑ سکتا ہو تو یہ جائز اور درست ہے۔
• اگر مشورہ اس بات پر ہو کہ بچے کو کسی دوسری عورت کا دودھ پلایا جائے، تو یہ بھی جائز ہے۔
• دودھ پلانے کی انتہائی مدت 2 سال ہے۔
──────────────────
خاوند کی اجازت کے بغیر دودھ چھڑانا گناہ ہے
◈ قال رسول الله ﷺ:
فإذا أنا بنساء تنهش نُدِيَّهُنَّ الحيّات
قلت: ما بال هؤلاء؟
قال: هؤلاء اللاتي يمنعن أولادهن البانَهن
💠 ”نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے عورتوں کو دیکھا کہ سانپ ان کے سینوں کو کاٹ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کون عورتیں ہیں؟ جبریلؑ نے فرمایا: یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنی اولاد کو اپنا دودھ روک کر نہیں پلاتی تھیں۔“
📘 (النسائي الكبرى 1867؛ الحاكم 2837 — صحیح، على شرط مسلم)
فائدہ:
• جو عورتیں خاوند کی اجازت کے بغیر اپنی زیبائش یا آرام کے لیے بچوں کو دودھ چھڑا دیتی ہیں، وہ اللہ سے ڈریں۔
• ایسے لوگوں کا حشر قیامت کے دن برا ہوگا۔
──────────────────
رضیع (دودھ پیتے بچے) کے پیشاب کا حکم
❀ اگر بچہ (لڑکا) صرف دودھ پر زندہ ہے اور ٹھوس غذا نہیں کھاتا تو:
• اس کے پیشاب پر صرف پانی چھڑکنا کافی ہے، دھونا ضروری نہیں۔
❀ اس کی دلیل احادیث میں موجود ہے:
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا:
بچے نے نبی ﷺ کی گود میں پیشاب کر دیا، آپ ﷺ نے پانی چھڑکا، دھویا نہیں۔
📘 (بخاری 223؛ مسلم 665)
نبی ﷺ کا عمومی حکم:
ينضح بول الغلام ويغسل بول الجارية
”لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے۔“
📘 (ابوداود 377)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ:
يغسل بول الجارية وينضح بول الغلام ما لم يطعم
”جب تک لڑکا کھانا نہ کھائے، اس کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں۔ لڑکی کا پیشاب دھویا جائے۔“
📘 (ابوداود 377)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا:
• دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارتی تھیں
• جب وہ کھانا کھانا شروع کرتا تو پھر دھوتی تھیں
📘 (ابوداود 379)
قتادہ رحمہ اللہ:
نضح (چھینٹے) کا حکم تب تک ہے جب بچہ کھانا نہ کھاتا ہو
📘 (ترمذی 71؛ ابوداود 378)
ابو السمح رضی اللہ عنہ:
حسن یا حسین رضی اللہ عنہما نے نبی ﷺ کے سینے پر پیشاب کیا، آپ نے فرمایا:
”بس پانی چھڑک دو، لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے، لڑکے کا چھڑکا جاتا ہے۔“
📘 (ابوداود 376؛ ابن ماجه 526؛ حاکم 604)
──────────────────
خلاصہ
والدین باہمی مشورے سے 2 سال سے پہلے دودھ چھڑا سکتے ہیں۔
خاوند کی اجازت کے بغیر دودھ چھڑانا حرام اور گناہ ہے۔
صرف دودھ پیتے لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا کافی ہے۔
لڑکی کے پیشاب کو ضرور دھویا جائے۔
جب بچہ کھانا کھانا شروع کر دے تو دونوں کا حکم ایک — دھونا واجب۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اولاد کے اخراجات باپ کے ذمہ ہیں 🌿
╚══════════════════╝
❀ ﴿وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
💠 ”اور بچے کے باپ پر ان کا (بچوں کی ماں کا) کھانا اور لباس ہے۔“
📘 (البقرة 2:233)
فائدہ:
• جب مطلقہ ماں کو صرف دودھ پلانے کی وجہ سے خرچ دینا باپ پر لازم ہے،
تو یقیناً اولاد کے باقی اخراجات بھی باپ ہی کی ذمہ داری ہیں۔
• اسلام میں گھر کا سربراہ (باپ) بچوں کی خوراک، لباس، علاج، تعلیم اور ضروریات کا بنیادی ذمہ دار ہے۔
──────────────────
1) اولاد پر خرچ کرنا باپ کی ذمہ داری ہے
◈ عن أبي هريرة رضي الله عنه:
نبی ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا۔ ایک آدمی نے کہا:
“میرے پاس ایک دینار ہے!”
آپ ﷺ نے فرمایا:
اسے اپنے آپ پر خرچ کر۔
اس نے کہا: “میرے پاس ایک اور دینار ہے!”
آپ ﷺ نے فرمایا:
اپنی اولاد پر خرچ کر۔
اس نے کہا: “ایک اور ہے!”
آپ ﷺ نے فرمایا:
اپنی بیوی پر خرچ کر۔
اس نے کہا: “ایک اور ہے!”
آپ ﷺ نے فرمایا:
اپنے خادم پر خرچ کر۔
پھر کہا: “میرے پاس اور بھی ہے۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
اب تم بہتر جانتے ہو (کہ کہاں خرچ کرنا ہے)۔
📘 [حسن] — ابوداود، كتاب الزكوة، باب في صلة الرحم: 6190
فائدہ:
• ترتیب بھی واضح ہو گئی:
خود پر
اولاد پر
بیوی پر
خادم پر
──────────────────
2) بہترین صدقہ اہلِ خانہ پر خرچ کرنا ہے
◈ قال رسول الله ﷺ:
خيرُ الصدقةِ ما كان عن ظهرِ غِنى، وابدأ بمن تعول
💠 ”بہترین صدقہ وہ ہے جو غنا کے بعد ہو، اور خرچ کرنے میں اہل و عیال سے آغاز کرو۔“
📘 (صحیح البخاری 1426)
فائدہ:
• اپنے گھر والوں کا حق پورا کرنے کے بعد جو مال صدقہ کیا جاتا ہے، وہ سب سے بہترین صدقہ ہے۔
──────────────────
3) بیوی بچوں پر خرچ کرنا سب سے زیادہ اجر والا خرچ ہے
◈ عن أبي هريرة رضي الله عنه:
قال رسول الله ﷺ:
دينارٌ أنفقته في سبيل الله
ودينارٌ أنفقته في رقبة
ودينارٌ تصدقتَ به على مسكين
ودينارٌ أنفقته على أهلك
أعظمها أجراً الذي أنفقته على أهلك
💠 ”اللہ کے راستے، غلام آزاد کرانے، مسکینوں پر خرچ کرنے اور بیوی بچوں پر خرچ کرنے میں سے
سب سے زیادہ اجر والا خرچ وہ ہے جو تم اپنے گھر والوں پر کرو۔“
📘 (صحیح مسلم، كتاب الزكوة، باب فضل نفقة على العيال: 2311)
فائدہ:
• گھر والوں پر خرچ کرنا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ اجر والا صدقہ ہے۔
• اولاد اور بیوی کے اخراجات پورے کرنا عبادت ہے، اور ثواب میں سب سے اعلیٰ عمل ہے۔
──────────────────
خلاصہ
اولاد کے تمام اخراجات (خوراک، کپڑا، علاج، تعلیم) باپ کی ذمہ داری ہیں۔
صدقے میں سب سے پہلا حق اولاد اور بیوی کا ہے۔
بیوی بچوں پر خرچ کرنا اللہ کے نزدیک سب سے افضل خرچ ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اولاد کو اخراجات نہ دینا باعثِ گناہ ہے 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما:
قال رسول الله ﷺ:
كفى بالمرء إثماً أن يضيع من يَقوت
💠 ”آدمی کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے، انہیں ضائع کر دے۔“
📘 [حسن] ابوداود، كتاب الزكوة، باب في صلة الرحم: 1692
فائدہ:
• جس باپ کے ذمہ بچوں کا خرچ ہے اور وہ غفلت برت کر انہیں ضائع کرے،
وہ اللہ کے نزدیک گنہگار ہے۔
• گھر والوں کی ضروریات پوری نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
──────────────────
عورت اپنا صدقہ اور زکوٰۃ خاوند اور بچوں کو دے سکتی ہے
◈ عن زینب امرأة عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنهما:
نبی ﷺ نے فرمایا:
تصدقن يا معشر النساء ولو من حُليِّكن
”اے عورتو! صدقہ کیا کرو اگرچہ اپنے زیور سے ہی کیوں نہ ہو۔“
زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
میں نے اپنے شوہر عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا:
“اگر میں تم پر صدقہ کروں تو کیا وہ میرا صدقہ شمار ہوگا؟”
انہوں نے مجھے خود نبی ﷺ کے پاس جانے کو کہا۔
میں گئی تو ایک انصاری عورت بھی وہی سوال لے کر آئی ہوئی تھی۔
ہم دونوں نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا:
“آپ نبی ﷺ کو بتا دیں کہ دو عورتیں پوچھ رہی ہیں کہ کیا وہ اپنے شوہر اور یتیم بچوں پر صدقہ کر سکتی ہیں؟”
بلال رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کو بتایا، تو آپ ﷺ نے پوچھا:
“کون سی زینب؟”
بلال نے کہا: “عبداللہ بن مسعود کی بیوی”
اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَهُمَا أَجْرَانِ: أجرُ القرابَةِ وأجرُ الصدقةِ
“انہیں دو اجر ملیں گے:
صلہ رحمی کا اجر
اور صدقہ کا اجر۔”
📘 مسلم، كتاب الزكوة، باب فضل النفقة على الأقربين: 2318
──────────────────
نبی ﷺ کا واضح فیصلہ (صحیح بخاری کی روایت)
◈ نبی کریم ﷺ نے حضرت زینب کو فرمایا:
زوجُكِ وولدُكِ أحقُّ مَن تَصَدَّقتِ عليهم
💠 ”تیرے خاوند اور تیری اولاد سب سے زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان پر صدقہ کرو۔“
📘 (صحيح البخاري 1462)
──────────────────
فقہی نتیجہ — بہت ضروری نکتہ
ان احادیث سے معلوم ہوا:
✔ 1) عورت اپنے خاوند کو صدقہ / زکوٰۃ دے سکتی ہے
شرط:
• خاوند زکوٰۃ کا مستحق ہو (فقیر یا محتاج ہو)
• عورت کی زکوٰۃ اس کے لیے حلال ہے
یہی قول:
• امام ثوری
• امام شافعی
• ابو حنیفہ کے دونوں شاگرد
• امام مالک کی ایک روایت
• امام احمد کی ایک روایت
• ائمہ زیدیہ (الہادی، الناصر، المؤید باللہ)
سب اسی کے قائل ہیں۔
✔ 2) عورت اپنی اولاد کو بھی زکوٰۃ دے سکتی ہے
اگر اولاد مستحق ہو۔
❌ 3) لیکن خاوند اپنی بیوی یا اپنی اولاد کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا
کیوں؟
• کیونکہ بیوی اور بچوں کا خرچ شرعاً اس کے اوپر فرض ہے۔
• وہ ان کا کفیل ہے، اس لیے زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔
✦ امام مازری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ فیصلہ اسی وقت دلیل بنتا ہے جب ثابت ہو کہ زینب کا صدقہ واجب صدقہ (یعنی زکوٰۃ) تھا،
اور یہ بات اس روایت سے واضح ہو جاتی ہے کہ وہ پوچھ رہی تھیں:
“أيَجزِي عَنِّي…؟”
یعنی: “کیا میری زکوٰۃ میرے شوہر پر دینا کافی ہوگا؟”
✔ 4) ماں پر بچے کے خرچ ضروری نہیں
والِأم لا يلزمها نفقة ابنها مع وجود أبيه
“ماں پر خرچ لازم نہیں جبکہ باپ موجود ہو”
📘 (نیل الأوطار 4/177)
──────────────────
خلاصہ
اولاد کا خرچ نہ دینا کبیرہ گناہ ہے۔
عورت اپنے خاوند یا اولاد کو زکوٰۃ یا صدقہ دے سکتی ہے (اگر وہ مستحق ہوں)۔
مرد اپنی بیوی یا اولاد کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کیونکہ خرچ اس کے اوپر فرض ہے۔
بچوں کے نان نفقہ کا حقیقی ذمہ دار باپ ہے، ماں نہیں (جب باپ موجود ہو)۔
اہل خانہ پر خرچ کرنا سب سے پہلے، سب سے افضل، اور سب سے زیادہ اجر والا عمل ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچوں کی تعلیم و تربیت — قرآن و سنت کی روشنی میں 🌿
╚══════════════════╝
والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں، انہیں شریعت کا پابند بنائیں، دین کے ماحول میں رکھیں اور گھر کے اندر ایسا ماحول قائم کریں جو ایمان، اخلاق اور نیکی کا باعث ہو۔
کیونکہ بچے کی شخصیت پر ماحول اور والدین کے کردار کا گہرا اثر پڑتا ہے۔
──────────────────
1) ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے
◈ عن أبي هريرة رضي الله عنه:
قال رسول الله ﷺ:
ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يُهوِّدانه أو يُنصِّرانه أو يُمجِّسانه
💠 ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں، یا نصرانی (عیسائی)، یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“
📘 (صحيح البخاري 1358)
وضاحت:
• بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ مسلمان اور پاکیزہ فطرت پر ہوتا ہے۔
• والدین کی تربیت، گھر کا ماحول، اور معاشرتی اثرات اس کی شخصیت بناتے ہیں۔
• لہٰذا سب سے بڑی ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ خود بھی شریعت کے پابند رہیں اور اولاد کو بھی اسی راستے پر لگائیں۔
──────────────────
2) والدین کا فرض: خود بھی نیک بنیں اور اہلِ خانہ کو بھی نیکی کی طرف لے جائیں
❀ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾
💠 ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔“
📘 (التحريم 66:6)
وضاحت:
• اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح حکم دیا ہے کہ:
خود بھی نیکی اختیار کرو
اپنے گھر والوں کی صحیح تربیت کرو
• اپنی اصلاح + اہلِ خانہ کی اصلاح → دونوں فرض ہیں۔
──────────────────
3) مفسر قرآن مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر:
◈ قال مجاهد:
أوصوا أنفسكم وأهليكم بتقوى الله وأدِّبوهم
💠 ”اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو اللہ کے ڈر کی وصیت کرو، اور انہیں ادب و تربیت سکھاؤ۔“
📘 (صحیح بخاری، کتاب التفسير، سورة التحريم)
مطلب:
• اولاد کو نماز، قرآن، اخلاق اور حلال و حرام کی تعلیم دو۔
• انہیں برائیوں سے روکو، دین سے دور کرنے والے ماحول سے بچاؤ۔
• یہ سب کچھ والدین کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
──────────────────
خلاصہ
ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔
والدین کی تربیت اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بھی بنا سکتی ہے — یا نیک مسلمان بھی۔
والدین پر فرض ہے کہ خود بھی نیک بنیں اور اپنے بچوں کو جہنم سے بچانے کی فکر کریں۔
قرآن کا حکم: اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچاؤ۔
اہلِ خانہ کی صحیح تربیت، ادب، اخلاق اور دین سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 نیک تربیت دنیا و آخرت میں بلندی کا باعث ہے 🌿
╚══════════════════╝
اولاد کی نیک تربیت نہ صرف دنیا میں عزت، سکون، خوشی اور نیک نامی کا باعث بنتی ہے،
بلکہ مرنے کے بعد بھی یہ والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔
نیک اولاد کی تربیت والدین کے درجات کی بلندی، مغفرت اور نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔
ان شاء اللہ۔
──────────────────
1) نیک تربیت — مرنے کے بعد بھی اجر جاری رہتا ہے
◈ عن أبي هريرة رضي الله عنه:
قال رسول الله ﷺ:
إذا ماتَ الإنسانُ انقطع عملُه إلا من ثلاثةٍ:
➊ صدقةٌ جارية
➋ أو علمٌ يُنتفعُ به
➌ أو ولدٌ صالحٌ يدعو له
💠 ”جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے:
صدقہ جاریہ
وہ علم جس سے نفع حاصل ہو
اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔“
📘 (صحيح مسلم 4223)
فائدہ:
• نیک اولاد، والدین کے لیے مرنے کے بعد بھی مستقل طور پر اجر کا ذریعہ بنتی ہے۔
• اولاد کا ہر نیک عمل والدین کو بھی پہنچتا ہے۔
• صدقہ جاریہ، نفع والا علم، اور نیک اولاد—تین ایسی چیزیں ہیں جو قبر میں بھی روشنی بنتی ہیں۔
──────────────────
2) اولاد کی دعا والدین کے درجے بڑھاتی ہے
◈ قال رسول الله ﷺ:
إن الرجلَ لَتُرفَعُ درجتُه في الجنة فيقول: أنَّى هذا؟
فيقال: باستغفارِ ولدِكَ لك
💠 ”جب ایک انسان کے درجات جنت میں بڑھائے جاتے ہیں تو وہ پوچھتا ہے: میرے درجات کیوں بلند ہو رہے ہیں؟
تو جواب ملتا ہے: تیرے اس نیک بیٹے کی وجہ سے جو تیرے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہے۔“
📘 [حسن] ابن ماجه، كتاب الأدب، باب بر الوالدين: 3660
فائدہ:
• والدین کی مغفرت اور درجات کی بلندی کا براہ راست تعلق نیک اولاد سے ہے۔
• جتنا بچہ والدین کے لیے دعا کرے گا، اللہ اتنا انہیں بلند مقام عطا کرے گا۔
──────────────────
3) اچھی تربیت — والدین کے لیے دائمی صدقہ
نیک اولاد کی تربیت:
• دنیا میں عزت
• خاندان میں رحمت
• والدین کے لیے سکون
• اور مرنے کے بعد مستقل ثواب
مثالیں:
اگر والدین نے اخلاق، نماز، قرآن، حلال و حرام کی تربیت دی
→ اولاد جب بھی نیک عمل کرے گی، ثواب والدین کو بھی ملے گا۔
اگر اولاد دین سیکھے، سکھائے، صدقہ کرے، لوگوں کو نفع پہنچائے
→ والدین قبر میں بھی اُس کا اجر پاتے رہیں گے۔
یعنی اولاد کی نیک تربیت والدین کی دائمی کمائی ہے۔
──────────────────
خلاصہ
نیک تربیت دنیا میں بھی نعمت ہے، آخرت میں بھی۔
نیک اولاد والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
نیک اولاد کی دعا سے قبر میں بھی والدین کے درجات بڑھتے رہتے ہیں۔
بچے کی تربیت والدین کا شرعی، اخلاقی اور دائمی فرض ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اولاد کی نیک تربیت نہ کرنے سے قیامت کے دن مؤاخذہ ہوگا 🌿
╚══════════════════╝
جس طرح اولاد کی صحیح تربیت نہ کرنے سے دنیا میں رسوائی، اذیت، پریشانی اور ذلت اٹھانی پڑتی ہے،
اسی طرح قیامت کے دن بھی والدین سے سخت بازپرس ہوگی۔
اللہ تعالیٰ سوال کریں گے:
• کیا تم نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی؟
• کیا تم نے انہیں نیکی کی طرف لگایا؟
• کیا تم نے انہیں برائی سے روکا؟
کیونکہ بچوں کی تربیت والدین کی شرعی ذمہ داری ہے۔
──────────────────
نبی ﷺ کا واضح اعلان: ہر شخص ذمہ دار ہے
◈ قال رسول الله ﷺ:
كُلُّكُم راعٍ وكلكم مسئولٌ عن رعيته
الإمامُ راعٍ ومسئولٌ عن رعيته
والرجلُ راعٍ في أهلِه وهو مسئولٌ عن رعيتِه
والمرأةُ راعيةٌ في بيتِ زوجِها ومسئولةٌ عن رعيتِها
💠 ”تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اپنے زیرِ نگرانی لوگوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔
امام قوم کا نگران ہے اور جواب دہ ہے۔
مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔
عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس کے متعلق جواب دہ ہے۔“
📘 (صحيح البخاري 893 — صحيح مسلم 4724)
──────────────────
فائدہ:
والدین کے لیے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت چھوڑ دینا بڑا جرم ہے۔
قیامت کے دن ان سے ان کے گھر والوں کے بارے میں سوال ہوگا۔
اگر والدین نے دنیا میں اولاد کو نیکی نہیں سکھائی، اور برائی سے نہیں روکا،
تو آخرت میں کڑی پکڑ ہوگی۔
ہر باپ اپنی اولاد کا نگران ہے، اور ہر ماں اپنے گھر کی نگران ہے۔
نگران کا معنی صرف محبت کرنا نہیں،
بلکہ نیکی کی طرف چلانا اور برائی سے روکنا ہے۔
──────────────────
خلاصہ
اولاد کی تربیت چھوڑ دینا دنیا و آخرت کی رسوائی ہے۔
ہر والدین قیامت کے دن اپنی اولاد کے بارے میں جواب دہ ہوں گے۔
مرد اور عورت دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔
نبی ﷺ نے اعلان کر دیا:
“ہر شخص نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔”
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین بچوں کو عقیدۂ توحید اور نماز کی تعلیم دیں 🌿
╚══════════════════╝
1) والدین بچوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دیں
◈ عن ابن عباس قال: كنت خلف رسول الله ﷺ يوما فقال يا غلام إنى أعلمك كلمات: احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك إذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعتوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك رفعت الأقلام وجفت الصحف
”ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے پیچھے (سوار) تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ، اور جان لے کہ اگر امت اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کوئی فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو جائیں کہ تجھے کوئی نقصان پہنچائیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دیئے گئے۔“
📘 حسن صحيح الترمذي ، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع: 2516
──────────────────
2) والدین اپنی اولاد کو نماز کا حکم دیں
◈ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حافظوا على أبناء كم فى الصلوة تم تعودوا الخير فإنما الخير بالعادة.
”اپنے بچوں کی نماز کے بارے میں حفاظت کرو۔ پھر انہیں خیر کی عادت ڈالو اس لیے کہ خیر عادت کے ذریعے آتی ہے۔“
📘 بیهقی ج 3 ص 84
◈ قال رسول الله ﷺ: مروا أولادكم بالصلوة وهم أبناء سبع سنين
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے۔“
📘 [صحيح] ابوداود، كتاب الصلوة، باب متى يؤمر الغلام بالصلوة: 495 ؛ المستدرك حاكم: 734
──────────────────
3) اولاد کو نماز نہ پڑھنے پر مارو جب وہ دس سال کی ہو جائے
◈ قال رسول الله ﷺ: مروا أولادكم بالصلوة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر.
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور ان کو نماز (کے چھوڑنے پر) مارو جب وہ دس سال کے ہوں۔“
📘 صحیح ابوداود کتاب الصلوة ، باب متى يؤمر الغلام بالصلوة: 495
فائدہ:
بھائیو! رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں کہ اگر بچے پیار و محبت سے نماز نہ پڑھیں تو انہیں مارو،
لیکن آج ہمارا معاملہ برعکس ہے
• بچے نماز چھوڑ دیں، قرآن پڑھنے مسجد نہ جائیں → کچھ نہیں کہا جاتا
• لیکن اگر سکول نہ جائیں → ڈانٹ، سزا، پابندیاں…
تلك إذا قسمة ضيزى
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچوں کے بستر علیحدہ علیحدہ کرو جب وہ دس سال کے ہو جائیں 🌿
╚══════════════════╝
◈ قال رسول الله ﷺ:
واضربوهم عليها وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم فى المضاجع.
💠 ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب وہ (تمہاری اولاد) دس سال کی عمر کو پہنچیں تو انہیں نماز چھوڑنے پر مارو اور ان کے بستر الگ کر دو۔“
📘 [صحيح] ابوداود، كتاب الصلوة، باب متى يؤمر الغلام بالصلوة: 495
──────────────────
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا قول:
◈ سواء كانوا ذكورا أو اناثا فيجب التفريق بينهم جميعا سواء اتحد الجنس او اختلف
💠 ”چاہے بچے مذکر ہوں یا مونث، ان کے بستر الگ کرنا واجب ہے۔ آگے فرماتے ہیں: چاہے دونوں مذکر ہوں یا دونوں مونث یا ایک مذکر ہو اور ایک مونث—ہر حالت میں ان کے بستر الگ کرنا ضروری ہے۔“
📘 (مشکوة البانی ج 1 ص 181)
──────────────────
علامہ مناوی رحمہ اللہ (فیض القدیر) فرماتے ہیں:
◈ فرقوا بين اولادكم في مضاجعهم التى تنامون فيها اذا بلغوا عشرا حذرا من غوائل الشهوة وان كن اخوات
💠 ”جب تمہاری اولاد دس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو ان کے وہ بستر جہاں وہ سوتے ہیں، جدا جدا کر دو؛ شہوت کی مصیبتوں سے ڈرتے ہوئے—اگرچہ وہ بہنیں ہی کیوں نہ ہوں۔“
📘 (مرعاة، جلد 2 ص 278)
──────────────────
شیخ محمد بن جمیل زینو رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
• اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دس سال کی عمر سے بچوں کے بستر لازمی طور پر الگ کیے جائیں۔
• دس سال کے بچے کو نہ والدین کے ساتھ سونا چاہیے،
اور نہ ہی دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ ایک بستر میں سونا چاہیے۔
• یہ وہ عمر ہے جس میں بچوں میں جنسی شعور بیدار ہونا شروع ہوتا ہے،
اس لیے تربیت اور عفت و طہارت کے تقاضوں کے مطابق ان کے بستر الگ رکھے جائیں۔
• پیار اپنی جگہ، مگر حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچوں سے پیار اور محبت کریں 🌿
╚══════════════════╝
1) بچوں سے پیار کرنا سنتِ رسول ﷺ ہے
◈ عن عائشة قالت:
جاء أعرابي إلى النبى ﷺ فقال: تقبلون الصبيان فما نقبلهم.
فقال النبي ﷺ: أو أملك لك إن نزع الله من قلبك الرحمة
💠 ”عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک بدوی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: کیا تم بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ ہم ان کو بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے شفقت اور رحمت نکال لی ہے تو اس کا میں مالک نہیں ہوں۔“
📘 صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الولد وتقبيله: 5998
──────────────────
2) نبی کریم ﷺ کی محبت — بچے کو چومنے پر رحمت
◈ عن أبى هريرة قال:
قبل رسول الله ﷺ الحسن بن على
وعنده الأقرع بن حابس التميمي جالسا
فقال الأقرع: إن لي عشرة من الولد ما قبلت منهم أحدا
فنظر إليه رسول الله ﷺ ثم قال: من لا يرحم لا يرحم.
💠 ”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔
پاس ہی اقرع بن حابس بیٹھے ہوئے تھے، وہ کہنے لگے: میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی کسی بچے کو بوسہ نہیں دیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: جو کسی پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔“
📘 صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الولد وتقبيله: 5997
──────────────────
3) بچوں کو گلے لگانا — محبتِ نبوی ﷺ
◈ عن يعلى العامري:
أنه قال: جاء الحسن والحسين يسعيان إلى النبى ﷺ
فضمهما إليه وقال: إن الولد مبخلة مجبنة
💠 ”یعلی عامری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما نبی کریم ﷺ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے،
تو آپ ﷺ نے دونوں کو اپنے ساتھ لگا لیا اور فرمایا:
اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔“
📘 صحیح ابن ماجه، كتاب الادب، باب بر الوالد الاحسان الى البنات: 3666
──────────────────
4) رسول اللہ ﷺ کا اپنی نواسی کو اُٹھا کر نماز پڑھنا
◈ ”رسول اللہ ﷺ نے اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص کو اٹھا کر نماز پڑھی۔
جب رکوع اور سجدہ کرتے تو اسے نیچے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اٹھا لیتے۔“
📘 صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمة الولد وتقبيله: 5996
فائدہ:
• بچوں سے پیار کرنا سنتِ نبوی ﷺ ہے۔
• جو بچوں سے محبت کرتا ہے، اللہ اس پر رحم کرتا ہے۔
• نبی ﷺ کی سنت ہے کہ بچے کو بوسہ دینا، گلے لگانا، گود میں لینا جائز اور باعثِ محبت ہے۔
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچوں سے پیار اور شفقت نہ کرنے والوں کے لیے سخت ڈانٹ 🌿
╚══════════════════╝
◈ وعن عمرو بن العاص قال: قال رسول الله ﷺ:
ليس منا من لم يرحم صغيرنا ولم يعرف شرف كبيرنا.
💠 ”عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں پہچانتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
📘 صحیح الترمذی، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان: 1920
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک دوزخ کی آگ سے رکاوٹ کا سبب ہے 🌿
╚══════════════════╝
◈ قالت: جاءتني امرأة ومعها ابنتان لها تسألني فلم تجد عندي شيئا غير تمرة واحدة فأعطيتها إياها فأخذتها فقسمتها بين ابنتيها ولم تأكل منها شيئا ثم قامت فخرجت وابنتاها فدخل على النبى ﷺ فحدثته حديثها.
فقال النبي ﷺ:
من ابتلي من البنات بشيء فأحسن إليهن كن له سترا من النار.
”عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت میرے پاس مانگنے کے لیے آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے اس کو وہی دے دی اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو آدھی آدھی دے دی اور خود کچھ نہ کھایا پھر کھڑی ہوئی اور وہ بیٹیوں سمیت چلی گئی۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے میں نے آپ کو اس بات کی خبر دی آپ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی کو بچیاں دے کر آزمایا گیا پھر اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تو یہ بچیاں آگ اور اس آدمی کے درمیان رکاوٹ بن جائیں گیں۔“
📘 صحیح بخاری 1418؛ صحیح مسلم 6693
──────────────────
◈ من كان له ثلاث بنات فصبر عليهن واطعمهن وسقاهن وكساهن من جدته كن له حجابا من النار يوم القيامة
”جس آدمی کی تین بچیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے، اپنی کمائی سے انہیں کھلائے پلائے اور انہیں لباس مہیا کرے تو وہ بچیاں قیامت کے دن آگ سے اس کے لیے تحفظ کا سامان بن جائیں گی۔“
📘 [صحیح] ابن ماجه 3669
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے ماں باپ جنتی ہیں 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ:
ما من رجل تدرك له ابنتان فيحسن إليهما ما صحبتاه أو صحبهما إلا أدخلتاه الجنة
”ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی کی دو بیٹیاں ہوں، جب تک وہ اس کے ساتھ رہتی ہیں یا وہ ان کے ساتھ رہتا ہے وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو وہ دونوں اس کے جنت میں داخل ہونے کا سبب بن جاتی ہیں۔“
◈ عن الحسن عن الأحنف قال:
دخلت على عائشة امرأة معها ابنتان لها فأعطتها ثلاث تمرات فأعطت كل واحدة منهما تمرة ثم صدعت الباقية بينهما، قالت: فأتى النبى ﷺ فحدثته فقال:
ما عجبك قد دخلت به الجنة
”حسن، احنف کے چاچا روایت کرتے ہیں… نبی کریم ﷺ آئے تو (عائشہؓ نے) واقعہ بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو تعجب کیوں کرتی ہے! تحقیق وہ عورت اس کھجور کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی ہے۔“
📘 صحیح ابن ماجه 3668
◈ من كان له ثلاث بنات يؤويهن ويكفيهن ويرحمهن فقد وجبت له الجنة البتة
فقال رجل: واثنتين يا رسول الله؟
قال: واثنتين.
”جس کی تین بیٹیاں ہوں، ان کو ٹھکانہ دے، ان کے اخراجات پورے کرے، ان پر رحم کرے — اس کے لیے جنت لازم ہو گئی۔ ایک شخص نے پوچھا: اور دو کا؟ فرمایا: اور دو کا بھی۔“
📘 [حسن] الأدب المفرد للبخاري 78
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بچیوں کی پرورش کرنے والا قیامت کے دن نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہوگا 🌿
╚══════════════════╝
◈ وعن أنس قال: قال رسول الله ﷺ:
من عال جاريتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة وهو هكذا
وضم أصابعه
”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے… آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملا کر دکھایا کہ قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح ساتھ ہوں گے۔“
📘 صحیح مسلم 6695
◈ ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کسی کی تین بیٹیاں ہوں یا تین بہنیں ہوں پھر وہ اللہ تعالیٰ کا خوف کھا کر ان کی پرورش کرتا رہے وہ میرے ساتھ اس طرح جنت میں ہوگا اور آپ ﷺ نے درمیانی اور شہادت والی انگلیوں کی طرف اشارہ فرمایا۔“
📘 (مسند أبو يعلى)
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین بچوں کے درمیان برابری کا برتاؤ کریں 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن النعمان بن بشير أنه قال:
إن أباه أتى به رسول الله ﷺ فقال: إنى نحلت ابني هذا غلاما كان لي.
فقال رسول الله ﷺ: أكل ولدك نحلته مثل هذا؟
فقال: لا،
فقال رسول الله ﷺ: فارجعه.
⋆ وفي رواية أنه قال:
أعطاني أبى عطية. فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله ﷺ.
فأتى رسول الله ﷺ فقال:
إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية امرتني أن أشهدك يا رسول الله!
قال: أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟
قال: لا،
قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم
قال: فرجع أبى فرد عطيته.
⋆ وفي رواية أنه قال:
لا أشهد على جور.
”حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اس کا والد اس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیان کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام کا عطیہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس کی مثل عطیہ دیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ عطیہ اس لڑکے سے واپس لے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: کیا تجھے پسند ہے کہ تیری ساری اولاد تیری ایک جیسی فرمانبردار ہوں؟ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہ عطیہ (درست) نہیں۔
ایک اور روایت میں ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے میرے والد نے عطیہ دیا۔ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا (میری ماں) نے کہا: میں خوش نہیں جب تک کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنائے۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیان کیا: میں نے عمرہ بنت رواحہ کے پیٹ سے اپنے لڑکے (نعمان) کو عطیہ دیا ہے اور اے اللہ کے رسول! اس نے مجھے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: بھلا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس طرح کا عطیہ دیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں برابری کا برتاؤ کرو۔
اس نے بیان کیا کہ وہ (یہ سن کر) واپس چلے گئے اور عطیہ واپس لے لیا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔“
📘 صحیح مسلم، كتاب الهبات، باب كراهية تفضيل بعض الأولاد في الهبة: 4177
📘 صحیح بخاری، كتاب الهبات، باب الهبة للولد: 2586
──────────────────
فائدہ:
• معلوم ہوا کہ عطیات میں لڑکا اور لڑکی برابر ہیں—والدین اپنی زندگی میں اگر کچھ تقسیم کریں تو سب اولاد کو برابر دیا جائے۔
• یہ عطیہ ہے، وراثت نہیں — اس لیے اس میں لڑکا لڑکی برابر ہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"اعدلوا بین أولادکم” — اپنی اولاد میں برابری کرو۔
• لیکن اگر والدین وفات کے بعد وراثت تقسیم ہو تو پھر اللہ کا حکم نافذ ہوگا:
❀ ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾
📘 (النساء 4:11)
یعنی وراثت میں لڑکے کا حصہ لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ہوگا — یہ شریعت کا قطعی حکم ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اولاد کے فوت ہو جانے پر صبر کرنے کا بدلہ جنت ہے 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنسوة من الأنصار:
لا يموت لإحداكن ثلاثة من الولد فتحتسبه إلا دخلت الجنة.
فقالت امرأة منهن أو اثنان يا رسول الله! قال: أو اثنان.
وفي رواية لهما: ثلثة لم يبلغوا الحنث
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا: تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہو گئے اس نے صبر سے کام لیا تو وہ عورت جنت میں داخل ہوگی۔ ان میں سے ایک عورت نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا دو بچوں کا بھی یہی حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں دو بچوں کا بھی یہی حکم ہے۔“
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة، باب فضل من يموت له ولد فيحتسبه: 6698
مسلم اور بخاری کی ایک روایت میں ہے: تین بچے جو بلوغت سے پہلے فوت ہو گئے۔
──────────────────
◈ عن أبى حسان قال: قلت لأبي هريرة إنه قد مات لي ابنان فما أنت محدثي عن رسول الله بحديث يطيب به أنفسنا عن موتانا؟ قال: قال: نعم صغارهم دعاميص الجنة يتلقى أحدهم أباه أو قال: أبويه ، فيأخذ بثوبه أو قال بيده كما أخذ أنا بصنفة ثوبك هذا فلا يتناهى أو قال: فلا ينتهي حتى يدخله الله وأباه فى الجنة.
ابو حسان بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے دو بیٹے فوت ہو گئے ہیں۔ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث سنائے گا جو ہمیں فوت ہونے والے کی جانب سے سکون عطا کرے، خوش کرے۔ انہوں نے کہا: ہاں، چھوٹے بچے جنت میں بلا رکاوٹ چلتے پھرتے ہوں گے۔ وہ اپنے والد یا والدین سے ملیں گے تو اس کے لباس یا اس کے ہاتھ کو پکڑیں رکھیں گے جس طرح میں تیرے کپڑے کی ایک جانب پکڑتا ہوں اور اس سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اللہ اسے اور اس کے والد کو جنت میں داخل کر دیں گے۔
صحیح مسلم كتاب البر والصلة، باب فضل من يموت له ولد فيحتسبه: 6701
فائدہ: ایک روایت میں ماں باپ دونوں کا ذکر ہے بلکہ اگر بچہ باپ کو جنت میں داخل کرائے گا تو ماں کو بالا ولی داخل کرائے گا اس لیے کہ ماں کا مقام تو باپ سے زیادہ ہے۔
مرعاة : ج 5 ص 502
──────────────────
◈ عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يقول الله تعالى : ما لعبدى المؤمن عندى جزاء إذا قبضت صفيه من أهل الدنيا ثم احتسبه إلا الجنة
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ فرماتے ہیں: میرے ہاں مومن انسان کے لیے جب میں اس کے محبوب انسان کو فوت کرلوں اور وہ اس کی وفات پر صبر کرے جنت کا مقام ہے۔“
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب العمل الذي يبتغي به وجه الله: 6424
فائدہ: صفیہ (محبوب انسان) سے مراد اولاد، بھائی وغیرہ۔
مرعاة : ج 5 ص 472
──────────────────
◈ قال رسول الله: ما من مسلمين يموت بينهما ثلاثة أولاد لم يبلغوا الحنث إلا غفر الله لهما بفضل رحمته إياهم.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمانوں کے (یعنی ماں باپ کے) تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہو جائیں تو اللہ ان دونوں کو بخش دے گا بچوں پر شفقت کی وجہ سے۔“
النسائي، كتاب الجنائز، باب من يتوفى له ثلاثة: 1874
──────────────────
◈ عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله: ما من الناس مسلم يموت له ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث إلا أدخله الله الجنة بفضل رحمته إياهم.
”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے جس کے تین بچے (مذکر یا مؤنث) فوت ہو جائیں بالغ ہونے سے پہلے۔ ان بچوں پر شفقت کی وجہ سے اللہ اس مسلمان کو ضرور جنت میں داخل فرمادے گا۔“
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قيل في اولاد المسلمين: 1381
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اولاد کے فوت ہو جانے پر صبر کرنے سے جہنم سے نجات 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن أبى سعيد الخدري قال: قال رسول الله ﷺ:
ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها إلا كان لها حجابا من النار
فقالت امرأة: واثنين؟
فقال: واثنين
”ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو عورت اپنی اولاد سے تین بچوں کو آگے بھیج دے تو بچے اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ اور پردہ بنیں گے۔ ایک عورت نے کہا: کیا یہ حکم دو بچوں کے لیے بھی ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، دو بچوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔“
📘 صحیح بخاری، کتاب العلم: 101؛ کتاب الجنائز: 1249
یعنی اگر دو بچے بھی فوت ہو جائیں تو پھر بھی وہ ماں دوزخ سے محفوظ ہو جائے گی۔
──────────────────
◈ عن أبى هريرة عن النبى ﷺ قال:
لا يموت لمسلم ثلاثة من الولد فتَلِجَ النار إلا تحله القسم
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے جب تین بچے فوت ہو جائیں تو وہ صرف قسم پورا کرنے کے لیے دوزخ میں داخل ہوگا۔“
📘 صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب فضل من مات له ولد: 1251
نسائی کی روایت میں مسلمان میاں بیوی دونوں کا ذکر ہے۔
فائدہ:
یہاں "دوزخ میں داخل ہونا” سے مراد دوزخ سے گزرنا ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
❀ ﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا﴾
”تم میں سے ہر ایک اس سے گزرنے والا ہے (یعنی پل صراط سے)“
📘 (مريم 19:71)
──────────────────
◈ عن أبى هريرة قال:
جاءت امرأة إلى رسول الله ﷺ بابن لها يشتكي
فقالت: يا رسول الله أخاف عليه وقد قدمت ثلاثة
فقال رسول الله ﷺ:
قد احتطرتِ بحِظارٍ شديدٍ من النار
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت حضور ﷺ کے پاس ایک بیمار بچہ لائی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں ڈرتی ہوں کہ یہ بھی فوت نہ ہو جائے، جبکہ میرے پہلے تین بچے فوت ہو چکے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے جہنم سے بچنے کے لیے بہت مضبوط آڑ بنا لی ہے۔“
📘 صحیح النسائی، کتاب الجنائز، باب من قدم ثلاثۃ: 1877
──────────────────
فائدہ:
اولاد کے فوت ہو جانے پر صبر کرنے والے مسلمان والدین کے لیے
• جنت کی بشارت
• اور جہنم سے نجات
صرف انہی کے لیے ثابت ہے
جو سچے مسلمان ہوں، جیسا کہ ساری احادیث صاف بیان کرتی ہیں۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اولاد وغیرہ کے فوت ہو جانے پر نوحہ کرنا حرام ہے 🌿
╚══════════════════╝
1) نوحہ کرنا کفریہ عمل ہے
◈ عن أبى هريرة قال: قال رسول الله ﷺ:
اثنتان فى الناس هما بهم كفر: الطعن فى النسب، والنياحة على الميت.
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں دو کفریہ باتیں پائی جاتی ہیں: نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔“
📘 صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب اطلاق اسم الكفر على الطعن: 227
──────────────────
◈ أن النبى ﷺ قال:
أربع فى أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن: الفخر فى الأحساب، والطعن فى الأنساب، والإستسقاء بالنجوم، والنياحة.
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں چار خصلتیں جاہلیت کی رہیں گی جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گے:
خاندانی فخر،
نسب میں طعنہ زنی،
ستاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا،
اور نوحہ کرنا۔“
📘 صحيح مسلم، كتاب الجنائز، باب التشديد في النياحة: 2160
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 نوحہ کرنے والوں کو قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا 🌿
╚══════════════════╝
2) نوحہ کرنے والی عورت کا قیامت کے دن عذاب
◈ عن أبى مالك الأشعري قال: قال رسول الله ﷺ:
النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة، وعليها سربال من قطران، ودرع من جرب.
”ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا، اس پر گندھک کی قمیص اور خارش والا کرتہ ہوگا۔“
📘 صحیح مسلم، كتاب الجنائز، باب التشديد في النياحة: 2160
──────────────────
3) چیخ کر رونے پر عذاب — عام رونے پر نہیں
◈ عن عبد الله بن عمر قال: قال النبي ﷺ:
إن الله لا يعذب بدمع العين ولا بحزن القلب،
ولكن يعذب بهذا — وأشار إلى لسانه.
”عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نہ آنکھ کے آنسو پر عذاب دیتا ہے، نہ دل کے غم پر؛
لیکن اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے — اور آپ ﷺ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا۔“
📘 صحیح بخاری 1304؛ صحیح مسلم 2176
فائدہ:
• آنسو آ جانا یا دل غمگین ہونا جائز ہے۔
• لیکن آواز نکال کر، چیخ کر، خود پر مار کر یا نوحہ کر کے رونا—حرام ہے اور عذاب کا سبب بنتا ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 جس گھر میں نوحہ ہوتا ہے اس گھر میں شیطان داخل ہوتا ہے 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن أم سلمة قالت:
لما مات أبو سلمة، قلت: غريب وفي أرض غربة لأبكينه بكاء يتحدث عنه
فكنت قد تهيأت للبكاء عليه إذ أقبلت امرأة من الصعيد تريد أن تسعدني
فاستقبلها رسول الله ﷺ فقال:
أتريدين أن تدخلى الشيطان بيتا أخرجه الله منه مرتين؟
فكففت عن البكاء فلم أبك.
”ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب ابوسلمہ فوت ہو گئے تو میں نے کہا: اجنبی تھا اور اجنبی سرزمین میں فوت ہوا ہے، میں ضرور اس پر ایسا رُؤوں گی کہ لوگ باتیں کریں گے۔
میں رونے کے لیے تیار ہی تھی کہ مدینہ کی ایک عورت آئی جو میری مدد کرنا چاہتی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا: کیا تو چاہتی ہے کہ اس گھر میں شیطان داخل کرے جسے اللہ نے دو مرتبہ نکالا ہے؟
پھر آپ ﷺ نے یہ جملہ دوبارہ فرمایا۔
یہ سن کر میں رونے سے رک گئی۔“
📘 صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب البكاء على الميت: 2134
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اولاد وغیرہ کے فوت ہو جانے پر آنسو بہانا جائز ہے 🌿
╚══════════════════╝
1) نبی کریم ﷺ کا اپنے بیٹے ابراہیم پر آنسو بہانا
◈ عن أنس بن مالك قال:
دخلنا مع رسول الله ﷺ على أبى سيف القين وكان ظئرا لإبراهيم
فأخذ رسول الله ﷺ إبراهيم فقبله وشمه
ثم دخلنا عليه بعد ذلك وإبراهيم يجود بنفسه
فجعلت عينا رسول الله ﷺ تذرفان
فقال له عبد الرحمن بن عوف: وأنت يا رسول الله؟
فقال: يا ابن عوف إنها رحمة
ثم أتبعها بأخرى فقال:
إن العين تدمع والقلب يحزن
ولا نقول إلا ما يرضى ربنا
وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون.
”انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں… جب ابراہیم (بچہ) جان کنی کے عالم میں تھا تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ بھی؟
آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابنِ عوف! یہ رحمت ہے۔
پھر فرمایا: آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، دل غمگین ہے، اور ہم صرف وہی کہتے ہیں جسے اللہ پسند کرتا ہے،
اور اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں۔“
📘 صحیح بخاری: 1303
──────────────────
2) دل کا غم اور آنکھوں کے آنسو — جائز ہیں
◈ عن عبد الله بن عمر قال: قال النبي ﷺ:
إن الله لا يعذب بدمع العين ولا بحزن القلب.
”عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نہ آنسو بہانے پر عذاب دیتا ہے نہ دل کے غم پر۔“
📘 صحیح بخاری: 1304
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 باپ، مسلمان اولاد وغیرہ کی نماز جنازہ پڑھے اگر وہ باپ کی زندگی میں مر جائیں 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن البراء بن عازب قال:
أمرنا النبى ﷺ بسبع ونهانا عن سبع
أمرنا باتباع الجنازة وعيادة المريض….. الى آخره.
”براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات کاموں کا حکم دیا اور سات سے منع کیا۔
آپ ﷺ نے ہمیں جنازے کے ساتھ جانے اور بیمار کی عیادت کا حکم فرمایا۔“
📘 صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب الامر باتباع الجنائز: 1239
──────────────────
◈ عن أبى هريرة أن رسول الله ﷺ قال:
من اتبع جنازة مسلم إيمانا واحتسابا
وكان معه حتى يصلي عليها ويُفرغ من دفنها
فإنه يرجع من الأجر بقيراطين
كل قيراط مثل أُحد
ومن صلى عليها ثم رجع قبل أن تدفن فإنه يرجع بقيراط.
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان و احتساب کے ساتھ شرکت کی
اور نماز جنازہ ادا کرنے اور دفن سے فارغ ہونے تک ساتھ رہا،
اسے دو قیراط ثواب ملے گا —
اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔
اور جس نے صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر دفن سے پہلے واپس چلا گیا،
اسے ایک قیراط ثواب ملے گا۔“
📘 بخاری، باب اتباع الجنائز من الإيمان: 1323
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 مردہ پیدا ہونے والے بچے کا نمازِ جنازہ پڑھا جائے 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن المغيرة بن شعبة أن النبى صلى الله عليه وسلم قال:
الراكب يسير خلف الجنازة
والماشي يمشي خلفها وأمامها وعن يمينها وعن يسارها قريبا منها
والسقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة.
”مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سوار جنازہ کے پیچھے چلے،
اور پیدل چلنے والا آگے، پیچھے، دائیں، بائیں — قریب رہ کر چلے،
اور ناکامل (کچا) بچے پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے
اور اس کے والدین کے لیے بخشش اور رحمت کی دعا کی جائے۔“
📘 صحیح ابو داود، کتاب الجنائز، باب المشی امام الجنازۃ: 3180
──────────────────
فائدہ
• "سِقْط” یا ناکامل بچہ: وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونکی جا چکی ہو۔
• چاہے وہ پیدا ہونے کے بعد فوت ہو یا مردہ پیدا ہو — اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔
• چار ماہ سے پہلے (120 دن سے پہلے) اس کی نماز جنازہ نہیں ہوگی کیونکہ وہ شرعاً "میت” کے حکم میں نہیں آتا۔
──────────────────
روح پھونکے جانے کا ثبوت
◈ قال رسول الله ﷺ:
إن أحدكم يجمع خلقه فى بطن أمه أربعين يوما
ثم يكون فى ذلك علقة مثل ذلك
ثم يكون فى ذلك مضغة مثل ذلك
ثم يرسل الله الملك فينفخ فيه الروح
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی تخلیق کا آغاز ماں کے پیٹ میں 40 دن نطفے کی صورت میں ہوتا ہے،
پھر 40 دن خون کے لوتھڑے کی صورت میں،
پھر 40 دن گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں،
پھر اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے۔“
📘 صحیح مسلم، کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن أمه: 7633
──────────────────
ضعیف روایت کی تنبیہ
”اگر بچہ چیخ مارے تب نماز جنازہ ہوگی“ — یہ ضعیف روایت ہے۔
اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔
──────────────────
نوٹ:
• مردہ پیدا ہونے والا بچہ مسلمان ہے۔
• اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔
◈ كما قال النبي ﷺ:
كل مولود يولد على الفطرة.
”نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔“
📘 بخاری: 1358
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 نابالغ بچے کا نماز جنازہ نہ پڑھنا بھی جائز ہے 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن عائشة قالت:
مات إبراهيم بن النبى ﷺ وهو ابن ثمانية عشر شهرا فلم يصل عليه رسول الله ﷺ
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم نے اٹھارہ ماہ کی عمر میں وفات پائی، آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی۔“
📘 حسن — ابوداود، کتاب الجنائز، باب في الصلوة على الطفل: 3187
فائدہ:
• نابالغ بچے کی نمازِ جنازہ پڑھ لی جائے تو بہتر ہے،
• نہ پڑھی جائے تو بھی جائز ہے — نبی کریم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔
نوٹ:
ابوداود (2/98، حدیث 3188) میں دو روایات ہیں جن میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے ابراہیم کی نماز جنازہ پڑھی — یہ دونوں روایات ضعیف و منکر ہیں۔
╔══════════════════╗
🌿 بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے بچے جنتی ہیں 🌿
╚══════════════════╝
اس مسئلے میں علماء کا اختلاف رہا ہے، مگر صحیح بات یہی ہے کہ جو بچے بلوغت سے پہلے فوت ہو جائیں وہ جنتی ہیں۔
یہی موقف ائمہ اربعہ، امام بخاری، امام نووی، حافظ ابن حجر، امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم رحمہم اللہ کا ہے۔
📘 مرعاة 1/181
──────────────────
1) نبی کریم ﷺ نے خواب میں ابراہیم کو جنت میں بچوں کے ساتھ دیکھا
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کی حالت میں جب ابراہیم کو جنت میں دیکھا تو ان کے اردگرد بچے تھے تو فرشتوں نے آپ کو بتلایا کہ آپ نے جنت میں ابراہیم کے ارد گرد جو بچے دیکھے تھے جو بلوغت سے پہلے فوت ہو گئے تھے بعض صحابہ نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ان میں مشرکین کے بچے بھی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
📘صحیح بخاری، کتاب تعبير الرؤيا ، باب تعبير الرؤيا بعد صلاة الصبح: 7047
──────────────────
2) ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے
◈ قال النبي ﷺ:
كل مولود يولد على الفطرة.
”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔“
📘 بخاری: 1358
──────────────────
"الله أعلم بما كانوا عاملين” — یہ کب کا قول ہے؟
نوٹ:
جن احادیث میں آیا ہے:
"اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے”
یہ احادیث اس وقت کی ہیں جب اس مسئلے پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔
وحی کے بعد نبی کریم ﷺ نے واضح فرمایا کہ سب بچے فطرت پر ہیں اور خواب میں بھی انہیں جنت میں دیکھا۔
📘 مرعاة 1/181
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 ”قیامت کے دن بچوں کا امتحان ہوگا“ — یہ رائے ضعیف دلائل پر مبنی ہے 🌿
╚══════════════════╝
کچھ علماء نے کہا کہ نابالغ بچوں کا قیامت کے دن امتحان ہوگا —
لیکن اس موقف کی تمام پیش کردہ احادیث ضعیف ہیں:
(1) مسند بزار 3/34
• اس مفہوم کی دو احادیث ہیں:
– پہلی میں عطیہ بن سعد عوفی ہے (ضعیف)
– دوسری میں لیث بن ابی سلیم ہے (ضعیف)
(2) ابن حبان 7313
متن: ”چار لوگ قیامت کے دن احتجاج کریں گے:
بہرا، احمق، بوڑھا، اور وہ جو فترہ کے دور میں مرا“
❌ اس حدیث میں مولود (بچہ) کا ذکر نہیں۔
❌ سند میں قتادہ مدلس ہے اور "عن” سے روایت کر رہا ہے (سماع ثابت نہیں)۔
(3) مسند احمد 16344 / مسند اسحاق
❌ اس میں بھی مولود کا ذکر نہیں۔
❌ اس کی سند میں بھی قتادہ مدلس ہے اور "عن” سے روایت کر رہا ہے۔
نتیجہ:
نابالغ بچوں کے امتحان والی ساری روایات ضعیف اور غیر قابلِ احتجاج ہیں۔
لہٰذا صحیح بات وہی ہے جو صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر ائمہ نے اختیار کی:
بلوغت سے پہلے مرنے والے تمام بچے — مسلمان ہوں یا غیرمسلم — جنتی ہیں۔
کیونکہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین بچیوں کو بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نہ جانے دیں جب وہ بالغ ہو جائیں 🌿
╚══════════════════╝
کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
❀ ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ﴾
”اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیمی جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔“
📘 (الأنفال 8:33)
فائدہ:
• اس آیت میں اللہ نے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ گھروں میں ٹک کر رہو، بغیر ضرورت کے باہر نہ نکلو۔
• عورت کا اصل دائرہ عمل گھر ہے، سیاست و بازار نہیں۔
• اگر باہر جانے کی ضرورت ہو تو بے پردہ، خوشبو لگا کر، زیب و زینت دکھا کر، فیشن کے ساتھ نہ نکلو۔
• سادہ لباس، بغیر خوشبو، مکمل پردہ اور چادر کے ساتھ باہر نکلو۔
📘 تفسیر ابن کثیر، جلد 3 ص 569
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین بچیوں کو پردہ کا حکم دیں جب وہ بالغ ہو جائیں 🌿
╚══════════════════╝
کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
❀ ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
”عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر لٹکایا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جاتی ہے پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“
📘 (الأحزاب 33:59)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر:
⋆ أمر الله نساء المؤمنين إذا خرجن من بيوتهن فى حاجة أن يغطين وجوههن من فوق رؤوسهن بالجلابيب ويبدين عينا واحدة
”اللہ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ ضرورت سے نکلیں تو اپنے چہرے کو اوپر سے چادر کے ذریعے ڈھانپ لیں اور راستہ دیکھنے کیلئے صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔“
📘 تفسیر ابن کثیر، جلد 3 ص 569
فائدہ:
• جلابیب (جلباب) بڑی چادر ہے جس سے پورا بدن ڈھک جاتا ہے۔
• چادر لٹکانے سے مراد چہرے پر گھونگھٹ ڈالنا ہے۔
• عہدِ رسالت میں عورتیں سادہ ہوتی تھیں—ایک چادر سے پردہ کافی تھا۔
• بعد میں جب بے پردگی، فیشن اور زیب و زینت عام ہو گئی تو برقعہ زیادہ مناسب رہا۔
• آج کل چادر کو بہانہ بنا کر بے پردگی کی جاتی ہے—
پہلے چادر، پھر صرف دوپٹہ، پھر وہ بھی نہیں… یہ گمراہی ہے۔
احسن البیان میں انتباہ:
• پردہ علما کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔
• پردے سے اعراض، انکار، یا مزاح کرنا کفر تک لے جا سکتا ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین بیٹیوں کو گھر سے نکلنے کے وقت خوشبو استعمال نہ کرنے دیں 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن أبي موسى رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:
المرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي كذا كذا يعني زانية
”ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرتی ہے تو وہ اس اس طرح ہے یعنی وہ زانیہ ہے (یعنی سخت گناہ گار)۔“
📘 [حسن] الترمذي، أبواب الاستيذان: 2786
📘 ابوداود، كتاب الترجل، باب ما جاء في المرأة تتطيب للخروج: 4173
──────────────────
◈ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:
لا تقبل صلوة لامرأة تطيبت لهذا المسجد حتى ترجع فتغتسل غسلها من الجنابة
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو عورت خوشبو لگا کر مسجد کے لیے نکلتی ہے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی
جب تک وہ (گھر واپس آ کر) جنابت کے غسل کی طرح غسل نہ کر لے۔“
📘 [صحيح] ابوداود: 4173
📘 النسائي، كتاب الزينة، باب اغتسال المرأة من الطيب: 5127
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین اپنی بیٹیوں کو بغیر محرم کے سفر کی اجازت نہ دیں 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله ﷺ:
لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم
”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔“
📘 صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم الى حج وغيره: 3272
فائدہ:
• وہ معلمات و مبلغات بھی اللہ سے ڈریں جو بغیر محرم کے مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لیے جاتی ہیں۔
• اور وہ عورتیں بھی جو بغیر محرم کے حج یا عمرے پر جاتی ہیں — یہ سب جائز نہیں۔
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین اپنی بیٹیوں کو غیر محرم کے ساتھ خلوت سے منع کریں 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله ﷺ:
لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم
”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کوئی مرد کسی غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے،
مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو۔“
📘 صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم: 3272
فائدہ:
ترمذی اور مسند احمد میں حدیث ہے:
◈ ”جو مرد غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرے گا تو ان دونوں میں تیسرا شیطان ہو گا جو انہیں برائی کی طرف مائل کرے گا۔“
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 مناسب رشتہ ملتے ہی لڑکی کی شادی جلدی کرے 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن على أن النبى صلى الله عليه وسلم قال له:
يا على ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا
”علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اے علی! تین کام اہم ہیں، ان میں تاخیر نہ کرنا:
نماز کو جب اس کا وقت آ جائے،
جنازہ جب حاضر ہو جائے،
اور وہ عورت جو بلا خاوند ہے، جب تو اس کا کوئی مناسب رشتہ پائے۔“
📘 [حسن] الترمذي، كتاب الصلوة، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل: 171
──────────────────
◈ عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إن لا تفعلوه تكن فتنة فى الأرض وفساد عريض
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تمہارے پاس ایسا شخص منگنی کا پیغام بھیجے جس کی دین داری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس لڑکی کا نکاح اس سے کر دو۔
اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوگا۔“
📘 [صححه الألباني] الترمذي، كتاب النكاح، باب ما جاء في من ترضون دينه فزوجوه: 1084
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین اپنی اولاد کا نکاح مشرک مرد یا مشرکہ عورت سے مت کرائیں 🌿
╚══════════════════╝
❀ ﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا﴾
”اور مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو — مومن لونڈی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں اچھی لگے۔
اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لائیں۔“
📘 (البقرة 2:221)
فائدہ:
• اس گناہ میں بہت سے مسلمان مبتلا ہیں،
اپنی اولاد کا نکاح مشرک لڑکے یا لڑکی سے کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔
• یاد رکھیں:
مسلمان مرد کے لیے مشرکہ عورت سے نکاح حرام ہے۔
مسلمان عورت کا مشرک مرد سے نکاح بھی حرام ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا صاف اور قطعی حکم ہے۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین بیٹیوں کے لیے پاک دامن اور دین دار لڑکے اور بیٹوں کے لیے دین دار لڑکی تلاش کریں 🌿
╚══════════════════╝
❀ ﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ﴾
”ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔“
📘 (النور 24:26)
❀ ﴿الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾
”زانی مرد سوائے زانیہ عورت یا مشرکہ عورت کے کسی سے شادی نہیں کرتا اور زانیہ عورت سے سوائے زانی یا مشرک مرد کے کوئی نکاح نہیں کرتا، اور یہ ہر مومن پر حرام کیا گیا ہے۔“
📘 (النور 24:3)
فائدہ:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توبہ کے بغیر زانی مرد کا پاک دامن عورت سے نکاح حرام ہے اور پاک دامن مرد کا زانیہ عورت سے نکاح بھی حرام ہے،
کیونکہ اللہ نے فرمایا: ﴿وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾۔
📘 ابن کثیر، جلد 2 ص 421
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے اور اس خلاف رائے والوں کی سخت تردید کی ہے۔
📘 فتاویٰ، جلد 2 ص 61، 74
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بات صحیح معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ حدیث میں آتا ہے:
──────────────────
مرثد بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ کا واقعہ
◈ عن مرثد بن أبى مرثد الغنوي… قال:
جئت إلى النبي ﷺ فقلت: يا رسول الله أنكح عناق؟
قال: فسكت عني
فنزلت: ﴿والزانية لا ينكحها إلا زانٍ أو مشرك﴾
فدعاني فقرأها علي وقال: لا تنكحها
”مرثد بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ قیدیوں کو مکہ سے اٹھا کر مدینہ لے جایا کرتے تھے اور مکہ میں ایک بدکار عورت رہتی تھی جس کا نام عناق تھا اور وہ اس کی (اسلام لانے سے پہلے) معشوقہ تھی۔ تو مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں عناق سے نکاح کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر یہ آیت اتری ﴿وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ﴾ یعنی زانیہ عورت سے وہی نکاح کرتا ہے جو خود زانی ہو یا مشرک ہو۔ مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ نے یہ آیت پڑھ کر مجھے سنائی اور فرمایا: مت نکاح کر اس سے۔“
📘 [صحیح] ابوداود، كتاب النكاح: 2051
──────────────────
کوڑے کھائے ہوئے زانی کا حکم
◈ ”جو شخص زانی (حد کا سزا یافتہ) ہو وہ نکاح نہ کرے مگر اسی درجے کی عورت یعنی زانیہ سے۔“
📘 [صحیح] ابوداود، كتاب النكاح: 2052
──────────────────
توبہ کا دروازہ
اگر زانی مرد سچی توبہ کر لے تو اس کا نکاح پاک دامن عورت سے جائز ہے۔
ایسے ہی زانیہ عورت اگر سچی توبہ کرے تو پاک دامن مرد سے نکاح جائز ہے۔
📘 ابن کثیر (ج 3 ص 421)
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 بیٹی یا بیٹے کے لیے رشتہ دین داری کی بنیاد پر ہو 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن أبى هريرة عن النبى ﷺ قال:
النكاح المرأة لأربع: لمالها، ولحسبها، ولجمالها، ولدينها
فاظفر بذات الدين تربت يداك
”نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے:
مال
حسب و نسب
خوبصورتی
اور دین
پس تُو دین دار عورت کو اختیار کر، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔“
📘 صحیح بخاری، كتاب النكاح، باب الأكفاء في الدين: 5090
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 اہل کتاب کی پاک دامن عورت سے نکاح کیا جا سکتا ہے 🌿
╚══════════════════╝
❀ ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ﴾
”اور مومنات میں سے پاک دامن عورتیں (تمہارے لیے حلال ہیں) اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان کی پاک دامن عورتیں بھی (تمہارے لیے حلال ہیں)، یعنی یہود و نصاریٰ کی عورتیں۔“
📘 (المائدة 5:5)
فائدہ:
• یعنی یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح درست ہے اگر وہ پاک دامن ہوں۔
• شرط: بدکار، آوارہ اور آزاد خیال عورت نہیں ہونی چاہیے۔
• نوٹ: مسلمان عورت کا نکاح یہودی یا عیسائی مرد سے حرام ہے۔
• مسلمان مرد کا نکاح یہودی/عیسائی عورت سے جائز ہے۔
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 والدین اپنی مسلمان بیٹی کا نکاح بے نماز مرد سے نہ کریں 🌿
╚══════════════════╝
کیونکہ بے نمازی کافر ہے اور مسلمان عورت کا نکاح کافر سے جائز نہیں۔
نوٹ:
• مسلمان مرد کا نکاح بے نمازی عورت سے یا کلمہ گو مشرکہ عورت سے جائز ہے،
کیونکہ وہ اہلِ کتاب کی حکم میں ہے، اور اہلِ کتاب کی پاک دامن عورت سے نکاح جائز ہے۔
(كما تقدم)
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 باپ اپنی لڑکی کی شادی سے پہلے اس سے اجازت لے 🌿
╚══════════════════╝
1) ثیبہ (شوہر دیدہ) لڑکی کی اجازت ضروری ہے
◈ عن خنساء بنت خدام:
أن أباها زوجها وهي ثيب فكرهت ذلك فأتت رسول الله ﷺ فرد نكاحها.
”خنساء بنت خدام رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا جبکہ وہ ثیبہ تھیں اور وہ اس نکاح سے خوش نہ تھیں۔
وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ نے اس نکاح کو توڑ دیا۔“
📘 [صحیح] بخاری، كتاب النكاح: 5138
──────────────────
2) کنواری لڑکی کی اجازت بھی ضروری ہے
◈ عن ابن عباس قال:
إن جارية بكرا أتت النبى ﷺ فذكرت أن أباها زوجها وهي كارهة فخيرها النبى ﷺ.
”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور بتایا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے اور وہ اس نکاح سے ناخوش ہے۔
آپ ﷺ نے اسے (قبول یا فسخ کرنے کا) اختیار دے دیا۔“
📘 [صحیح] ابوداود، كتاب النكاح: 2096
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
╔══════════════════╗
🌿 لڑکی اپنے ولی کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی 🌿
╚══════════════════╝
◈ عن أبى موسى أن النبى صلى الله عليه وسلم قال:
لا نكاح إلا بولي
”ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔“
📘 [صحیح] ابوداود، كتاب النكاح، باب في الولي: 2083
──────────────────
◈ عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:
أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل
فنکاحها باطل
فنکاحها باطل
”عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے،
اس کا نکاح باطل ہے،
اس کا نکاح باطل ہے۔“
📘 [صحیح] الترمذي، كتاب النكاح، باب ما جاء لا نكاح إلا بولي: 1102
──────────────────
◈ عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها
فإن الزانية هي التي تزوج نفسها
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرائے
اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے،
کیونکہ جو عورت اپنا نکاح خود کرتی ہے وہ زنا کرنے والی ہے۔“
📘 [صحیح] ابن ماجه، كتاب النكاح، باب لا نكاح إلا بولي: 1882
──────────────────
فائدہ:
ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں — احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔
ولی سے مراد وہ شخص ہے جو عورت کے عَصَبہ میں اس کے سب سے زیادہ قریب ہو۔
عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی، نہ کسی عورت کو نکاح کرا سکتی ہے۔
نکاح کے لیے ولی کی اجازت + عورت کی رضامندی دونوں ضروری ہیں۔
──────────────────
📚 واللہ اعلم بالصواب
──────────────────
نماز تہجد کے فضائل اور احکام و مسائل
✿ نماز تہجد کی اہمیت اور فضیلت
░ لغوی و شرعی تعریف
→ لغوی: تہجد کا مطلب ہے: کچھ دیر سونا اور پھر بیدار ہونا۔
→ شرعی: رات کے کسی حصے میں (خصوصاً آخری حصہ) پڑھی جانے والی نفل نماز۔
→ افضل وقت: اذانِ فجر سے ایک دو گھنٹے پہلے۔
░ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«صلوا بالليل والناس نيام»
”رات کو اُس وقت نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں۔“
📚 (ابن ماجہ: 3251)
░ تہجد کے اہتمام کی تدابیر
✦ عشاء کے بعد غیر ضروری مصروفیات سے بچیں۔
✦ موت کو یاد رکھیں۔ (صحیح بخاری: 6415)
✦ بیدار ہوکر ذکر کریں، وضو کریں اور نماز پڑھیں۔ (صحیح بخاری: 1142)
✦ سونے سے پہلے اذکار اور آیت الکرسی پڑھیں۔
✦ زیادہ کھانے سے پرہیز اور دن میں قیلولہ کریں۔
░ نوافل کے چار اصول
★ نوافل کی وجہ سے فرائض نہ چھوٹیں۔
★ نوافل کو فرائض پر غالب نہ سمجھیں۔
★ کبھی کبھار رخصت پر بھی عمل کریں۔
★ مختلف سنتوں پر مختلف مواقع پر عمل کریں۔
░ قرآن و صحابہ کی تربیت تہجد کے ذریعے
ابتداء میں تہجد فرض تھی۔ یہ صحابہ کرام کی علمی و روحانی تربیت کا ذریعہ بنی:
→ توحید کو راسخ کیا گیا۔
→ رسالت کے مقام کو واضح کیا گیا۔
→ آخرت پر یقین مضبوط کیا گیا۔
→ صبر و برداشت کی صفات پیدا ہوئیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ﴾ (المزمل: 20)
”یقیناً آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ کبھی دو تہائی رات کے قریب، کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں، اور آپ کے ساتھ ایک جماعت بھی (یہ عمل کرتی ہے)۔“
░ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أفضل الصلاة بعد الصلاة المكتوبة، الصلاة في جوف الليل»
”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کے درمیانی حصے کی نماز (تہجد) ہے۔“
📚 (صحیح مسلم: 1163)
🌸 تہجد مومن کی پہچان ہے، قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے اور نوافل میں سب سے افضل عبادت ہے۔
✿ قرآن مجید میں نماز تہجد کا ذکر
قرآن کریم میں آٹھ (8) مقامات پر نماز تہجد کا ذکر آیا ہے:
➊ سورۃ بنی اسرائیل (آیت: 79)
نماز تہجد کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو مقام محمود پر فائز کرنے کا وعدہ کیا گیا۔
➋ سورۃ الفرقان (آیات: 64-66)
”عباد الرحمن“ کی صفات میں ذکر ہے کہ وہ راتوں کو طویل سجدوں اور قیام میں جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔
➌ سورۃ الذاریات (آیت: 17)
متقین تہجد میں استغفار کرتے ہیں، اسی وجہ سے ان کے لیے جنت کے باغات اور چشموں کا ذکر کیا گیا۔
➍ سورۃ السجدہ (آیات: 15-16)
اہل ایمان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے ہیں۔
➎ سورۃ المزمل (آیت: 20)
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے قیام اللیل کی تعریف کی گئی کہ رب ان کے عمل کو جانتا ہے۔
اسی سورت کی آیت 6 میں تہجد کے دو مقصد بیان ہوئے:
→ نفس سرکش پر قابو پانا
→ قرآن میں تدبر کے لیے بہترین ماحول میسر آنا۔
➏ سورۃ الدھر (آیت: 26)
رات کو طویل قیام اور تسبیح کے ساتھ عبادت کرنے کا حکم دیا گیا۔
➐ سورۃ الانشراح (آیت: 8)
رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا: جب فارغ ہو جائیں تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جائیں۔
➑ سورۃ الزمر (آیت: 9)
نماز تہجد پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے کی مثال دے کر فرق واضح کیا گیا۔
✿ تہجد اور مقام محمود
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جنت میں ایک اعلیٰ ترین درجہ ’مقام محمود‘ ہے، یہ صرف ایک شخص کو دیا جائے گا، اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں۔“
📚 (صحیح مسلم، کتاب الصلوة، حدیث: 384)
قرآن میں فرمایا گیا:
﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا﴾
📚 (بنی اسرائیل: 79)
ترجمہ:
”رات کو تہجد پڑھیں، یہ آپ کے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کر دے۔“
✦ اس سے معلوم ہوا کہ نماز تہجد اور مقام محمود کے درمیان گہرا تعلق ہے، اور یہ درجہ خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے۔
🌸 تہجد بندے کو اللہ سے قریب کرتا ہے، دل کو نور عطا کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی یاد دلاتا ہے۔
✿ نماز تہجد عباد الرحمن کا وظیفہ ہے
نماز تہجد عباد الرحمن کا وظیفہ ہے، یعنی رحمن کے خاص بندوں کا معمول، جو اُس کی رحمت کے مستحق ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ٦٤ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ٦٥ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ٦٦﴾
📚 (الفرقان: 64-66)
ترجمہ:
”(رحمن کے خاص بندے وہ ہیں) جو اپنے رب کے حضور سجدوں اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں، اور یوں دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! جہنم کے عذاب سے ہمیں بچا لے، اس کا عذاب تو لازماً چمٹ جانے والا ہے، بے شک وہ بہت بُرا ٹھکانا اور مقام ہے۔“
✦ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تہجد کے وقت طویل قیام اور طویل سجدے مطلوب ہیں۔
✿ تہجد میں عذابِ دوزخ سے نجات کی دعا
اوپر دی گئی آیت کے الفاظ ﴿رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ﴾ اس بات کی رہنمائی کرتے ہیں کہ تہجد کے وقت بندے کو جہنم سے پناہ مانگنے کی دعا لازماً کرنی چاہیے۔
✿ تہجد سے تقربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے
نماز دراصل ذکر اللہ (اللہ کی یاد) ہے۔ سجدے میں انسان اللہ کے سب سے قریب ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أقرب ما يكون الرب من العبد فى جوف الليل الآخر، فإن استطعت أن تكون ممن يذكر الله فى تلك الساعة، فكن»
📚 (ترمذی: 3579)
”اللہ تعالیٰ بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے، لہٰذا اگر تم ان بندوں میں شامل ہو سکو جو اس وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ضرور شامل ہو جاؤ۔“
✦ معلوم ہوا کہ تہجد کا ہر لمحہ ذکر و یادِ الٰہی سے معمور ہونا چاہیے۔
✿ نوافل سے تقرب الٰہی
حدیث قدسی (صحیح بخاری) میں ہے:
«ولا يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه…»
”میرا بندہ نفل عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔“
📚 (صحیح بخاری: 6502)
✦ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقرب بندہ اپنی زندگی کے ہر گوشے میں اللہ کی رضا کے مطابق چلتا ہے۔ یہی اللہ کی خوشنودی اور اس کے قرب کا اعلیٰ مقام ہے۔
🌸 تہجد، ذکر، دعا اور استغفار کے ذریعے بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اور جہنم سے نجات کے لیے دعائیں کرتا ہے۔ یہی عباد الرحمن کی اصل صفت ہے۔
✿ نماز تہجد: تشکر و عبودیت کی مظہر
رسول اللہ ﷺ طویل قیام اللیل فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک سوج گئے۔ پوچھا گیا:
”آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں؟“
آپ ﷺ نے فرمایا:
«أفلا أكون عبدا شكورا»
”کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“
📚 (صحیح مسلم: 2819)
✦ غور کیجیے! آپ ﷺ نے تہجد کی دو وجوہات بیان کیں:
→ عبودیت (بندگی)
→ تشکر (شکر گزاری)
➤ معلوم ہوا کہ نماز تہجد تشکر اور عبودیت کی عظیم علامت ہے۔
✿ نماز تہجد کے دو بنیادی مقاصد
➊ نفس پر قابو پانا
رات کی خاموشی اور سکون میں اٹھ کر نماز پڑھنا سرکش نفس کو قابو میں لانے کا مؤثر طریقہ ہے۔
اس وقت مخلوق سو رہی ہوتی ہے، بندہ تازگی و نشاط کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا ہے، گویا قرآن اسی پر نازل ہو رہا ہے۔
یہ ہے ﴿أَشَدُّ وَطْئًا﴾ یعنی نفس پر قابو پانے کا بہترین ذریعہ۔
➋ فہمِ قرآن
تہجد کا ماحول قرآن کی سمجھ اور تدبر کے لیے سب سے موزوں ہے۔
دل یکسو ہو جاتا ہے، خیالات منتشر نہیں ہوتے۔
یہ ہے ﴿أَقْوَمُ قِيلًا﴾ یعنی قرآن ٹھیک پڑھنے اور سمجھنے کے لیے سب سے موزوں وقت۔
✿ قرآنی دلیل
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا﴾
📚 (المزمل: 6)
ترجمہ:
”در حقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے نہایت مؤثر اور قرآن کو ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔“
🌸 لہٰذا تہجد ایک ایسی عبادت ہے جو بندے کو شکر گزاری، عبودیت، نفس پر قابو اور فہمِ قرآن کی منزلوں تک پہنچاتی ہے۔
✿ تہجد کے وقت تین اہم کام: دعا، سوال اور استغفار
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (حدیث قدسی):
«ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر فيقول: من يدعوني فأستجيب له، من يسألني فأعطيه، من يستغفرني فأغفر له»
📚 (صحیح مسلم: 758)
ترجمہ:
”ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات جب آخری تہائی حصہ باقی رہتا ہے قریبی آسمان پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں معاف کر دوں؟“
✦ اس سے معلوم ہوا کہ تہجد کا وقت دعا، سوال اور استغفار کے لیے سب سے زیادہ سازگار ہے۔
✿ تہجد میں استغفار کا اہتمام
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ١٥ آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ ١٦ كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ١٧ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ١٨ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ١٩﴾
📚 (الذاریات: 15-19)
ترجمہ:
”بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا خوشی سے لے رہے ہوں گے، وہ اس دن سے پہلے نیکوکار تھے۔ وہ رات کا تھوڑا حصہ ہی سوتے تھے اور سحر کے وقت استغفار کرتے تھے، اور ان کے مال میں سائل اور محروم کے لیے حق مقرر تھا۔“
✿ ان آیات سے تین تعلیمات
➊ نماز تہجد کا اہتمام (رات کو کم سونا)۔
➋ تہجد کے وقت استغفار کرنا۔
➌ سائلین اور محرومین پر دل کھول کر خرچ کرنا (اسے اپنا حق سمجھنا)۔
✦ یہی صفات انسان کو محسن کے مرتبے تک لے جاتی ہیں اور جنت کا مستحق بناتی ہیں۔
🌸 پس تہجد کا وقت بندے کی زندگی میں سب سے بابرکت گھڑیاں ہیں، جنہیں دعا، ذکر اور استغفار سے بھرنا چاہیے۔
✿ نماز تہجد: اہل علم اور اہل عقل کا وظیفہ
اللہ تعالیٰ نے ناشکروں اور مشرکوں کا حال بیان کیا ہے کہ وہ مصیبت میں اللہ کو پکارتے ہیں، لیکن نعمت ملنے پر شرک کرنے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس اہلِ ایمان رات کو قیام و سجدوں میں اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
📚 (الزمر: 9)
ترجمہ:
”(کیا مشرک برابر ہے) اس شخص کے جو رات کو سجدے اور قیام میں عبادت کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے؟ کہہ دیجیے! کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں۔“
✦ اس آیت سے یہ باتیں معلوم ہوئیں:
→ عقل مند نصیحت قبول کرتے ہیں، بیوقوف رد کر دیتے ہیں۔
→ اہلِ توحید ہی حقیقی عقل والے ہیں، اہلِ شرک بیوقوف ہیں۔
→ علم والے اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔
→ اہلِ ایمان آخرت سے ڈرتے ہیں اور رحمت کے امیدوار بن کر تہجد کا اہتمام کرتے ہیں۔
✿ نماز تہجد: مؤمن کا شرف و اعزاز
حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:
«يا محمد صلى الله عليه وسلم شرف المؤمن قيام الليل، وعزه استغناؤه عن الناس»
📚 (المستدرک للحاکم)
”اے محمد ﷺ! رات کا قیام مؤمن کا شرف ہے اور اس کی عزت لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے۔“
✿ تہجد گزار اور فیاض شخص قابلِ رشک
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لا حسد إلا فى اثنتين: رجل آتاه الله القرآن، فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار، ورجل آتاه الله مالا، فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار»
📚 (صحیح بخاری: 73، صحیح مسلم)
”حسد جائز نہیں مگر دو شخصوں میں: ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا اور وہ دن رات اس کے ساتھ قیام کرتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے مال دیا اور وہ دن رات خرچ کرتا ہے۔“
✿ تہجد گزار کے درجات
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو دس آیات کے ساتھ قیام کرے اس کا نام غافلین میں نہیں لکھا جاتا۔
جو سو آیات کے ساتھ قیام کرے اس کا نام قانتین (فرمانبرداروں) میں لکھا جاتا ہے۔
جو ایک ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے اس کا نام مقنطرین (خزانے جمع کرنے والوں) میں لکھا جاتا ہے۔
📚 (سنن ابوداؤد: 1398)
🌸 تہجد اہل علم، اہل عقل اور اہل ایمان کا خاص وظیفہ ہے، جو انہیں شرف، عزت اور قربِ الٰہی عطا کرتا ہے۔
✿ تہجد گزاروں کے لیے جنت کے محل
نماز تہجد اللہ کا قرب عطا کرتی ہے، درجات بلند کرتی ہے اور جنت میں اعلیٰ شان محلات کا سبب بنتی ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا، وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَلَانَ الْكَلَامُ، وَتَابَعَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ»
📚 (جامع ترمذی، صفة الجنة، حدیث: 2527)
”جنت میں ایسے (شفاف شیشوں کے) محل ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آتا ہے۔ یہ محل اُن لوگوں کے لیے تیار ہیں جو: لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں، نرم گفتگو کرتے ہیں، کثرت سے نفلی روزے رکھتے ہیں، سلام کو عام کرتے ہیں اور رات کے وقت (جب مخلوق سو رہی ہو) تہجد کا اہتمام کرتے ہیں۔“
✿ تہجد میں طویل سجدے اور کثرتِ تسبیح
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا﴾
📚 (الانسان: 26)
”اور رات کو اس کے آگے سجدہ کرو اور رات کے طویل حصے میں اس کی تسبیح کرتے رہو۔“
رسول اللہ ﷺ کے سجدے اتنے طویل ہوتے کہ ایک سجدہ پچاس آیات کی تلاوت کے برابر ہوا کرتا تھا۔
📚 (صحیح مسلم: 1074)
✿ سجدے کی ثابت تسبیحات
➤ «سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى»
📚 (صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، حدیث: 1814)
”میں اپنے ربِ اعلیٰ کی بے عیبی بیان کرتا ہوں۔“
➤ «سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ»
📚 (صحیح مسلم، کتاب صلاة، حدیث: 1091)
”پاکیزہ اور بے عیب ہے ربِ فرشتگان اور روح (یعنی جبرائیل) کا رب۔“
✦ غور کیجیے! فرشتے جو کبھی نافرمانی نہیں کرتے، ان کے رب کا مقام کس قدر عظیم ہے۔
✿ تہجد میں خوف و طمع سے دعائیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ١٥ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾
📚 (السجدہ: 15-16)
”ہمارے بندے وہ ہیں جو آیات سن کر سجدے میں گر پڑتے ہیں، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ بھی کرتے ہیں۔“
✿ ان آیات سے تعلیمات
→ اہل ایمان کے لیے صبح سویرے اٹھنا مشکل نہیں ہوتا، وہ تہجد پڑھتے ہیں اور خوف و طمع کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں۔
→ تہجد گزار مغرور اور متکبر نہیں ہوتے بلکہ عاجز بندے ہیں۔
→ وہ بستروں کو چھوڑ کر وضو کرتے ہیں اور سجدوں میں حمد اور تسبیح کرتے ہیں۔
→ وہ صرف بدنی عبادت پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے مال میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
🌸 تہجد گزار بندے نہ صرف اپنے رب کے قریب ہوتے ہیں بلکہ جنت کے عالی شان محلات، عاجزی و انکساری اور رحمتِ الٰہی کے سب سے بڑے امیدوار بھی بن جاتے ہیں۔
✿ آخر شب دعا کی قبولیت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ فِي اللَّيْلِ لَسَاعَةً، لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ، يَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ»
📚 (صحیح مسلم: 757)
”ہر رات ایک گھڑی ایسی ہے، جب کوئی مسلمان بندہ دنیا یا آخرت کی بھلائی مانگے تو اللہ اسے عطا کرتا ہے۔“
رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا:
«أَنَا الْمَلِكُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ»
📚 (صحیح بخاری: 1145)
”میں بادشاہ ہوں! جو مجھے پکارے گا میں جواب دوں گا، جو مانگے گا میں عطا کروں گا، جو مغفرت چاہے گا میں معاف کروں گا۔“
✦ تہجد کا وقت دعا، سوال اور استغفار کے لیے سب سے قیمتی گھڑی ہے۔
✿ تہجد کے وقت فرشتوں کا نزول
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ»
📚 (صحیح مسلم: 755)
”رات کی نماز (تہجد) میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہی افضل ہے۔“
حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جب رات کو سورۃ البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے تو فرشتے ان کی خوش الحانی سے قریب آگئے، یہاں تک کہ بادلوں کا سایہ نظر آنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ»
📚 (صحیح بخاری: 5018)
”یہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سننے کے لیے قریب آگئے تھ
✿ حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ، وَأَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ»
📚 (صحیح بخاری: 1131)
”اللہ کے نزدیک سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور سب سے محبوب روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔“
(نصف رات سونا، تہائی رات قیام، اور چھٹا حصہ پھر سونا۔)
✿ تہجد: پچھلی امتوں کے صالحین کا شعار
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلَى رَبِّكُمْ، وَمَكْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ عَنِ الْإِثْمِ»
📚 (ترمذی: 3549)
”قیام اللیل (تہجد) کی پابندی کرو، یہ تم سے پہلے کے صالحین کا طریقہ ہے، یہ رب کی قربت کا ذریعہ ہے، گناہوں کو مٹانے والا اور معاصی سے روکنے والا ہے۔“
✿ نماز تہجد کے لیے اپنے گھر والوں کو بھی جگانا چاہیے
نماز تہجد کے لیے اپنے گھر والوں کو بھی جگانا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ترغیب دی اور گھر والوں کے ساتھ پڑھنے کی تاکید فرمائی۔
◈ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا أَيْقَظَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّيَا أَوْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ جَمِيعًا، كُتِبَا فِي الذَّاكِرِينَ وَالذَّاكِرَاتِ»
📚 (ابو داود، کتاب الصلاة، باب قیام اللیل، حدیث: 1114)
”جب آدمی رات کو اٹھ کر اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے، پھر دونوں مل کر نماز پڑھتے ہیں تو انہیں ذکر کرنے والے مردوں اور عورتوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔“
➤ ﴿الذَّاكِرِينَ وَالذَّاكِرَاتِ﴾ سے مراد وہ خوش نصیب مرد و خواتین ہیں جن کا ذکر سورۃ الاحزاب (آیت: 35) میں ہوا ہے اور ان کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے۔
✿ بیویوں کی نماز تہجد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی فکر مندی
رسول اللہ ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات کی نماز تہجد کے بارے میں بھی بہت فکر مند رہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
«نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ»
📚 (صحیح بخاری: 1126)
”تہجد کے وقت اللہ کے خزانے نازل ہوتے ہیں۔ صواحب الحجرات (یعنی حجرات کی عورتوں کو) کون بیدار کرے گا؟“
✿ بیٹی اور داماد کی نماز تہجد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی فکر مندی
رسول اللہ ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فکر مند رہتے۔ ایک رات آپ ﷺ ان کے گھر گئے اور فرمایا:
«أَلَا تُصَلِّيَانِ؟»
📚 (صحیح بخاری: 1127)
”کیا تم دونوں تہجد نہیں پڑھتے؟“
✿ صحابہ کی نماز تہجد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی فکر مندی
رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کی تہجد کے بارے میں بھی بہت فکر مند رہتے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
«نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ»
📚 (صحیح بخاری: 1122)
”اگر عبداللہ رات کو تہجد پڑھنے لگے تو کتنا اچھا آدمی ہے۔“
✿ ایک صحابی کی نماز تہجد کے بارے میں فکر مندی
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک صحابی کی نماز تہجد کے بارے میں فکر مند ہوتے ہوئے فرمایا:
«كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ»
📚 (صحیح بخاری: 1152)
”وہ پہلے قیام اللیل کیا کرتا تھا (یعنی تہجد پڑھتا تھا) پھر اس نے قیام اللیل چھوڑ دیا۔“
➤ معلوم ہوا کہ نفل عمل جب شروع کر دیا جائے تو اس پر مستقل مزاجی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
«أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ»
📚 (صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، حدیث: 1830)
”اللہ تعالیٰ کو وہ عمل پسند ہے جو مستقل ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔“
✅ تہجد کے فضائل سے متعلق بیان مکمل ہوا۔ اب ان شاء اللہ اگلے حصے میں ہم نماز تہجد کے احکام و مسائل پیش کریں گے۔
✿ نماز تہجد کے مکمل احکام و مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں
░ تہجد کا شرعی حکم
نماز تہجد نفل ہے، فرض نہیں ہے۔ فرض تو صرف پانچ وقت کی نمازیں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«خمس صلوات فى اليوم والليل»
”دن اور رات میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں۔“
اس پر ایک شخص نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی کچھ مجھ پر فرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
«لا، إلا أن تطوع»
”نہیں، مگر یہ کہ تم اپنی خوشی سے نوافل پڑھو۔“
📚 (صحیح بخاری: 2678)
➤ تہجد نفل ہے، لیکن امت کی قیادت اور خواصِ امت کے لیے یہ ایک ضروری نصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے رئیس التابعین حضرت حسن بصری اور حضرت ابن سیرین رحمہما اللہ اس کے التزام کے قائل تھے۔
░ تہجد کا وقت
وقت: عشاء کے بعد سے فجر تک۔
📚 (صحیح مسلم: 736)
تہجد رات کے آغاز، وسط یا آخر میں پڑھ سکتے ہیں، لیکن آخری تہائی رات افضل ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”ہم رات کے جس حصے میں چاہتے نبی ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے تھے۔“
📚 (صحیح بخاری: 1141)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”نبی ﷺ کے تہجد کا کوئی معین وقت نہیں تھا، آپ اپنی سہولت کے مطابق پڑھتے تھے، لیکن افضل آخر شب ہے۔“
░ با جماعت نماز تہجد بھی مسنون ہے
نفل نمازیں انفرادی بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور با جماعت بھی۔ رسول اللہ ﷺ نے تہجد اکیلے بھی پڑھی اور صحابہ کے ساتھ بھی۔ رمضان میں تراویح کی جماعت اسی کی مثال ہے۔
◈ صحیح احادیث کے دلائل:
آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ با جماعت قیام اللیل کیا۔
📚 (صحیح بخاری: 859)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے ساتھ رات کی نماز پڑھی۔
📚 (صحیح مسلم: 772)
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز تہجد ادا کی۔
📚 (صحیح بخاری: 860)
آپ ﷺ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ 12 رکعت تہجد پڑھی، پھر فجر سے پہلے دو رکعت سنت ادا کیں۔
📚 (موطا امام مالک: حدیث 245)
رمضان میں آپ ﷺ نے قیام اللیل کی جماعت بھی کرائی۔
📚 (صحیح بخاری: 1129)
دیگر نفل نمازیں جیسے خسوف، کسوف اور استسقاء بھی جماعت کے ساتھ ادا کی گئیں۔
📚 (صحیح مسلم: 797، 414)
➤ علاوہ ازیں آپ ﷺ نے متعدد صحابہ جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت انس اور ان کی والدہ و خالہ، حضرت عتبان بن مالک، حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی تہجد با جماعت ادا کی۔
░ نتیجہ
تہجد کا با جماعت ادا کرنا سنت سے ثابت ہے۔
اسے بدعت یا مکروہ کہنا درست نہیں۔
انفرادی پڑھنا افضل ہے، لیکن تربیت، تعلیم یا دینی مصلحت کے پیش نظر جماعت بھی جائز ہے۔
نفل کو چھپانا بہتر ہے لیکن قرآن نے اظہار اور اخفاء دونوں کو پسند فرمایا:
﴿إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾
📚 (البقرہ: 271)
░ تراویح اور تہجد
اکثر محدثین کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”رمضان اور غیر رمضان میں رسول اللہ ﷺ 8 رکعت پڑھتے تھے۔“
📚 (صحیح بخاری: 1147)
➤ لہذا تراویح کی جماعت بھی تہجد کی جماعت ہے اور دونوں سنت سے ثابت ہیں۔
🌸 خلاصہ:
نماز تہجد نفل ہے مگر اس امت کے صالحین کے لیے ایک عظیم نصاب ہے۔ انفرادی طور پر افضل ہے، لیکن جماعت کے ساتھ پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہے۔ یہ علمی و روحانی تربیت کی بہترین عبادت ہے جسے صحابہ کرام اور اکابر امت نے اپنایا۔
░ سوتے وقت تہجد کی نیت کر لینا
رات کو سوتے وقت تہجد کے لیے نیت کرنی چاہیے، تاکہ اگر بالفرض آنکھ نہ کھلے تب بھی ثواب ملے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِي أَنْ يَقُومَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ حَتَّى أَصْبَحَ، كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى، وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ»
📚 (نسائی، کتاب قیام اللیل، حدیث: 1765)
”جو شخص یہ نیت کر کے سو جائے کہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا، پھر نیند غالب آ جائے تو اس کے نامہ اعمال میں وہی لکھا جاتا ہے جس کی اس نے نیت کی تھی، اور اللہ تعالیٰ اس پر نیند کو صدقہ بنا دیتا ہے۔“
░ بیدار ہونے کی مسنون دعا
نیند سے اٹھنے کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے:
«الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ»
📚 (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، حدیث: 6325)
”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں نیند کی موت کے بعد زندہ کیا، اور اسی کی طرف دوبارہ اٹھ کر جانا ہے۔“
░ سورۃ آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
”ایک رات میں اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس سو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے رات کے آخری حصے میں بیدار ہو کر آسمان کی طرف دیکھا اور سورۃ آل عمران کی آخری آیات (190 تا 200) تلاوت فرمائیں:
﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ﴾ … (آیت کے آخر تک)
📚 (صحیح بخاری: 4580)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیدار ہو کر مسواک کی اور وضو کرتے وقت یہ آیات تلاوت فرمائیں۔
📚 (صحیح مسلم: 376)
░ نماز تہجد کی مخصوص دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے:
«اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلَهِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ»
📚 (صحیح بخاری، کتاب التہجد، حدیث: 1120)
ترجمہ:
”اے اللہ! تیرے ہی لیے حمد ہے، تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور ان میں جو کچھ ہے۔ تیرے ہی لیے حمد ہے، تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور ان میں جو کچھ ہے۔ تو ہی حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، انبیاء حق ہیں، محمد ﷺ حق ہیں، قیامت حق ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے لیے اپنے آپ کو یکسو کیا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رجوع کیا، تیرے سہارے جھگڑا کرتا ہوں اور تیرے پاس فیصلہ لاتا ہوں۔ میرے تمام اگلے پچھلے، چھپے اور ظاہر گناہ معاف فرما۔ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“
🌸 غور کیجیے! اس دعا میں اللہ کی حمد بھی ہے، ایمان اور یقین کا اعتراف بھی، اللہ سے وابستگی اور انابت کا اعلان بھی، استغفار بھی اور آخر میں توحید کا اقرار بھی۔
░ تہجد کی مخصوص دعائے استفتاح
نماز تہجد میں تکبیرِ تحریمہ اور ثناء کے بعد، سورۃ الفاتحہ سے پہلے یہ دعا پڑھنی مسنون ہے:
«اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ»
📚 (صحیح مسلم: 1811)
ترجمہ:
”اے اللہ! اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! اے زمین و آسمان کے خالق! اے غیب و شہادت کے جاننے والے! تو ہی بندوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ اختلافی معاملات میں مجھے حق کی طرف ہدایت دے، بے شک تو جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے۔“
░ پہلی دو رکعتیں ہلکی پڑھنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ، فَلْيَفْتَتِحْ صَلَاتَهُ بِرَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ»
📚 (صحیح مسلم: 1807)
”جب تم میں سے کوئی رات کو (تہجد کے لیے) کھڑا ہو تو اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے کرے۔“
➤ ان دو ہلکی رکعتوں کے بعد طویل قیام اور لمبی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
░ نیند کا غلبہ ہو تو کیا کریں؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي، فَلْيَرْقُدْ، حَتَّى يَعْلَمَ مَا يَقْرَأُ»
📚 (صحیح مسلم: 1836)
”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں اونگھنے لگے اور سمجھ نہ سکے کہ کیا پڑھ رہا ہے تو اسے سو جانا چاہیے، یہاں تک کہ وہ سمجھنے کے قابل ہو جائے۔“
✦ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
→ جب نیند کا غلبہ ہو تو قرآن صحیح نہیں پڑھا جا سکتا، ایسے میں سو جانا بہتر ہے۔
→ ایک نیک آدمی اپنی جسمانی اور ذہنی حالت کے مطابق اپنے معمولات میں ردوبدل کر سکتا ہے۔ کبھی سنت کو وقتی طور پر چھوڑ دینا بھی سنت کے مطابق ہے۔
🌸 خلاصہ:
نماز تہجد بندگی، خشوع اور قربِ الٰہی کی علامت ہے۔ اس کے آداب میں نیت، ہلکی دو رکعتوں سے آغاز، مسنون دعائیں، لمبے قیام اور سجدے شامل ہیں۔ لیکن اگر نیند حاوی ہو جائے تو عبادت پر اصرار کرنے کے بجائے آرام کرنا سنت کے مطابق ہے۔
✿ نماز تہجد کی رکعتوں کی تعداد (صحیح احادیث کی روشنی میں)
رسول اللہ ﷺ سے نماز تہجد مختلف طریقوں سے ثابت ہے۔ اس معاملے میں آپ ﷺ کی کئی سنتیں ہیں۔ اپنی جسمانی حالت، صحت اور سہولت کے مطابق کسی بھی سنت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
➤ ہر ثابت شدہ مستند سنت پر کبھی کبھار عمل کر لینا افضل ہے اور ہر سنت پر عمل کرنے میں ثواب ہی ثواب ہے۔
░ رکعات کی تعداد
◈ نماز تہجد کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعتیں ہیں۔
(1) چار، چھ، آٹھ، دس یا گیارہ رکعتیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”رسول اللہ ﷺ کبھی چار تہجد اور تین وتر (کل سات)، کبھی چھ تہجد اور تین وتر (کل نو)، کبھی آٹھ تہجد اور تین وتر (کل گیارہ) اور کبھی دس تہجد اور تین وتر (کل تیرہ رکعتیں) پڑھتے۔ آپ ﷺ کی رات کی نماز سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔“
📚 (ابو داود: 1155)
(2) سات، نو اور گیارہ رکعتیں
حضرت مسروق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رات کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا:
”رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں کے علاوہ سات رکعتیں، کبھی نو رکعتیں اور کبھی گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے (جن میں ایک وتر شامل ہوتی تھی)۔“
📚 (صحیح بخاری: 1139)
(3) آٹھ رکعتیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے آٹھ رکعتیں تہجد، اور پانچ رکعتیں وتر کی ہوتیں اور آپ ﷺ ان پانچ رکعتوں میں آخری رکعت کے سوا کسی میں نہ بیٹھتے۔“
📚 (صحیح مسلم: 1720)
(4) آٹھ رکعتیں (چار + چار)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”رسول اللہ ﷺ کبھی چار طویل رکعتیں پڑھتے، پھر چار مزید طویل رکعتیں پڑھتے (یعنی کل آٹھ رکعتیں)، پھر تین رکعت وتر ادا فرماتے۔“
📚 (صحیح بخاری: 1147)
(5) دس رکعتیں + وتر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”رسول اللہ ﷺ عشاء اور فجر کے درمیان گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک وتر پڑھتے۔“
📚 (صحیح مسلم: 736، 1718)
(6) کل تیرہ رکعتیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
”رسول اللہ ﷺ دس رکعتیں پڑھتے، پھر ایک وتر اور پھر فجر کی دو رکعتیں ادا فرماتے۔“
📚 (صحیح مسلم: 738)
(7) بارہ رکعتیں (قضا کی صورت میں)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:
”رسول اللہ ﷺ کی تہجد اگر کسی تکلیف کی وجہ سے فوت ہو جاتی تو آپ ﷺ دن میں بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔“
📚 (صحیح مسلم: 1744)
░ تہجد کی رکعتوں کا طریقہ
نماز تہجد کو دو دو رکعت کر کے پڑھنا افضل ہے، تاہم چار چار کر کے پڑھنا بھی ثابت ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا: "رات کی نماز کیسے ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
«صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ، صَلَّى رَكْعَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى»
📚 (صحیح بخاری: 1137)
”رات کی نماز دو دو رکعت کر کے ہے، اور جب صبح کا اندیشہ ہو تو ایک وتر پڑھ لے، یہ ساری نماز کے لیے وتر ہو جائے گی۔“
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى»
📚 (صحیح بخاری: 990)
”رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ»
📚 (صحیح مسلم: 736)
”رسول اللہ ﷺ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے۔“
🌸 خلاصہ:
تہجد کی رکعات 4 سے 12 تک ہیں۔
افضل یہ ہے کہ دو دو رکعت کر کے پڑھی جائے۔
آخر میں ایک وتر پڑھنا مسنون ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے سہولت و حالت کے مطابق مختلف تعداد میں رکعات ادا کیں، اور ان سب سنتوں پر عمل کرنا باعثِ اجر ہے۔
✿ نماز تہجد میں مسنون قراءت (صحیح احادیث کی روشنی میں)
░ سورۃ المزمل کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾
📚 (المزمل: 20)
➤ یعنی تہجد میں سہولت کے مطابق قرآن پڑھا جائے۔ تاہم لمبا قیام اور طویل تلاوت افضل ہے۔
░ طویل قیام کے فضائل
1️⃣ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات تہجد میں اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں پر ورم آجاتا۔
📚 (صحیح مسلم: 2819)
2️⃣ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ فرمایا:
«طُولُ الْقُنُوتِ»
”وہ نماز جس میں قیام لمبا ہو۔“
📚 (صحیح مسلم: 1258)
3️⃣ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک رات آپ ﷺ نے صبح تک صرف ایک آیت بار بار دہراتے ہوئے قیام فرمایا:
﴿إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾
📚 (نسائی: 1000)
”اے اللہ! اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر معاف فرما دے تو تو ہی غالب اور حکمت والا ہے۔“
░ طویل قراءت کی مثال
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں نے ایک رات آپ ﷺ کے ساتھ نماز تہجد پڑھی۔ آپ نے سورۃ البقرہ شروع کی۔ میں نے سمجھا سو آیات کے بعد رکوع کریں گے، لیکن آپ پڑھتے رہے، پھر سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران بھی مکمل پڑھ ڈالی۔“
📚 (صحیح مسلم: 1814)
░ طویل سجدے اور دعائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«يَسْجُدُ السَّجْدَةَ مِنْ ذَلِكَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً»
📚 (صحیح مسلم: 1074)
”رسول اللہ ﷺ سجدہ اتنا لمبا کرتے جتنا تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے۔“
➤ رکوع اور سجدہ میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
رکوع میں اللہ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعائیں مانگو:
«فَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ»
📚 (صحیح بخاری: 1123)
░ نماز کا حسن و جمال
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ ثَلَاثًا»
📚 (صحیح بخاری: 1147)
”رسول اللہ ﷺ چار رکعت پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کی نہ پوچھیے، پھر چار رکعت اسی طرح پڑھتے، پھر تین وتر ادا کرتے۔“
✦ افسوس! آج ہم صرف تعداد پر توجہ دیتے ہیں، معیار (خشوع و خضوع) کی طرف نہیں۔
░ تفقہ فی القرآن
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سورۃ المزمل کی آیت ﴿وأقوم قيلاً﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
«أَجْدَرُ أَنْ يُفْقَهَ فِي الْقُرْآنِ»
📚 (ابو داود: 1109)
”رات کے وقت قرآن پڑھنا فہم و تدبر کے لیے زیادہ موزوں ہے۔“
░ حق المقدور عمل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«خُذُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا»
📚 (صحیح بخاری: 451)
”اتنا ہی عمل کرو جتنا کر سکو، اللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں تھکتا جب تک تم خود تھک نہ جاؤ۔“
░ تہجد کی قضاء
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”رسول اللہ ﷺ کی تہجد اگر بیماری یا تکلیف کی وجہ سے رہ جاتی تو آپ ﷺ دن میں بارہ رکعتیں ادا کرتے۔“
📚 (صحیح مسلم: 1744)
🌸 خلاصہ:
تہجد میں حسب استطاعت قرآن پڑھا جائے، لیکن لمبی قراءت افضل ہے۔
طویل قیام، طویل سجدے اور کثرتِ دعا سے نماز میں روحانیت پیدا ہوتی ہے۔
تہجد تفقہ فی القرآن اور قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔
طاقت کے مطابق معمول بنائیں اور اگر کبھی رہ جائے تو قضا کریں۔
✿ نماز تہجد میں آدابِ قراءت و تلاوت
نماز تہجد میں قرآن کی تلاوت کے چند مسنون آداب یہ ہیں:
1️⃣ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھنا۔
2️⃣ ہر لفظ اور ہر حرف کو واضح کر کے پڑھنا۔
3️⃣ ہر آیت کے بعد رکنا۔
4️⃣ آیت کے آخری لفظ کو کھینچ کر پڑھنا۔
5️⃣ جہاں حمد، تسبیح یا استعاذہ کا حکم آئے وہاں جواب دینا۔
6️⃣ اللہ کے کلام سے متاثر ہو کر خوفِ الٰہی کے ساتھ رونا۔
░ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنا
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا﴾
📚 (المزمل: 4)
”اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اہتمام کے ساتھ پڑھا کرو۔“
░ ایک ایک حرف واضح کر کے پڑھنا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«أَنَّهَا وَصَفَتْ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرْفًا حَرْفًا»
📚 (ترمذی: 2927)
”رسول اللہ ﷺ ایک ایک حرف واضح کر کے پڑھتے تھے۔“
░ ہر آیت کے بعد رکنا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
”رسول اللہ ﷺ ایک ایک آیت الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھہرتے:
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ پر رکتے،
پھر ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ﴾ پر،
اس کے بعد ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ پر رکتے۔“
📚 (ابو داود: 3487)
░ تسبیح، دعا اور استعاذہ پر جواب دینا
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کی نماز پڑھی، آپ تسبیح کے موقع پر تسبیح، دعا کے موقع پر دعا اور استعاذہ کے موقع پر پناہ مانگتے۔“
📚 (صحیح مسلم: 772)
مثلاً:
سورۃ التین کی آخری آیت پر:
﴿أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ﴾
آپ ﷺ جواب دیتے:
«بَلَى وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ»
📚 (ترمذی: 3270)
سورۃ القیامۃ کی آخری آیت پر آپ ﷺ فرماتے:
«سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ فَبَلَى»
📚 (ابن ابی حاتم)
░ نماز میں رونا اور خشوع
حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی آواز ایسے نکل رہی تھی جیسے ابلتے ہوئے برتن سے آواز آتی ہے۔“
📚 (ابو داود: 799، نسائی: 1199)
░ رسول اللہ ﷺ پر قرآن سن کر آنسو
جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ النساء کی آیت 41 پر پہنچے:
﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾
📚 (النساء: 41)
تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور آپ نے فرمایا:
«حَسْبُكَ الْآنَ»
”بس کرو عبد اللہ!“
📚 (صحیح بخاری: 4582)
░ غزوہ بدر کی رات کا قیام
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”غزوہ بدر کی رات رسول اللہ ﷺ درخت کے نیچے تہجد پڑھتے رہے اور اتنا روئے کہ صبح ہو گئی۔“
📚 (صحیح ابن حبان)
✦ اس واقعے میں حکمرانوں اور سپہ سالاروں کے لیے سبق ہے کہ کامیابی صرف مادی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی نصرت اور بندگی پر بھی منحصر ہے۔
🌸 خلاصہ:
نماز تہجد میں ترتیل، تدبر، خشوع اور رقت قلبی کے ساتھ قرآن پڑھنا سنت ہے۔
ہر آیت پر ٹھہرنا،
تسبیح اور دعا کے مقامات پر جواب دینا،
اور کلامِ الٰہی سے متاثر ہو کر رونا،
یہ سب رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
✿ انبیاء، علماء اور صحابہ کی آہ و بُکا (قرآن و سنت کی روشنی میں)
░ انبیاء کی آہ و بُکا
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا﴾
📚 (مریم: 58)
”جب رحمن کی آیات ان پر تلاوت کی جاتیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔“
➤ یہ انبیاء کے کمال خشوع اور قلبی تاثر کا اظہار ہے کہ اللہ کی آیات صرف زبان پر نہیں بلکہ دل کو بھی جھنجھوڑ دیتی تھیں۔
░ علماء کی آہ و بُکا
اہلِ علم کی کیفیت قرآن نے یوں بیان فرمائی:
﴿إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ١٠٧ وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا ١٠٨ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ١٠٩﴾
📚 (بنی اسرائیل: 107-109)
”جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا، وہ جب آیات سنتے ہیں تو منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور کہتے ہیں: پاک ہے ہمارا رب! اس کا وعدہ تو ہونا ہی تھا۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہیں اور اس سے ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔“
➤ یہاں علم و خشوع کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے کہ حقیقی علم دل کو رقت و خشیت کی طرف لے جاتا ہے۔
░ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قراءت اور رونا
صحیح بخاری میں آتا ہے:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں نماز اور تلاوت کرتے تو زور زور سے روتے۔ ان کے رونے کی آواز سن کر مشرکین کے بچے اور عورتیں بھی جمع ہو جاتیں، جس پر سردارانِ قریش کو تکلیف ہوتی۔
📚 (صحیح بخاری، کتاب المناقب: 3905)
➤ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قیادت کا نصاب قرآن کے ساتھ قلبی تعلق ہے، محض رسمی یا زبانی نہیں۔
░ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قراءت اور رونا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سورۃ الطور کی یہ آیت پڑھی:
﴿إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ﴾
📚 (الطور: 7)
”یقیناً آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔“
➤ یہ آیت سن کر اتنا روئے کہ بیمار ہوگئے، حتیٰ کہ لوگ ان کی عیادت کو آنے لگے۔
📚 (الجواب الکافی لابن القیم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رات کے آخری حصے میں اہلِ خانہ کو اٹھاتے اور یہ آیت پڑھتے:
﴿وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ﴾
📚 (طٰہ: 132)
”اپنے اہل کو نماز کا حکم دیجئے اور اس پر صبر کیجیے۔ ہم آپ سے رزق نہیں چاہتے، ہم ہی آپ کو رزق دیتے ہیں، اور اچھا انجام تقویٰ ہی کا ہے۔“
░ خشیتِ الٰہی سے معمور قراءت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى اللَّهَ»
📚 (ابن ماجہ: 1101)
”سب سے بہتر قاری وہ ہے جسے سنو تو محسوس ہو کہ وہ اللہ کی خشیت سے لبریز ہے۔“
➤ اس حدیث سے واضح ہے کہ حسنِ قراءت کا معیار صرف لحن اور نغمگی نہیں، بلکہ خشیت و اخبات ہے۔
✦ خلاصہ
انبیاء کرام، علماء راسخین اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں تلاوت کے ساتھ آہ و بُکا ایک نمایاں صفت تھی۔
ان کی قراءت سننے والے کو یہ احساس دلاتی تھی کہ یہ اللہ کے سامنے جھکے اور ڈرے ہوئے ہیں۔
آج ہمیں بھی اپنی نماز اور قراءت کو محض آواز یا فن کا مظاہرہ بنانے کے بجائے خشیت الٰہی کے رنگ میں رنگنے کی ضرورت ہے۔
✿ قیادت، قرآن کا علم اور نماز تہجد (قرآن و سنت کی روشنی میں)
░ سیاسی عہدے اور تعلیم قرآن
اسلامی ریاست میں سیاسی و انتظامی مناصب کا معیار عمر یا دنیاوی ڈگریاں نہیں بلکہ قرآن کا عمیق علم تھا۔
◈ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ (م 51ھ) کو طائف کا گورنر مقرر فرمایا، حالانکہ وہ اپنے وفد کے سب سے کم عمر فرد تھے۔ سبب صرف یہ تھا کہ وہ سورۃ البقرۃ کے عالم تھے۔
📚 (السنن الکبری للبیہقی)
➤ یہ ثبوت ہے کہ اہل قرآن کو قیادت دینا سنتِ نبوی ہے۔
░ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مشاورت کے لیے قرآن کے علماء کو منتخب کیا تھا، چاہے وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«كان القراء أصحاب مجالس عمر، ومشاورته كهولا كانوا أو شبانا»
📚 (صحیح بخاری، کتاب التفسیر: 4642)
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ قرآن کے علماء پر مشتمل تھی، چاہے بوڑھے ہوں یا جوان۔“
➤ غور کیجیے! کیا آج ہماری حکومتوں کے وزراء و مشیران میں فہم قرآن معیار ہے؟
░ عصرِ حاضر کی قیادت
سیاسی قیادت،
عسکری قیادت،
دینی قیادت،
اقتصادی قیادت،
ادیب، شاعر، صحافی اور میڈیا کے نمائندے —
کیا یہ سب قرآن کے فہم اور عربی زبان سے واقف ہیں؟
کیا یہ نماز تہجد میں قرآن سنتے اور روتے ہیں؟
کیا یہ قیادت اُسی نصاب سے وابستہ ہے جس سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وابستہ تھے؟
✦ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا تھا:
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہِ سحرگاہی
➤ اُمت کا عروج و زوال قرآن اور خشوع و خضوع سے وابستہ ہے۔
░ عام مسلمان اور قائد کا نصاب
◈ عام مسلمان کا نصاب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے کہا:
«لا أزيد على هذا ولا أنقص منه»
”میں ان (فرائض) پر نہ اضافہ کروں گا نہ کمی۔“
آپ ﷺ نے فرمایا:
«من سرَّه أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فلينظر إلى هذا»
📚 (متفق علیہ)
➤ اس کے لیے بس توحید، نماز، روزہ اور زکوٰۃ ہی کافی ہیں۔
◈ قائد کا نصاب
قائد کی ذمہ داریاں عام فرد سے کہیں زیادہ ہیں:
خلیفۃ المسلمین کی بیعت: کتاب و سنت پر عمل کی شرط۔
اسلامی جج و قاضی: تمام فقہی و آئینی نصوص۔
سپہ سالار: صلح و جنگ کے قرآنی و نبوی احکام۔
ماہرینِ معیشت: قرآن و سنت کے اقتصادی اصول۔
➤ ہر شعبہ کے رہنما کا نصاب قرآن و سنت ہے، محض دنیاوی قابلیت نہیں۔
░ ابتدائی ایام میں تہجد اور بعد میں تخفیف
◈ ابتدائی حکم
مکہ کے ابتدائی دور میں پانچ نمازیں فرض نہیں ہوئی تھیں، اس وقت تہجد کا طویل قیام فرض کے قریب تھا:
﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا • نِصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا • أَوْ زِدْ عَلَيْهِ﴾
📚 (المزمل: 2–4)
◈ تخفیف
تقریباً دس سال بعد سورۃ المزمل کی آخری آیت نازل ہوئی:
﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾
📚 (المزمل: 20)
➤ تخفیف کی وجوہات:
مریضوں کی رعایت۔
رزقِ حلال کی تلاش میں سفر کرنے والوں کی رعایت۔
اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی رعایت۔
✦ سبق: نوافل میں حالات کے مطابق لچک اسلام کی شناخت ہے۔
░ وتر: آخری حصۂ شب میں افضل
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترًا»
📚 (نسائی، قیام اللیل: 1661)
➤ وتر 1، 3، 5، 7 یا 9 رکعت۔
➤ ایک رات میں دو بار وتر نہیں۔
░ نور کی جامع دعا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«اللَّهُمَّ اجعل في قلبي نورًا، وفي سمعي نورًا، وفي بصري نورًا، ومن فوقي نورًا، ومن تحتي نورًا، وعن يميني نورًا، وعن شمالي نورًا، ومن أمامي نورًا، ومن خلفي نورًا، واجعل لي نورًا»
📚 (صحیح بخاری، کتاب الدعوات: 3316)
”اے اللہ! میرے دل میں نور فرما، میری سماعت میں نور، میری بصارت میں نور، میرے اوپر اور نیچے نور، میرے آگے اور پیچھے نور، دائیں اور بائیں نور عطا فرما، اور میرے لیے ہر طرف نور بنا دے۔“
🌸 خلاصہ:
اسلامی قیادت قرآن فہمی پر مبنی ہونی چاہیے۔
عام مسلمان کے لیے فرائض پر دوام جنت کا سبب ہے۔
قائد کا نصاب: قرآن و سنت کا عمیق علم۔
تہجد: ابتدا میں لازمی نصاب، بعد میں تخفیف، مگر افضل عمل۔
آخر شب میں وتر اور دعائے نور، مؤمن کی تکمیلِ روحانیت کا نشان ہیں۔
متفرق موضوعات
🕌 عورت کے غسلِ جنابت میں بندھے ہوئے بالوں کا حکم اور نبوی طریقۂ غسل
❓ سوال:
کیا عورت غسلِ جنابت میں اپنے سر کے بال کھول کر تر کرے یا بال بندھے ہوں تو بھی غسل ہو جاتا ہے؟ اور غسل کا مکمل نبوی طریقہ کیا ہے؟
📖 احادیثِ مبارکہ سے رہنمائی
🔹 ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
قلت: يا رسول الله! إني امرأة أشد ضفر رأسي، أفأنقضه لغسل الجنابة؟
قال ﷺ: «لا، إنما يكفيك أن تحثي على رأسك ثلاث حثيات من ماء، ثم تفيضين على سائر جسدك الماء فتطهرين»
📚 ترمذی (105)، صحیح مسلم (330/58)، ابو داود (251)
ترجمہ:
ام سلمہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے بال مضبوطی سے باندھتی ہوں، کیا غسلِ جنابت کے لیے انہیں کھولوں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ تم اپنے سر پر تین چلو پانی بہا لو اور پھر پورے جسم پر پانی ڈال دو، تو تمہارا غسل مکمل ہو جائے گا۔
➤ اس حدیث سے واضح ہے کہ عورت کو بال کھولنے کی ضرورت نہیں، البتہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچنا ضروری ہے۔
🔹 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
ثم تصب على رأسها فتدلكه دلكاً شديداً حتى تبلغ شؤون رأسها
📚 ابن ماجہ (642)، ابو داود (314)، مسلم (332/61)، ابن خزیمہ (248)
ترجمہ:
پھر اپنے سر پر پانی ڈالے اور اسے اچھی طرح ملے یہاں تک کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔
✅ دلائل کا خلاصہ:
عورت کو غسلِ جنابت یا حیض میں بال کھولنے کی ضرورت نہیں۔
مقصد یہ ہے کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، ورنہ غسل ناقص رہے گا۔
🛁 نبوی غسل کا مکمل طریقہ
🔹 حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا:
كان النبي ﷺ إذا اغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه، ثم توضأ كما يتوضأ للصلاة، ثم يدخل أصابعه في الماء فيخلل بها أصول شعره، ثم يصب على رأسه ثلاث غرف بيديه، ثم يفيض الماء على جلده كله.
📚 بخاری (248)، مسلم (321)، ابو داود (242)، ترمذی (104)
ترجمہ:
نبی ﷺ جب غسلِ جنابت کرتے تو:
پہلے اپنے ہاتھ دھوتے۔
پھر نماز کی طرح وضو کرتے۔
پھر انگلیاں پانی میں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔
پھر تین چلو پانی اپنے سر پر ڈالتے۔
پھر پورے جسم پر پانی بہاتے۔
🔹 حدیثِ میمونہ رضی اللہ عنہا:
توضأ رسول الله ﷺ وضوءه للصلاة غير رجليه، وغسل فرجه وما أصابه من الأذى، ثم أفاض عليه الماء، ثم نحى رجليه فغسلهما.
📚 بخاری (249)
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے نماز کی طرح وضو کیا مگر پاؤں نہ دھوئے، پھر اپنی شرمگاہ اور نجاست کی جگہ دھوئی، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر ہٹ کر پاؤں دھوئے۔
🔹 حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا (دوسری روایت):
ثم يغسل يديه ثلاثاً ويستنشق ويمضمض، ويغسل وجهه وذراعيه ثلاثاً ثلاثاً، حتى إذا بلغ رأسه لم يمسح وأفرغ عليه الماء.
📚 نسائی (422)
ترجمہ:
آپ ﷺ اپنے ہاتھ تین بار دھوتے، کلی کرتے، ناک میں پانی ڈالتے، چہرہ اور بازو تین تین بار دھوتے، پھر سر پر مسح نہیں کرتے بلکہ اس پر پانی بہاتے۔
📌 اہم نکات:
🔹 غسل سے پہلے شرمگاہ اور نجاست کی جگہ دھونا ضروری ہے۔
🔹 وضو نماز کی طرح کیا جائے، البتہ پاؤں بعد میں بھی دھو سکتے ہیں۔
🔹 بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچنا فرض ہے۔
🔹 آخر میں پورے جسم پر پانی بہانا لازم ہے۔
🔹 تولیہ یا رومال سے پانی خشک کرنا سنت میں ثابت نہیں۔
⭐ خلاصہ:
عورت کو غسلِ جنابت یا حیض کے وقت بال کھولنے کی ضرورت نہیں، لیکن بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے۔
غسل کا نبوی طریقہ یہ ہے:
🔹 ہاتھ دھوئے،
🔹 شرمگاہ دھوئے،
🔹 نماز کی طرح وضو کرے،
🔹 بالوں کی جڑوں میں پانی ڈالے،
🔹 تین بار سر پر پانی ڈالے،
🔹 پھر پورے جسم پر پانی بہائے۔
➤ یہی طریقہ نبی ﷺ سے تواتر کے ساتھ صحیح احادیث میں ثابت ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے۔
❓ سوال:
خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خون نکل کر بہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ صحیح موقف کیا ہے؟
📝 جواب از شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ:
جسم سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس کے کئی ایک دلائل ہیں:
📖 دلائل احادیث و آثار سے
🔹 ➊ واقعہ غزوہ ذات الرقاع
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
انصاری صحابی نماز میں کھڑے تھے، دشمن نے تیر مارا، خون بہہ نکلا لیکن انہوں نے نماز جاری رکھی اور رکوع و سجود مکمل کیے۔ بعد میں ساتھی کو جگایا۔
📚 ابو داود (198)، دارقطنی (1/231، 858)، حاکم (1/156)، ابن خزیمہ (36)
ترجمہ:
"انہوں نے یکے بعد دیگرے تیر جسم سے نکالے اور نماز جاری رکھی، حتیٰ کہ خون بہہ رہا تھا مگر نماز نہ توڑی۔”
➤ امام حاکم، امام ذہبی، امام ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہم اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
📌 اگر خون وضو توڑنے والا ہوتا تو یہ صحابی نماز توڑ دیتے، اور نبی ﷺ اس کی وضاحت ضرور فرماتے۔
🔹 ➋ اثر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ
ان عمر رضي الله عنه صلى وجرحه يثعب دماً
📚 فتح الباري (1/280)
ترجمہ:
"حضرت عمرؓ نماز پڑھتے رہے، حالانکہ ان کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔”
🔹 ➌ اثر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما
عصر ابن عمر بثرة فخرج منها الدم ولم يتوضأ
📚 ابن أبي شيبة (1/128، ح 1479)، فتح الباري (1/280)
ترجمہ:
"حضرت ابن عمرؓ نے پھنسی دبائی، اس میں سے خون نکلا لیکن وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی۔”
🔹 ➍ امام طاؤس رحمہ اللہ
انه كان لا يرى في الدم السائل وضوءاً يغسل عنه الدم ثم حسبه
📚 فتح الباري (1/280)
ترجمہ:
"وہ بہتے خون کو ناقض وضو نہیں سمجھتے تھے، بس خون دھو دیتے اور نماز پڑھ لیتے۔”
🔹 ➎ امام حسن بصری رحمہ اللہ
ما زال المسلمون يصلون في جراحاتهم
📚 فتح الباري (1/281)
ترجمہ:
"مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے ساتھ ہی نماز پڑھتے رہے۔”
🔹 ➏ امام ابو جعفر الباقر رحمہ اللہ
لو سال نهر من دم ما أعدت منه الوضوء
📚 فتح الباري (1/282)
ترجمہ:
"اگر خون کی نہر بھی بہہ جائے تو میں اس کی وجہ سے دوبارہ وضو نہیں کروں گا۔”
⚖ ائمہ و فقہاء کا موقف
خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا:
◈ فقہائے سبعۂ مدینہ
◈ امام مالکؒ
◈ امام شافعیؒ
◈ امام بخاریؒ
➤ امام بخاریؒ نے "باب من لم ير الوضوء إلا من المخرجين” کے تحت یہ مسئلہ ذکر کر کے احناف کا رد کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
و أراد المصنف بهذا الحديث الرد على الحنفية في أن الدم السائل ينقض الوضوء
📚 فتح الباري (1/281)
ترجمہ:
"امام بخاریؒ نے یہ حدیث لا کر احناف کا رد کیا ہے جو بہتے خون کو ناقض وضو کہتے ہیں۔”
⭐ خلاصہ و نتیجہ
خون خواہ کسی بھی سبب سے نکلے:
🔹 زخم، پھنسی، مسوڑھوں، ناک، سینگی یا پچھنے، حادثہ یا فائر لگنے سے۔
🔹 کم ہو یا زیادہ۔
➤ کسی بھی صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا۔
دلائلِ صحیحہ اور آثارِ صحابہ اس بات پر متفق ہیں۔
📚 مزید تفصیل کے لیے: نصب الراية (1/42)، مجلہ الدعوة (ستمبر 1998ء)
❓ سوال:
کیا تحیۃ المسجد پڑھنا ضروری ہے اور کیا یہ رکعات ممنوعہ اوقات میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں؟
📝 جواب (شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ) :
تحیۃ المسجد (مسجد میں داخل ہونے کی دو رکعت) بہت اہم سنت ہے اور یہ ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، حتیٰ کہ ممنوعہ اوقات میں بھی۔
📖 دلائل
1️⃣ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلَا يَجْلِسْ حَتَّى يَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ»
“جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے۔”
📚 بخاری (444)، مسلم (714)
2️⃣ ایک صحابی مسجد میں آئے اور بیٹھ گئے، آپ ﷺ نے فرمایا:
“تجھے دو رکعت پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟”
📚 مسلم (714)
3️⃣ حتیٰ کہ جمعہ کے خطبہ کے دوران بھی، جب ایک صحابی بیٹھ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«قُمْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ»
“اٹھو اور دو رکعت پڑھو۔”
📚 مسلم (875)
⚖ استدلال
یہ نماز "سبب والی” ہے، جیسے طواف کی نماز یا کسوف کی نماز۔
سبب والی نمازیں ممنوعہ اوقات میں بھی پڑھی جاتی ہیں، کیونکہ ان کا تعلق کسی خاص سبب سے ہوتا ہے۔
⭐ خلاصہ:
مسجد میں داخل ہونے والا شخص کسی بھی وقت بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ضرور ادا کرے۔ یہ رکعات ممنوعہ اوقات میں بھی جائز ہیں اور ان کی تاکید صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
❓ سوال:
کیا جماعت ختم ہو جانے کے بعد رہ جانے والے افراد مسجد میں دوسری جماعت کر سکتے ہیں؟
📝 جواب:
ایک ہی مسجد میں دو بار جماعت کرانے کا جواز صحیح احادیث میں موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کا اس پر عمل رہا ہے۔
➊ حدیثِ ابو سعید خدریؓ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي وَحْدَهُ، فَقَالَ:
«أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ»
📚 سنن أبی داود (574)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اکیلا نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:
"کیا کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھ لے؟”
➋ روایتِ ترمذی
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: مَنْ يَتَجَرُ عَلَى هَذَا؟ فَقَامَ رَجُلٌ فَصَلَّى مَعَهُ.
📚 جامع الترمذی (220)؛ مسند احمد (3/83، 85)؛ حاکم (4/238)
ترجمہ: ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں: ایک شخص آیا جبکہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"کون ہے جو اس کے ساتھ تجارت کرے؟”
پھر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ نماز پڑھ لی۔
بعض محدثین نے نقل کیا ہے کہ وہ شخص سیدنا ابوبکر صدیقؓ تھے۔
➌ اثرِ انس بن مالکؓ (صحیح بخاری میں تعلیقًا)
جَاءَ أَنَسٌ إِلَى الْمَسْجِدِ وَقَدْ صُلِّيَ فِيهِ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ وَصَلَّى جَمَاعَةً.
📚 صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة (تعلیقًا)؛ ابن أبي شيبة (1/148)
ترجمہ: انسؓ مسجد میں آئے اور وہاں جماعت ہو چکی تھی، تو آپؓ نے اذان و اقامت کہی اور جماعت سے نماز پڑھائی۔
➍ حدیثِ جعد ابو عثمانؒ (واقعہ انسؓ)
عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ: مَرَّ بِنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فِي مَسْجِدِ بَنِي ثَعْلَبَةَ، فَقَالَ: أَصَلَّيْتُمْ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، وَذَلِكَ صَلَاةُ الصُّبْحِ، فَأَمَرَ رَجُلًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ.
📚 مسند أبي يعلى (4355)؛ ابن أبي شيبة (2/321)؛ بیہقی (3/70)؛ عبدالرزاق (2/291)
ترجمہ: ابو عثمان جعد کہتے ہیں: انس بن مالکؓ بنو ثعلبہ کی مسجد میں ہمارے پاس سے گزرے اور پوچھا: کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں! (اور وہ صبح کی نماز تھی)۔ تو انہوں نے ایک شخص کو اذان و اقامت کا حکم دیا، پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جماعت کروائی۔
➎ اثرِ ابن مسعودؓ (صحیح سند سے)
إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا، فَجَمَعَ بِعَلْقَمَةَ وَمَسْرُوقٍ وَالْأَسْوَدِ.
📚 أبكار المنن ص 253؛ مرعاة شرح مشكاة (4/104)
ترجمہ: ابن مسعودؓ مسجد میں داخل ہوئے اور دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں، تو آپؓ نے علقمہ، مسروق اور اسود کے ساتھ جماعت کر لی۔
➏ اقوالِ فقہاء و تابعین
امام بغویؒ:
"فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ يَجُوزُ إِقَامَةُ الْجَمَاعَةِ فِي الْمَسْجِدِ مَرَّتَيْنِ… وَهُوَ قَوْلُ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ.”
📚 شرح السنۃ (3/436)
امام ابن قدامہؒ:
"لَا يُكْرَهُ إِعَادَةُ الجَمَاعَةِ فِي المَسْجِد… وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَطَاءٍ، وَالحَسَنِ، وَالنَّخَعِيِّ، وَقَتَادَةَ، وَإِسْحَاقَ.”
📚 المغنی (3/10)
✅ ان تمام صحیح احادیث و آثار سے واضح ہوتا ہے کہ:
مسجد میں دوسری جماعت جائز اور مشروع ہے۔
اس پر صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کا عمل رہا ہے۔
فقہاء و محدثین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
❌ مسجد میں دوسری جماعت کو مکروہ سمجھنے والوں کے دلائل اور ان کی وضاحت
📌 پہلی دلیل: اثر ابوبکر صدیقؓ
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقبل من بعض نواحي المدينة يريد الصلاة، فوجد الناس قد صلوا، فانصرف إلى منزله، فجمع أهله ثم صلى بهم.
📚 مجمع الزوائد (2/48)؛ طبرانی أوسط (4739)؛ الكامل لابن عدي (6/2398)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ مدینہ کے اطراف سے نماز کے لیے آئے، آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں، تو آپ ﷺ گھر گئے اور اپنے گھر والوں کو جمع کر کے ان کے ساتھ نماز ادا کی۔
🔹 علامہ البانیؒ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ [تمام المنة، ص155]
🔹 علامہ ہیثمیؒ نے فرمایا: "اسے طبرانی نے معجم کبیر و اوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔”
وضاحت:
یہ روایت اس بات پر صریح دلیل نہیں کہ آپ ﷺ نے مسجد میں دوسری جماعت کو مکروہ جانا۔
مولانا عبیداللہ مبارکپوریؒ فرماتے ہیں:
"ممکن ہے آپ ﷺ نے گھر والوں کو جمع کر کے مسجد ہی میں نماز پڑھائی ہو، نہ کہ گھر میں۔ اگر بالفرض گھر میں نماز پڑھائی بھی ہو، تو اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکیلا شخص چاہے تو گھر میں نماز پڑھ سکتا ہے، لیکن مسجد میں دوسری جماعت کی کراہت اس سے ثابت نہیں ہوتی۔”
📚 مرعاة المفاتيح (4/105)
مزید یہ کہ اس روایت کی سند میں بقیہ بن الولید ہے جو مدلس تھا اور سخت قسم کی تدلیس کرتا تھا۔ اس کی تصریح بالسماع یہاں نہیں، اس لیے روایت اتنی قوی نہیں۔
📌 دوسری دلیل: اثر ابن مسعودؓ
عن إبراهيم أن علقمة والأسود أقبلا مع ابن مسعود رضي الله عنه إلى مسجد، فاستقبلهم الناس قد صلوا، فرجع بهم إلى البيت، فجعل أحدهما عن يمينه، والآخر عن شماله، ثم صلى بهما.
📚 عبدالرزاق (2/409، حدیث 3883)؛ طبرانی کبیر (9380)
ترجمہ: ابراہیم نخعی کہتے ہیں: علقمہ اور اسود، ابن مسعودؓ کے ساتھ مسجد کی طرف آئے، تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں۔ ابن مسعودؓ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے، ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں کھڑا کیا اور ان کے ساتھ نماز ادا کی۔
وضاحت:
اس روایت کی سند میں حماد بن ابی سلیمان ہے جو مدلس اور مختلط تھے۔
روایت معنعن ہے اور مدلس کی عنعنہ روایت ضعیف مانی جاتی ہے۔
علامہ ہیثمیؒ نے فرمایا:
"حماد کی صرف وہی روایت قبول ہے جو قدیم شاگردوں (شعبہ، سفیان ثوری، ہشام دستوائی) نے لی ہو۔ باقی سب نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے۔”
📚 مجمع الزوائد (1/125)
مزید یہ کہ امام احمدؒ کے نزدیک بھی یہی بات منقول ہے۔ 📚 شرح علل ترمذی لابن رجب (ص326)
دوسری کمزوری یہ ہے کہ اس روایت میں ابن مسعودؓ نے دو افراد کو دائیں اور بائیں کھڑا کیا۔ یہ طریقہ خود احناف کے نزدیک بھی درست نہیں۔ 📚 كتاب الآثار لمحمد بن حسن (ص69)
جبکہ دوسری صحیح روایت میں یہ موجود ہے:
«دخل المسجد وقد صلوا، فجمع بعلقمة ومسروق والأسود.»
📚 أبكار المنن ص253؛ مرعاة المفاتيح (4/104)
ترجمہ: ابن مسعودؓ مسجد میں داخل ہوئے، جب لوگ نماز پڑھ چکے تھے، تو آپؓ نے علقمہ، مسروق اور اسود کے ساتھ مسجد ہی میں جماعت کر لی۔
➝ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں دوسری جماعت بھی ابن مسعودؓ سے ثابت ہے۔
📌 راجح نتیجہ
صحیح دلائل اور آثار کی روشنی میں:
اگر کوئی شخص مسجد آئے اور امامِ مقرر کے ساتھ جماعت ختم ہو چکی ہو، اور وہ کسی عذر کی وجہ سے جماعت سے محروم رہا ہو، تو اس کے لیے جائز اور مباح ہے کہ وہ وہاں دوسری جماعت کر لے۔
📚 مرعاة المفاتيح (4/107)
⚠ اہم تنبیہ
بلا عذر پہلی جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت کا رواج بنانا درست نہیں۔
اصل سنت یہی ہے کہ سب مل کر ایک جماعت میں نماز ادا کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لقد أعجبني أن تكون صلاة المؤمنين واحدة حتى لقد هممت أن أبث رجالا في الدور ينادون الناس بحين الصلاة.»
📚 أبو داود (506)؛ ابن خزیمة (1/199)
ترجمہ: "مجھے پسند ہے کہ سب مؤمن ایک جماعت میں نماز پڑھیں، یہاں تک کہ میرا ارادہ ہوا کہ چند آدمیوں کو محلوں میں بھیج دوں جو لوگوں کو نماز کے وقت پر پکاریں۔”
🌟 اگر جماعت فوت ہو جائے
«من توضأ فأحسن وضوءه ثم راح فوجد الناس قد صلوا، أعطاه الله مثل أجر من صلاها وحضرها، لا ينقص ذلك من أجرهم شيئا.»
📚 أبو داود (564)؛ نسائی (2/111)؛ حاکم (1/208)
ترجمہ: "جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد آئے، اور دیکھے کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی اجر دے گا جتنا جماعت میں شریک ہونے والوں کو ملا، اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔”
امام حاکمؒ نے کہا: یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور امام ذہبیؒ نے موافقت کی۔
✅ خلاصہ کلام
مسجد میں دوسری جماعت کے مکروہ ہونے پر کوئی صحیح دلیل نہیں۔
صحیح احادیث اور آثار سے دوسری جماعت کا جواز ثابت ہے۔
اصل سنت: ایک ہی جماعت ہو۔
مگر اگر عذر کی وجہ سے پہلی جماعت رہ جائے تو دوسری جماعت بلا کراہت جائز ہے۔
❓ سوال
ہم جب مسجد میں آتے ہیں تو کچھ لوگ نماز میں مصروف ہوتے ہیں، کیا انہیں سلام کہا جا سکتا ہے؟
✅ جواب
نماز کی حالت میں سلام کہنا جائز ہے، البتہ نماز پڑھنے والا منہ سے جواب نہیں دے گا بلکہ ہاتھ یا اشارے سے جواب دے گا۔
📌 دلیل 1: نبی ﷺ کا عمل
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بلالؓ سے پوچھا:
"نبی کریم ﷺ جب نماز پڑھ رہے ہوتے اور کوئی سلام کہتا تو کیسے جواب دیتے تھے؟”
بلالؓ نے کہا:
«كان يشير بيده»
📚 ترمذی، کتاب الصلاة، حدیث 368
ترجمہ: "آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دیتے تھے۔”
➝ اس سے معلوم ہوا کہ سلام کہنا جائز ہے، کیونکہ اگر جائز نہ ہوتا تو آپ ﷺ اشارے سے جواب نہ دیتے بلکہ منع فرما دیتے۔
📌 دلیل 2: پہلے منہ سے جواب دیتے تھے
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں:
"ہم حبشہ جانے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو سلام کہتے تو آپ ﷺ نماز ہی کے دوران منہ سے جواب دیتے تھے۔ جب ہم واپس آئے اور سلام کیا تو آپ ﷺ نے جواب نہ دیا۔ نماز کے بعد فرمایا:
«إن الله عز وجل يحدث من أمره ما يشاء، وإن الله تعالى قد أحدث من أمره أن لا تكلموا في الصلاة»
📚 ابوداؤد، کتاب الصلاة، باب رد السلام في الصلاة، حدیث 924
ترجمہ: "اللہ عزوجل اپنے حکم میں جو چاہے نیا حکم دیتا ہے، اور اللہ نے یہ نیا حکم دیا ہے کہ اب نماز میں کلام نہ کرو۔”
✨ خلاصہ
مسجد میں داخل ہونے والا سلام کہہ سکتا ہے۔
نماز پڑھنے والا منہ سے جواب نہیں دے گا بلکہ ہاتھ یا اشارے سے جواب دے گا۔
نماز کے دوران کلام (زبان سے جواب دینا) ممنوع ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے خود وضاحت فرما دی۔
❓ سوال
نوافل بیٹھ کر پڑھنے چاہییں یا کھڑے ہو کر؟ بعض لوگ کہتے ہیں عشاء کے بعد بیٹھ کر پڑھنے چاہییں، اس کی وضاحت کریں۔
✅ جواب
اصل سنت یہ ہے کہ نوافل کھڑے ہو کر پڑھے جائیں تاکہ پورا اجر ملے۔
بلا عذر بیٹھ کر نفل پڑھنے والے کو آدھا اجر ملتا ہے۔
البتہ رسول اللہ ﷺ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ ﷺ بیٹھ کر بھی پورا اجر پاتے تھے۔
📌 حدیثِ صحیح:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں:
«بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: صَلَاةُ الرَّجُلِ جَالِسًا نِصْفُ الصَّلَاةِ، فَأَتَيْتُهُ فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي جَالِسًا، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى رَأْسِي، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو؟ قُلْتُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ قُلْتَ: صَلَاةُ الرَّجُلِ جَالِسًا نِصْفُ الصَّلَاةِ، وَأَنْتَ تُصَلِّي جَالِسًا، قَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ.»
📚 صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب جواز النافلة قائماً او قاعداً، حدیث 753
✨ ترجمہ:
"مجھے یہ حدیث پہنچی کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔
میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے پایا۔
میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ خود بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں حالانکہ آپ نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ‘ہاں، لیکن میں تم میں سے کسی ایک کی مانند نہیں ہوں (مجھے بیٹھ کر پڑھنے پر بھی پورا اجر ملتا ہے)’۔”
⚖ خلاصہ و وضاحت
نوافل کھڑے ہو کر ادا کرنا افضل اور پورے اجر کا سبب ہے۔
بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے سے نصف اجر ملے گا۔
صرف رسول اللہ ﷺ ایسی ہستی ہیں جنہیں بیٹھ کر پڑھنے پر بھی پورا اجر ملتا تھا۔
فرض نماز بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں، اس میں کھڑا ہونا رکن ہے۔
❓ سوال:
کیا ایک میت کی بار بار نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟
✅ جواب:
ایک میت کی ایک سے زائد مرتبہ نماز جنازہ پڑھنا جائز اور درست ہے۔ اس پر متعدد صحیح احادیث اور آثار صحابہ دلیل ہیں۔
📖 دلائلِ حدیث
➊ رسول اللہ ﷺ نے رات دفن ہونے والے پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی
سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں:
«إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِقَبْرٍ دُفِنَ لَيْلًا، فَقَالَ: مَتَى دُفِنَ هَذَا؟ قَالُوا: الْبَارِحَةَ، قَالَ: أَفَلَا آذَنْتُمُونِي؟ قَالُوا: دَفَنَّاهُ فِي ظُلْمَةِ اللَّيْلِ فَكَرِهْنَا أَنْ نُوقِظَكَ، فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَا فِيهِمْ، فَصَلَّى عَلَيْهِ»
(بخاری 1321)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے جسے رات میں دفن کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کب دفن ہوا؟ صحابہ نے کہا: کل رات۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟ صحابہ نے عرض کیا: اندھیرا تھا، ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی، آپ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
➋ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر نماز جنازہ پڑھی
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے:
«إِنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ، فَفَقَدَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَسَأَلَ عَنْهَا، فَقِيلَ: مَاتَتْ، فَقَالَ: أَفَلَا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي؟ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهَا. فَدَلُّوهُ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُوءَةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللَّهَ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ»
(مسلم 956)
ترجمہ: مسجد میں جھاڑو دینے والی ایک سیاہ فام عورت (یا مرد) فوت ہوگئی۔ صحابہ نے اطلاع نہ دی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر دکھاؤ۔ پھر آپ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا: یہ قبریں اپنے اہل پر اندھیری ہیں، اللہ تعالیٰ میری نماز کی وجہ سے انہیں منور فرما دیتا ہے۔
📚 اقوالِ ائمہ و آثارِ صحابہ
◈ امام شافعی رحمہ اللہ
ابن الملک لکھتے ہیں:
«وبهٰذا الحديث ذهب الشافعي إلى جواز تكرار الصلاة على الميت» (مرقاة 4/147)
ترجمہ: اس حدیث کی بنیاد پر امام شافعیؒ نے میت پر نماز جنازہ کے تکرار کو جائز قرار دیا ہے۔
◈ امام ابن منذر رحمہ اللہ
انہوں نے نقل کیا:
حضرت علیؓ نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا کہ ایک ایسے جنازے پر نماز پڑھائیں جس پر پہلے نماز جنازہ پڑھی جا چکی تھی۔
(الأوسط 5/412، ابن ابی شیبہ 3/239)
◈ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:
جب قبر پر نماز جنازہ جائز ہے تو قبر سے باہر بطریقِ اولیٰ جائز ہے۔ اسے نبی ﷺ کا خاصہ کہنا درست نہیں، کیونکہ صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔ یہ عام حکم ہے، خاصہ نہیں۔
(فتاوی اہل حدیث 2/461-462)
⚖ خلاصہ:
رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی میت پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی۔
صحابہ کرامؓ اور ائمہ کرامؒ نے بھی اس کو جائز کہا۔
اس عمل کو نبی ﷺ کا خاصہ قرار دینا غلط ہے۔
📌 نتیجہ:
ایک میت پر بار بار نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے، چاہے قبر پر ہو یا دفن سے پہلے۔ یہ سنتِ رسول ﷺ اور عملِ صحابہؓ سے ثابت ہے۔
❓ سوال
تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا کیسا ہے، جبکہ بعض اسلاف ایسا کرتے رہے؟
✅ جواب
صحیح اور واضح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم نہیں کیا، بلکہ صحابہ کو بھی ایسا کرنے سے منع فرمایا۔
📖 دلائل
➊ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کی روایت:
نبی ﷺ نے ایک رات نماز میں سورہ بقرہ، پھر سورہ نساء اور پھر آل عمران پڑھی۔
📚 مسلم 772
➝ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ لمبی قراءت فرماتے تھے لیکن پورا قرآن ایک رات میں نہیں پڑھتے تھے۔
➋ عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت:
انہوں نے فرمایا:
"میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ﷺ نے اتنی لمبی قراءت کی کہ میرا دل چاہا بیٹھ جاؤں اور آپ کو چھوڑ دوں۔”
📚 مسلم 773
➌ سیدہ عائشہؓ کا بیان:
«ولا أعلم نبي ﷺ قرأ القرآن كله في ليلة»
📚 مسلم 746
➝ "میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہو۔”
➍ عبداللہ بن عمروؓ کی روایت:
نبی ﷺ نے فرمایا:
«اقرأ القرآن في شهر»
"قرآن ایک مہینے میں ختم کرو۔”
میں نے کہا: مجھے طاقت ہے زیادہ پڑھنے کی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
«فاقرأه في سبع ولا تزد على ذلك»
"سات دنوں میں پڑھ لو لیکن اس سے کم نہ کرو۔”
📚 بخاری 5054، مسلم 1159
➎ ابوداؤد کی روایت:
«لا يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث»
📚 ابوداؤد 1394
➝ "جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا، وہ قرآن کو نہیں سمجھ سکا۔”
➏ عبداللہ بن عمروؓ کا عمل:
امام البانی رحمہ اللہ نے نقل کیا:
"کان ﷺ لا يقرأ القرآن في أقل من ثلاث”
📚 صفة صلاة النبي ص120
➝ "نبی ﷺ تین دن سے کم میں قرآن ختم نہیں کرتے تھے۔”
➐ عبداللہ بن مسعودؓ کا قول:
«اقرأوا القرآن في سبع ولا تقرؤوا في أقل من ثلاث»
📚 فتح الباری 9/97
➝ "قرآن کو سات دن میں ختم کرو، تین دن سے کم میں نہ پڑھو۔”
📚 اقوال ائمہ
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:
"وهذا اختيار أحمد وأبي عبيدة وإسحاق بن راهوية وغيرهم”
📚 فتح الباری 9/97
➝ "یہی مذہب امام احمد، ابو عبیدہ اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا ہے۔”
◈ مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ:
"والمختار عندي ما ذهب إليه الإمام أحمد وإسحاق بن راهوية وغيرهما”
📚 تحفۃ الاحوذی 4/63
➝ "میرے نزدیک راجح وہی ہے جو امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ نے اختیار کیا۔”
⚖ خلاصہ
نبی ﷺ اور صحابہ کے عمل سے ثابت ہے کہ تین دن سے کم میں قرآن ختم نہیں کرنا چاہیے۔
اس سے کم وقت میں پڑھنے والا قرآن کو سمجھ نہیں پاتا۔
بعض اسلاف سے تین دن سے کم میں پڑھنا منقول ہے لیکن نبی ﷺ کا فرمان اور عمل سب پر مقدم ہے۔
📌 نتیجہ:
راجح بات یہی ہے کہ قرآن مجید کو تین دن سے کم میں ختم نہ کیا جائے۔
🌿 سوال:
جمعہ کے دن نمازِ فجر کی مسنون قرات کیا ہے؟
🌿 جواب:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ، فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ ﴿الٓمّٓ * تَنْزِيْلُ السَّجْدَةَ﴾ ، وَ ﴿هَلْ أَتٰي عَلَي الْإِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ﴾ .
”نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن نمازِ فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر کی قرأت فرماتے تھے۔“
📚 [صحيح البخاري: 891، صحيح مسلم: 880]
یہی نمازِ فجر کی مسنون قرأت ہے۔ بعض ائمہ مساجد ان سورتوں کے بعض حصے پر اکتفا کرتے ہیں، لیکن یہ درست نہیں۔ رسول اکرم ﷺ سے دونوں رکعتوں میں دونوں مکمل سورتیں پڑھنا ہی ثابت ہے۔
◈ امام نووی رحمہ اللہ (631-676ھ):
اَلسُّنَّةُ أَنْ يَّقْرَأَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، يَوْمَ الْجُمُعَةِ، بَعْدَ الْفَاتِحَةِ، فِي الرَّكْعَةِ الْأُولٰي ﴿الٓمّٓ * تَنْزِيلُ﴾ بِكَمَالِهَا، وَفِي الثَّانِيَةِ ﴿هَلْ اَتٰي عَلَي الْاِنْسَان﴾ بِكَمَالِهَا .
”جمعہ کے دن نماز فجر میں سورۂ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں مکمل سورہ سجدہ اور دوسری رکعت میں مکمل سورہ دہر کی قرأت کرنا سنت ہے۔“
📚 [التبيان في آداب حملة القرآن، ص 178]
مزید فرمایا:
وَلْيَجْتَنِبِ الاِقْتِصَارَ عَلَي الْبَعْضِ .
”سورت کے کچھ حصے پر اکتفا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔“
📚 [ایضاً]
◈ شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (691-751ھ):
وَلَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُّقْرَأَ مِنْ كُلِّ سُورَةٍ بَعْضُهَا، أَوْ يُقْرَأَ إِحْدَاهُمَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ، فَإِنَّهٗ خِلَافُ السُّنَّةِ، وَجُهَّالُ الْأَئِمَّةِ يُدَاوِمُونَ عَلٰي ذٰلِكَ .
”جمعہ کے دن نماز فجر میں کسی سورت کے حصے کی قرأت کرنا یا ایک ہی سورت کو دونوں رکعتوں میں بانٹ لینا مستحب نہیں، بلکہ خلافِ سنت ہے۔ جاہل ائمہ اس پر مداومت کرتے ہیں۔“
📚 [زاد المعاد في هدي خير العباد 1/369]
🌸 خلاصہ:
جمعہ کے دن نمازِ فجر میں پہلی رکعت میں مکمل سورہ سجدہ اور دوسری رکعت میں مکمل سورہ دہر پڑھنا ہی سنت ہے۔ حصوں پر اکتفا کرنا یا تقسیم کر کے پڑھنا خلافِ سنت ہے۔
🌿 نماز جمعہ میں مسنون قراءت کے احکام
رسول اللہ ﷺ سے جمعہ کی نماز میں چار طرح کی سورتوں کی قرأت ثابت ہے:
کبھی آپ ﷺ سورۃ الأعلى (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) اور سورۃ الغاشیہ کی قرأت کرتے۔
اور کبھی سورۃ الجمعة اور سورۃ المنافقون کی قرأت فرماتے۔
یہ دونوں طریقے سنت ہیں اور دونوں پر عمل کرنا درست اور ثابت ہے۔
➊ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ:
نبی کریم ﷺ عیدین اور جمعہ میں:
﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾
اور
﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾
کی قرأت فرماتے۔
📚 [مسلم: 878، أبو داود: 1122، ترمذي: 533، نسائي: 3/112، ابن ماجة: 1281، بيهقي: 3/201، دارمي: 1/315، ابن خزيمة: 2/358، أحمد: 4/271]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما:
نبی کریم ﷺ نماز جمعہ میں:
﴿سُوۡرَةُ الْجُمُعَةِ﴾
اور
﴿سُوۡرَةُ الْمُنَافِقُوْنَ﴾
کی قرأت فرماتے۔
📚 [مسلم: 879، أحمد: 1/226، أبو داود: 1074، ترمذي: 520، ابن ماجة: 820، نسائي: 2/159، ابن خزيمة: 533، ابن حبان: 1821، بيهقي: 3/201]
🌸 اہم وضاحت:
قرأت مسنونہ کی تعمیل اس وقت ہوگی جب مکمل سورتیں پڑھی جائیں۔
بعض آیات پر اکتفا کرنے سے سنت ادا نہیں ہو گی، کیونکہ سورہ کا نام پورے پر بولا جاتا ہے، حصے پر نہیں۔
مثال کے طور پر اگر کہا جائے کہ ’’فلاں نے سورہ فاتحہ پڑھی‘‘ تو مطلب یہی ہوگا کہ پوری سورۃ الفاتحہ پڑھی گئی۔
◈ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (691-751ھ):
عربی متن:
وَأَمَّا الجُمُعَةُ فَکَانَ یَقرَأُ فِیهَا بِسُورَةِ الجُمُعَةِ، وَالمُنَافِقِینَ کَامِلَتَینِ، وَسُورَةَ سَبِّح، وَالغَاشِیَةَ۔ وَالاِقتِصَارُ عَلٰی قِرَائَةِ أَوَاخِرِ السُّورَتَینِ مِن ﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِینَ …﴾ إِلٰی آخِرِهَا فَلَم یَفعَلهُ قَطُّ، وَهُوَ مُخَالِفٌ لِهَدیِهِ الَّذِی کَانَ یُحَافِظُ عَلَیهِ …
📚 [زاد المعاد 1/53-54]
ترجمہ:
”جہاں تک نمازِ جمعہ کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ اس میں مکمل سورۃ الجمعہ اور مکمل سورۃ المنافقون کی تلاوت کرتے تھے، اسی طرح مکمل سورۃ الأعلى اور مکمل سورۃ الغاشیہ بھی پڑھتے تھے۔
صرف آخری چند آیات پڑھنا آپ ﷺ نے کبھی نہیں کیا، یہ آپ کے اس ہدی (طریقے) کے خلاف ہے جس پر آپ ہمیشہ قائم رہے۔
عیدین میں بھی کبھی آپ ﷺ مکمل سورۃ ق اور اقتربت پڑھتے، اور کبھی سورۃ الأعلى اور الغاشیہ۔ یہی وہ ہدی تھا جس پر آپ ﷺ زندگی بھر قائم رہے، اور خلفائے راشدین نے بھی آپ کے بعد اسی پر عمل کیا۔“
🌸 خلاصہ:
نبی کریم ﷺ سے جمعہ میں چار سورتوں کی قرأت ثابت ہے: الأعلى + الغاشیہ یا الجمعة + المنافقون۔
قرأت ہمیشہ مکمل سورت کی ہو، ٹکڑوں پر نہیں۔
یہی طریقہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کا تھا۔
🕌 شرم گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
عَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:
«مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلَا يُصَلِّ حَتَّى يَتَوَضَّأَ»
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے تو (دوبارہ) وضو کیے بغیر نماز نہ پڑھے۔”
📚 سنن ابی داود (181)
📚 ترمذی (82، 84)
📚 نسائی (163، 164، 445، 448)
📚 موطا امام مالک (58)
📚 مسند احمد (6/406، 407)
📚 سنن الدارمی (751)
✦ یہ حدیث متعدد اسانید کے ساتھ وارد ہوئی ہے اور محدثین نے اسے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔
✦ جمہور فقہائے محدثین (امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اہل حدیث علما) کے نزدیک یہی اصل دلیل ہے کہ شرم گاہ کو براہِ راست ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اسی طرح سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے:
«إِذَا أَفْضَى أَحَدُكُمْ بِيَدِهِ إِلَى فَرْجِهِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا سِتْرٌ وَلَا حِجَابٌ، فَلْيَتَوَضَّأْ»
ترجمہ:
"جب تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ سے اپنی شرم گاہ کو براہِ راست چھوئے اور درمیان میں کوئی کپڑا یا حائل نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔”
📚 صحیح ابن حبان (1118)
✦ یہاں واضح طور پر الفاظ ہیں: "وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا سِتْرٌ” یعنی اگر کوئی کپڑا یا حائل درمیان میں نہ ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
✅ خلاصہ و نتیجہ:
صحیح احادیث کی روشنی میں شرم گاہ کو براہِ راست ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اگر کپڑے یا کسی حائل کے اوپر سے چھوا جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
یہی جمہور محدثین اور فقہاء کا موقف ہے۔
🕌 کیا شرمگاہ کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا؟ (حدیث طلق بن علیؓ کی وضاحت)
حضرت طلق بن علیؓ کی روایت ہے:
«هَلْ هُوَ إِلَّا بَضْعَةٌ مِنْكَ؟»
"وہ تو تمہارے جسم کا ایک حصہ ہے نا (یعنی اس سے وضو نہیں ٹوٹتا)”
📚 ابن ماجہ (483)، ابو داود (182)، ترمذی (85)، نسائی (165)، احمد (4/22، 23)
✅ وضاحت:
1️⃣ حضرت طلقؓ ہجرت کے بالکل شروع میں مدینہ آئے، اس وقت مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی۔ یہ روایت ابتدائی زمانے کی ہے۔
جبکہ حضرت بسرہ بنت صفوانؓ (فتح مکہ 8 ہجری میں مسلمان ہوئیں) اور حضرت ابو ہریرہؓ (7 ہجری میں مسلمان ہوئے) دونوں کی احادیث میں وضاحت ہے کہ شرمگاہ چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
2️⃣ اگر طلقؓ کی حدیث کو منسوخ نہ بھی مانا جائے تو اس میں براہِ راست چھونے کی صراحت نہیں۔ یہ عمومی انداز میں ہے۔
جبکہ ابو ہریرہؓ کی حدیث میں واضح الفاظ ہیں:
«إِذَا أَفْضَى أَحَدُكُمْ بِيَدِهِ إِلَى فَرْجِهِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا سِتْرٌ وَلَا حِجَابٌ، فَلْيَتَوَضَّأْ»
📚 صحیح ابن حبان (1118)
"جب کوئی اپنی شرمگاہ کو ہاتھ سے چھوئے اور درمیان میں کوئی کپڑا یا پردہ نہ ہو تو اسے وضو کرنا چاہیے۔”
3️⃣ لہٰذا حدیثِ طلقؓ کو اسی پر محمول کیا جائے گا کہ یہ کپڑے یا حائل کے اوپر سے چھونے کا ذکر ہے۔
⭐ نتیجہ:
کپڑے یا پردے کے ساتھ چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
براہِ راست ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اس طرح تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے اور کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔
⚖ فقہ حنفی کے مطابق اگر بیوی فوت ہو جائے تو نکاح ختم ہونے کی وجہ سے شوہر بیوی کو غسل دینا تو درکنار دیکھ بھی نہیں سکتا۔
(اس پر جامعہ بنوریہ، دارالعلوم دیوبند اور دیگر حنفی مدارس کے فتاویٰ آن لائن ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں)
❗ لیکن فقہ حنفی کا یہ موقف صحیح احادیث اور واضح نصوص کے خلاف ہے۔
📌 دلائل ملاحظہ ہوں:
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہؓ سے فرمایا:
«مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي فَقُمْتُ عَلَيْكِ فَغَسَّلْتُكِ، وَكَفَّنْتُكِ، وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ، وَدَفَنْتُكِ»
📚 ابن ماجہ (1465)، دارقطنی (1809)، بیہقی (6/396)، دارمی (1/39)
ترجمہ: "عائشہ! اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو جاتی تو میں تجھے غسل دیتا، کفن پہناتا، جنازہ پڑھتا اور دفنا دیتا۔”
🔎 اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
2️⃣ سیدہ عائشہؓ کا قول:
«لَوْ كُنْتُ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا غَسَّلَ النَّبِيَّ ﷺ إِلَّا نِسَاؤُهُ»
📚 ابن ماجہ (1464)، ابو داؤد (3141)، احمد (6/267)، بیہقی (3/398)
ترجمہ: "اگر مجھے پہلے وہ بات معلوم ہوتی جو بعد میں ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ کو صرف آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں۔”
🔎 حضرت عائشہؓ کے اس قول سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے اور شوہر بیوی کو۔
قاضی شوکانیؒ:
«فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ يُغَسِّلُهَا زَوْجُهَا، وَهِيَ تُغَسِّلُهُ قِيَاسًا»
📚 نیل الأوطار (4/31)
3️⃣ ابوبکر صدیقؓ کا غسل
«أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ غَسَّلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ حِينَ تُوُفِّيَ»
📚 موطا امام مالک (كتاب الجنائز: 133)، عبدالرزاق (3/410)، الأوسط لابن المنذر (5/335)
ترجمہ: "جب ابوبکرؓ فوت ہوئے تو ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیسؓ نے انہیں غسل دیا۔”
🔎 کسی صحابی نے اس پر نکیر نہیں کی، یہ اجماع سکوتی ہے۔
4️⃣ سیدہ فاطمہؓ کی وصیت:
«أَوْصَتْ فَاطِمَةُ أَنْ يُغَسِّلَهَا عَلِيٌّ وَأَسْمَاءُ»
📚 دارقطنی (1833)، بیہقی (3/396)، عبدالرزاق (3/410)
ترجمہ: "سیدہ فاطمہؓ نے وصیت کی کہ انہیں علیؓ اور اسماءؓ غسل دیں، چنانچہ ان دونوں نے غسل دیا۔”
5️⃣ اقوالِ ائمہ:
امام سبُل السلام کے مصنف محمد بن اسماعیل الصنعانیؒ:
«فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُغَسِّلَ زَوْجَتَهُ، وَهُوَ قَوْلُ الْجُمْهُورِ»
📚 سبل السلام (2/741)
"اس میں دلیل ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور یہی جمہور کا قول ہے۔”
علامہ احمد حسن محدث دہلویؒ:
«يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ يُغَسِّلُهَا زَوْجُهَا وَهِيَ تُغَسِّلُهُ بِإِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ»
📚 حاشیہ بلوغ المرام (ص 105)
"یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ عورت کو اس کا شوہر غسل دے سکتا ہے اور وہ اپنے شوہر کو، اور اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔”
⭐ خلاصہ و نتیجہ:
بیوی کا شوہر کو غسل دینا تمام اہلِ علم کے نزدیک متفق علیہ ہے۔
شوہر کا بیوی کو غسل دینا مختلف فیہ ہے، لیکن صحیح احادیث اور آثارِ صحابہ سے ثابت ہے۔
جمہور ائمہ (مالک، شافعی، احمد، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ وغیرہ) اور صحابہ کرام کا اجماعی عمل اس کے جواز پر ہے۔
لہٰذا یہ مسئلہ فقہ حنفی کے بیان کردہ موقف کے برعکس صحیح احادیث اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے۔
❓ سوال:
کیا نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد قراءت میں سورتوں کی ترتیب ضروری ہے؟
✅ جواب:
ترتیب ملحوظ رکھنا بہتر ہے، مگر اگر آگے پیچھے ہو جائے تو نماز میں کوئی خرابی نہیں۔ یہ کئی صحیح احادیث اور آثار سے ثابت ہے:
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ حضرت حذیفہؓ کی روایت
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ:
«صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ»
📚 [صحیح مسلم: 772، نسائی: 1665، احمد: 5/382]
ترجمہ: حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں میں نے نبی ﷺ کے ساتھ رات کی نماز پڑھی۔ آپ نے سورہ بقرہ شروع کی، میں نے سمجھا سو آیات پر رکوع کریں گے، مگر آگے بڑھ گئے۔ پھر میں نے سوچا ایک رکعت میں ختم کر لیں گے، مگر آپ نے آگے بڑھتے ہوئے سورہ نساء پڑھی، پھر سورہ آل عمران پڑھی۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے، تسبیح والی آیت پر تسبیح، سوال والی پر سوال اور تعوذ والی پر اعوذ باللہ پڑھتے، پھر رکوع کیا۔
🔎 اس سے واضح ہے کہ آپ ﷺ نے ترتیب (بقرہ → آل عمران → نساء) کو الٹا پڑھا، لہٰذا ترتیب لازمی نہیں۔
2️⃣ انصاری امام اور سورہ اخلاص کا واقعہ
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں:
«كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ، وَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ بِهَا لَهُمْ فِي الصَّلاَةِ مِمَّا يَقْرَأُ بِهِ افْتَتَحَ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، ثُمَّ يَقْرَأُ سُورَةً أُخْرَى مَعَهَا… فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّهَا. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ»
📚 [صحیح بخاری: 774، ترمذی: 2901]
ترجمہ: ایک انصاری امام ہر رکعت میں پہلے سورہ اخلاص پڑھتا، پھر کوئی اور سورت۔ صحابہ نے کہا: یا تو صرف یہی پڑھ یا چھوڑ دے۔ وہ بولا: میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ جب نبی ﷺ سے شکایت کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اس سورت سے تیری محبت تجھے جنت میں داخل کرے گی۔”
🔎 اگر ترتیب ضروری ہوتی تو نبی ﷺ منع فرما دیتے، لیکن آپ ﷺ نے اس کو جنت کی بشارت دی۔
3️⃣ حضرت عمرؓ کا عمل
عبداللہ بن شقیقؒ روایت کرتے ہیں:
«صَلَّى بِنَا الأَحْنَفُ بْنُ قَيْسٍ الْغَدَاةَ، فَقَرَأَ فِي الأُولَى بِالْكَهْفِ، وَفِي الثَّانِيَةِ بِيُونُسَ، وَزَعَمَ أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَرَأَ فِي الأُولَى بِالْكَهْفِ، وَفِي الثَّانِيَةِ بِيُونُسَ»
📚 [بخاری مع الفتح 2/257، تغليق التعليق 2/313]
ترجمہ: احنف بن قیس نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری میں سورہ یونس پڑھی اور کہا: میں نے سیدنا عمرؓ کے پیچھے بھی نماز پڑھی، انہوں نے بھی پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری میں سورہ یونس پڑھی۔
🔎 قرآن میں سورہ کہف (18) بعد میں اور سورہ یونس (10) پہلے ہے، مگر حضرت عمرؓ نے الٹی ترتیب میں پڑھا، اس سے معلوم ہوا کہ ترتیب واجب نہیں۔
📌 خلاصہ:
سورتوں کی ترتیب بہتر ہے مگر لازم نہیں۔
نبی ﷺ اور صحابہ کے عمل سے ثابت ہے کہ ترتیب بدلنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں۔
ائمہ حدیث و فقہاء نے بھی اسے جائز کہا ہے۔
لہٰذا اسے "بدعت” کہنا جہالت اور ضد ہے۔
📌 سوالات
━━━━━━━━━━━━━━━
◈ قرآن مجید میں بعض ایسی آیات ہیں جن کی تلاوت پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ کیا یہ سجدہ تلاوت واجب ہے یا سنت ؟
◈ سورہ حج کے آخر میں آیت [77] کے حاشیے پر "السجدة عند الشافعي” لکھا ہوا ہے، اس کا مطلب کیا ہے ؟ کیا قرآن میں شافعی و غیر شافعی والی بات آئی ہے ؟
📖 الجواب
━━━━━━━━━━━━━━━
🌿 سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم سجد بالنجم
[صحیح البخاری : 1071]
"بے شک نبی ﷺ نے سورہ نجم پڑھی اور سجدہ کیا۔”
➡ اس سے پتا چلا کہ سجدہ تلاوت کرنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
🌿 سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قرأت على النبى صلى الله عليه وسلم (والنجم) فلم يسجد فيها
[صحیح البخاری : 1073، صحیح مسلم : 577]
"میں نے نبی ﷺ کو سورہ نجم پڑھ کر سنائی تو آپ ﷺ نے سجدہ نہیں کیا۔”
➡ اس سے واضح ہوا کہ سجدہ تلاوت واجب یا لازمی نہیں ہے۔
🌿 خلیفہ راشد سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فمن سجد فقد أصاب ومن لم يسجد فلا إثم عليه
[صحیح البخاری : 1077]
"پس جو (تلاوت والا) سجدہ کرے تو اس نے صحیح کام کیا اور جو نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔”
➡ اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔ یہی قول امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا ہے۔
[سنن الترمذی : 576]
📖 سورہ حج کے سجدے
━━━━━━━━━━━━━━━
◈ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سورہ حج میں دو سجدے کرتے تھے۔
[موطا امام مالک 1/206 ح483، سند صحیح]
◈ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بھی سورہ حج میں دو سجدے کرتے تھے۔
[السنن الکبری للبیہقی 2/318، سند صحیح]
◈ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نماز فجر میں سورہ حج پڑھی اور اس میں دو سجدے کیے۔
[ابن ابی شیبہ 2/11 ح4288، بیہقی 2/317، سند صحیح]
◈ تابعی ابو العالیہ نے کہا:
"سورہ حج میں دو سجدے ہیں۔”
[مصنف ابن ابی شیبہ 2/12 ح4294، سند صحیح]
◈ ابو اسحاق السبیعی (تابعی) فرماتے ہیں:
أدركت الناس منذ سبعين سنة يسجدون فى الحج سجدتين
[ابن ابی شیبہ 2/12 ح4295، سند صحیح]
"میں نے ستر سال سے لوگوں کو سورہ حج میں دو سجدے کرتے پایا ہے۔”
◈ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا سورہ حج میں دو سجدے ہیں ؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
نعم ومن لم يسجد هما فلا يقر أهما
[سنن ابی داؤد : 1402، سند حسن]
"ہاں! اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ ان دونوں آیتوں کی تلاوت نہ کرے۔”
⚠ اہم نکتہ
یہ کہنا کہ "السجدة عند الشافعي” گویا صرف امام شافعی کے نزدیک ہی یہ سجدہ ہے، درست نہیں۔
کیونکہ اس سجدے پر صحابہ کرام (عمر، ابن عمر، ابو الدرداء، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم) کے واضح عمل اور احادیث موجود ہیں۔
لہٰذا درست الفاظ یہ ہوں گے:
السجدة عند رسول الله ﷺ وعنده عمر وعند ابن عمر وعند أبى الدرداء وغيرهم من الصحابة رضی اللہ عنهم أجمعین
✅ خلاصہ :
سجدہ تلاوت واجب نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔
سورہ حج میں دو سجدے ثابت ہیں اور یہ عمل نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے صحیح اسانید کے ساتھ منقول ہے۔
🌙✨ صلاة الكسوف اور صلاة الخسوف کا مسنون طریقہ ✨🌙
(صحیح حدیث کی روشنی میں)
🔹 سب سے پہلے تکبیرِ تحریمہ کہے۔
🔹 دعائے استفتاح پڑھے۔
🔹 پھر تعوذ (أعوذ بالله…) کہے۔
🔹 سورۃ الفاتحہ پڑھے، اس کے بعد ایک طویل قراءت کرے۔
🔹 پھر ایک لمبا رکوع کرے۔
🔹 رکوع سے سر اٹھائے اور کہے:
سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ
🔹 اس کے بعد کھڑا ہو کر دوبارہ سورۃ الفاتحہ اور قراءت کرے (یہ قراءت پہلی سے کچھ کم ہوگی)۔
🔹 پھر دوسرا رکوع کرے، جو پہلے سے کچھ کم لمبا ہو۔
🔹 دوسرے رکوع کے بعد پھر کھڑے ہو کر کہے:
سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ
اور یہاں قومہ کی مسنون دعائیں پڑھے۔
🔹 اس کے بعد دو لمبے سجدے کرے، اور دونوں کے درمیان کا جلسہ بھی طویل کرے۔
🔹 دوسری رکعت میں بھی یہی عمل کرے، لیکن پہلی رکعت کے مقابلے میں سب کچھ کچھ کم۔
🔹 آخر میں تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے۔
📚 مراجع: المغنی لابن قدامہ (3/323)، المجموع للنووی (5/48)
✦ دلیل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ:
خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ ﷺ فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَكَبَّرَ، فَاقْتَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ. فَقَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ، وَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، هِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى. ثُمَّ كَبَّرَ وَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، وَهُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ. ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ. ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَالَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ. فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ.
📚 بخاری (1046)، مسلم (2129)
🌿 ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"نبی ﷺ کی زندگی میں سورج کو گرہن لگا تو آپ مسجد کی طرف نکلے، لوگ آپ کے پیچھے صف بستہ ہو گئے۔ آپ نے تکبیر کہی اور لمبی قراءت کی۔ پھر لمبا رکوع کیا۔ پھر فرمایا: سمع الله لمن حمده اور آپ نے دوبارہ قیام کیا اور قراءت کی جو پہلی سے کم تھی۔ پھر دوسرا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا، پھر ذکر کہا اور اس کے بعد سجدے کیے۔ دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ اس طرح آپ ﷺ نے چار رکوع اور چار سجدے مکمل کیے۔”
✦ خلاصہ
صلاة الكسوف اور صلاة الخسوف دو رکعت کی نماز ہے، لیکن ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے ہوتے ہیں۔
اس میں قراءت، رکوع اور سجود عام نماز سے زیادہ طویل کیے جاتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر رکوع کے بعد قیام کیا جاتا ہے اور وہاں قومہ کی مسنون دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔
ساتھ ذکر، دعا اور استغفار کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اللہ کی نشانیوں سے عبرت حاصل ہو اور دل خشیتِ الٰہی سے بھر جائے۔
نماز میں سترہ سے متعلق احکام و مسائل
🕌 نماز میں سترہ کا حکم — صحیح احادیث کی روشنی میں
لفظ ”سترہ“ لغت میں اوٹ یا پردہ کے معنی میں ہے۔
شرعی اصطلاح میں: نماز میں ہر وہ چیز سترہ ہے جسے سامنے رکھ کر نمازی اپنی آڑ بنائے، جیسے لکڑی، نیزہ، دیوار، ستون، سواری وغیرہ۔
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ رسول اللہ ﷺ کا فرمان
عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:
«لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ، وَلَا تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ، فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ»
📚 صحیح مسلم (506)؛ صحیح ابن خزیمہ (800)
ترجمہ: ”سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو، اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دو۔ اگر وہ نہ مانے تو اس سے روکنے کے لیے سختی کرو، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔“
━━━━━━━━━━━━━━━
2️⃣ سترے کے قریب ہونا
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:
«إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا»
📚 سنن أبي داود (698)
ترجمہ: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترے کی طرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو جائے۔“
━━━━━━━━━━━━━━━
3️⃣ نبی ﷺ کا ستون کے پاس نماز پڑھنا
قَالَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ:
«كُنْتُ آتِي مَعَ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ فَيُصَلِّي عِنْدَ الْأُسْطُوَانَةِ الَّتِي عِنْدَ الْمُصْحَفِ… فَقَالَ: فَإِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِنْدَهَا»
📚 صحیح بخاری (502)
ترجمہ: یزید بن ابی عبید کہتے ہیں: میں سلمہ بن اکوعؓ کے ساتھ مسجد نبوی میں حاضر ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ قرآن والے ستون کے پاس نماز پڑھتے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہا: میں نے نبی ﷺ کو اسی ستون کے پاس نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
4️⃣ نبی ﷺ کا سواری یا پالان کو سترہ بنانا
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا:
«أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَعْرِضُ رَاحِلَتَهُ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِذَا هَبَّتْ الزَّكَابُ؟ قَالَ: كَانَ يَأْخُذُ هَذَا الرَّحْلَ فَيَعْدِلُهُ، فَيُصَلِّي إِلَى آخِرَتِهِ، أَوْ قَالَ: مُؤَخَّرَهُ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ»
📚 صحیح بخاری (507)
ترجمہ: نبی ﷺ اپنی سواری کو سامنے کر لیتے اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔ اگر سواری ہٹ جاتی تو پالان کو کھڑا کر لیتے اور اس کی لکڑی کو سترہ بنا لیتے۔ حضرت ابن عمرؓ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
5️⃣ سیدنا عمرؓ کی تاکید
عَنْ قُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ قَالَ:
«رَآنِي عُمَرُ وَأَنَا أُصَلِّي بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَجَعَلَنِي إِلَى سُتْرَةٍ فَقَالَ: صَلِّ إِلَيْهَا»
📚 مصنف ابن أبي شيبة (7502)
ترجمہ: قرہ بن ایاس کہتے ہیں: عمرؓ نے مجھے دو ستونوں کے بیچ نماز پڑھتے دیکھا تو میرا ہاتھ پکڑ کر سترے کے قریب کر دیا اور فرمایا: "اس کی طرف نماز ادا کرو۔“
━━━━━━━━━━━━━━━
6️⃣ صحابہ کا ستونوں کی طرف دوڑنا
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:
«لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ الْمَغْرِبِ… حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ ﷺ»
📚 صحیح بخاری (503، 481)
ترجمہ: انسؓ کہتے ہیں: میں نے بڑے بڑے صحابہ کو دیکھا کہ وہ مغرب کے وقت ستونوں کی طرف دوڑتے تاکہ ان کو سترہ بنا لیں، یہاں تک کہ نبی ﷺ تشریف لے آتے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
7️⃣ انسؓ کا عمل مسجد حرام میں
قَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ:
«رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّي إِلَيْهَا»
📚 مصنف ابن أبي شيبة (2853)
ترجمہ: یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں: میں نے انس بن مالکؓ کو مسجد حرام میں دیکھا کہ انہوں نے ایک لاٹھی گاڑ دی اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
8️⃣ ابن عمرؓ کا طریقہ
عَنْ نَافِعٍ قَالَ:
«كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيلًا إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، قَالَ لِي: وَلِّني ظَهْرَكَ»
📚 مصنف ابن أبي شيبة (2878)
ترجمہ: نافع کہتے ہیں: جب ابن عمرؓ کو مسجد میں کوئی ستون نہ ملتا تو وہ مجھے کہتے: اپنی پشت میری طرف کر دو (یعنی مجھے سترہ بنا دو)۔
🔎 اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو بھی سترہ بنایا جا سکتا ہے، لیکن وہ تب تک اپنی جگہ پر ٹھہرا رہے جب تک نمازی نماز ختم نہ کرے۔
📌 خلاصہ:
سترہ کے بغیر نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
قریب ہو کر پڑھنے کی تاکید ہے۔
ستون، دیوار، سواری، پالان، لاٹھی، حتی کہ کسی شخص کو بھی سترہ بنایا جا سکتا ہے۔
صحابہ کرام اور نبی ﷺ کا عمل اس پر واضح دلیل ہے۔
🕌 کس کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے؟ احادیث سے راہنمائی
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ يزيد بن أبى عبيد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كنت آتي مع سلمة بن الأكوع فيصلي عند الأسطوانة التى عند المصحف، فقلت: يا أبا مسلم أراك تتحرى الصلاة عند هذه الأسطوانة، قال: فإني رأيت النبى ﷺ يتحرى الصلاة عندها»
📚 صحیح بخاری (502)
ترجمہ: میں سلمہ بن اکوعؓ کے ساتھ مسجد نبوی آتا تھا۔ وہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن رکھا رہتا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہا: میں نے نبی ﷺ کو اسی ستون کے پاس نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
2️⃣ «إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُرْكِزُ لَهُ الْحُرْبَةَ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا»
📚 صحیح بخاری (498)
ترجمہ: نبی ﷺ کھلے میدان میں نیزہ گاڑ لیتے اور اس کو سترہ بنا کر نماز پڑھتے، اور صحابہؓ ان کے پیچھے نماز ادا کرتے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
3️⃣ «إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ»
📚 صحیح مسلم (1111)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی جتنا کوئی سترہ رکھ لے اور اس کی طرف نماز پڑھ لے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
4️⃣ باب: الصلاة إلى الراحلة والبعير والشجر والرحل
📚 صحیح بخاری (507)
ترجمہ: نبی ﷺ کبھی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا لیتے، کبھی سواری، درخت یا کوئی اور چیز جو سامنے ہو، اس کو سترہ بنا لیتے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
5️⃣ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
«لقد رأيتنا ليلة بدر وما منا إنسان إلا نائم إلا رسول الله ﷺ فإنه كان يصلي إلى شجرة ويدعو حتى أصبح…»
📚 مسند احمد (1161)، حدیث صحیح
ترجمہ: میں نے غزوہ بدر کی رات دیکھا، ہم سب سو گئے تھے مگر رسول اللہ ﷺ ایک درخت کو سامنے کر کے نماز پڑھتے رہے اور صبح تک دعا کرتے رہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
⭐ خلاصہ کلام:
نماز میں سترہ لینا سنت مؤکدہ ہے۔
دیوار، ستون، درخت، لاٹھی، نیزہ، پالان، سواری—جو چیز بھی سامنے آڑ بن سکے اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہاں تک کہ بیٹھا ہوا شخص بھی سترہ بن سکتا ہے۔
📌 شرط یہ ہے کہ سترہ زمین کے ساتھ جڑا ہو اور نمازی کے سامنے ہو۔
🕌 سترہ اور نمازی کے درمیان مسنون فاصلہ — احادیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ:
«كَانَ بَيْنَ مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَبَيْنَ الْجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاةِ»
📚 صحیح بخاری (496)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان بکری کے گزرنے کے برابر جگہ تھی۔
2️⃣ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ:
قال رسول الله ﷺ:
«إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا»
📚 سنن ابی داود (698)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی طرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو۔
3️⃣ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما:
«كَانَ إِذَا دَخَلَ الْكَعْبَةَ مَشَى قُبُلَ وَجْهِهِ… حَتَّى يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ الَّذِي قُبُلَ وَجْهِهِ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثَةِ أَذْرُعٍ صَلَّى»
📚 صحیح بخاری (506)
ترجمہ: جب ابن عمرؓ کعبہ میں داخل ہوتے تو سامنے کی دیوار کی طرف چلتے اور جب ان کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ (تقریباً ساڑھے چار فٹ) کا فاصلہ رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔
⭐ وضاحت:
بکری کے گزرنے جتنا فاصلہ یعنی تقریباً ڈیڑھ فٹ۔
ابن عمرؓ کا عمل: تین ہاتھ (تقریباً 4.5 فٹ)۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ سترہ سجدے کی جگہ کے قریب ہونا چاہیے، زیادہ دوری نہیں۔
📌 خلاصہ:
نمازی اور سترے کے درمیان مسنون فاصلہ اتنا ہو کہ بکری گزر سکے یا تقریباً 3 ہاتھ (4.5 فٹ) سے کم۔
:
🕌 سترہ کی اونچائی کی مسنون مقدار — احادیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ ابو ذر رضی اللہ عنہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
«إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ»
📚 صحیح مسلم (510)
ترجمہ: ”جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو اگر اس کے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی جتنا اونچا سترہ ہو تو وہ کافی ہے۔“
2️⃣ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
«إِذَا جَعَلْتَ بَيْنَ يَدَيْكَ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلَا يَضُرُّكَ مَنْ مَرَّ بَيْنَ يَدَيْكَ»
📚 سنن أبي داود (685)
ترجمہ: ”جب تم اپنے آگے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز رکھ لو تو پھر تمہارے آگے سے گزرنے والا تمہیں نقصان نہیں دے گا۔“
3️⃣ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا:
«سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي فَقَالَ: مِثْلُ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ»
📚 صحیح مسلم (500)
ترجمہ: ”رسول اللہ ﷺ سے نمازی کے سترے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر۔“
4️⃣ تابعی عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ:
«آخِرَةُ الرَّحْلِ ذِرَاعٌ فَمَا فَوْقَهُ»
📚 سنن أبي داود (686، 689)
ترجمہ: ”پالان کا پچھلا حصہ ایک ذراع یا اس سے زیادہ اونچا ہوتا ہے۔“
⭐ وضاحت:
"ذراع” یعنی ہتھیلی کے سرے سے کہنی تک کا حصہ ≈ ڈیڑھ فٹ۔
لہٰذا سترے کی مسنون اونچائی کم از کم ڈیڑھ فٹ ہے۔
چوڑائی کی کوئی قید نہیں، لیکن اونچائی ضروری ہے۔
اس سے کم اونچائی سترے کے لیے کافی نہیں۔
🕌 کیا مسجد میں بھی سترہ ضروری ہے؟ — صحیح احادیث
❗ جی ہاں: صحرا ہو یا مسجد، سفر ہو یا حضر (گھر)، نماز فرض ہو یا نفل — ہر جگہ نماز کے لیے سترہ ضروری ہے۔
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ نبی ﷺ مسجد میں بھی ستون کو سترہ بناتے تھے
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ:
«كُنْتُ آتِي مَعَ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ فَيُصَلِّي عِنْدَ الْأُسْطُوَانَةِ الَّتِي عِنْدَ الْمُصْحَفِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ أَرَاكَ تَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِنْدَ هَذِهِ الْأُسْطُوَانَةِ، قَالَ: فَإِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِنْدَهَا»
📚 صحیح بخاری (502)
ترجمہ: یزید بن ابی عبید کہتے ہیں: میں سلمہ بن اکوعؓ کے ساتھ آتا اور دیکھتا کہ وہ قرآن والے ستون کے پاس نماز پڑھتے۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ اس ستون کے پاس نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔
2️⃣ صحابہؓ بھی مسجد میں ستون کو سترہ بناتے تھے
عَن أَنَسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:
«لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ الْمَغْرِبِ…»
📚 صحیح بخاری (503)
ترجمہ: انسؓ کہتے ہیں: میں نے بڑے بڑے صحابہ کو دیکھا کہ وہ مغرب کی نماز سے پہلے نفل ادا کرنے کے لیے ستونوں کی طرف جلدی کرتے اور ان کو سترہ بناتے۔
3️⃣ انسؓ مسجد حرام میں بھی سترہ لیتے تھے
قَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ:
«رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّي إِلَيْهَا»
📚 مصنف ابن أبي شيبة (2853)
ترجمہ: یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں: میں نے انس بن مالکؓ کو مسجد حرام میں دیکھا کہ انہوں نے ایک لاٹھی گاڑ دی اور اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔
4️⃣ ابن عمرؓ مسجد میں انسان کو بھی سترہ بناتے تھے
قَالَ نَافِعٌ:
«كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيلًا إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ قَالَ لِي: وَلِّني ظَهْرَكَ»
📚 مصنف ابن أبي شيبة (2878)
ترجمہ: نافع کہتے ہیں: جب ابن عمرؓ کو مسجد میں ستون نہ ملتا تو مجھے کہتے: میری طرف اپنی پشت کر دو (یعنی مجھے سترہ بنا دو)۔
⭐ خلاصہ:
نبی ﷺ نے مسجد میں بھی سترہ کا اہتمام فرمایا۔
صحابہؓ مسجد کے ستون، لاٹھی یا کسی شخص کو سترہ بناتے تھے۔
سترہ کا حکم مسجد، گھر اور صحراء — ہر جگہ یکساں ہے۔
🕌 کھلی جگہ میں سترہ کا حکم — صحیح احادیث سے
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ نبی ﷺ اور عید کی نماز میں سترہ
عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ:
«إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ أُمِرَ بِالْحَرْبَةِ فَتُوْضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا، وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الأُمَرَاءُ»
📚 صحیح بخاری (494)، صحیح مسلم (501)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ جب عید کی نماز کے لیے باہر نکلتے تو حکم فرماتے کہ نیزہ گاڑ دیا جائے، آپ ﷺ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے نماز ادا کرتے۔ آپ ﷺ سفر میں بھی ایسا کرتے اور بعد میں امراء نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔
2️⃣ نبی ﷺ اور کھلی جگہ میں عنزہ (چھوٹا نیزہ)
قَالَ أَبُو جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ:
«خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ، فَصَلَّى بِنَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، وَالْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ يَمُرُّونَ مِنْ وَرَائِهَا»
📚 صحیح بخاری (499)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس دوپہر کی سخت گرمی میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے وضو کیا اور ہمیں ظہر و عصر کی نماز پڑھائی۔ آپ ﷺ کے سامنے ایک عنزہ (چھوٹا نیزہ) گاڑا ہوا تھا اور عورتیں اور گدھے اس کے پیچھے سے گزر رہے تھے۔
3️⃣ غزوہ بدر کی رات کا واقعہ
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:
«لَقَدْ رَأَيْتُنَا لَيْلَةَ بَدْرٍ، وَمَا مِنَّا إِنْسَانٌ إِلَّا نَائِمٌ، إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَإِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي إِلَى شَجَرَةٍ وَيَدْعُو حَتَّى أَصْبَحَ…»
📚 مسند احمد (1161)، حدیث صحیح (رقم 599)
ترجمہ: ہم نے غزوہ بدر کی رات دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے، مگر رسول اللہ ﷺ ایک درخت کو سامنے کر کے نماز پڑھتے اور صبح تک دعا کرتے رہے۔
⭐ خلاصہ:
کھلی جگہ ہو یا سفر — سترہ لینا نبی ﷺ کی سنت ہے۔
آپ ﷺ نے عید کی نماز میں نیزہ، سفر میں عنزہ، اور بدر کی رات درخت کو سترہ بنایا۔
اس سے واضح ہے کہ کھلی جگہ میں بھی سترہ لینا ضروری ہے۔
🕌 امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ امام بخاریؒ کا باب:
«سترة الإمام سترة من خلفه»
(امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے سترہ ہے)
2️⃣ حدیث ابن عباسؓ:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ:
«أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، فَنَزَلْتُ وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ، وَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ، فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ أَحَدٌ»
📚 بخاری، کتاب الصلاۃ، باب سترۃ الامام سترۃ من خلفہ (494)؛ صحیح مسلم (503)
ترجمہ: ابن عباسؓ فرماتے ہیں: میں گدھی پر سوار ہو کر آیا، اس وقت میں بلوغت کے قریب تھا۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے علاوہ کسی اور سترے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا رہے تھے۔ میں صف کے کچھ نمازیوں کے آگے سے گزرا، پھر اتر کر گدھی کو چھوڑ دیا اور صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے اعتراض نہ کیا۔
3️⃣ استدلال:
ابن عباسؓ کے عمل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، کیونکہ وہ سب امام کے سترے کے پیچھے تھے۔
امام بخاریؒ نے "غیر جدار” کو صفت مانا کہ وہاں سترہ تھا (جیسے نیزہ، لاٹھی وغیرہ)۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام کا سترہ ہی مقتدیوں کے لیے سترہ ہے۔
4️⃣ ائمہ و محدثین کی تشریحات:
🔹 علامہ عینیؒ: "الي غير جدار” سے ظاہر ہے کہ وہاں کوئی اور سترہ تھا (لاٹھی، نیزہ یا کوئی چیز)۔
🔹 شاہ ولی اللہ دہلویؒ: "امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے، مقتدیوں کے آگے سے گزرنا گناہ نہیں۔”
🔹 مولانا عبید اللہ مبارکپوریؒ: امام بخاریؒ نے "غير” کو صفت کے لیے لیا، اور یہی قول اقرب اور بہتر ہے۔
⭐ خلاصہ:
نبی ﷺ کے عمل سے ثابت ہے کہ امام کا سترہ سب مقتدیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص امام کے سترے کی موجودگی میں صف کے آگے سے گزر جائے تو اس پر گناہ نہیں۔
🕌 نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ — احادیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ سخت وعید
عَنْ أَبِي جُهَيْمٍ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ الْحَارِثِ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
«لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ»
📚 صحیح بخاری (510)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو علم ہو جائے کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو اس کے لیے چالیس (سال) تک کھڑا رہنا، گزرنے سے بہتر ہے۔
2️⃣ کعب الأحبار کا قول
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ:
«إِنَّ كَعْبَ الأَحْبَارِ قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يُخْسَفَ بِهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ»
📚 موطأ امام مالک (385) – شیخ سلیم ہلالی نے صحیح کہا ہے۔
ترجمہ: کعب الاحبار کہتے تھے: جو شخص نمازی کے سامنے سے گزرتا ہے اگر وہ جان لے کہ اس پر کتنا وبال ہے تو اس کے لیے زمین میں دھنس جانا بہتر ہے اس سے کہ وہ نمازی کے سامنے سے گزرے۔
3️⃣ عبداللہ بن عمرؓ کا فتویٰ
قَالَ مَالِكٌ:
«إِنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ عَبْدَاللّٰهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيِ النِّسَاءِ وَهُنَّ يُصَلِّينَ»
📚 موطأ امام مالک (386)
ترجمہ: امام مالکؒ فرماتے ہیں: انہیں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن عمرؓ ناپسند کرتے تھے کہ نماز پڑھتی عورتوں کے آگے سے گزرا جائے۔
⭐ خلاصہ:
نمازی کے سامنے سے گزرنا انتہائی بڑا گناہ ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا: گزرنے کے بجائے چالیس سال کھڑا رہنا بہتر ہے۔
صحابہ و سلف نے بھی اسے سختی سے منع فرمایا۔
⚠ افسوس! آج خصوصاً حرمین شریفین میں اس وعید کو بھلا دیا گیا ہے، لوگ بے دریغ نمازیوں کے آگے سے گزرتے ہیں، حالانکہ یہ سخت گناہ ہے۔
🕌 سترہ کے اندر سے گزرنے والے کو روکنے کا حکم — صحیح احادیث
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
«إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلْيَدْفَعْهُ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ»
📚 صحیح بخاری (509)؛ صحیح مسلم (259)
ترجمہ: ”جب تم میں سے کوئی سترہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو اسے روکے، اگر نہ مانے تو اس سے سختی کرے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
2️⃣ عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ:
«صَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى جِدَارٍ، فَأَقْبَلَتْ بَهْمَةٌ تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ ﷺ، فَمَا زَالَ يُدَارِيهَا وَيَدْنُو مِنَ الْجِدَارِ، حَتَّى لَصِقَ بَطْنُهُ بِالْجِدَارِ، فَمَرَّتْ مِنْ خَلْفِهِ»
📚 مسند احمد (6852)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ دیوار کو سترہ بنا کر نماز پڑھا رہے تھے، ایک بکری کا بچہ آگے سے گزرنے لگا۔ آپ ﷺ اسے روکتے رہے اور دیوار کے قریب ہوتے گئے حتیٰ کہ آپ ﷺ کا پیٹ دیوار سے لگ گیا اور بکری پیچھے سے گزری۔
3️⃣ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيَّ، فَخَنَقْتُهُ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِي… فَمَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ»
📚 سنن دارقطنی (1375)، مسند احمد، معجم طبرانی
ترجمہ: شیطان میرے آگے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا حتیٰ کہ اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی… پس جو شخص استطاعت رکھے کہ اس کے اور قبلے کے درمیان کوئی نہ گزرے، اسے ایسا کرنا چاہیے۔
4️⃣ اثر ابن عمرؓ:
«إِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ تُقَاتِلَهُ فَقَاتِلْهُ»
📚 صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ
ترجمہ: ابن عمرؓ نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو روکا اور فرمایا: اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑ لو۔
5️⃣ ابو سعید خدریؓ کا واقعہ:
ابو صالح سمان کہتے ہیں:
«رَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يُصَلِّي إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ، فَأَرَادَ شَابٌّ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَدَفَعَهُ أَبُو سَعِيدٍ، فَعَادَ، فَدَفَعَهُ أَشَدَّ، فَشَكَا الشَّابُّ إِلَى مَرْوَانَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْهُ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ»
📚 صحیح بخاری (509)
ترجمہ: ابو سعید خدریؓ نماز میں سترہ کے ساتھ تھے۔ ایک نوجوان بار بار آگے سے گزرنے لگا۔ آپ نے اسے دھکا دیا اور کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ اگر کوئی آگے سے گزرنا چاہے تو اسے روک دو، پھر بھی نہ مانے تو اس سے سختی کرو، کیونکہ وہ شیطان ہے۔
⭐ خلاصہ:
سترہ ہونے کی صورت میں نمازی کو آگے سے گزرنے نہیں دینا چاہیے۔
اگر گزرنے والا ضد کرے تو اسے ہاتھ سے روکنے کی اجازت ہے۔
نرمی → سختی → دھکا، مگر اتنی حد تک کہ نماز ٹوٹے نہیں۔
🕌 نماز کو کون سی چیز توڑتی ہے؟ — صحیح احادیث کی روشنی میں
━━━━━━━━━━━━━━━
1️⃣ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
«يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْمَرْأَةُ، وَالْحِمَارُ، وَالْكَلْبُ، وَيَقِيهِ ذَلِكَ مِثْلُ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ»
📚 صحیح مسلم (511)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتے ہیں، اور ان سب سے بچاؤ پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر سترہ رکھنے سے ہو سکتا ہے۔
2️⃣ حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
«يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْمَرْأَةُ، وَالْحِمَارُ، وَالْكَلْبُ الأَسْوَدُ»
📚 صحیح مسلم (510)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت، گدھا اور کالا کتا نماز کو توڑ دیتے ہیں۔
3️⃣ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ردّ:
جب اہل عراق میں یہ روایت مشہور ہوئی کہ عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑتے ہیں تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
«شَبَّهْتُمُونَا بِالْكِلَابِ وَالْحُمُرِ؟! لَقَدْ رَأَيْتُنِي مُضْطَجِعَةً بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يُصَلِّي، فَيُرِيدُ أَنْ يَتَسَوَّرَ الْبَيْتَ فَيَكْرَهُ أَنْ يُوقِظَنِي، فَيَسْتَطِيبُ أَنْ يَمُرَّ بَيْنِي وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ»
📚 صحیح بخاری (511)؛ صحیح مسلم (512)
ترجمہ: عائشہؓ نے فرمایا: "اے اہل عراق! کیا تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا ہے؟! میں خود بسا اوقات نبی ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی اور آپ نماز پڑھ رہے ہوتے۔ جب آپ کو تہجد کے لیے کھڑے ہونا ہوتا تو آپ مجھے جگانا پسند نہ کرتے اور مجھ سے اور قبلے کے درمیان ہی سے گزر جاتے۔”
🔎 وضاحت:
حضرت عائشہؓ کا اعتراض اصل حکم پر نہیں تھا بلکہ اس اندازِ بیان پر تھا کہ عورت کا ذکر کتے اور گدھے کے ساتھ ایک ہی فہرست میں کیا گیا۔
ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ عورت کا معاملہ بالکل ویسا نہیں جیسے کتے یا گدھے کا ہے۔
4️⃣ سنن ابی داؤد میں اضافہ ہے:
«الْمَرْأَةُ الْحَائِضُ»
📚 سنن ابی داؤد (703)
ترجمہ: نماز کو عورت (خصوصاً حائضہ)، گدھا اور کتا توڑ دیتے ہیں۔
⭐ دیگر روایات اور اقوال:
ابو سعید خدریؓ سے مروی: «لا يقطع الصلاة شيء» (ابو داؤد 720) — یہ روایت ضعیف ہے، لہٰذا قابل حجت نہیں۔
سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (3323) میں:
«تُعَادُ الصَّلَاةُ مِنْ مَمَرِّ الْحِمَارِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالْكَلْبِ الأَسْوَدِ»
ترجمہ: اگر گدھا، عورت یا کالا کتا آگے سے گزرے تو نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی۔
📌 خلاصہ:
صحیح احادیث کے مطابق عورت، گدھا اور کتا (خصوصاً کالا) نمازی کے آگے سے گزرنے پر نماز کو توڑ دیتے ہیں۔
سترہ رکھنے سے اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے اصل حکم کی نفی نہیں کی بلکہ اہل عراق کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم عورت کو کتوں اور گدھوں کے برابر کیوں گن رہے ہو، حالانکہ معاملہ تعبیر و بیان کا ہے۔
🕌 کیا حرمین (مسجد حرام و مسجد نبویﷺ) میں سترہ کا اہتمام ضروری نہیں؟
━━━━━━━━━━━━━━━
❌ بعض لوگ سنن نسائی (759) اور دیگر کتب میں موجود حضرت کثیر بن کثیر عن ابیہ عن جدہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں:
«رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ بِحِذَائِهِ فِي حَاشِيَةِ الْمَقَامِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطَّوَافِ أَحَدٌ»
📚 نسائی (759)، ابوداؤد (2016)، ابن ماجہ (2958)
ترجمہ: ”میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں پڑھیں اور آپ اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔“
🔎 محدثین کا حکم:
اس روایت کے راوی کثیر بن المطلب لین الحدیث ہیں۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: «رِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ إِلَّا أَنَّهُ مَعْلُول» (فتح الباری 1/745)
یعنی یہ روایت ضعیف ہے، لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں۔
✅ صحیح دلائل — حرمین میں بھی سترہ ضروری ہے
1️⃣ بطحاء مکہ میں نبی ﷺ نے سترہ لیا
عَنْ أَبِي جُهَيْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
«صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى عَنَزَةٍ بِالْبَطْحَاءِ»
📚 صحیح بخاری (501)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے بطحاء مکہ میں ایک عنزہ (چھوٹا نیزہ) اپنے سامنے گاڑ کر ہمیں نماز پڑھائی۔
2️⃣ انس بن مالکؓ کا عمل مسجد حرام میں
قَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ:
«رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّي إِلَيْهَا»
📚 مصنف ابن أبي شيبة (2853)
ترجمہ: یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں: میں نے انس بن مالکؓ کو مسجد حرام میں دیکھا کہ انہوں نے لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔
3️⃣ نبی ﷺ کا عمومی حکم
«لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ»
📚 صحیح ابن خزیمہ (800)، صحیح مسلم (506)
ترجمہ: ”سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو۔“
⚠ نمازی کے آگے سے گزرنے کی وعید (حرم ہو یا غیر حرم):
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ»
📚 صحیح بخاری (510)
ترجمہ: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے لیے چالیس (سال) کھڑا رہنا بہتر ہے بنسبت آگے سے گزرنے کے۔
📌 خلاصہ:
وہ روایت جس سے حرمین میں سترے کی نرمی کا استدلال کیا جاتا ہے ضعیف ہے۔
صحیح احادیث اور صحابہ کے آثار واضح کرتے ہیں کہ مسجد حرام و مسجد نبوی میں بھی سترہ ضروری ہے۔
نبی ﷺ نے بطحاء مکہ میں سترہ کے ساتھ نماز پڑھائی۔
انسؓ نے مسجد حرام میں لاٹھی گاڑ کر سترہ بنایا۔
نبی ﷺ نے عام حکم دیا: سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو۔
🕌 اس لیے مکہ و مدینہ سمیت ہر جگہ سترے کا اہتمام کیا جائے۔ البتہ حرمین میں ازدحام اور مجبوری کی حالت میں:
﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن: 16)
"جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو۔”