والدین کے بیٹے کو بیوی کو طلاق دینے کا حکم
سوال:
اگر والدین، خاص طور پر والد یا والدہ، اپنے بیٹے کو حکم دیں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو شرعی طور پر اس کا کیا حکم ہے؟ کیا بیٹے پر لازم ہے کہ وہ والدین کی اطاعت میں آکر بیوی کو طلاق دے دے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کے حوالے سے صحیح حدیث میں واضح رہنمائی موجود ہے۔ ذیل میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے:
«وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَتْ تَحْتِیْ اِمْرَأَةٌ اُحِبُّهَا وَکَانَ عُمَرُ يَکْرَهُهَا فَقَالَ لِیْ طَلِّقْهَا فَأَبَيْتُ فَاَتٰی عُمَرُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺفَذَکَرَ ذٰلِکَ لَهُ فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اﷲِﷺ طَلِّقْهَا»
(رواه الترمذى وابوداؤد، مشكوة، باب البر والصله، حديث نمبر 4940)
یعنی:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
"میری ایک بیوی تھی جس سے مجھے محبت تھی، لیکن میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اسے طلاق دے دو۔ میں نے انکار کر دیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور یہ بات ان سے ذکر کی۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ‘اسے طلاق دے دو’۔”
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ
اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ بھی دلالت رکھتا ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے، تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے بیوی کو رخصت کر دیا۔
نتیجہ:
مندرجہ بالا حدیث اور واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر والدین، خاص طور پر باپ، بیٹے کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیں، اور اگر اس میں کوئی معقول وجہ ہو (جیسے دینی یا اخلاقی خرابی)، تو بیٹے کو چاہیے کہ وہ اس حکم پر عمل کرے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ﷺ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کیا۔ اس سے والدین کی اطاعت اور خیرخواہی کا پہلو بھی واضح ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب