والدین کی نافرمانی اور بیوی بچوں کے حقوق کی عدم ادائیگی کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر: 1 صفحہ نمبر: 150

والد کا نافرمان شخص

سوال

ایک شخص جو عقل و شعور رکھتا ہے اور شادی شدہ ہے، اپنے والد کی نافرمانی کرتا ہے۔ نہ تو اپنی بیوی کو خرچ دیتا ہے، نہ ہی اپنی اولاد کی پرواہ کرتا ہے بلکہ انہیں تکلیف دیتا ہے۔ اس کے والد نے شفقت کی وجہ سے اس کے بیوی بچوں کا خرچ خود اٹھایا ہوا ہے۔ وہ شخص نماز روزے کا پابند ہے، مگر والد کی نافرمانی کرتا ہے۔ شریعت کی رو سے کیا ایسا شخص نجات کا مستحق ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

والدین کی اطاعت کا شرعی حکم

ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری اُس وقت تک فرض اور ضروری ہے جب تک وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔ ان کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
"ألا انبئكم بأكبر الكبائر؟ قلنا : بلى يا رسول الله، قال : الإشراك بالله وعقوق الوالدين”(بخاری: کتاب الأدب، باب حقوق الوالدين من الكبائر، 2/77)

یعنی: ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا: ضرور، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی۔‘‘

نافرمانی کی تعریف

عقوق الوالدین کا مطلب ہے:
"ايذاؤهما بأى نوع كان من أنواع الأذى، قل أو كثر، نهيا عنه، أو مخالفتمها فيما يأمران أو ينهيان، بشرط انتفاء المعصية فى الكل” (قسطلانی وغیرہ)

یعنی والدین کو کسی بھی قسم کی تکلیف دینا، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، یا ان کے احکام کی نافرمانی کرنا (بشرطیکہ وہ معصیت نہ ہو)۔

بیوی بچوں کے حقوق

بیوی اور بچوں کا خرچ اور ان کی دیکھ بھال شوہر کی ذمہ داری ہے:

قرآن مجید:
وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف (البقرة: 233)

وعاشروهن بالمعروف (النساء: 19)

فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان (البقرة: 229)

حدیث نبوی ﷺ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت):
"وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، تقول المرأة: إما أن تطعمني، وإما أن تطلقني، ويقول العبد: أطعمني واستعملني، ويقول الابن: أطعمني إلى أن تدعني”
(بخاری: کتاب النفقات، باب وجوب النفقة على الأهل والعيال، 6/189، 219؛ کتاب التفسير، سورة الممتحنة، باب ان جاءك المؤمنات يبايعنك، 6/62)

فتویٰ کا خلاصہ اور مسئلہ کی وضاحت

اس شخص کی حالت:

◈ ماں باپ کی نافرمانی کرتا ہے
◈ بیوی اور بچوں کا خرچ نہیں دیتا
◈ ان کو تکلیف دیتا ہے
◈ باپ ان کے اخراجات اٹھا رہا ہے

یہ شخص حقوق العباد ضائع کرنے والا، ظالم اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔

نجات کی اقسام اور شرائط

موحد کامل اور نیک شخص:

– جس نے کبھی گناہ نہ کیا
– ہمیشہ نیک اعمال پر قائم رہا
– اس کو نجات اُولیٰ حاصل ہوگی یعنی:
◈ مرنے کے بعد عذابِ قبر، برزخ اور قیامت سے محفوظ رہے گا
◈ بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہوگا

گناہ گار مگر توبہ کرنے والا مسلمان:

– اگر اس نے گناہ کیے
– مگر سچی توبہ کی اور توبہ پر مر گیا
– تو وہ بھی تمام عذابوں سے محفوظ رہ کر جنت میں داخل ہوگا
(بفضل اللہ ورحمته)

گناہ گار اور بغیر توبہ کے مرنے والا مسلمان:

– اگر توبہ کے بغیر مرے
– تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہوگا:
◈ اللہ چاہے تو بغیر عذاب کے جنت میں داخل کردے گا (بفضلہ ورحمته)
◈ یا چاہے تو سزا دے کر جنت میں داخل کرے:
▪ صرف برزخ میں
▪ یا برزخ اور قیامت دونوں میں
◈ بہر صورت، آخرکار نجات یقینی ہے

نتیجہ 

یہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔
– اگر اصلاح کرلے اور سچی توبہ کرکے مرے تو نجات اولیٰ حاصل ہوگی
– اگر بغیر توبہ کے مرے، تو اس کا انجام اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے:
"إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له”
(محدث دہلی، جلد 8، شمارہ 1، ربیع الاول 1359ھ / مئی 1940ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1