نماز کے درمیانے قعدہ میں درود اور دعا کا شرعی حکم
ماخذ: کتاب: احکام و مسائل، موضوع: نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 194

درمیانے قعدہ میں درود شریف کی وضاحت

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درمیانے قعدہ میں دعا کی دلیل

نماز کے درمیانے قعدہ میں دعا کرنے کا ثبوت موجود ہے۔ اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں تشہد کا ذکر ہے۔ اس حدیث میں دعا کا حکم دیا گیا ہے۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ موجود ہیں۔
صحیح مسلم میں وہ روایت موجود ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے نو رکعات ایک سلام کے ساتھ ادا کیں۔ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے درمیانے قعدہ میں دعا کرنے کا ذکر موجود ہے:

(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل، حدیث: 746)

یہ بات بھی واضح ہے کہ اس مسئلے میں نفل اور فرض نمازوں کے لیے الگ الگ حکم کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

درمیانے قعدہ میں درود شریف

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيۡهِ وَسَلِّمُواْ تَسۡلِيمًا﴾
(الاحزاب: 56)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! درود بھیجو اُس (نبی ﷺ) پر اور سلام بھیجو خوب سلام بھیجنا۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث آتی ہے، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:

’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، سلام تو آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے، صلاۃ (درود) کیسے بھیجیں؟‘‘

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو درود و صلاۃ کی تعلیم فرمائی۔

اس حدیث میں پہلے اور دوسرے قعدے کی کوئی تفصیل مذکور نہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جہاں بھی تشہد اور سلام ہو وہاں صلاۃ و درود بھی ہونا چاہیے۔

درمیانے قعدہ میں درود اور دعا نہ پڑھنے کی روایات کا جائزہ

جن روایات کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ درمیانے قعدہ میں درود اور دعا نہیں پڑھی جاتی:

◈ یا تو وہ ضعیف (کمزور) ہیں
◈ یا پھر وہ موقوف (صحابی کا قول) ہیں

لہٰذا درست بات یہی ہے کہ دونوں قعدوں میں تشہد کی طرح درود اور دعا پڑھنا لازم ہے۔

تحقیق کے لیے مفید کتاب

مزید تحقیق کے لیے شیخ البانی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب:

"صفۃ صلاۃ النبی ﷺ”

کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ بہت فائدہ حاصل ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1