فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے متعلق مکمل تحقیقی جائزہ
سوال:
کیا فرض نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر اجتماعی طور پر دعا کرنا ثابت ہے؟ اگر کبھی دعا کرلی جائے اور کبھی نہ کی جائے تو کیا یہ عمل جائز ہے؟ درست طریقہ کون سا ہے؟ اور اگر کوئی شخص اجتماعی دعا میں شریک نہ ہو تو کیا وہ گناہگار ہوگا؟
(سوال: ابو طاہر محمدی، خانیوال)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اجتماعی دعا کا ثبوت اور علماء کی آراء
❌ اجتماعی دعا کا عدم ثبوت:
◈ نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں۔
◈ حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ کی تصریحات:
"وأما الدعاء بعد السلام من الصلوة مستقبل القبلة أو لمأمومين، فلم يكن ذلك من هديه صلى الله عليه وسلم أصلا، ولا روي عنه بإسناد صحيح ولا حسن”
_(زاد المعاد، ج1، ص257، طبع مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)_
یعنی نبی کریم ﷺ سے نماز کے بعد سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر یا مقتدیوں کی طرف چہرہ کر کے دعا کرنا کسی صحیح یا حسن سند سے ثابت نہیں۔
◈ جب یہ عمل نہ تو نبی ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی سلف صالحین سے اس پر عمل یا اجازت ملتی ہے، تو اس پر زور دینا یا نہ کرنے والوں کو موردِ الزام ٹھہرانا ناجائز ہے۔
انفرادی دعا اور رفع یدین سے متعلق پیش کردہ روایات کا تجزیہ
روایت 1:
"رأيت عبد الله بن الزبير وراي رجلا رافعا يديه…”
_(تحفة الأحوذي، ج1، ص245، مجمع الزوائد، ج10، ص169، بحوالہ طبرانی)_
◈ تحقیق: اس روایت کی مکمل سند المعجم للطبرانی کے مطبوعہ نسخہ سے غائب ہے۔
◈ حافظ ابن کثیرؒ نے اس کی سند محفوظ رکھی ہے، لیکن راوی "الفضل بن سلیمان النمیری” جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
◈ اس لیے یہ روایت قابل استناد نہیں۔
_السلسلۃ الضعیفۃ للألبانی، 6/56، ح 2544_
روایت 2:
"الصلاة مثنى مثنى… وترفعهما إلى ربك…”
_(سنن ترمذی، ج1، ص299، ح385)_
◈ راوی عبداللہ بن نافع بن العمیاء مجہول ہے۔
◈ امام بخاری نے فرمایا: "لم يصح حديثه”
_(التاریخ الکبیر، 5/213)_
◈ امام ابن خزیمہ نے بھی روایت کے ثبوت پر شک کیا ہے۔
◈ یہ روایت بھی ضعیف اور مردود ہے۔
روایت 3:
"رفع يديه بعد ما سلم وهو مستقبل القبلة…”
_(تفسیر ابن کثیر، ج1، ص542، تفسیر سورۃ النساء، آیت 98، بحوالہ ابن ابی حاتم و تحفۃ الأحوذی)_
◈ راوی: علی بن زید بن جدعان، جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف۔
◈ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: "ضعیف”
_(تقریب التہذیب: 4734)_
◈ صحیح مسلم میں اس کی روایت ایک ثقہ راوی کی متابعت میں ہے، لہذا مستقل روایت کے طور پر حجت نہیں۔
روایت 4:
"صليت مع النبي… انحرف ورفع يديه ودعا”
_(فتاویٰ نذیریہ، ج1، ص566، بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ)_
◈ مصنف ابن ابی شیبہ میں "انحرف” تک روایت موجود ہے، "ورفع يديه ودعا” کے الفاظ ثابت نہیں۔
◈ یہ الفاظ ناقل کا وہم معلوم ہوتے ہیں، اور مستند کتابوں میں ان کا ذکر نہیں۔
ہاتھ اٹھا کر دعا کی روایات اور ان کی حیثیت
◈ نماز کے بعد اذکار و دعائیں نبی کریم ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔
◈ دعا میں ہاتھ اٹھانے کا عمومی عمل بھی متواتر ہے۔
مثال:
((اذا سألتم الله فاسألوه ببطون أكفكم ولا تسألوه بظهورها))
_(سنن ابی داود، باب الدعاء، ح1486، سندہ حسن)_
اجتماعی دعا کے متعلق ایک ضعیف روایت:
((لا يجتمع ملاء فيدعوا بعضهم ويؤمن البعض إلا أجابهم الله))
_(المستدرک للحاکم، ج3، ص347، ح5478، مجمع الزوائد، ج10، ص170)_
◈ سند منقطع ہے۔
◈ عبداللہ بن ہبیرہ کی سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔
خلاصہ تحقیق:
◈ فرض و نفل نمازوں کے بعد امام و مقتدیوں کا اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں۔
◈ ہاتھ اٹھا کر انفرادی دعا والی روایات بھی ضعیف ہیں۔
◈ اجتماعی دعا کے جواز پر استدلال عمومی دلائل یا غیر ثابت روایات سے کیا جاتا ہے۔
✅ راجح رائے:
کبھی کبھار کسی موقع پر یا کسی کے اصرار پر اجتماعی دعا کی جائے تو جائز ہے، لیکن اسے معمول بنا لینا غلط ہے۔
جمعہ، جلسہ یا اجتماع کے بعد دعا کا حکم:
◈ اسی اصول کے تحت اجتماعی دعا کا معمول بنانا غیر مشروع ہے، البتہ کبھی کبھار جائز ہے۔
دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا:
◈ یہ عمل دو صحابہ کرام سے ثابت ہے:
▪ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ
▪ سیدنا عبداللہ بن الزبیرؓ
_(الادب المفرد للبخاری، باب 276، ح609، سندہ حسن)_
◈ لہٰذا اسے جاہلوں کا عمل کہنا درست نہیں۔
_(شہادت، جون 2000ء)_
نتیجہ:
اجتماعی دعا کا معمول بنانا نبی کریم ﷺ اور سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہے۔ انفرادی دعا کی اجازت ہے، لیکن اس میں بھی رفع یدین والی روایات ضعیف ہیں۔ البتہ، کبھی کبھار اجتماعی دعا کرنے میں حرج نہیں، بشرطیکہ اسے لازم نہ سمجھا جائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب