نماز وتر کا حکم: سنت مؤکدہ
یہ اقتباس ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین کی کتاب نماز پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد سے ماخوذ ہے۔

قائلین وجوب اور ان کے دلائل:

حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ وجوب کے قائل ہیں اور ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جو وتر کے فضائل کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں مثلاً ارشاد نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کے ساتھ تمہاری مدد فرمائی ہے جو کہ نماز وتر ہے۔
اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وہ نماز تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
الحدیث صححه الالبانی دون هذه الكلمات انظر الارواء 156/2
اس حدیث میں فضیلت تو مذکور ہے مگر یہ وجوب کا پتا نہیں دیتی اور اگر ایسی فضیلت کو وجوب کی دلیل بنایا جاسکتا ہو تو پھر فجر کی سنتوں کی ایک طرح سے اس سے بھی زیادہ فضیلت بیان ہوئی۔ کیونکہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خير من الدنيا وما فيها قرار دیا ہے اور ظاہر ہے دنيا وما فيها سے بہتر چیز سرخ اونٹوں سے بہتر چیز سے افضل ہو گی کیونکہ سرخ اونٹ تو دنیا کا جز ہیں اور جز کی کل کے مقابلہ میں جو حیثیت ہے وہ واضح ہے اور اتنی بڑی فضیلت ہونے کے باوجود سنتوں کو زیادہ سے زیادہ مؤکدہ ہی کہا گیا ہے نہ کہ واجب۔ اس طرح ایک حدیث میں ہے۔
الوتر واجب على كل مسلم
بزار بحوالہ النیل 30/3/2
وتر ہر مسلمان پر واجب ہے۔
اس حدیث کی سند میں جابر جعفی ہے جو جمہور علماء کے نزدیک ضعیف ہے اور اگر حدیث صحیح ہوتی یا بالفرض اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو پھر ایک اعتراض و اشکال وارد ہوتا ہے کہ غسل جمعہ کے بارے میں بھی صحیح بخاری و مسلم اور ابوداؤد، نسائی وغیرہ میں ارشاد نبوی ہے۔
غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم
بحوالہ النیل 234/1/2
یوم جمعہ کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے۔
جبکہ جمہور علماء سلف و خلف اور تمام فقہاء کے نزدیک غسل جمعہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
النیل 231/8/1
واجب کے واضح لفظ کو استحباب پر محمول کرنے کے قرینے بھی موجود ہیں جنہیں جمہور کی طرف سے امام شوکانی نے نیل الاوطار میں بالتفصیل نقل کیا ہے۔
نیل الاوطار 231/8/1
وہی قرینے وتر کے بارے میں وارد ہونے والے لفظ واجب کو سنت کی طرف پھیرنے کے بھی موجود ہیں۔
بعينه الوتر حق والی حدیث کا معاملہ ہے کہ اسے بھی وتر کے واجب ہونے کی دلیل کہا گیا ہے جبکہ غسل جمعہ کے بارے میں بھی یہ لفظ صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے ارشاد نبوی ہے۔
حق على كل مسلم أن يغتسل فى كل سبعة أيام يوما
مفتق علیہ النیل 234/1/1
ہر مسلمان پر سات دنوں میں ایک دن (یوم جمعہ) کا غسل حق ہے۔
امام بغوی نے شرح السنہ میں حدیث الوتر حق نقل کر کے حق کے معنی کی وضاحت کی ہے کہ عام علماء کے نزدیک اس سے مراد انگیخت اور ترغیب ہے۔
شرح السنہ 103/4
اسی طرح ہی حدیث میں بعض دیگر روایات ہیں جو بظاہر تو وتر کے وجوب کا پتا دیتی ہیں مگر ہر کسی کے ساتھ قرینہ صارفہ عن الوجوب موجود ہونے کی وجہ سے باقی تینوں آئمہ اور جمہور علماء و فقہاء نے نماز وتر کو سنت مؤکدہ ہی قرار دیا ہے اور جمہور کے دلائل کی قوت کے پیش نظر ہی خود امام صاحب کے دونوں شاگردان خاص امام ابویوسف اور امام محمد بھی وتر کے سنت مؤکدہ ہونے کے ہی قائل ہیں جیسا کہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں شیخ ابوحامد کے حوالہ سے حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے۔
الفتح 489/2 دارالافتاء
صاحبین کا یہی مسلک خود احناف کی اپنی معتبر کتاب ہدایہ میں بھی منقول ہے۔
بحوالہ فقہ السنہ اردو 278/1 محمد عاصم

غیر واجب کہنے والے اور ان کے دلائل:

آئمہ ثلاثہ اور جمہور علماء و فقہاء کے نزدیک وتر واجب نہیں بلکہ سنت ہے کیونکہ ایک تو وجوب پر دلالت کرنے والی اکثر احادیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔
نقله الشوكاني عن العراقی النیل 31/3/2
بعض سے مطلوب ثابت نہیں ہوتا جبکہ کتنی ہی دیگر احادیث عدم وجوب پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض فضائل وتر کے ضمن میں بھی گزری ہیں مثلاً یہ کہ وتر تمہاری فرض نمازوں کی طرح حتمی نہیں بلکہ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور ایک حدیث میں قربانی، نماز وتر اور فجر کی سنتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تطوع قرار دیا ہے۔
وقد مر تخريجه
وتروں کے عدم وجوب پر ہی صحاح ستہ اور تقریباً تمام ہی کتب حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مروی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں ہے۔
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوتر على بعيره
بخاری مع الفتح 389/2، النیل 29/3/2
بخاری شریف کے الفاظ ہیں۔
يوتر على راحلته
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر وتر پڑھ کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تطوع کے سوا کوئی فریضہ سواری پر ادا کرنا ثابت نہیں۔
اسی طرح بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو شب و روز میں پانچ نمازیں فرض ہونے کا بتایا تو اس نے پوچھا کہ کیا ان کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز (واجب) ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ولا إلا أن تطوع
شرح السنہ وتخریجہ 102/4
نہیں۔ سوائے اس کے کہ تو تطوع (یعنی سنت و نفل) پڑھے۔
ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارقطنی اور موطا امام مالک و مسند احمد میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث میں واضح صراحت موجود ہے کہ وتر واجب نہیں بلکہ تطوع و سنت مؤکدہ ہیں۔
اس مقام پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ احناف کے نزدیک فرض اور واجب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ واجب کا درجہ فرضوں سے کم اور سنت مؤکدہ سے زیادہ ہے جبکہ دوسروں کے یہاں فرض و واجب ہم معنی لفظ ہیں اور ان کے مابین کوئی فرق نہیں۔ اور مذکورہ فرق کو ثابت کرنا محتاج دلیل ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔
حوالہ بالا ص 104-105
وهذا يتوقف على أن ابن عمر كان يفرق بين الفرض والواجب
شیخ الباری 489/2
یہ معاملہ اس بات پر موقوف ہے کہ کیا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرض اور واجب کے مابین فرق کیا کرتے تھے؟

نماز وتر کا وقت:

نماز وتر کا وقت کون سا ہے؟ اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس کے وقت میں کافی وسعت ہے جو نماز عشاء سے طلوع فجر تک ہے جیسا کہ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارقطنی، بیہقی اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر کی فضیلت بیان فرمائی اور اس کے وقت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔
فصلوها فيما بين العشاء إلى طلوع الفجر
انظر تخريجه في الارواء 156/2-57/3
کہ اسے نماز عشاء اور طلوع فجر کے مابین پڑھو۔
اس نماز کے وقت میں وسعت کا اندازہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ مسروق کے پوچھنے پر بتاتی ہیں۔
من كل الليل قد أوتر أوله وأوسطه وآخره
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں نماز وتر ادا فرمائی، ابتدائی حصہ میں بھی، وسط شب میں بھی اور رات کے آخری حصہ میں بھی۔
اور آخر میں فرماتے ہیں۔
فانتهى وتره حين مات فى السحر
صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دنوں وفات پائی اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے موقع پر وتر کو پڑھنا اختیار فرما چکے تھے۔
نماز وتر کے وقت اداء کی انتہاء کا ذکر کرتے ہوئے صحیح مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ارشاد نبوی ہے۔
أوتروا قبل أن تصبحوا
الارواء الغلیل 152/2
صبح ہونے سے پہلے پہلے نماز وتر پڑھ لو۔
افضل تو یہی ہے کہ وتر کی نماز رات کے آخری حصہ میں طلوع فجر کے قریب پڑھی جائے لیکن جس شخص کو اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا، اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ نماز عشاء کے بعد رات کے شروع حصہ میں ہی وتر پڑھ لے کیونکہ صحیح مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشاد نبوی ہے۔
ومن خاف ألا يقوم آخر الليل فليوتر أوله ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخره
تم میں سے جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں جاگ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وہ رات کے پہلے حصہ میں ہی وتر پڑھ لے اور جسے آخر رات کے قیام کا شوق و طبع ہو اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے۔
آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے آخری حصہ یعنی سحری کے قیام و تہجد کی فضیلت و خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
إن صلاة الليل مشهودة وذلك أفضل
مختصر مسلم ص 108، الفتح الربانی 287/3
بیشک رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے آتے ہیں اور یہی افضل ہے۔
البتہ آخر رات کو نہ اٹھ سکنے کے خدشہ سے محفوظ رہنے کے لیے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کی وصیت فرمائی ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
أوصاني خليلي بثلاث صيام ثلاثة أيام من كل شهر
میرے خلیل (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے خاص طور پر تین باتوں کی وصیت فرمائی: ہر مہینے کے تین روزے رکھنا۔
یاد رہے کہ یہ تین روزے چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے ہیں جنہیں ایام بیض کے روزے کہا گیا ہے اور دوسری وصیت ہے
وركعتي الضحى
صلوة الضحى یعنی چاشت کی دو رکعتیں۔
تیسری وصیت تھی
وأن أوتر قبل أن أنام
بخاری فی صیام البيض و صلوۃ الضحی و مسلم في صلوة الصحفي ممتاب صلوة المسافرین و شرح السنه بغوی 90/4
کہ سونے سے پہلے میں وتر پڑھ لیا کروں۔

نقض وتر:

اگر کوئی شخص رات کے آخری حصہ میں نہ اٹھ سکنے کے خدشہ سے وتر پڑھ کر سوئے مگر تہجد کے وقت پھر سے جاگ گیا، وہ اب کیا کرے؟ کیا دو دو کر کے صرف نوافل ہی پڑھتا رہے یا پھر ایک رکعت پڑھ کر رات کے پڑھے ہوئے وتر کو توڑ کر شفع یا جفت بنائے اور آخر میں پھر سے وتر پڑھے؟ اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں دونوں طرف لوگ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ اس بات کے قائل ہیں کہ وتر اول کو توڑ لے۔ اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسلک والوں کے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پہلے وتر توڑنے سے واقعی ٹوٹ جائیں گے اور ایک عرصہ کے بعد کی پڑھی ہوئی ایک رکعت پہلے کے پڑھے ہوئے وتروں کے ساتھ جا کر جڑ جائے گی۔
سیدھی سی بات ہے کہ اگر اٹھ ہی جائے تو پھر دو دو کر کے رکعتیں پڑھتا رہے اور اس کا ثبوت بھی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

عدم نقض:

جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی دوسری ایک جماعت اس بات کی قائل رہی ہے کہ پہلے پڑھے ہوئے وتروں کو توڑا نہ جائے اور پچھلی رات اٹھ جانے پر دو دو کر کے ہی پڑھتا رہے۔ ان میں سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ان کے والد خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ ہیں۔ قائلین نقض جس جماعت کا خیال ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر رات کی نماز وتر کو شفع یعنی جفت کرنے اور آخر میں وتر پڑھے تاکہ رات کی آخری نماز وتر ہو جائے اور جفت بنانے کی شکل میں ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھنے کی نوبت نہ آئے۔ ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں سے ایک تو ابوداؤد، ترمذی اور نسائی میں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
لا وتران فى ليلة
شرح السنہ 93/4 194 تحقیقه محمد مقصود حسنه الحافظ في الفتح 381/2 دار الفتاء
ایک رات میں دو وتر نہیں کیے جاتے۔
دوسری حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں ہے جس میں ارشاد نبوی ہے۔
واجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا
بخاری مع الفتح 488/2
رات کی اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔
ان دونوں حدیثوں سے وجہ استدلال یہ ہے کہ وتر کو رات کی آخری نماز بنانے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور رات کو وتر پڑھ کر سونے والا جب سحری کو اٹھ جائے تو اس حدیث کی رو سے وہ نفل نہیں پڑھ سکتا اور اگر نفل پڑھنے لگے اور آخر میں پھر وتر پڑھے تو پہلی حدیث کے خلاف جاتا ہے کہ اس نے ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھ لیے لہذا ان کے نزدیک ایسے شخص کو پہلے پڑھے ہوئے وتر توڑ دینے چاہییں۔

قائلین عدم نقض:

جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی دوسری جماعت جو اس بات کی قائل ہے کہ ایسا شخص صرف نفل ہی پڑھتا رہے اسے دوبارہ وتر پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس جماعت کا مذہب ہی راجح ہے کیونکہ اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ چاروں آئمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ سفیان ثوری اور ابن المبارک بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ترمذی نے اسے اختیار کیا ہے۔ ابن قدامہ نے المغنی میں اسے ہی راجح قرار دیا ہے اور علامہ مبارکپوری نے تحفہ الاحوذی میں اسی کو مذہب مختار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے۔
ولم أجد حديثا مرفوعا صحيحا يدل على نقض الوتر
التحصہ 576/2 مدني
مجھے ایسی کوئی مرفوع و صحیح حدیث نہیں ملی جو وتروں کو توڑ کر جفت بنانے کے ثبوت پر دلالت کرتی ہو۔
نقض الوتر کے قائلین کو عدم نقض کے قائلین کی طرف سے متعدد جوابات دیے گئے ہیں جن میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھ چکنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں۔
مسلم مسند احمد ، ترمذی، ابوداؤد ، نسائی وغیرہ حوالہ التحفہ 57712 فتح الباری 480 والدارمی باسناد صحیح کمافی المشكاة 401/1
امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ دو رکعتیں جو پڑھی تھیں ایک یا چند مرتبہ ایسا کیا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پابندی نہیں کرتے تھے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے تحفہ الاحوذی 577-578/2 مدنی، نصب الرایہ 137/2، زاد المعاد 333/1 محقق، نیل الاوطار 38/3/2، سبل السلام، صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم، صحیح حدیث: 199/3 کمافی الصفة، انظر مشكاة الالبانی 200-401/1، محلی ابن حزم تحقیق احمد شاکر 49-50/3/2 بیروت
دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ وتر کو رات کی آخری نماز بنانے والے ارشاد سے وجوب ثابت نہیں ہوتا بلکہ استحباب و ندب کا پتا چلتا ہے کیونکہ جب رات کی نماز (تہجد) ہی فرض و واجب نہیں تو اس حدیث سے وتر کو آخری نماز بنانا واجب کیسے ثابت ہو سکتا ہے لہذا جو شخص رات کے آخری حصہ میں اٹھ جائے وہ دوبارہ وتر پڑھے بغیر نوافل پڑھ سکتا ہے۔
تفصیل کیلئے شرح السنہ 93/4-95 تحفہ الاحوذی 57۔ 754/2 فتح الباری 1/2 – 280 نیل الاوطار 147، 45/3/2 المغنی 163/2 عون المعبود 314/4-315
قضاء وتر: اب رہی یہ بات کہ اگر کسی نے نماز وتر اس نیت سے چھوڑ دی کہ رات کے آخری حصہ میں تہجد پڑھوں گا اور آخر میں وتر ادا کرلوں گا مگر وہ اٹھ نہ سکا، وتر قضاء ہو گئے تو وہ کب پڑھے؟
اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تطوع یعنی سنن و نوافل اور وتر قضاء ہو جائیں تو انہیں پڑھا جائے گا یا نہیں اس میں اہل علم کی پانچ آراء امام شوکانی نے ذکر کی ہیں۔
النیل 27/3/2
راجح قول یہ ہے کہ ان کی قضاء بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ فجر کی دو سنتوں اور ظہر کی پہلی اور پچھلی سنتوں کی قضاء والی احادیث شاہد ہیں۔
النيل 26/3/2 زاد المعاد و تحقیقہ 309/1 الضعيفه 352/2 از ار د 294/1٬188/301 محلی این حزام 2/3/294/2/1-6 نصب الراية 60/3-157
لہذا سوئے رہنے یا بھول جانے کی شکل میں وتروں کا وقت بتائے ہوئے ابوداؤد، ترمذی، مسند احمد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ارشاد نبوی ہے۔
ومن نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا أصبح أو ذكره
ترمذی مع الته 568/2 تحفہ 568/2 – 570دنی المشکاۃ 397/1، 399 – الارواء 153/2 نیل الاوطار 2/ 4713 48 بذل المجهود 33714 طبع ثالت بیروت
جو شخص وتر سے سو رہ جائے یا بھول جائے تو وہ انہیں صبح کے وقت یا پھر جب یاد آجائے پڑھ لے۔
نماز وتر کی رکعتوں کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد تین ہے اور یہی زیادہ تر معمول ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے صحیح احادیث میں ان کی تعداد صرف تین ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک وتر، تین، پانچ، سات اور نو رکعتیں بھی ثابت ہیں اور اس سے زیادہ کا پتا بھی چلتا ہے۔

ایک رکعت وتر کی مشروعیت:

صرف ایک رکعت کے بارے میں صحیح بخاری و مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ رات کی نماز (تہجد) کیسے ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
صلاة الليل مثنى مثنى فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة
رواه الجماعة النيل 31/3/2 مشكاة 1/394
رات کی نماز دو دو کر کے ہے اور جب تمہیں صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لو۔
اسی طرح ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں ارشاد نبوی ہے کہ وتر ہر مسلمان پر حق (ثابت) ہے۔
ومن أحب أن يوتر بواحدة فليفعل
مشكاة وصحه 1396/1 نیل الاوطار 29/3/2، 30
جو شخص صرف ایک ہی وتر پڑھنا چاہے تو وہ ایک ہی پڑھ لے۔
ایسے ہی صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔
الوتر ركعة من آخر الليل
نیل الاوطار 33/3/2 تحفۃ الاحوذی 556/2 مدنی
وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکورہ ارشادات کے علاوہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی وتر کی ایک رکعت کا ثبوت ملتا ہے مثلاً صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک رکعت وتر پڑھا؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
أصاب فإنه فقيه
ان کا عمل مبنی بر صواب و صحیح ہے اور بلاشبہ وہ فقیہ شخص ہیں۔
بخاری شریف میں ہی ایک روایت میں ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھی۔ اس وقت ان کے پاس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک شخص موجود تھا۔ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں (ایک رکعت وتر پڑھنے کی) خبر دی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
ودعه فإنه قد صحب النبى صلى الله عليه وسلم
مشكاة ال399 محقق
ان کے اس فعل کو شک کی نظر سے دیکھنا چھوڑیں کیونکہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف صحابیت سے سرفراز ہیں۔
اسی طرح حسن سند کے ساتھ دارقطنی، طحاوی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا اور طحاوی میں حسن سند کے ساتھ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا اور قیام اللیل مروزی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا اور اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ، حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔
راجع لتفصيل الحصه مدنی
امام شوکانی نے لکھا ہے کہ جمہور علماء امت کے نزدیک ایک رکعت وتر مشروع ہے اور علامہ عراقی سے نقل کرتے ہوئے کثیر صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام ذکر کیے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ ان میں چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے علاوہ پندرہ نام اور بھی ہیں۔ اسی طرح تابعین میں سے حسن بصری، ابن سیرین اور عطاء وغیرہ اور آئمہ میں سے امام احمد، مالک، شافعی، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ، ابوثور، داؤد اور ابن حزم سب ایک رکعت کی مشروعیت کے قائل ہیں۔
تحفہ الاحوزی 55/2-557-558
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ صحیح بخاری و مسلم اور سنن میں مذکور ارشاد نبوی ہے۔
فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة
سبق التخریج
جب صبح ہو جانے سے ڈر جاؤ تو وتر کی ایک رکعت پڑھ لو۔
فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى
بخاری مع الفتح
اگر کوئی صبح ہو جانے کا خدشہ محسوس کرے تو ایک رکعت پڑھ لے وہ پہلے پڑھی رکعتوں کو وتر بنادے گی۔
جس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر کی اجازت صرف اس شکل میں دی ہے جبکہ صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو ورنہ نہیں۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ” اندیشے کی قید “ والی حدیث میں پائے جانے والے اس اشکال یا اعتراض کا حل خود بخاری شریف کی ہی ایک اگلی حدیث میں مذکور ہے جس میں ارشاد نبوی کے الفاظ ہیں۔
فإذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة
بخاری مع الفتح 47812
جب تو نماز سے پھرنا چاہے (یعنی نماز کو ختم کرنا چاہے) تو ایک رکعت وتر پڑھ لو۔
اس حدیث کے الفاظ نے ایک رکعت وتر کی مشروعیت میں اندیشے کی قید یا شرط کا ازالہ کر دیا اور واضح کر دیا کہ نمازی اپنی نماز کو مکمل کر کے جب بھی اپنی جگہ سے پھرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ سکتا ہے۔
ایک رکعت وتر پر بتراء ہونے کا اعتراض اور اس کا علمی رد تیل الاوطار 32-33/3/2، طبع بیروت، محلی ابن حزم 54/3/2 طبع بیروت تحقیق احمد شاکر میں دیکھیں

تین رکعات:

اب آئیے تین رکعت نماز وتر کے دلائل دیکھیں۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کی رکعتوں کے حسن طول کا ذکر کرتی ہیں اسی حدیث میں ہے۔
وثم يصلي ثلاثا
بخاری مع الفتح 33/3 تخفه 11 حوزی 549/3 النیل 35/3/2
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات (وتر) پڑھتے تھے۔
اسی طرح صحیح مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے ذکر میں فرماتے ہیں۔
ثم أوتر بثلاث
تحفہ الاحوزی 549/3
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وتر پڑھے تھے۔
ومن أحب أن يوتر بثلاث فليفعل
مشكاة 1396/1 وصحه النيل 30 . 29/3/2
اور جو شخص تین وتر پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے۔

پانچ رکعات:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتروں کی پانچ رکعتیں بھی ثابت ہیں جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة يوتر من ذلك بخمس ولا يجلس فى شيء منهن إلا فى آخرهن
نیل الاوطار 46/3/2
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ان میں سے پانچ وتر ہوتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (پانچ وتروں) کے مابین نہیں بیٹھتے تھے بلکہ صرف آخر میں ایک ہی تشہد بیٹھتے تھے۔

سات رکعات:

بعض احادیث میں وتر کی پانچ رکعتوں کے علاوہ سات رکعتوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں تو پانچ، تین اور ایک رکعت کا ذکر ہے۔
مشکاة 396/1 و صحه ، نیل الاور طار 29/3/2
وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بسبع وخمس لا يفصل بينهن بسلام ولا كلام
نیل الاوطار 36/3/2
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سات اور کبھی پانچ وتر بھی پڑھتے تھے اور ان سب کے درمیان سلام اور کلام سے فصل نہیں کرتے تھے۔
یعنی پانچوں یا ساتوں رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ وتر کی پانچ اور سات رکعتوں کی مشروعیت کا پتا دینے والی اور بھی کئی احادیث ہیں۔
انظر النیل 371312۔

نو رکعات:

دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایسی روایات بھی مذکور ہیں جن سے نو وتروں کی مشروعیت کا پتا چلتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی اور مسواک تیار کر کے رکھتے اور جب اللہ چاہتا نیند سے بیدار کر دیتا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر کے وضو کرتے۔
ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا فى الثامنة
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ ان کے مابین صرف آٹھویں رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھتے۔
اس قعدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر الہی اور تمہید بیان کرتے اور اس سے دعا کرتے پھر سلام پھیرے بغیر ہی (نویں رکعت کے لیے) کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قعدہ ثانیہ تشہد اخیر کے لیے بیٹھتے۔ اس قعدہ میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر الہی و تمہید باری تعالیٰ کے علاوہ دعا کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ آواز کے ساتھ اس طرح) سلام پھیرتے کہ ہمیں سلام سنا دیتے تھے۔ اسی حدیث میں آگے یہ بھی مذکور ہے کہ جب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہو گئے اور گوشت کچھ بڑھ گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات وتر پڑھتے تھے۔
النیل 2713/4 شرح السنہ 18014 الفتح الربانی 98/4

گیارہ رکعات وتر:

ترمذی شریف میں امام ترمذی لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتروں کی تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک رکعت مروی ہیں۔
الترمذی مع التخصه 54512 مدنی مستدرک حاکم 306/1 و قال: واصحبا وتره (ص) برکعته واحده نظر قیام الليل للمروزي ص 88 فتح الباری 80/2
الغرض جو صاحب جتنی رکعتیں پڑھنا چاہے اسے اختیار ہے۔ بخاری و مسلم کی صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ تیرہ رکعتوں والی حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر وغیرہ شارحین نے لکھا ہے کہ ان میں دو رکعتیں وہ ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کا افتتاح فرمایا کرتے تھے یا پھر عشاء کی دو سنتیں ہیں کیونکہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جا کر ہی پڑھا کرتے تھے۔
فتح الباری 48412 انفتح الربانی 479٬299/4

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1