نماز وتر کا وقت:
نماز وتر کا وقت کون سا ہے؟ اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس کے وقت میں کافی وسعت ہے جو نماز عشاء سے طلوع فجر تک ہے جیسا کہ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارقطنی، بیہقی اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر کی فضیلت بیان فرمائی اور اس کے وقت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔
فصلوها فيما بين العشاء إلى طلوع الفجر
کہ اسے نماز عشاء اور طلوع فجر کے مابین پڑھو۔
انظر تخريجه في الارواء 156/2-57/3
اس نماز کے وقت میں وسعت کا اندازہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ مسروق کے پوچھنے پر بتاتی ہیں۔
من كل الليل قد أوتر أوله وأوسطه وآخره
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں نماز وتر ادا فرمائی، ابتدائی حصہ میں بھی، وسط شب میں بھی اور رات کے آخری حصہ میں بھی۔
اور آخر میں فرماتے ہیں۔
فانتهى وتره حين مات فى السحر
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دنوں وفات پائی اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے موقع پر وتر کو پڑھنا اختیار فرما چکے تھے۔
صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی
نماز وتر کے وقت اداء کی انتہاء کا ذکر کرتے ہوئے صحیح مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ارشاد نبوی ہے۔
أوتروا قبل أن تصبحوا
صبح ہونے سے پہلے پہلے نماز وتر پڑھ لو۔
الارواء الغلیل 152/2
افضل تو یہی ہے کہ وتر کی نماز رات کے آخری حصہ میں طلوع فجر کے قریب پڑھی جائے لیکن جس شخص کو اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا، اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ نماز عشاء کے بعد رات کے شروع حصہ میں ہی وتر پڑھ لے کیونکہ صحیح مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشاد نبوی ہے۔
ومن خاف ألا يقوم آخر الليل فليوتر أوله ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخره
تم میں سے جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں جاگ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وہ رات کے پہلے حصہ میں ہی وتر پڑھ لے اور جسے آخر رات کے قیام کا شوق و طبع ہو اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے۔
آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے آخری حصہ یعنی سحری کے قیام و تہجد کی فضیلت و خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
إن صلاة الليل مشهودة وذلك أفضل
بیشک رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے آتے ہیں اور یہی افضل ہے۔
مختصر مسلم ص 108، الفتح الربانی 287/3
البتہ آخر رات کو نہ اٹھ سکنے کے خدشہ سے محفوظ رہنے کے لیے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کی وصیت فرمائی ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
أوصاني خليلي بثلاث صيام ثلاثة أيام من كل شهر
میرے خلیل (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے خاص طور پر تین باتوں کی وصیت فرمائی: ہر مہینے کے تین روزے رکھنا۔
یاد رہے کہ یہ تین روزے چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے ہیں جنہیں ایام بیض کے روزے کہا گیا ہے اور دوسری وصیت ہے
وركعتي الضحى
صلوة الضحى یعنی چاشت کی دو رکعتیں۔
تیسری وصیت تھی
وأن أوتر قبل أن أنام
کہ سونے سے پہلے میں وتر پڑھ لیا کروں۔
بخاری فی صیام البيض و صلوۃ الضحی و مسلم في صلوة الصحفي ممتاب صلوة المسافرین و شرح السنه بغوی 90/4
نقض وتر:
اگر کوئی شخص رات کے آخری حصہ میں نہ اٹھ سکنے کے خدشہ سے وتر پڑھ کر سوئے مگر تہجد کے وقت پھر سے جاگ گیا، وہ اب کیا کرے؟ کیا دو دو کر کے صرف نوافل ہی پڑھتا رہے یا پھر ایک رکعت پڑھ کر رات کے پڑھے ہوئے وتر کو توڑ کر شفع یا جفت بنائے اور آخر میں پھر سے وتر پڑھے؟ اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں دونوں طرف لوگ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ اس بات کے قائل ہیں کہ وتر اول کو توڑ لے۔ اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس مسلک والوں کے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پہلے وتر توڑنے سے واقعی ٹوٹ جائیں گے اور ایک عرصہ کے بعد کی پڑھی ہوئی ایک رکعت پہلے کے پڑھے ہوئے وتروں کے ساتھ جا کر جڑ جائے گی۔
سیدھی سی بات ہے کہ اگر اٹھ ہی جائے تو پھر دو دو کر کے رکعتیں پڑھتا رہے اور اس کا ثبوت بھی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
عدم نقض:
جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی دوسری ایک جماعت اس بات کی قائل رہی ہے کہ پہلے پڑھے ہوئے وتروں کو توڑا نہ جائے اور پچھلی رات اٹھ جانے پر دو دو کر کے ہی پڑھتا رہے۔ ان میں سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ان کے والد خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ ہیں۔ قائلین نقض جس جماعت کا خیال ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر رات کی نماز وتر کو شفع یعنی جفت کرنے اور آخر میں وتر پڑھے تاکہ رات کی آخری نماز وتر ہو جائے اور جفت بنانے کی شکل میں ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھنے کی نوبت نہ آئے۔ ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں سے ایک تو ابوداؤد، ترمذی اور نسائی میں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
لا وتران فى ليلة
ایک رات میں دو وتر نہیں کیے جاتے۔
شرح السنہ 93/4 194 تحقیقه محمد مقصود حسنه الحافظ في الفتح 381/2 دار الفتاء
دوسری حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں ہے جس میں ارشاد نبوی ہے۔
واجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا
رات کی اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔
بخاری مع الفتح 488/2
ان دونوں حدیثوں سے وجہ استدلال یہ ہے کہ وتر کو رات کی آخری نماز بنانے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور رات کو وتر پڑھ کر سونے والا جب سحری کو اٹھ جائے تو اس حدیث کی رو سے وہ نفل نہیں پڑھ سکتا اور اگر نفل پڑھنے لگے اور آخر میں پھر وتر پڑھے تو پہلی حدیث کے خلاف جاتا ہے کہ اس نے ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھ لیے لہذا ان کے نزدیک ایسے شخص کو پہلے پڑھے ہوئے وتر توڑ دینے چاہییں۔
قائلین عدم نقض:
جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی دوسری جماعت جو اس بات کی قائل ہے کہ ایسا شخص صرف نفل ہی پڑھتا رہے اسے دوبارہ وتر پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس جماعت کا مذہب ہی راجح ہے کیونکہ اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ چاروں آئمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ سفیان ثوری اور ابن المبارک بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ترمذی نے اسے اختیار کیا ہے۔ ابن قدامہ نے المغنی میں اسے ہی راجح قرار دیا ہے اور علامہ مبارکپوری نے تحفہ الاحوذی میں اسی کو مذہب مختار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے۔
ولم أجد حديثا مرفوعا صحيحا يدل على نقض الوتر
مجھے ایسی کوئی مرفوع و صحیح حدیث نہیں ملی جو وتروں کو توڑ کر جفت بنانے کے ثبوت پر دلالت کرتی ہو۔
التحصہ 576/2 مدني
نقض الوتر کے قائلین کو عدم نقض کے قائلین کی طرف سے متعدد جوابات دیے گئے ہیں جن میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھ چکنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں۔
مسلم مسند احمد ، ترمذی، ابوداؤد ، نسائی وغیرہ حوالہ التحفہ 57712 فتح الباری 480 والدارمی باسناد صحیح کمافی المشكاة 401/1
امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ دو رکعتیں جو پڑھی تھیں ایک یا چند مرتبہ ایسا کیا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پابندی نہیں کرتے تھے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے تحفہ الاحوذی 577-578/2 مدنی، نصب الرایہ 137/2، زاد المعاد 333/1 محقق، نیل الاوطار 38/3/2، سبل السلام، صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم، صحیح حدیث: 199/3 کمافی الصفة، انظر مشكاة الالبانی 200-401/1، محلی ابن حزم تحقیق احمد شاکر 49-50/3/2 بیروت
دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ وتر کو رات کی آخری نماز بنانے والے ارشاد سے وجوب ثابت نہیں ہوتا بلکہ استحباب و ندب کا پتا چلتا ہے کیونکہ جب رات کی نماز (تہجد) ہی فرض و واجب نہیں تو اس حدیث سے وتر کو آخری نماز بنانا واجب کیسے ثابت ہو سکتا ہے لہذا جو شخص رات کے آخری حصہ میں اٹھ جائے وہ دوبارہ وتر پڑھے بغیر نوافل پڑھ سکتا ہے۔
تفصیل کیلئے شرح السنہ 93/4-95 تحفہ الاحوذی 57۔ 754/2 فتح الباری 1/2 – 280 نیل الاوطار 147، 45/3/2 المغنی 163/2 عون المعبود 314/4-315
قضاء وتر: اب رہی یہ بات کہ اگر کسی نے نماز وتر اس نیت سے چھوڑ دی کہ رات کے آخری حصہ میں تہجد پڑھوں گا اور آخر میں وتر ادا کرلوں گا مگر وہ اٹھ نہ سکا، وتر قضاء ہو گئے تو وہ کب پڑھے؟
اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تطوع یعنی سنن و نوافل اور وتر قضاء ہو جائیں تو انہیں پڑھا جائے گا یا نہیں اس میں اہل علم کی پانچ آراء امام شوکانی نے ذکر کی ہیں۔
النیل 27/3/2
راجح قول یہ ہے کہ ان کی قضاء بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ فجر کی دو سنتوں اور ظہر کی پہلی اور پچھلی سنتوں کی قضاء والی احادیث شاہد ہیں۔
النيل 26/3/2 زاد المعاد و تحقیقہ 309/1 الضعيفه 352/2 از ار د 294/1٬188/301 محلی این حزام 2/3/294/2/1-6 نصب الراية 60/3-157
لہذا سوئے رہنے یا بھول جانے کی شکل میں وتروں کا وقت بتائے ہوئے ابوداؤد، ترمذی، مسند احمد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ارشاد نبوی ہے۔
ومن نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا أصبح أو ذكره
جو شخص وتر سے سو رہ جائے یا بھول جائے تو وہ انہیں صبح کے وقت یا پھر جب یاد آجائے پڑھ لے۔
ترمذی مع الته 568/2 تحفہ 568/2 – 570دنی المشکاۃ 397/1، 399 – الارواء 153/2 نیل الاوطار 2/ 4713 48 بذل المجهود 33714 طبع ثالت بیروت
نماز وتر کی رکعتوں کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد تین ہے اور یہی زیادہ تر معمول ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے صحیح احادیث میں ان کی تعداد صرف تین ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک وتر، تین، پانچ، سات اور نو رکعتیں بھی ثابت ہیں اور اس سے زیادہ کا پتا بھی چلتا ہے۔