نماز میں ہاتھ باندھنے کے 4 احکام صحیح احادیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

نماز میں ہاتھ باندھنے کا اصل مقام

دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا – سنت کی وضاحت

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کے دوران دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا سنت سے ثابت ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں آتا ہے:

«کَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ ْيَدَهُ الْيُمْنَی عَلَی ذِرَاعِهِ الْيُسْرَی فِی الصَّلَاةِ»
صحیح البخاری، الاذان، باب وضع اليمنی علی اليسری، ح: ۷۴۰

’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھاکریں۔‘‘

ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ – سینہ بہترین مقام

اس بارے میں سب سے زیادہ راجح اور درست قول یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔ اس کی دلیل حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ملتی ہے:

«أن النبی کان يَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنٰی عَلٰی يَدِهِ الْيُسْرٰی عَلٰی صَدْرِهِ»
صحیح ابن خزیمہ، الصلاة، باب وضع اليمين علی الشمال… ح: ۴۷۹
والبیہقی: ۲/۳۰

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر (انہیں) اپنے سینے پر رکھا کرتے تھے۔‘‘

اگرچہ اس حدیث میں کچھ ضعف موجود ہے، تاہم یہ دیگر متعلقہ احادیث کے مقابلے میں زیادہ صحیح اور مضبوط ہے۔

دل پر یا زیر ناف ہاتھ رکھنے کا حکم

  • سینے کے بائیں جانب دل پر ہاتھ رکھنا:
    یہ طریقہ بدعت ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں۔
  • زیر ناف ہاتھ رکھنے کا قول:
    حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں ایک اثر مروی ہے، مگر یہ ضعیف ہے۔
    اس کے مقابلے میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث بہت زیادہ قوی اور قابلِ اعتماد ہے۔

مرد و عورت کے لیے احکام میں فرق؟

اس معاملے میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ اصولی طور پر شریعت کے احکام دونوں کے لیے یکساں ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ کوئی واضح دلیل فرق پر دلالت کرے۔

مصنف کی تحقیق کے مطابق اس سنت میں مرد و عورت کے درمیان فرق کی کوئی صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔

وباللہ التوفیق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1