الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين والصلوة والسلام على رسوله و على آله و صحبه اجمعين
اما بعد نماز اللہ تعالیٰ کی بڑی عبادت ہے اور بندہ جس وقت نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو:
فإنه يناجي ربه (مسلم ص 207 ج 1 ) اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔
اس لئے نماز میں کوئی بھی ایسا فعل نہیں کرنا چاہیئے جو ادب کے خلاف ہو بلکہ ایسے خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنی چاہئے جس سے تقویٰ اور خشیت الہی ظاہر ہو اور انسان کے تمام اعضاء میں سے رئیس الاعضاء دل ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
«الاوان فى الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد كله و اذا فسدت فسد الجسد كله ألا و هي القلب» مشكاة ج 2 ص 241
انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے یا بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار ہو جاتا ہے خبر دار وہ دل ہے۔
اور دل سینے کے برابر ہے اور یہی تقوی کی جگہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
التقوى ههنا و يشير الى صدره ثلاث مرار – مسلم ص 317 جلد دوم مع النووى –
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے سینے مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا کہ تقوی اور پرہیز گاری یہاں ہے۔
اس لئے آپ سینے مبارک پر ہاتھ باندھتے تھے ۔ کیونکہ یہی عاجزی کی صورت ہے۔ اور سائل بندے کو اپنے پروردگار کے سامنے ایسی حالت میں کھڑ ا ہو نا زیب دیتا ہے ۔ علامہ شیخ سعدی شیرازی نے اس راز اور حکمت کو اس طرح منظوم کیا ہے کہ:
نہ بینی کہ پیش خداوند جاه
ستائیش کناں دست بر بر نهند
اور جو لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے عامل اور قائل ہیں ان کے لئے حدیث میں کوئی بھی دلیل یا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ اس طرح بے ادبی کا اظہار ہوتا ہے چونکہ اگر کسی اچھے یا بڑے آدمی کے سامنے ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر مرحبا کہا جائے تو وہ اسے برا سمجھے گا۔ بلکہ ناراض ہو گا۔ پھر ایسی کیفیت کیساتھ احکم الحاکمین شہنشاہ جلشانہ کے سامنے پیش ہونا بالکل نامناسب ہے بلکہ سینے پر ہاتھ باندھ کر اپنے عزت والے عضو (دل) کو اس کے سامنے حاضر کرنا چاہیئے اور یہی معمول اور طریقہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا تھا۔ اور اس مختصر کتابچہ میں اسی مسئلہ کے بارے میں عام لوگوں کی راہنمائی کرنے کیلئے کچھ لکھا جارہا ہے امید ہے کہ متلاشیان حق کیلئے یہ کتابچہ اور مقالہ مشعل راہ اور منزل آگاہ بنے گا۔ اللهم آمين
اس مسئلہ کے بارے میں کچھ احادیث وارد ہیں۔
حدیث نمبر1:
عن أبى حازم عن سهل بن سعد الساعدى قال كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلوة قال ابو حازم لا أعلمه إلا ينمى ذالك إلى النبى ﷺ
ابو حازم سھل بن سعد ساعدی سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں (اصحاب ) کو حکم تھا کہ ہر نمازی نماز (یعنی کھڑے ہونے والی حالت میں ) اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی اور بازو پر رکھے ۔ راوی ابو حازم (سلمہ بن دینار ) کہتے ہیں کہ میں اس طرح جانتا ہوں کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہے یعنی یہ آپکا ہی حکم تھا۔
صحة الحدیث: جس حدیث کا صحیح بخاری میں ہونا ہی کافی ہے کیونکہ صحیح بخاری کی احادیث تمام احادیث میں اعلیٰ قسم کی صحت رکھتی ہیں یہ ہی علماء امت کا فیصلہ ہے (شرح نخبہ ص 224 اور تدریب الراوی للسیوطی ص 25 و غیره) نیز اس حدیث کو امام ابن حزم رحمہ اللہ نے المحلی ص 114 ج 4 میں اور حافظ ابن القیم نے اعلام موقعین ص 6 ج 2 طبع ھند میں صحیح کہا ہے۔
تشریح: یہ حدیث مرفوع ہے جیسے راوی ابو حازم نے تصریح کی ہے نیز صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ یہ حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ اسی لئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری ص 124 ج 2 (السلفیہ) میں اور علامہ عینی نے عمدة القاری ص 78 ، ج 5 (المنیر یہ ) میں اس حدیث کو مرفوع ثابت کیا ہے اور اس حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہو تا ہے کیونکہ جب دایاں ہاتھ بائیں ذراع (بازو یا کلائی) پر ہو گا تو اس صورت میں ہاتھ سینے سے نیچے نہیں جاسکیں گے اس طرح باندھ کر دیکھنا چاہیئے اور تجربہ کرنا چاہیئے تو ساری بات واضح ہو جائے گی۔
حدیث نمبر 2
«عن وائل من حجر قال صليت مع رسول الله ﷺ فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره» صحیح ابن خزيمه ص 243 ج 1
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا۔
صحت حدیث: امام ابن خزیمہ اپنی صحیح کے متعلق شروع میں اپنی طرح ذکر کرتے ہیں۔
المختصر من المسند الصحيح عن النبى ﷺ بنقل العدل عن العدل موصولا اليه ﷺ من غير قطع فى اثناء الإسناد ولا جرح فى ناقلي الاخبار اللتي نذكرها بمشيئة الله تعالىٰ ابن خزیمہ ص 2 ج 1
یہ مختصر صحیح احادیث کا مجموعہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک صحیح اور متصل سند کے ساتھ پہنچتی ہیں اور درمیان میں کوئی راوی ساقط یا سند میں انقطاع نہیں ہے اور نہ تو راویوں میں سے کوئی راوی مجروح یا ضعیف ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح اور سالم ہے نیز اس حدیث کا؟ امام نووی نے شرح مسلم ص 115 ج 4 (المصری ) اور شرح المهذب ص 312 ج 3 میں حافظ ابن سید الناس نے النفخ الشذى (المصور) الورق: 211/2 میں اور حافظ شمس الدین ابن عبد الھادی المقدسی نے المحرر في المحاديث ص 44 میں اور حافظ زیلعی نے نصب الرایہ ص 314 ج ا میں اور حافظ ابن حجر نے الباری ص 224 ج 2 (السلفیہ) میں اور التلخیص الحبيرص 224 ج 1 (المصرى ) میں اور الدراية في تخريج احاديث الهدايه ص 128 ج 1 (المصری) اور بلوغ المرام ص 55 میں اور علامہ عینی حنفی نے عمدة القاری ص 379 ج 5 (المنيريه ) میں امام الشوکانی نے نیل الاوطار ص 115 ج 2 میں اور علامہ مجد الدین الفيروز آبادی نے سفر السعادت میں اور علامہ المرتضى الزبيدي حنفی نے عقود الجواهر المنيفة ص 59 ج 1 میں اور دوسروں نے ذکر کیا ہے اور علامہ ابن سید الناس اور حافظ ابن حجر اور علامہ عینی اور علامہ الشوکانی نے اس حدیث کو صحیح مانا ہے اسی طرح ملا قائم سندھی نے رسالہ فوز الکرام میں اور مخدوم محمد ہاشم سندھی ٹھٹھوی نے دراهم الصرۃ میں بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے نیز علامہ ابن نجیم حنفی نے البحر الرائق میں اور علامہ ابو الحسن الکبیر سندھی نے فتح الودود شرح ابی داؤد میں اور علامہ محمد حیات سندھی نے فتح الغفور میں اور جد امجد علامہ سید ابو تراب رشدا راشدی صاحب الخلافۃ نے درج الدرر میں اس حدیث کو صحیح کہا ۔ یہ حدیث اپنے مطلب میں واضح ہے اور بتارہی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سنت و طریقہ یہ ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھے جائیں۔
حدیث نمبر 3
عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال رأيت رسول الله ﷺ لا ينصرف عن يمينه و عن يساره و رأيته يضع هذه على صدره وصف يحيى اليمنى على اليسرى فوق المفصل مسند الامام احمد بن حنبل ص 226 ج 5
قبیصہ بن ھلب تابعی نے اپنے والد ھلب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے دائیں اور بائیں پھر رہے تھے اور میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا۔
صحت حدیث: اس حدیث کی سند صحیح ہے اس کو امام ابن سید الناس نے شرح الترمذی میں اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں صحیح مانا ہے اور علامہ نیموی نے آثار السنن ص 67 ج 1 میں اس کی سند کو صحیح مانا ہے اور علامہ محدث عبد الرحمان مبارکپوری تحفة الاحوذى شرح جامع ترمذی میں لکھتے ہیں کہ:
و رواه هذا الحديث كلهم ثقات وإسناده متصل –
اس حدیث کی سند کے سب راوی ثقات اور معتبر ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔
حدیث نمبر 4
عن سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن ابيه عن وائل إنه رأى النبى ﷺ وضع يمينه على شماله ثم وضعهما على صدره (طبقات المحدثين باصبهان لابي الشيخ ص 148 ج 1 قلمی ، البيهقى ص 35 ج 2)
وائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر ان کو سینے پر رکھا۔
صحت حدیث: اس روایت کو جد امجد صاحب الخلافت رسالہ درج الدرد میں حسن کہتے ہیں۔
حدیث نمبر 5
طاؤس قال كان رسول الله ﷺ طاؤس يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بهما على صدره وهو فى الصلوة (المراسيل لابی داؤد ص 6 المصرى والباكستان والمعرفة السنن والآثار ص 197 ج 1 المصور )
طاؤس یمانی تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نماز میں ہوتے تو اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھ کر اپنے سینے پر باندھتے تھے۔
صحت حدیث: امام طاؤس مشہور تابعی ہیں اس لئے یہ حدیث مرسل ہے ر سل حدیث احناف کے ہاں معتبر اور مقبول ہے حنفی مذہب کے امام سرخسی كتاب الاصول ص 360 ج 1 میں لکھتے ہیں کہ:
فأما مراسيل القرن الثاني و الثالث حجة فى قول علمائنا –
کہ دوسرے اور تیسرے قرن (یعنی تابعین ) کی مرسل روایت ہمارے (احناف) علماء کے قول کے مطابق حجت اور دلیل ہے۔
اسی طرح نور الانوار ص 150 میں لکھا ہے اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رسالہ کشف الدین ص 17 میں لکھتے ہیں کہ والمرسل مقبول عند الحنفية مرسل روایت ہم احناف کے ہاں دلیل اور قابل قبول روایت ہے۔ اسی طرح علامہ ابن الهمام بھی فتح القدیر شرح ھدایہ ص 239 ج 1 میں لکھتے ہیں اور محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کے موجودگی میں مقبول ہیں چونکہ یہاں دوسری متصل احادیث وارد ہیں اس لئے یہ روایت بھی دلیل بن سکتی ہے اور اسکی سند کے سب راوی معتبر اور ثقہ ہیں جیسے امام بیہقی نے معرفة السنن والا ثار میں اور علامہ محمد حیات سندھی نےتح الغفورمیں اور صاحب خلافت نے درج الدرد میں اور علامہ مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی ص 216 ج ا میں لکھا ہے ۔
حدیث نمبر 6
عن وائل بن حجر قال حضرت رسول الله ﷺ إذا أوحين وحين نهض إلى المسجد فدخل المحراب رفع يديه بالتكبير ثم وضع يمينه على يسره على صدره (سنن الكبرى ص30 ج 2 ومجمع الزوائد ص 124 ج 2 طبرانى كبير ص 50 ج 22)
وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا آپ جب مسجد کی طرف اٹھے پھر محراب میں داخل ہوئے اور اللہ اکبر کہہ کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے پھر دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھا۔
صحت حدیث: اس روایت کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری ص 224 ج 2 میں (السلفیہ) میں بحوالہ مسند بزار میں نقل کیا ہے اور اپنے مقدمہ ص 4 میں یہ شرط بیان کی ہے کہ اس شرح میں جو احادیث لاؤں گاوہ صحیح ہوں گی یا حسن ہوں گی اس لئے یہ حدیث حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق صحیح یا حسن ہے نیز صاحب خلافت نے بھی اس حدیث کو درج الدرر میں معتبر قرار دیا ہے نیز علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی حنفی انھاء السکن ص 22 میں لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجر فتح الباری میں جو روایات نقل کریں اور ان پر کوئی کلام بھی نہ کریں تو وہ احایث ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہیں۔
قرآن کریم سے ثبوت
حدیث نمبر7
اخرج ابن ابي شيبة والبخاري في تاريخه وابن جرير و ابن المنذر وابن ابي حاتم والدار قطني في الافراد و ابو الشيخ والحاكم و ابن مردويه والبيهقي في سننه «عن على بن ابي طالب فى قوله ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ قال وضع يده اليمني على وسط ساعده اليسرى ثم ضعهما على صدره فى الصلوة» (تفسير الدر المنثور للسيوطى 403 ج 6 تفسير فتح للشوكاني ص 49 ج 5) –
امیر المؤمنین علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ انہوں نے قرآن کی اس آیت ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (لکوثر:2) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی کے درمیان پر رکھ کر نماز میں ہاتھوں کو ى سینے پر رکھا جائے۔
صحت حدیث : جد امجد نے درج الدرر میں اس حدیث کو حسن ثابت کیا ہے۔
تشریح: امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ لغت میں مانے ہوئے ماہر تھے لہذا ان کی یہ تفسیر معتبر اور مسلمانوں کے لئے حجت ہے نیز لغت کی مشہور کتاب تاج العروس ص 558 ج 3 میں بھی وا نحر کی یہی تفسیر مذکور ہے نیز یہی تفسیر انہی ایک صحابی سے مروی نہیں ہے بلکہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی مروی ہے جیسے آگے روایات سے معلوم ہوگا اس تفسیر کو امام ابو عبداللہ الحاکم المستدرک صفحہ 537 جلد 3 میں اس آیات کے بارے میں دوسری تفاسیر سے زیادہ بہتر کہتے ہیں اور چند علماء احناف نے بھی اس تفسیر کو تسلیم کیا ہے۔ مثلاً علامہ قوام الدین السکا کی نے معراج الدرایہ شرح الھدایہ میں اور ملا الھداد ھندی جو نپوری نے شرح الھدایہ الورق 1/47 (قلمی ) میں اور علامہ اکمل الدین البابرقی العنایة حاشیہ الهدلیۃ صفحہ 201 جلد ا میں وغیرھم میں ہے کہ اس آیت میں قربانی کرنے کا حکم ہے مگر یہ تفسیر اس تفسیر کے خلاف نہیں ہے دونوں تفسیر اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ ایک آیت سے بہت سارے مسائل نکل سکتے ہیں۔
حدیث نمبر 8
اخرج ابو الشيخ والبيهقي فى سننه عن انس رضى الله عنه عن النبى ﷺ مثله (الدر المنثور ص 403 ج 6)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خادم انس بن مالک رضی اللہ عن سے بھی یہی تفسیر منقول ہے جو حدیث نمبر7 میں مذکور ہے۔
حدیث نمبر 9
اخرج ابن ابي حاتم و ابن شاهين فى سنة و ابن مردويه والبيهقي عن ابن عباس رضى الله عنهما ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ﴾ قال وضع اليمنى على الشمال عند النحر فى الصلوة (الدر المنثور ص 3 40 ج 6 )
مفسر قرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انھوں نے و انحر کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے کے پاس باندھنا چاہیئے۔
تشریح : ابن عباس رضی اللہ عخصما صحابہ کرام میں علم تفسیر کے اعتبار سے بڑے مرتبے کے مالک ہیں انکے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن حدیث کے علم کے بارے میں خاص دعائیں کیں(البخاری ) آپ کی یہ تفسیر اس مسئلے کے بارے میں عظیم دلیل ہے۔
حدیث نمبر 10
اخرج الطبرانى فى الكبير عقبة بن ابي عائشة قال رأيت عبدالله بن جابر البياضي صاحب رسول الله ﷺ يضع احدى يديه على ذراعه فى الصلوة و إسناده حسن قاله الهيثمي فى مجمع الزوائد ص 105 ج 2 و الثقات لابن حبان ص 228 ج 5
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی عبداللہ ابن جابر البیاضی الانصاری سے عقبہ ابن ابی عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کو دیکھا کہ نماز میں اپنا ایک ہاتھ یعنی دایاں اپنی کلائی اور بازو پر رکھے ہوئے تھے اس روایت کی سند حسن ہے۔
تشریح: یہ روایت موقوف یعنی صحابی کا عمل ہے اور یہی روایت امام السکن لائے ہیں اور اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں:
ان االنبي ﷺ كان يفعله –
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
اس لئے یہ حدیث مرفوع کہلائے گی اس طریقے سے ہاتھ باندھنے سے سینے پر ہی رہیں گے جیسے پہلی حدیث میں بیان ہوا۔ اور ان دس روایتوں سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوا کہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے جائیں نیز ثابت ہوا کہ یہی صحابہ کرام کا عمل تھا اور جریر الضبی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:
رأيت عليا يمسك شماله بيمينه على الرسع فوق السترة (ابو داود ص 76 ج 1)
دیکھا میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ کر ناف سے اوپر رکھا۔
تشریح :علامہ مباکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص 215 ج1 میں اس روایت کو صحیح کہا ہے اور ناف سے او پر اس سے مراد سینہ ہے جیسے احادیث سے اوپر معلوم ہوا۔ اور خود علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی گذرا۔
سیرت سیرت نبویہ لکھنے والوں نے بھی تحقیق کر کے یہی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سینے پر باندھتے تھے۔ چنانچہ
نمبر 1: امام حافظ ابن القیم کتاب الصلوۃ ص 7 18ج میں فرماتے ہیں۔ كَ
ثم ان يمسك شماله بيمينه و يضعها عليها فوق المفصل ثم يضعهما على صدره
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کے بعد دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ کر اس کی کلائی پر رکھ کر سینے پر رکھتے تھے۔
نمبر 2: علامہ شیخ محمد دالدین الفیر وز آبادی سفر السعادۃ ص 9 میں فرماتے ہیں کہ
ثم يضع يمينه على يساره فوق صدره كذا في صحيح ابن خزيمة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر اپنے سینے پر رکھتے تھے اسی طرح صحیح ابن خزیمہ میں بھی مروی ہے۔
نمبر 3: اور علامہ عماد الدین یحیی بن اپنی بکر العامری بھجۃ المحافل ص 313 ج 2 میں فرماتے ہیں کہ:
قبض بيمينه على ظهر يساره وجعلهما تحت صدره –
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے تکبیر کے بعد دایاں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پیٹھ پر رکھ کر ان دونوں کو سینے کے نیچے رکھتے تھے یعنی سینے کے پاس۔
4: علامه شیخ عبد الحق دھلوی شرح سفر السعادۃ ص 47 میں فرماتے ہیں کہ
”بعد ازاں دست راست را بر دست چپ بھادی برابر سینه در صحیح ابن خزیمہ ثابت شدہ “
تکبیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے کے برابر رکھتے تھے اسطرح صحیح ابن خزیمہ میں ثابت ہے۔
نمبر 5: علامہ حافظ جلال الدین السیوطی عمل الیوم واللیلۃ میں فرماتے ہیں کہ
كان يضع يده اليمنى على اليسرى ثم يشد بهما على صدره
کہ آپ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے پھر سینے پر باندھتے تھے۔
نمبر 6: جناب جد امجد سید ابو تراب رشد اللہ شاہ الراشدی (چہارم جھنڈے والے) رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب شمر آخرت ترجمه سفر السعادة ص 26 قلمی مطبوع میں لکھا ہے کہ:
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھتے تھے اسی طرح ابن خزیمہ کی صحیح میں ثابت ہے اور ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں کسی روایت میں صحیح ثبوت نہیں ہے۔
الحاصل: آپ صلى الله عليه وسلم کی عادت مبارکہ یہ ہوتی تھی کہ آپ نماز میں اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے تھے کوئی بھی مسلمان جو آپ سے سچی محبت کا دعویٰ کرتا ہے وہ یقیناً آپ کے خلاف سینے کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر ہاتھ نہیں باندھے گا کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ:
لقد كان لكم فى رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجوا الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا ـ (الاحزاب ع 3 پ 21)
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا اسوہ اور طریقہ تم میں سے جو اللہ اور قیامت میں (کامیابی کی )امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اکثر یاد کرتا ہے اس کے لئے بہتر اور اچھا ہے۔
اور یہ جو آپ کی محبت کا تقاضا ہے کہ خود فرماتے ہیں کہ:
من أحب سنتى فقد أحبني ومن أحبني كان معي فى الجنة – (ترمذی)
جس نے میری سنت اور طریقہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جو مجھ سے محبت کر نیوالا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
ناظرین: احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کی روایات خواہ سیرت کی کتابوں سے مسئلہ بالکل واضح ہو گیا ہے اس کے بعد
علماء احناف سے ثبوت
دینے کے لئے کچھ عبارتیں تحریر کی جاتی ہیں:
(1) علامہ بدر الدین عینی عمدة القاری شرح صحیح بخاری ص 79 2 ج 5 (المنیر یہ ) میں اسطرح اقرار کرتے ہیں کہ:
واحتج الشافعي بحديث وائل بن حجر اخرج ابن خزيمة فى صحيحه قال صليت مع رسول الله ﷺ فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره ولم يذكر النووي غيره فى الخلاصة وكذلك الشيخ تقى الدين فى الإمام واحتج صاحب الهداية لأصحابنا فى ذلك بقوله ﷺ إن من السنة وضع اليمين على الشمال تححت السرة قلب هذا قول على ابن أبى طالب وإسناده الي النبى ﷺ غیر صحیح
امام شافعی رحمہ اللہ نے صحیح ابن خزیمہ کی حدیث سے دلیل لیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر ہاتھ اللَّهِ باندھنے کا ذکر ہے اور نینی حدیث امام النووی نے الخلاصہ میں اور امام ابن دقيق تقی الدین نے کتاب الامام میں ذکر کی ہے اور صاحب ہدایہ نے ہم (احناف) کے لئے یہ روایت بطور دلیل کے پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان اور سنت یہ ہے کہ ہا تھ ناف کے نیچے رکھے جائیں مگر یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہیں ہے بلکہ علی کا قول ہے۔
ناظرین: یہ عبارت واضح طور پر بتارہی ہے کہ علامہ عینی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سینے پر ہاتھ باندھنے کے ثبوت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کو ثابت نہیں کہتے اور کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے مگر یہ قول علی رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ قول مسند احمد ص 110 ج ا (زوائد عبد اللہ بن احمد ) میں ہے اور اس کی سند میں راوی عبدالرحمان بن اسحاق الواسطی ابو شیبہ ہے جس پر سخت جرح کی گئی ہے۔ امام احمد اور ابو حاتم نے منکر الحدیث کہا ہے اور امام یحیی بن معین نے اس کو متروک کہا ہے اور امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ روایات اور اسناد تبدیل کرتا تھا اور مشہور اشخاص سے منکر روایات لاتا تھا اس کی روایت سے دلیل لینا حرام ہے اور بے شمار ائمہ مثلاً بخاری ابو زرعہ ، نسائی، ابو داؤد ، ابن سعد ، یعقوب بن سفیان و غیر ھم اس کو ضعیف کہتے ہیں (میزان الاعتدال ص 548 ج 2 اور تهذیب التهذيب ص 134 ج 1) اور علامہ ابن العجمی نے اپنی کتاب الکشف الحثیست میں اس کو عمن رمی بوضع الحدیث میں ذکر کیا ہے اس عنوان کے تحت صرف وہ راوی مذکور ہیں جن پر جھوٹی روایات گھر نے کا الزام ہے اس لئے ایسے شخص کی روایت پر کوئی مسلمان اعتبار نہیں کر سکتا بلکہ علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ ص 314 ج 1 اور علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی ھدایہ کے حاشیہ ص 102 ج ا امام نووی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت بالا تفاق ضعیف ہے اسی طرح شیخ ابن الھمام فتح القدير شرح الهدایہ ص 201 میں بھی نقل کرتے ہیں۔
(2) علامه ابن نجیم بحر الرائق شرح کنز الدقائق ص 320 ج 1 میں فرماتے ہیں کہ:
ولم يثبت حديث يوجب تعيين المحل الذى يكون فيه الوضع من البدن إلا حديث وائل المذكور –
کوئی بھی ایسی حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی جس میں نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کا تعین کیا جا سکے مگر صرف ایک حدیث جو وائل رضی اللہ عنہ سے ذکر کی جاتی ہے یعنی جو حدیث نمبر 3 میں صحیح ابن خزیمہ کے حوالے سے ذکر کی گئی۔
(3) اسی طرح علامہ امن امیر الحاج شرح منیۃ المصلی میں فرماتے ہیں (فتح الغفور )
(4) ملا الھداد جونپوری شرح ھدایہ ورق 7 40 (القلمی ) میں فرماتے ہیں کہ:
وحجته حديث وائل: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى لى يده اليسرى على صدره و اما حديث على رضي ، عنه إنه قال من السنة فى الصلاة وضع اليمنى على الشمال تحت السرة فضعيف متفق على تضعيفه كذا فى النووى قلت ومن الدليل على ضعفه أن عليا رضى الله عنه فسر قوله تعالىٰ ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ﴾ بأنه وضع اليمين على الشمال تحت الصدر وذالك إن تحت الصدر عرقا يقال له الناحراى وضع يدك علي الناجر كذا فى العوارف وهكذا ذكر فى المغنى أيضا فهذا التفسير عن على يرد ما روي عنه من حديث وائل على ما روينا قوله لان الوضع تحت السرة أقرب إلى التعظيم وهو المقصود قلت وهذا التعليل بمقابلة حديث وائل فيرد وحديث على لا يعارضه كما ذكرنا .
(ترجمہ ) امام شافعی کی دلیل وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے (جو حدیث نمبر 2 میں گذری ) اور علی رضی اللہ عنہ سے جو روایت ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے ہیں وہ روایت بالا تفاق ضعیف ہے نیز اس کے ضعیف ہونے کے لئے دوسری دلیل یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے آیت ”وانحر“ کی تفسیر یہ کی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے چاہیئے اور الناحر سینے کی رگ کو کہا جاتا ہے اس لئے یہ تفسیر کی گئی ہے جو اس روایت کو رد کرے اس پر وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے اور اس طرح کہنا کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم والا فعل ہے یہ بات غلط ہے کیونکہ حدیث کے خلاف ہے۔
ناظرین : یہ حوالہ جات معتبر احناف علماء سے نقل کئے گئے ہیں خاص طور پر ابن امیر الحاج جو کہ اپنے استاد ابن حمام کے ہاں نزدیکی حیثیت رکھتا ہے ۔ اور ان عبارتوں سے چند اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
الف: صحیح حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے۔
ب: اور یہ حدیث واجب العمل ہے۔ ں
ج: امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ نے آیت وانحر کے معنی سینے پر ہاتھ باندھنا کئے ہیں۔
د: یعنی حدیث نمبر7 کی تصدیق اور تصحیح ہو گئی۔
ھ: اس آیت کی یہی تفسیر صحیح اور معتبر ہے کیونکہ انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس سے مسئلے کو ثابت کیا ہے۔ یعنی کہ قرآن کریم میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم ہے۔
ز: اور ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔
ح: بلکہ جو روایت اس بارے میں ذکر کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
حنفی دوستو: دوستو ان عبارتوں سے عبرت پکڑو اور نا ثابت عمل کو چھوڑ کر ثابت حدیث پر عمل کرو کیونکہ اس میں ہی نجات اخروی ہے۔
کھلا چیلنج:
ناظرین: بلکہ ہم ساری دنیا کے احناف کو کھلا چیلنج دیتے ہیں کہ کسی بھی حدیث کی کتاب بشر طیکہ وہ با قاعدہ سند کے ساتھ فن حدیث کی کتاب ہو اس میں سے ایک روایت پیش کریں جس میں واضح طور پر یہ الفاظ ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھے ہیں تو اس کو ایک ھزار روپیہ نقد انعام دیا جائیگا۔ مگر بحمد للہ اس طرح واضح الفاظ سے کوئی بھی حدیث کتب احادیث میں موجود نہیں ہے یہ نہیں دکھا سکیں گے۔
نہ خنجر اٹھے گانہ تلوار ان سے:: یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اور جو روایت ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناف کے نیچے ہاتھ باندھے ہیں اس روایت کا وجود ہی نہیں ہے اور ہمارے پاس اللہ کے فضل سے مصنف ابن ابی شیبہ قلمی خواہ مطبوع دونوں نسخے موجود ہیں مگر دونوں میں یہ روایت نہیں ہے احناف کے سردار علامہ انور شاہ کشمیری فیض الباری شرح صحیح بخاری ص 7 26 ج 2 میں فرماتے ہیں کہ یہ بات واقعتا درست ہے کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے بہت سے نسخے دیکھے ہیں مگر یہ روایت کسی میں بھی نہیں ہے۔
دعوت: ہم پھر سنجیدہ طبع اور بیدار مغز حنفی دوستوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ٹھنڈے دل سے احادیث کی کتب کا مطالعہ کر کے غور کریں نبوی طریقہ کون سا ہے خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہی تلقین کی ہے کہ:
إذا صح الحديث فهو مذهبى – الشامي ص 375 ، ج 1
جب بھی کوئی صحیح حدیث ثابت ہو جائے تو میرا وہی مذہب ہے۔
نیز فرماتے ہیں کہ:
اتركوا قولي بخبر رسول الله ﷺ خزانة الروايات ص25 قلمی
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث کی وجہ سے میرے قول کو چھوڑ دو۔
حنفی ساتھیو: امام ھمام کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ ان کی صحیح اتباع یہی ہے کہ حدیث پر عمل کیا جائے اس لئے آپ پر حق ہے کہ آپ اگر امام موصوف کی سچی تابعداری کے مدعی ہیں تو مندرجہ بالا احادیث جن کو محد ثین خواہ فقہاء نے صحیح مانا ہے اور ان میں صاف الفاظ میں سینے پر ہاتھ باندھنا مذکور ہے انہیں دیکھیں پھر ان پر عمل کریں اس کے بعد خاص برگزیدہ بندوں سے ثبوت پیش کیا جاتا ہے جو عام لوگوں کے نزدیک مسلم ہیں۔
مثلاً (1) مرزا مظہر جان جاناں ہو سلسلہ نقشبندیہ کے پیشوا مانے جاتے ہیں اور فرقے بھی ان کو مانتے ہیں جو 1195ھ میں فوت ہوئے انکے بارے میں نواب صدیق حسن صاحب ابجد العلوم ص 900 میں لکھتے ہیں کہ:
وكان يرى الإشارة بالمسبحة ويضع يمينه على شماله تحت صدره ويقوى قراءة الفاتحة خلف الامام عام وفاته
نماز میں بیٹھتے وقت انگلی اٹھا کر اشارہ کرتے تھے اور سینے سے نیچے یعنی اسکے قریب ہاتھ باندھتے تھے اور اپنی وفات والے سال فاتحہ خلف الامام
ھنے کو قوی کہتے تھے۔
اور اس طرح علامہ سید شریف عبد الحئی الحسینی حنفی نے نزھۃ الخواطر ص 52 ج 6 میں بھی ذکر کیا ہے۔
(2) علامہ شیخ ابو الحسن سندھی کبیر پر اس مسئلہ کی وجہ سے جو آزمائشی امتحان آیا اس عبرت ناک واقعہ کو علامہ محمد عابد سندھی نے اپنی کتاب تراجم الشیوخ میں نقل کیا ہے شیخ موصوف حدیث پر عمل کرتے تھے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سیدھے ہوتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور نماز میں اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے تھے انکے دور میں شیخ ابو الطیب سندھی متعصب حنفی تھا جو شیخ ابو الحسن سے مناظرے کرتا تھا مگر دلائل دیکھ کر عاجز آجاتا تھا بالاخر اس نے مدینہ کے قاضی کے پاس شکایت کی اور شیخ ابو الحسن کو طلب کیا گیا جب آپ کے دلائل قاضی صاحب نے سنے تب اس کو معلوم ہوا کہ آپ تو تمام فنون میں امام ہیں اور پورے مدینے والے آپ کے شاگرد ہیں اس لیے قاضی صاحب کے پاس کوئی چارہ نہ رہا اس نے آپ سے دعا کی التجا کرتے ہوئے آپ کو رخصت کر دیا اس طرح ہر سال نئے نئے قاضی کے پاس شکایت آتی رہی اور شیخ صاحب کامیاب ہوتے رہے بالآخر ایک سال ایسا قاضی آیا جو حنفی مذہب میں سخت متعصب تھا ابو الطیب نے اس کو شکایت پیش کی جس پر قاضی صاحب نے شیخ صاحب کو طلب کر کے حکم دیا کہ ناف سے نیچے ہاتھ باند ھو اور رفع یدین نہ کرو شیخ صاحب نے واضح طور پر یہ فرمایا کہ ” لا افعل ذالك“ یعنی میں اس طرح نہیں کروں گا اس بناء پر آپ کو جیل کی تاریک کو ٹھری میں بند کرنے کا حکم دیا گیا جہاں پر آدمی اپنے اعضاء کو بھی نہ دیکھ سکے اور اسی کو ٹھری میں پیشاب پخانہ کرتے رہے چھ دنوں ، وہاں رہے پھر مدینے کے لوگ اگر شیخ صاحب کو نصیحت کرنے لگے کہ قاضی صاحب کا حکم مانئے اور جیل سے رہائی حاصل کیجئے۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ
لا أفعل شيئا لم يصح عندئ ولا أترك شيئا صح عندى من فعله ﷺ وحلف على ذالك –
میرے نزدیک جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہے وہ نہیں کروں گا اور جو ثابت ہے وہ نہیں چھوڑوں گا اس بارے میں انہوں نے قسم اٹھائی۔
پھر لوگ قاضی کے پاس سفارش کے لئے گئے تب قاضی نے بھی قسم اٹھا کر کہا کہ اگر ان کو میں نے دوبارہ سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے دیکھا تو جیل بھیج دوں گا تو لوگوں نے شیخ صاحب کو عرض کی کہ مہربانی کر کے نماز پڑھتے وقت چادر لپیٹ کر نماز پڑھا کریں کہ قاضی آپ کو سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے نہ دیکھے پھر شیخ صاحب نے اس طرح کیا کچھ مدت گزرنے کے بعد نماز پڑھتے ہوئے شیخ صاحب کو کسی نے خبر دی کہ قاضی مر گیا تو شیخ صاحب نے نماز ہی کی حالت میں چادر اتار دی۔
ناظرین: یہی ہے ایمان کا تقاضا کہ ہر تکلیف برداشت کی جائے لیکن سنت پر قائم رہا جائے شیخ صاحب موصوف عالم ہیں صحاح ستہ اور مسند احم و غیرہ پر آپ کے حاشیہ جات تحریر ہیں اور موصوف اہل حدیث اور احناف کے نزدیک بزرگ ہیں آپ کا یہ واقعہ سبق اور عبرت آموز ہے۔
(3) جد امجد صاحب الخلافۃ کے سندھ میں اکثر لوگ معتقد ہیں اور آپکی اعلی اہمیت اور مہارت دین سب کے نزدیک مسلم ہے آپ بھی اپنے ہاتھ نماز میں سینے پر باندھتے تھے جیسے ہمارے والد ماجد سید احسان اللہ راشدی مرحوم نے مسلک الانصاف ص 28 پر ذکر کیا ہے بلکہ آپ کی عبارت اوپر گزری کہ سنت کا مسنون طریقہ سینے پر ہاتھ باندھنا ہے اور ناف کے نیچے ہاتھ باند ھنا ثابت نہیں اس مسئلہ کے بارے میں آپ کا ایک کتابچہ عربی زبان میں بنام درج الدرر فى وضع الايدي على الصدر تصنيف کیا ہوا ہے جس سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔
ان الصحيح الثابت من ساقي الكوثر عليه الصلوة والسلام إلى دوام الدهر فى الصلوة وهو وضع اليدين على الصدر وأما وضعهما تحت السرة فلم يرد فيه حديث مسند معتبر فضلا عن صحيح إن الأصل عند الشافعي الوضع على الصدر – فالظاهر منه إنه رجع بعد وصول الرواية . مروية عن مالك كما ذكره العيني
(1) صحیح حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ رکھے جائیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث تو در کنار کسی معتبر سند سے بھی کوئی روایت وارد نہیں۔ (2) امام شافعی کا اصل مذہب یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ رکھے جائیں۔ (3) امام احمد بن حنبل حدیث کے ملنے کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل ہے۔ (4) امام مالک سے بھی سینے پر ہاتھ باندھنا مروی ہے جیسے عینی حنفی نے ذکر کیا ہے۔
ناظرین: ۔ ان تینوں عبارتوں سے معلوم ہوا کہ تینوں ائمہ کرام (مالک) شافعی ، اور احمد بن حنبل) کا صحیح مذہب بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
عند معارضة الآثار يجب الرجوع إلى المرفوع لقوله تعالى فإن تنازعتم فى شيء فردوه إلى الله والرسول والمرفوع لم يثبت فيه الوضع إلا على الصدور وعند الصدر لا تحت السرة –
(5) جب اثر اور قول ایک دوسرے کے معارض ہوں تو اس وقت (فیصلہ کے لئے) مرفوع حدیث کی طرف رجوع کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) کسی بھی چیز میں تم اختلاف یا جھگڑا کرو تو اس کو فیصلہ کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اور اس مسئلہ میں ہا تھ ناف سے نیچے باندھنے کے لئے کوئی مرفوع حدیث ثابت نہیں بلکہ اس میں صرف سینے پر یا سینے کے پاس ہاتھ باندھنے کا ثبوت ہے۔
وأما وضعهما تحت السرة فلا تعظيم أصلا بل لو إنه موجب إساء لا يبعد لأن تحت السرة عورة
(6) اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے نیچے میں کوئی تعظیم یا ادب نہیں بلکہ اگر اس کو بے ادبی کہا جائے تو کوئی بعید نہیں کیونکہ ناف کے نیچے شرمگاہ ہے ۔
قد ثبت من حديث وائل و هلب تعدد الواقعة واستفيد من ظاهر كان فى مرسل طاؤس المنجبر الاستمرار –
(7) وائل بن حجر کی حدیث (حدیث نمبر 2) اور ھلب کی حدیث (حدیث نمبر 3) سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینے پر ہاتھ باندھنا
ایک بار کا واقعہ نہیں ہے بلکہ متعد دبار صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سینے پر ہاتھ باندھے ہیں اور طاؤس کی روایت اگرچہ مرسل ہے مگر شواہد کی وجہ سے قوی ہے اس میں لفظ ”کان“ یعنی آپ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے جس سے آپ کادوام ثابت ہوتا ہے۔
ناظرین: علماء صرف کے نزدیک ”کان“ مضارع پر داخل ہو گی جیسے (کان يضر ب) (مارتا تھا ) تو اس کو ماضی استمراری کہتے ہیں تو یہاں (كان يضيع على صدره) کے معنی ہوں گے کہ آپ سینے پر ہاتھ باندھتے اور رکھتے تھے اس سے ہمیشگی کا فائدہ ملتا ہے۔
قد ثبت هذا المعنى عن ابن عباس على وأنس –
(8) آیت وانحر کے معنی سینے پر ہاتھ باند ھنا تین صحابہ کرام سے ثابت ہے ۔
نمبر 1: مشہور مفسر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے چچازاد بھائی۔
نمبر 2: چوتھے خلیفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چازاد بھائی اور داماد امیر المؤمنین علی بن ابی طالب
نمبر 3: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم انس بن مالک
ناظرین: جد امجد کی عبارتوں سے چند باتیں معلوم ہوئی۔
نمبر 1: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا مذ ہب اور معمول سینے پر ہاتھ باندھنا ہے نہ کہ ناف کے نیچے۔
نمبر 2: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے بھی صرف سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے۔
نمبر 3 : اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہمیشگی والا اور دائی عمل تھا۔
نمبر4: اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کا ثبوت نہیں ملتا۔
نمبر 5 : قرآن میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا ثبوت ہے۔
نمبر 6 : ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا بے ادبی ہے۔
جد امجد کی یہ عبارتیں دیکھنے کے بعد آپ کا کوئی بھی معتقد یا آپ کی اولاد اور خاندان میں سے کوئی بھی سمجھدار فرد ناف کے نیچے ہاتھ نہیں باندھے گا آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا اور اس کے در پر التجا ہے کہ مسلمانوں کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرے اور سنت نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على سيد المرسلين و على اهل طاعته اجمعين –