سوال:
نماز میں بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے (جہراً) کا کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راجح (زیادہ درست) بات یہی ہے کہ نماز میں بسم اللہ کو جہراً نہ پڑھا جائے بلکہ سنت کے مطابق اسے آہستہ (سراً) پڑھنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
◈ بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا مستقل حصہ نہیں ہے۔
(حاشیہ میں وضاحت موجود ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے، تاہم راجح بات یہی ہے کہ یہ آیت ہے، لیکن اس سے جہراً پڑھنے کی لازمیت ثابت نہیں ہوتی۔)
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اکثریت روایات کے مطابق یہی تھا کہ آپ بسم اللہ کو آہستہ پڑھتے تھے۔
کبھی کبھار جہراً پڑھنے کا جواز:
◈ اگر کوئی شخص کبھی کبھار بسم اللہ کو جہراً پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
◈ بعض اہل علم کی رائے ہے کہ کبھی کبھار بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض روایات میں جہراً پڑھنا بھی ثابت ہے۔
◈ لیکن صحیح اور راجح روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کو عام طور پر آہستہ ہی پڑھا۔ اسی لیے مسلسل طور پر سراً پڑھنا زیادہ بہتر اور سنت کے مطابق ہے۔
جہراً پڑھنے کی ایک صورت:
◈ اگر کسی مخصوص جماعت یا افراد کی تالیف قلب (دل جوڑنے) کے لیے بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا جائے، جبکہ وہ لوگ جہراً پڑھنے کے قائل ہوں، تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا۔
حاشیہ:
➊
"بسم اللہ، سورۃ الفاتحہ کی آیت ہے یا نہیں؟”
اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ سورۃ الفاتحہ کی آیت ہے۔
(دیکھئے: الصحیحۃ، حدیث: ۱۱۸۳)
البتہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسے جہراً پڑھا جائے، کیونکہ اصل معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے متعلق ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تر روایات میں سراً پڑھنا ہی ثابت ہے، اس لیے سراً پڑھنا ہی راجح اور سنت کے قریب تر عمل ہوگا۔
(ص، ی)