سوال
ایک اہم بات ذہن میں آئی ہے کہ میاں مسعود احمد صاحب نے اپنی کتاب "صلوٰۃ المسلمین” صفحہ ۲۸۸ پر یہ لکھا ہے:
’’مسافر کے لیے قرآن وحدیث میں ایسی کوئی مدت مقرر نہیں کہ اس مدت سے زیادہ کہیں ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو قصر نہ کرے۔‘‘
(صلوٰۃ المسلمین، ص: ۲۸۸)
میری گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟
میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اُس فتویٰ کی طرف بھی آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو صحیح بخاری میں موجود ہے، نمازِ قصر کے بارے میں۔
بخاری: تقصیر الصلاۃ، باب ما جاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی قولی احادیث سے مسافر کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی کہ اگر کسی مقام پر اس سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو قصر نہ کرے۔
البتہ نبی اکرم ﷺ کے عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ
◈ آپ ﷺ سفر کی حالت میں جب تین یا چار دن کے قیام کا ارادہ فرماتے تو نماز قصر کرتے تھے۔
◈ لیکن اس سے زیادہ دنوں کے قیام کے ارادہ کے ساتھ آپ ﷺ سے قصر کرنا ثابت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب