نماز ظہر کو ٹھنڈا کرنے کا کیا حکم ہے
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال : نماز ظہر کو ٹھنڈا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: وہ احادیث جن میں نماز ظہر کو گرمی کی وجہ سے ٹھنڈا کرنے کا حکم ہے، ان سے مراد بقدر حاجت اول وقت سے کچھ مؤخر کرنا ہے۔ ہمارے ہاں تو موسم سرما میں بھی ظہر کو مؤخر کیا جاتا ہے۔ یہ سراسر احادیث کی خلاف ورزی ہے، جبکہ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔
✿ امام ابن منذر رحمہ الله (م: 318 ھ ) فرماتے ہیں:
أجمعوا على أن وقت الظهر، زوال الشمس .
اجماع ہے کہ ظہر کا وقت سورج کے زوال سے شروع ہو جاتا ہے۔ (الإجماع : 36)
نیز دیکھیں:(الأوسط لابن المنذر : 355،326/2، الإستذكار لابن عبد البر 38/1، التمهيد لابن عبد البر : 71/8، المبسوط للسرخسي : 142/1، عارضة الأحوذي لابن العربي : 255/1، بدائع الصنائع للكاساني : 350/1 ، المجموع للنووي : 24/3 ، فتح الباري لابن حجر : 21/2 ، وغيرهم )
✿ سیدنا عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وقت الظهر إذا زالت الشمس
سورج ڈھل جائے ، تو ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم : 612/173)
✿ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالظهائر ، فسجدنا على ثيابنا انقاء الحر .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ہم نماز ظہر ادا کرتے ، تو گرمی کی سوزش سے بچنے کے لئے کپڑے پر سجدے کرتے تھے۔
(صحيح البخاري : 542، صحيح مسلم : 620)
✿ سیدنا جناب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
شكونا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة فى الرمضاء ، فلم يشكنا .
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گرمی میں نماز (ظہر) کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری شکایت قبول نہیں کی۔ (صحیح مسلم : 619)
✿ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا:
أن صل الظهر، إذا زاغت الشمس
زوال کے وقت ظہر کی نماز ادا کریں۔ (موطأ الإمام مالك : 7/1، وسنده صحيح)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1