نماز سے پہلے صفوں کی درستی کی کیا اہمیت ہے ؟
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال

ہمارے امام صاحب نماز سے پہلے صفوں کی درستی پر بڑا زور دیتے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے؟

جواب

نماز باجماعت میں صف بندی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صف درست کرنا اقامت صلاۃ میں سے ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ
”صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔“

اسی طرح ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں :
سووا صفوفكم فان تسوية الصف من تمام الصلاة
[ مسلم، كتاب الصلاة : باب تسوية الصفوف وإقامتها 433، أبوداؤد 668، ابن ماجه 993، أبوعوانة 38/2، دارمي 1266، أحمد 177/3]
”صفیں درست کرو بےشک صف کی درستی نماز کے پوراکرنے سے ہے۔“

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفوں کی درستی اقامت صلاۃ اور تمام صلاۃ سے ہے اور ان کا ٹیڑھا ہونا نماز کے نقصان کا موجب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اَقِيْمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلَاةِ فَاِنَّ اِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلَاةِ
[بخاري، كتاب الأذان : باب إقامة الصف من تمام الصلاة 722، عبدالرزاق 2424]
”نماز میں صف قائم کرو، بےشک صف کا قائم کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔“

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اَحْسِنُوْا اِقَامَةَ الصُّفُوْفِ فِي الصَّلَاةِ
[أحمد 485/2]
”نماز میں صفوں کی درستی اچھے طریقے سے کرو۔“

علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
[صحيح الترغيب والترهيب 496]

ان صحیح احادیث سے بھی معلوم ہوا کہ صف کا صحیح و درست رکھنا نماز کے حسن و خوبصورتی میں سے ہے اور اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اگر صف کی درستی صحیح نہ ہو گی تو نماز کے اندر نقصان لازم آئے گا۔

صفوں کی درستی اور ان کا سیدھا ہونا رکوع ہی میں نہیں بلکہ قیام ہی سے ضروری و لازمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے صفیں درست کرتے تھے پھر نماز شروع کرتے تھے۔ اگر صف میں نقص ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرماتے۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف درست کرتے تھے حتی کہ اسے نیزے یا تیر کی مانند کر دیتے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا سینہ آگے بڑھا ہوا دیکھا تو فرمایا :
”اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ “ بعض روایات میں چہروں کی بجائے دلوں کا ذکر ہے۔
[ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها : باب إقامة الصفوف 994، أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب تسوية الصفوف 663، مسلم 436، بخاري 717۔ مختصر]

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک صفوں میں چلے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے اور کہتے : ”اختلاف نہ کرو، تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔“ اور کہا کرتے تھے : ”بے شک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے پہلی صفوں پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔“
[أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب تسوية الصفوف 664، نسائي، كتاب الإمامة : باب كيف يقول الإمام الصفوف 812]

زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ صف کی درستی نماز شروع کرنے سے پہلے ہونی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کا کام صفیں درست کرنا بھی ہے۔ اگر کہیں صف میں خلل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح کرائے پھر نماز شروع کرے۔ لیکن افسوس کہ ائمہ مساجد آج اس بات کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ اقامت کہنے کے ساتھ ہی نماز شروع کر دی جاتی ہے۔ صفوں کی درستی نہیں کرائی جاتی۔ نماز میں ہر شخص کو اس طرح کھڑا ہونا چاہیے کہ اپنے ساتھ والے کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں پورا ملا ہو، درمیان میں کوئی خلا نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلا پر کرنے کا حکم دیا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
”یقیناًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : صفوں کو قائم کرو اور کندھوں اور بازوؤں کو برابر کرو اور شگاف بند کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو اور جو شخص صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے ) کاٹ دے گا۔“
[أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب تسوية الصفوف666، نسائي، كتاب الامامة : باب من وصل صفاََ 818، حاكم 1/ 213]

امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
[صحيح الترغيب و التر هيب 492]

امام منذری رحمہ اللہ اس حدیث میں موجود لفظ فرجات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الْفُرُجَاتُ جَمْعُ فُرْجَةٍ وَهِيَ الْمَكَانُ الْخَالِيْ بَيْنَ الْاِثْنَيْنِ
”لفظ فرجات کی جمع ہے اور اس کا مطلب دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ ہے۔ “

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صف میں شگاف بند کرنے چاہئیں اور دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا جو لوگ دو نمازیوں کے درمیان چار انگلیوں یا اس سے زیادہ فاصلہ کرتے ہیں، ان کا عمل درست نہیں، انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئیے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَقَدْ رَأَيْتُ اَحَدَنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ وَلَوْ ذَهَبَتْ تَفْعَلُ ذٰلِكَ لَتَرَيٰ اَحَدَهُمْ كَاَنَّهُ بَغْلٌ شُمُوْسٌ
[ابن أبى شيبة 3524، 308/1، فتح الباري 211/2، عمدة القاري 260/5]
”میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پاؤں اپنے ساتھی کے پاؤں سے چپکا دیتا تھا اور اگر تو آج کسی کے ساتھ ایسا کرے تو ان میں سے ہر کسی کو دیکھے گا کہ وہ (ایسے بدکتا ہے ) گویا وہ شریر خچر ہے۔ “

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ”اپنی صفوں کو قائم کرو (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہی) اللہ کی قسم تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔“ صحابی فرماتے ہیں : ”پھر میں نے دیکھا کہ نمازی اپنا کندھا اور بازو اپنے ساتھی کے کندھے اور بازو سے، اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے سے اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے سے ملا دیتا تھا۔ “
[ابوداؤد، كتاب الصلاة : باب تسوية الصفوف622، بخاري، كتاب الأذان : باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم تعليقًا، أحمد 276/4، ابن حبان 396، دارقطني 282/1]

ابوعثمان النہدی فرماتے ہیں :
كُنْتُ فِيْمَنْ ضَرَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَدَمَهُ لِإِقَامَةِ الصَّفِّ فِي الصَّلَاةِ
[المحلي لابن حزم 58/4، موسوعة فقه عمر بن الخطاب رضى الله عنه ص/445، ابن أبى شيبة 3530، 309/1، فتح الباري 210/2]
”میں ان لوگوں میں تھا جنہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نماز میں صف قائم کرنے کے لیے پاؤں پر مارا تھا۔“

صالح بن کیسان سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایاکرتے تھے :
لَاَنْ يَّخِرَّ ثِنْتَايَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ أَنْ أَرٰي فِي الصَّفِّ خَلَاءً وَلَا اَسُدُّهُ
[عبدالرزاق 2473، 57/2، ابن أبى شيبة 333/1، المحلي 59/4]
”مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میرے دو دانت ٹوٹ جائیں اس بات سے کہ اگر میں صف میں شگاف دیکھوں اور اسے بند نہ کروں۔“

درج بالا صحیح اور حسن احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز شروع کرتے وقت پہلے صفیں سیدھی کرنی چاہئیں۔ اگر صف میں کوئی خلا ہو تو اس کو بند کیا جائے۔ امام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ صفیں درست کرائے۔ ہر نمازی اپنے بھائی کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملائے اور اپنے بھائی کے ہاتھ میں نرم ہو جائے۔ جب صف درست ہو جائے تو امام نماز شروع کرے اور یہ عمل قیام ہی سے شروع ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ قیام میں تو کندھوں میں اور پاؤں میں وقفہ ہو اور رکوع میں ملانا شروع کر دیں۔ اسی طرح پاؤں کی صرف ایک انگلی نہیں بلکہ پورا قدم ملایا جائے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ملایا کرتے تھے اور قدم ملانے سے شریر خچر کی طرح بدکنا نہیں چاہیے۔ پاؤں ملانے اور شگاف بند کرنے سے نمازی اللہ تعالیٰ سے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عمل کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر قسم کے افراط و تفریط سے محفوظ رکھے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: