نماز جنازہ کا تفصیلی بیان
جنازہ کے ساتھ جانے اور نماز پڑھنے کا اجر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے جو کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ جاتا، اس کے ساتھ رہتا، اس کا جنازہ پڑھتا اور اس کو دفن کر کے فارغ ہوتا ہے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے۔ ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو (صرف) جنازہ پڑھ کر واپس آ جاتا ہے تو اس کے لیے ایک قیراط ہے۔‘‘
(بخاری، الایمان، باب اتباع الجنائز من الایمان: ۷۴، مسلم: ۵۴۹.)
مخلص مسلمانوں کی شرکت سے سفارش کا قبول ہونا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس مسلمان کے جنازہ میں ایسے چالیس آدمی شامل ہوں جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس (میت کے حق) میں ان کی سفارش قبول کرتا ہے۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب من صلی علیہ أربعون شفعوا فیہ: ۸۴۹.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس میت پر سو مسلمان جنازہ پڑھیں، سب اس کے لیے سفارش کریں تو میت کے حق میں ان کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔”
(مسلم، الجنائز باب من صلی علیہ ماءۃ:۷۴۹.)
نیک گواہی سے جنت کی ضمانت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’چار مسلمان جس مسلمان کی تعریف کریں اور اچھی شہادت دیں، اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا‘‘
ہم نے عرض کیا ’’اور تین؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’تین بھی‘‘
ہم نے عرض کیا ’’ اور دو؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’دو بھی۔
پھر ہم نے ایک کے بارے میں نہیں پوچھا۔‘‘
(بخاری، الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت: ۸۶۳۱.)
نوٹ: یہاں ان مسلمانوں کی گواہی مراد ہے جن کا عقیدہ، عمل، اخلاق اور کردار کتاب و سنت کے مطابق ہو۔ واللہ اعلم۔ (ع، ر)
نماز جنازہ میں امام کا مقام
نماز جنازہ کے لیے میت کی چارپائی اس طرح رکھی جائے کہ میت کا سر شمال اور پاؤں جنوب کی جانب ہوں۔ پھر باوضو ہو کر صف بندی کی جائے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک مرد کا جنازہ پڑھایا اور اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ جب عورت کا جنازہ آیا تو اس کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
(ترمذی: ۴۳۰۱، ابوداؤد: ۴۹۱۳)
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاس کی حالت میں فوت ہونے والی عورت کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔
(بخاری: ۱۳۳۱، مسلم: ۴۶۹)
نماز جنازہ کی تکبیرات
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے جنازہ میں چار تکبیرات کہیں۔
(بخاری: ۳۳۳۱، مسلم: ۱۵۹)
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ عام طور پر چار تکبیرات کہتے اور کبھی پانچ بھی کہتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بھی کیا ہے۔
(مسلم، الجنائز باب الصلاۃ علی قبر ۷۵۹)
تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے اور آخر میں سلام کہتے تھے۔”
(کتاب العلل دارقطنی ۸۰۹۲.)
سورت فاتحہ کی قراءت
سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ کی سنت ترتیب یہ ہے:
پہلی تکبیر
سورہ فاتحہ
درود شریف
میت کے لیے دعا
پھر سلام
(مصنف عبدالرزاق: ۸۲۴۶، حافظ ابن حجر نے اسے صحیح قرار دیا)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھی، انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا:
"میں نے یہ اس لیے کیا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔”
(بخاری: ۵۳۳۱)
ایک اور روایت میں طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابن عباس کے پیچھے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور ایک اور سورت پڑھی، اور بلند آواز سے قراءت کی، پھر فرمایا:
"یہ سنت اور حق ہے۔”
(نسائی: ۹۸۹۱، ابن ترکمانی نے صحیح کہا)
نوٹ: اس سے جہری قراءت بھی ثابت ہوتی ہے۔ افسوس کہ بعض لوگ سورہ فاتحہ کو ضروری سمجھتے ہیں مگر جنازہ میں نہیں پڑھتے۔ (ع، ر)
نماز جنازہ کی ترتیب
➊ پہلی تکبیر: سورہ فاتحہ
➋ دوسری تکبیر: درود شریف (نماز والا)
➌ تیسری تکبیر: دعاؤں میں سے کوئی ایک
➍ چوتھی تکبیر: سلام
نماز جنازہ کی دعائیں
1. عمومی دعا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَاءِبِناَ اَللّٰہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِیْمَانِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِسْلَامِ اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہُ.‘‘
’’اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردے کو، چھوٹے اور بڑے کو، مرد اور عورت کو، حاضر اور غائب کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے اسے ایمان پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جس کو تو فوت کرے اسے اسلام پر فوت کر۔ اے اللہ! ہمیں اس (میت) کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر!‘‘
(ابوداود، الجنائز، باب الدعاء للمیت، حدیث ۱۰۲۳، اسے امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
2. مفصل دعا
سیدناعوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہُ وَاکْرِمْ نُزُلَہُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہُ وَاغْسِلْہُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّہِ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَابْدِلْہُ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ وَأَہْلاً خَیْرًا مِّنْ أَہْلِہِ وَزَوْجاً خَیْرًا مِّنْ زَوْجِہِ وَادْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَأَعِذْہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ.‘‘
’’اے اللہ! اسے معاف فرما، اس پر رحم فرما، اسے عافیت میں رکھ، اس سے درگزر فرما، اس کی بہترین مہمانی فرما، اس کی قبر فراخ فرما، اس کے (گناہ) پانی، اولوں اور برف سے دھو ڈال، اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے تو سفید کپڑے کو میل سے صاف کرتا ہے۔ اسے اس کے (دنیا والے) گھر سے بہتر گھر، (دنیا کے) لوگوں سے بہتر لوگ اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما، اسے بہشت میں داخل فرما، عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ: ۳۶۹.)
3. مخصوص دعا (فلاں بن فلاں)
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت:
’’اَللّٰھم اِنَّ فُلَانَ ابنَ فُلَان فِی ذِمَّتِکَ وَحَبلِ جَوَارِکَ، فَقِہِ مِن فِتنَۃِ القَبرِ وَعَذَابِ النَّار، وَاَنتَ اَھلُ الوَفَاءِ وَالحَقِّ، فَاغفِر لَہ،وَارحَمہُ،اِنَّکَ اَنتَ الغَفُورُ الرَّحِیمُ.‘‘
’’اے اللہ! یہ فلاں بن فلاں تیرے ذمے اور تیری رحمت کے سائے میں ہے۔ اسے فتنہ قبر اور آگ کے عذاب سے بچا، تو (اپنے وعدے) وفا کرنے والا اور حق والا ہے۔ اے اللہ! اسے معاف کر دے اور اس پر رحم فرما، بلاشبہ تو بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
(ابو داؤد ۲۰۲۳، ابن ماجہ،الجنائز باب ما جاء فی الدعا فی الصلاۃ علی الجنازہ ۹۹۴۱.)